Friday, May 10, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldپچھتاوا

پچھتاوا

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

فیضان الحق

ماں کی بات اسے اتنی بری لگی کہ اس نے خودکشی کرنے کی دھمکی دے دی۔ آنگن سے بھاگتا ہوا سیدھے اپنے کمرے میں آیا اور دروازہ لاک کر لیا۔ لوگ اسکے پیچھے پیچھے سر پٹ بھاگ کر کمرے تک پہنچے لیکن تب تک دروازہ بند ہو چکا تھا۔ کھڑکی کے شیشے سے جھانک کر دیکھا گیا تو اسکے ہاتھ میں ایک رسی تھی جسے وہ پنکھے سے لٹکانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لوگوں کے اندر حیرانی اور سراسیمگی کا زہر سرایت کر گیا، انکی آنکھوں کے شگاف پھیل گئے۔ مسلسل ارے بیٹا سنو تو، ارے میں بات کر لونگا تمہاری ماں سے ایسا مت کرو بیٹا کا شور بڑھتا جا رہا تھا۔ بیمار ماں۔۔جو کئی دنوں سے بستر نہیں چھوڑ سکی تھی آج اچانک جوان لڑکی کی طرح تیزی سے دروازے پر پہنچ گئی تھی۔ وہ مسلسل بیٹا بیٹا پکارے جا رہی تھی۔ اسنے دونوں ہاتھوں سے چوٹ کی پرواہ کئے بغیر اتنی زور سے دروازہ پیٹنا شروع کیا کہ کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ کر اسکی ہتھیلیوں میں پیوست ہو گئیں۔
لوگ اب بیٹے کی نیت سے واقف ہو چکے تھے اسلئے کھڑکی یا دروازہ توڑنے کی بجائے کوئی چارہ نہیں تھا۔ جلدی سے لوہے کا راڈ منگا کر شیشہ توڑ دیا گیا۔ بیٹے نے پنکھے سے رسی لٹکا لی تھی اور اب اسٹول پر کھڑا ہو کر گردن میں رسی لپیٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لوگوں نے جھٹکے سے رسی ہاتھ میں لی اور بڑھ کر اسے اپنے مضبوط بازوؤں میں جکڑ لیا۔ وہ مسلسل ہاتھ پیر مارے جا رہا تھا لیکن اسکی پرواہ کئے بغیر ماں اپنے لخت جگر سے چمٹنے کیلئے لپک گئی۔ اسی بیچ بیٹے نے اپنا ہاتھ چھڑانے کیلئے پوری طاقت سے جھٹکا دیا اور اسکا ہاتھ آکر سیدھے ماں کے منہ پر لگا۔ اسکی عینک ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گیا۔
بالآخر لوگوں کی بر وقت کوشش نے بیٹے کی جان بچا لی۔ پاس پڑوس اور گاؤں والے سکون کی سانس لیکر اپنے اپنے گھر لوٹ گئے۔ انکے لئے یہ ایک برا سانحہ تھا جسے واقع ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
سردی کا موسم تھا اسلئے رات جلدی ہو گئی۔ ٹھنڈ بڑھنے کی وجہ سے لوگ کھا پی کر اپنے اپنے بستروں میں دبک گئے۔ ماں-جس نے آج نہ کھانا کھایا تھا اور نہ کسی سے ایک لفظ بات کی تھی-اپنے بستر پر بے حس و حرکت پڑی ہوئی تھی۔ اسکا لحاف گھر میں سب سے ہلکا تھا لیکن اسکے باوجود آج اسے ایسا محسوس ہوا مانو وہ کسی پہاڑ کی چٹان کے نیچے دبا دی گئی ہے۔ اس نے کئی بار لحاف نیچے سرکا دیا۔ لیکن برفیلی سردی کی وجہ سے جلد ہی اسکا خون جمنے لگتا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسے یہ بوجھ لادنا پڑتا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں۔۔۔۔۔فورا کھول دیں۔ پھر بند کیں پھر کھول دیں۔ اب جو اسکی آنکھیں بند ہوئیں تو بیٹا پنکھے سے لٹک رہا تھا۔اسکی گردن رسی سے اس طرح جکڑی ہوئی تھی جیسے کسی بوری کا منھ کس کر باندھ دیا گیا ہو۔ لال لال آنکھیں باہر نکل آئی تھیں، اور منھ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ ماں نے یک لخت چیخنا چاہا لیکن لحاف نے اسکا منھ دبا لیا۔ آواز اندر ہی دفن ہو کر رہ گئی۔ماں نے دیکھا لوگوں کی بھیڑ بڑھتی جا رہی ہے۔ بیٹے کو پنکھے سے لٹکتا دیکھ کر سب اسکی ماں کو گالیاں دے رہے ہیں، عجیب و غریب بھدے جملے کس رہے ہیں، باپ کو طعنہ دے رہے ہیں۔ماں یہ سب برداشت کرتے ہوئے بیہوشی کے عالم میں فرش پر پڑی رہی۔ وہ کچھ بھی نہیں سن رہی تھی لیکن لوگ اسے سنانا بند نہیں کر رہے تھے۔ اسی بیچ اس نے دیکھا اسکا شوہر لاٹھی لیکر اسکی طرف لپکا اور بے تحاشہ اسے پیٹنے لگا، لوگ دیکھتے رہے لیکن اسے بچانے کیلئے کوئی آگے نہیں آیا۔ ماں نے پھر چیخنا چاہا لیکن لحاف نے جو اب اور بھی بھاری ہو گیا تھا اسے اجازت نہیں دی۔
فرش پر پڑی ماں اب صرف اپنے آپکو کوس رہی تھی۔ اسے لاٹھیوں کی چوٹ اور لوگوں کے جملوں سے زیادہ یہ بات کھائے جا رہی تھی کہ اسکا بیٹا آج اسکی وجہ سے پھندے سے لٹک رہا ہے۔ ایک لمحے کیلئے اسے خیال آیا کہ اس نے جو بات کہی تھی وہ اسکے بھلے کیلئے ہی تھی، اور اس قسم کی بات تو اسکے والد بھی کئی بار کہہ چکے ہیں۔ بلکہ اسے ڈانٹ بھی چکے ہیں۔ تب اس نے اتنا برا نہیں مانا تھا۔ بلکہ اس سے زیادہ شرمندگی کی بات تو وہ تھی جب اسے پولیس پکڑ کر لے گئی تھی اور رات بھر جیل میں رکھا تھا۔ لیکن آج۔۔۔آج اچانک وہی بات اتنی بری کیسے لگ گئی!!؟۔ ہو نہ ہو میں نے کچھ غلط کہا ہے اسے!! نہیں نہیں وہ تو ایسا کوئی قدم اٹھا ہی نہیں سکتا۔میں نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ کیا ہوا اگر اس نے میری بات نہیں مانی تھی!! آخر اسکی ماں ہی ہوں نا!! کچھ اور تو نہیں؟! جو وہ میری ہر بات مان ہی لے!!؟ ہاں میں نے غلط کیا، ہاں میں نے بیٹے کو مار دیا۔
اسکے دل میں ابھی یہ خیال آیا ہی تھا کہ اسکے اندر دبی ہوئی چیخ یکلخت ابل پڑی۔ پورا گھر ایک مہیب آواز سے گونج گیا۔ لحاف کا وہ بوجھ جو پہاڑ کی طرح اسے دبائے ہوئے تھا اس چیخ سے روئی کے گالوں کی طرح اڑ گیا تھا۔ ہر طرف بس ایک گونج تھی۔ایک مہیب چیخ کی گونج، جسکے اندر تمام بھدے جملوں اور لاٹھیوں کا جواب تھا۔
سبھی لوگ اپنا اپنا بستر چھوڑ کر ماں کی چارپائی کی طرف بھاگے۔ ماں نے دیکھا دھیرے دھیرے لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے، اس ہجوم میں کچھ چیخیں ہیں، کچھ شور شرابا ہے۔گویا ایک ماتم کا ماحول ہے۔ لوگ افسوس کر ہے ہیں، شوہر آنسو بہا رہا ہے۔اور اسی بھیڑ میں اسکا بیٹا اسکی چارپائی کا ایک پایہ پکڑے پچھتاوے کی مجسم صورت بنا ہوا ہے۔
ایم۔فل جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular