Sunday, May 12, 2024
spot_img
HomeMuslim World"پٹرولیم مصنوعات کی آسماں چھوتی قیمتوں نے عوام کا کیا جینا محال"

“پٹرولیم مصنوعات کی آسماں چھوتی قیمتوں نے عوام کا کیا جینا محال”

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

محمد عباس

آج بڑے پیمانے پر پھیلی مہنگائی نے غریب طبقے کے ساتھ ساتھ متوسط طبقہ کے لوگوں کی بھی کمر توڑ کر رکھی ہے ۔ حالات اس قدر تشویش ناک ہیں کہ عوام کو مجموعی طور پر اپنی زندگی کا ایک ایک دن گزارنا محال ہو رہا ہے۔ان نازک حالات میں روز بہ روز پٹرول ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں نے جہاں لوگوں کی زندگی میں مزید مشکلات کھڑی کرنا شروع کر دی ہیں۔ وہیں آئے دن پٹرولیم مصنوعات کی بڑھنے والی قیمتوں کے چلتے عوام کی پریشانیوں میں ہونے والے اضافے کو لیکر سرکار کی صحت پر ذرا سا بھی اثر دیکھنے کونہیں مل رہا۔ اس وقت ملک میں بڑھ رہی مہنگائی میں پٹرول ڈیزل کی قیمتوں کا اضافہ جلتی آگ میں گھی ڈالنے والا کام انجام دے رہا ہے ۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اب عوام کےحالات یہ ہیں کہ انھیں اپنی روزانہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑی مشقتیں اٹھانی پڑ رہی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اگست کے بیچ سے لیکر اب تک پٹرول کی قیمت میں تین روپے پچپن پیسے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں چار روپے چھ پیسے فی لیٹر کےحساب سے بڑھوتری ہو چکی ہے۔
اگر ہندوستان کے مختلف شہروں میں پٹرول کی قیمتوں کو دیکھیں تو ممبئی میں 88.21 اٹھاسی روپے اکیس پیسے) نندیڈ میں فی لیٹر قیمت 89.78 نواسی روپے اٹھتر پیسے ہے۔ جبکہ ڈیزل دہلی میں 73.05 ہتر روپے پانچ پیسے) چنئ 77.54ستتر روپے چوّن پیسے اور کلکتہ میں 76.20 فی لیٹر کے حساب سے مل رہا ہے۔
جہا ں تک ہمارے پڑوسی ممالک کا تعلق ہے ان میں ہمارے دیش کے مقابلے پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ جیسے کہ نیپال 71.25 اکہتر روپے پچیس پیسے پاکستان میں 62.20 باسٹھ روپے بیس پیسے اور امریکہ میں (53.88) ترونجا روپے اٹھاسی پیسے اور چین میں(78.88) اٹھتر روپے پچانوے پیسے فی لیٹر کے حساب سے پٹرول دستیاب ہے۔ اس وقت ماہرین اقتصادیات کو اکیلے پٹرول ڈیزل کی قیمتوں کے اضافے کی ہی تشویش نہیں بلکہ ان کے لیے ڈالر کے مقابلے لگاتار روپے میں آ رہی گراوٹ کا پیچیدہ مسلہ بھی خاصی تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ان دنوں روپیہ فی ڈالر کے مقابلے 72.55 بہتر روپے پچپن پیسے کی ریکارڈ سطح پر گر چکا ہے۔
آج سے ساڈھے چار سال قبل جب موجودہ سرکار وجود میں آئی تھی تو اس نے لوگوں سے بہت سے وعدے کیئے تھے اور الیکشن کے دوران اکثر ہم ریڈیو ٹیلی ویژن پر اشتہار سنتے تھے کہ اچھے دن آنے والے ہیں ۔لیکن افسوس کہ یہ سب کے سب وعدے بے وفا محبوب کے عہد وپیمان کی طرح کبھی بھی ایفا نہ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی جیسے جیسے وقت گزرتا گیا عوام کی سرکار سے وابستہ امیدیں ایک ایک کر کےٹوٹتی و چکنا چور ہو تی رہیں ۔
جن لوگوں نے سرکار کو 2014 میں بھاری امیدوں و جوش و خروش کے ساتھ مکمل اکثریت سے جتایا تھا۔آ ج انھیں لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کی طرف سے دیکھے شاید کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکیں گے۔ اس وقت وہ لوگ یقیناً خود کو ٹھگا ٹھگا محسوس کررہے ہیں۔ جنھوں نے موجودہ سرکارکو اکثریت کے ساتھ حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔آج وہی لوگ ایک طرح سے پچھتاوے کے آنسو بہانے کے لیے مجبور ہو رہے ہیں اور اکثر لوگ اکیلے میں یہی گیت گن گناتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں کہ” کوئی لوٹا دے میرے بیتے ہوئے دن”
اصل میں موجود ہ وقت میں پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں جو بھاری اضافہ ہوا ہے اس کی مثال ملک کی تاریخ میں پہلے کہیں نہیں ملتی۔
بین الاقوامی سطح پر 2008 میں کچے تیل کی قیمت فی بیرل 142روپے ڈالر تھیں جبکہ اس وقت ملک میں پٹرول 50.52 پچاس روپے باون پیسے اور ڈیزل 34.86 روپے فی لیٹر کے حساب سے ملتا تھا۔وہیں مئ 2014 میں جب بین الاقوامی منڈی میں تیل کی فی بیرل قیمت 106.86 ڈالر تھی۔ یعنی جب سرکار نے ملک کی حکومت سنبھالی تب ڈیزل کی قیمت 57.28 پیسے فی لیٹر اور پٹرول کی قیمت 70 روپے فی لیٹر تھی۔
آج بے شک 2008 کے مقابلے میں کچے تیل کی قیمتوں میں کافی کمی ہے لیکن اس کے باوجود پٹرول ڈیزل کی قیمتوں کا جائزہ لیں تو اس وقت کے مقابلے تقریباً دو گنی ہیں۔ جن وجوہات کی بنا پر قیمتوں میں بھاری بھرکم اچھال دیکھنے کو مل رہا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ اس وقت پٹرول و ڈیزل پر ٹیکسوں کی شکل میں کھپت کاروں سے مرکزی اور صوبائی سرکاروں کی جانب سے بھاری بھرکم رقم وصولی جا نا ہے۔ یعنی عوام بیچارے چکی کے دو پاٹ کے درمیان پسنے والے وہ (اناج)دانے ہیں جنکی چیخیں کسی کو بھی سنائی نہیں دیتیں۔ یہاں یہ عالم ہے کہ عوام کے دکھ کو بانٹنے کی بجائے مختلف لیڈر ان کی طرف سے بے حد شرمناک بیان سامنے آ رہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو اس مہنگائی کے لیے جواب دہی کےذمیداران حکمران پارٹی کے رہنما ہیں لیکن دکھ کی بات ہے کہ ان کے بیانات کے ایسے غیر سنجیدہ ہیں کہ انھیں اس سن کر اہل شعور کو بے تحاشہ تکلیف پہنچتی ہے اور افسوس ہوتا ہے۔اسی ضمن میں ابھی گزشتہ دنوں ہی ملک وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے بیان کو ہہی دیکھیں تو یقیناً تشویش ہوتی ہے۔انھوں نے پٹرول ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں پر روک لگا کر لوگوں کو راحت دینے کی بجائے اپنے بیان میں کہا کہ جب لوگ 8 دس اور پندرہ لاکھ کی کاریں خرید سکتے ہیں تو ان کو 80 یا 85 روپے لیٹر ڈیزل لینے میں کیا دقت ہے۔سیاسی ماہرین کی رائے میں ایسے بیانات مہنگائی کی مار جھیل رہے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
یہی حال ڈیزل کی قیمتوں کے اضافے کا ہے جس کے باعث مختلف خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے چلتے عوام کا ایک طرح سے دم گھٹ رہا ہے۔اس سلسلہ میں بھی مختلف ٹرانسپورٹ سسٹم سے وابستہ لوگ چیخیں مارنے کو مجبور ہیں ساتھ ملک کے کسانوں کی حالت بھی ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں نے قابلِ رحم بنا رکھی ہے لیکن یہاں ان سبھی دکھیوں کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔
آج عوام اس بابا کے درشنوں کو بھی ترس گئے ہیں جو آج سے پانچ سال قبل میڈیا کے مختلف چینلز پر نئ سرکار کے وجود میں آتے ہی پٹرول کی قیمت فی لیٹر 35 روپے دینے کے وعدے کرتے نہیں تھے تھکتے۔اب وہ ڈیجیٹل بابا میڈیا کینوس کے نزدیک تو کیا دور دور تک بھی نظر نہیں آتے ۔ یا یوں سمجھ لیں کہ میڈیا کینوس سے وہ اسی طرح غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔!
لوگوں کا ماننا ہے کہ گزشتہ سال جب جی ایس ٹی لاگو ہوئی تھی تو اس وقت اگر ان پٹرولیم مصنوعات کو بھی اس کے دائرے میں لے لیا جاتا تو ملک کے عوام کسانوں اور ٹرانسپورٹ سے جڑے لوگوں کو بڑی حد تک بڑھتی قیمتوں کے بوجھ سے راحت مل سکتی تھی۔لیکن سرکار کو پٹرولیم مصنوعات سے بے تحاشہ و اندھی آمدن ہوتی ہے اس لیے مذکورہ مصنوعات کو جی ایس ٹی سے باہر رکھا گیا۔
لیکن جہاں تک الیکٹرانک میڈیا کا تعلق ہے تو چند ایک کو چھوڑ کر بیشتر نیوز چینلز کے کینوس سے بڑھ رہی پٹرول ڈیزل کی قیمتوں جیسے ضروری مدعے غائب ہو تے ہیں جبکہ اس کی جگہ ان چینلز پر مختلف مزاہب کے درمیان نفرت پھیلانے والے لیڈر ان کے بیانات پر خصوصی بحث مباحثے کرواکر ایک طرح سے اصل مسائل پر بات سے ملک کے عوام کا دھیان بھٹکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اب جبکہ لوک سبھا کے انتخابات میں محض چند مہینے کا ہی وقت بچاہے تو ایسے میں سرکار کا اولین فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں کی ناراضگی کو نظر انداز نہ کرے اور نہ ہی ان کے جذبات کو اس طرح سے مجروح ہو نے دے۔ بلکہ اس کے برعکس سرکار کو عوام کے ذہنوں میں پنپ رہے غصے کو سمجھتے ہوئے ان کو راحت دینے کے لیے اچھی و مثب پالیسیوں کو بروئے کار لانا چاہیے۔اگر کسی سرکار کے کام و پالیسیوں سے مجموعی طور پر عوام خوش ہیں تو وہ پچاس سال چھوڑئیے چاہے سو سال حکومت کرے۔
لیکن ایوان حکومت کو اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کر نا چاہیے کہ جمہوری نظام میں حکومت کی باگ ڈور سونپنے آخر طاقت عوام کو حاصل ہے اور کوئی بھی عوام کو بار بار بیوقوف نہیں بنا سکتا۔ اور ناہی کاٹھ کی ہانڈی کو بار بار چولہے پر چڑھا یا جا سکتا ہے عوام اگر کسی کو عزت دیکرتخت پر بٹھا سکتے ہیں تو تخت سے نیچے اتار کر فرش پہ بھی بٹھا سکتے ہیں۔
Ph.9855259650

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular