تم سلامت رہو ہزاربرس
ہربرس کے ہو ں دن پچاس ہزار
پروفیسر رمیش دکشت کے 70ویں یوم پیدائش پر جمع ہوئے مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈرا ن ،دانش وران اورسماجی کارکنان
ملک کو آج بنیادی خطرے کی چنوتی ہے :پرکاش کرات ،مسلم فرقہ پرستوں سے مسلمان ہندوفرقہ پرستوں سے ہندو لڑے گا:ڈاکٹر عمار رضوی ،پروفیسر رمیش دکشت نے کبھی اصولوں سے سجھوتہ نہیں کیا :راجیندر چودھری ،مسلمانوں کی آج حالت ویسی ہے جیسے ہٹلر کے زمانے میں یہودیوں تھی :سہیل ہاشمی
لکھنو۔پروفیسر رمیش دکشت کی زندگی کے کامیاب70برس مکمل ہونے پر آج راجدھانی کے نشاط گنج واقع کیفی اکاڈمی میں موجودہ وقت کی چونتیاں اورہماری ذمہ داری کے موقع پر منعقد سیمینار میں سماج وادی پارٹی ،سی پی آئی ایم ،جنتا دل (یونائیٹیڈ)اور این سی پی کے لیڈران ،سماجی کارکن اساتذہ ،طلبہ وطالبات دانشوران نے پروفیسر رمیش دکشت ان کی اہلیہ وندنا مشرا کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے پروفیسر رمیش دکشت کی تعلیمی سماجی ،سیاسی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ پروفیسر رمیش دکشت اقلیتوں دلتوں مظلوموں کے حق دلانے میں پیش پیش رہنے اور کسی بھی دبائو میں نہ آنے والے شخص ہیں۔اس موقع پر سیمینا کے موضوع پر بولتے ہوئے مقررین نے ملک کے موجودہ حالات کو بہت ہی حساس قرار دیا۔ڈاکٹر عمار رضوی کی صدارت میں منعقد تقریب میں سی پی آئی ایم کے قومی جنر ل سکریٹری پرکاش کرات نے پروفیسر دکشت کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ 1970میں دہلی میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ ایک ریسرچ اسکالر تھے ۔جے این یو طلب کے لئے ایسٹوڈنٹ یونین کی پہلی اور جدوجہد میں پرکاش کرات ،رمیش دکشت نے کافی مخالفت کے بعد اس میں کامیابی حاصل کی ۔انہوں نے 70سال کے رمیش دکشت کی موجودہ سرگرمیوں کااعتراف کرتے ہوئے کہاکہ آج بھی پروفیسر دکشت 23سالہ جوجہارو نوجوان کی طرح ہی کام کرتے نظرآتے ہیں پرکاش کرات نے کہاکہآج ملک کے سامنے کافی چنوتیاں ہیں۔آج جس طرح ملک کے سامنے خطرہ ہے ایسے خطرات کبھی پہلے نظرنہیں آئے ایمرجنسی میں جس طرح مخالف دلوں نے ایک جٹتا کامظاہرہ کیاوہ نظرنہیں آتا ۔آج کی چنوتی بنیادی خطرہ ہے ۔عوام حکومت سے عاجز آچکی ہے ۔چھ مہینے کے اندرجس طرح کسان مزدور ،نے مہاراشٹر،راجستھان اور دہلی میں مظاہرہ کیا۔وہ پہلے کبھی نظرنہیں آتا انہوں نے میڈیا پربھی نشانہ سادتھے ہوئے کہاکہ میدیا نے ان آندلونوں کو نظرانداز کیا۔ مہارشٹر میں کسان دھرنے پر بیٹھا سیوسینا نے بھی اس کی حمایت کی ۔سرکار دبائو میں آئی کچھ ایسا ہی نظارہ راجستھان میں بھی نطرآیا وہان کے چھ ضلعوں کسان آندولن عوامی تحریک کی طرح بن کرابھرا ،دہلی میں ,9 11,10کو ملک کے مختلف حصوں سے تقریبا دولاکھ مزدوروں نے آکر پڑائو ڈالا ۔عوام نے مخالفت بڑھتی جارہی ہے ۔آرایس ایس کی فکر فرقہ پرستی ہے جس کے ذریعہ مزدور کسان محنت کش لوگوں پر حملہ کرارہی ہے ۔نوٹ بندی کااثریہ رہا ہے کہ ابھی تک اقتصادی مندی چھائی ہوئی ہے ۔رپورٹ کے مطابق اسی سال جنوری سے اپریل میں تقریبا پندرہ لاکھ نوکریاں ختم ہوگئیں ۔انہوں نے اپیل کی کہ سبھی کو ایک پلیٹ فارم پرآناہوگا۔ پرکاش کرات نے کہاکہ عوام ہم پر یقین رکرہی ہے ضرورت ہے اس کے بیچ جاکر ان کے روز مرہ کے مسائل کو اٹھانے کی ۔انہوں نے کہاکہ کیرل میں آرایس ایس ابھی تک ناکام ہے ۔پرکاش کرات نے کہاکہ یوپی اس وقت سیاست کا سب سے بڑا مرکز ہے ۔رمیش دکشت نے کبھی سیکولر ازم کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا وہ اپنے اصولو ں پر ہمیشہ قائم رہے اور فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف اقلیتوں دلتوں ،آدیواسی ،مظلوموں کے ساتھ کھڑے رہے ۔ضروری ہے کہ سب کو ایک ساتھ جوڑ کر ملک میں پھیلی نفرت اور غیر اعلانیہ ایمرجنسی کے خاتمہ کے لئے تحریک چلائی جائے ۔
اس موقع پر سہل ہاشمی نے جے این یو میں طلبہ یونین کی تشکیل کے لئے پرکاش کرات اور رمیش دکشت کی جدوجہد کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ وہاں پر طلبہ یونین کے الیکیشن کے کارروائی کی پوری ذمہ داری طلبہ کے ہاتھ میں ہے یہی وجہ ہے آج تک وہان کسی بھی طرح کی بدعنوانی کا الزام بھی نہیں ہے انہوں نے کہاکہ پروفیسر رمیش دکشت بنیادی انسانی اصولوں پر قائم رہنے والے انسان ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان سے فکری ،اختلافات کے باوجود تعلقات لوگوں سے ہمیشہ بنے رہے ۔انہوں نے سمینار کے موضوع پر بولتے ہوئے کہاکہ مذہب کی سیاست کے ذریعہ نفرت کی سیاست کرنے والے عوام سبق سکھائے گی۔ انہوں نے اپنی کویتا کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ بکری اوربھینس کے گائے بن جانے سے ڈر لگتا ہے ۔مادری زبان کے غیر ملکی بن جانے سے ڈر لگتا ہے ۔انہوں نے 1961فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ جب وہ علی گڑھ میں اپنے بھائی اوربہنوں کے ساتھ اسکول میں پھنس گئے تھے تو ایک جیپ کے ذریعہ ان کو گھر بھیجنے کی جب کوشش کی گئی تو دیکھا کہ پل کے نیچے ٹرین روک کر داڑھی والوں کے ساتھ جو کیاجارہا تھا وہ روح کانپ دینے والا منظرتھا اسی کے ساتھ جب ان کی جیپ کی طرف کچھ لوگ مٹی کا تیل کے بڑھی اس سے جو دہشت ان کے دل میں پیدا ہوئی وہ دہلی میں پرکاش کرات ،رمیش دکشت جیسے لوگوں کے رابطہ میں ٓنے کے بعد کچھ کم ہوئی ۔انہوں نے کہاکہ اردو کو مسلمان اور غیر ملکی زبان کہاجانے لگا وہیں ملک کو ہندوملک ثابت کئے جانے کی کوشش کی جانے لگی ۔آج مسلمانوں کو بھارت ماتا کادشمن بتائے جانے کی سازش ہے ۔ملک کے حالات پر زندگی کے اظہار کرتے ہوئے سہیل ہاشمی نے کہاکہ جھنڈ مین گھوم پر کچھ لوگ اکیلے لوگوں کونشانہ بنارہے ہیں۔ ایسے لوگ کائر ہیں ان کانشانہ دلت اور آدیواسی بھی ہیں مسلمانون کی حالت آج وہی ہے جو ہٹلر کے زمانے میں یہودیوں کی تھی ۔انہوں نے کہاکہ وقت آگیا ہے فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف ایک جٹ ہونے کی ۔اس موقع پر ڈپی پی ترپاٹھی نے کہاکہ آج کے موقع پر جوش ملیح آبادی ک ایک شعر رمیش دکشت کو دیکھ کر یادآتا ہے کہ ’ہم ایسے اہل بسیرت کی روشنی کے لئے ۔۔اگر رسول ؐ نہ ہوتے تو صبح کافی تھی‘ڈی پی ترپاٹھی این سی پی کے لیڈر ہیں اور راجیہ سبھا کے رکن بھی ہیں۔انہوں نے کہاکہ آج حکومت سے ملک خطرہ میں ہیں نام نہاد راشٹروادی لوگوں نے ہمارے وراثت خطرہ میں ہے گاندھی سے لے کر امبیدکر تک کو ہم لوگوں سے چھین لیاگیا۔ انہوںنے کہاکہ ملک کا ہندومذہب بھی ان لوگوں سے آج خطرے میں ہے ۔پہلی بار ملک میں اتنا بڑاخطرہ پیداہواہے جس سے ہماری ثقافت ،آرٹ اور موسیقی تک خطرے میں آگئی ہے ۔جنتادل یو کے کے سی تیاگی نے پروفیسر رمیش دکشت کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ رمیش دکشت بننے کے لئے کافی کچھ کھوناپڑتاہے رمیش دکشت نہ کبھی کسی سے ڈرے نہ اپنے اصولوں سے ہٹے اورنہ ہی اپنے مشن میں کہیں پر روکے ان کو وہ اعزاز نہیں ملا جس کے وہ حقدار ہیں سماج وایدی پارٹی کے چیف ترجما ن راجیندر چودھری نے اپنے خیلات کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ رمیش دکشت لوگوں کے لئے آئیڈیل ہے انہوں نے کہاکہ آج موجود وقت میں چونتیاں بہت حساس ہیں۔ایسے حالات میں ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں ۔پروفیسر رمیش دکشت نے اتنے سالوں میں جس ایمانداری کے ساتھ کام کیا وہ کافی اہم ہیں موجودی وقت میں حالات بے قابو ہیں۔ بنیادی اصولوں میں لوگو کو منتشر کیاجارہاہے تاکہ لوگ جمہوریت کا مطلب نہ سمجھ سکے انگیرزوں نے پھوٹ ڈالو راج کرو والی جس پالیس کا اسعتمال کر اتنے سالوں تک حکومت کی آج اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے حکومت کی جارہی ہے نفرت پھیلانے والوں کوعوام کامیاب ہونے نہیں دے گی۔ملک میں نفرت کی ہوا گھولی جارہی ہے ۔انہوں نے پروفیسر رمیش دکشت کو مبارکباد اور نیک خواہشت پیش کی اس موقع پر رمیش دکشت کے طلب اور طالبات اور دوستوں نے بھی خیالا ت کااظہار کیاتھا۔ پروفیسر رمیش دکشت کے طالب علم رہے رام پرساد نے کہاکہ پروفیسر دکشت نے صحیح وقت پر صحیح رہنمائی کرکرکے ہم لوگوں کی جو حوصلہ افزائی کی وہ کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی ۔انہوںنے کہاکہ ان کے ساتھ کسی کا ’مت بھید ‘تو ہوسکتا ہے لیکن ’من بھید‘ نہیں ۔طالبہ نیتو راوت نے کہاکہ جب میرا لکھنو یونیورسٹی میں داخلہ ہواتو ایک خوف ساتھا لیکن پروفیسر رمیش دکشت کی رہنمائی میں ہم لوگوں کی کافی حوصلہ افزئی کی ۔انہوں نے کچھ کتابیں دی جوہم لوگ خرید کر نہ پڑھ سکتے تھے ایسی کے ساتھ وہ حوصلہ دیا جو بھی سوال دل میں ہو وہ کلاس میں ہی پوچھا جاسکے۔صحافی پردیپ کپورنے اپنی 35سالہ دوتی کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ پروفیسر رمیش دکشت سے مسلسل بات چیت کاسلسلہ جاری رہتا ہے ۔دوستی نبھانا ہم نے انہی سے سیکھا ہے مذہب کی سیاست کاکھل کر نے والے پروفیسر رمیش دکشت سبھی طبقوں کو ساتھ لے کر چلنے والے ندیم حسین نے کہاکہ سبھی کو پروفیسر رمیش دکشت جیسا دوست ملے یہی دعا ہے سماجی ،تعلیمی ،سیاسی زندگی پروفیسر رمیش دکشت کی صاف اورشفاف ہے ۔انل چودھری نے پروفیسر رمیش دکشت کو جدوجہد کا حامی بتایاکہ آج ملک کے سامنے چونتیوں کی فہرست بہت لبمی ہے اور آج امیراور غریب کی لڑائی فیصلہ کن دورمیں پہنچ چکی ہے ۔سب کی بھلائی کی گنجائش کانظام نظرنہیں آتا ۔ اپنی صدارتی تقریر میں ڈاکٹر عماررضوی نے پروفیسر رمیش دکشت کو اپنے اصولو ں پر قائم رہنے والا مرد مجاہد قرار دیا ۔اورکہاکہ پروفیسر رمیش دکشت پرکاش کرات ،ڈپی پی ترپاٹھی ،کے سی تیاگی جیسے لوگوںکی وجہ سے ملک میں محبت یکجہتی خیر سگالی باقی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ مقابلہ کی ضرورت ہے مسلم فرقہ پرستوں سے مسلمان اور ہندوفرقہ پرست طاقتوں سے ہندولڑے گے انہوں نے پروفیسر رمیش دکشت کی اہلیہ وندنا مشراکوبھی مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ قابل مبارکباد اس لئے ہیں کہ انہوں نے رمیش دکشت کاسیاست میں ساتھ دینے کے ساتھ گھر کو بہترین نظام سے بنائے رکھا ڈاکٹرعمار رضوی نے کانگریس کو ایمرجنسی کی سزاملی لیکن جلد ہی عوام نے کانگریس کو پھر منتخب کیا۔ آج غیر اعلانیہ ایمرجنسی زیادہ خطرناک ہے ضرورت ہے سب کو ایک ساتھ اس کے خلاف کھڑے ہونے کی پروفیسر رمیش دکشت کی سبھی شرکا کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ ان کا یوم پیدائش 13نومبر 1947ہے جو دیوالی کے ٹھیک بعد کا دن تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کہی ہ کہی پر جگہ بنانے والے اپنے دوستوں اساتذہ ،کابھی ذکر کیا۔ پروفیسر رمیش دکشت نے منور رانا اور راحت اندوری کے اشعار کو پیش کرتے ہوئے ملک میں فرقہ پرستی کے ذریعہ نفرت کی سیاست کرنے ولوں کا جواب دیا۔ انہوں نے کہاکہ میں مرو گا تو یہی دفن کیا جائوگا ۔ میری مٹی بھی کراچی بھی نہ جائے پائے گی۔اس کے بعد راحد اندوری کااشعار پیش کرتے ہوئے کہاکہ سبھی کاخون شامل یہاں کی مٹی میں کسی کے باپ کا ہندوستان توتھوڑی ہے ۔اس موقع پر پروفیسر شارب ردولوی ،خواجہ معین الدین چشتی اردو ،عربی فارسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر معروف مرز ا، انیس انصاری ،امیرحیدر، عبید اللہ ناصر ،ڈاکٹر روپ ریکھا ورما،پروین طلہ ،نصر ت جمال ،راشٹریہ لوک دل کے ترجمان انل دوبے ،اصغرمہدی، اترکرش سنہا ، جے پی پٹنائک ،معروف خان، صدھارت کلنت ،کثیر تعداد میں شہر کی معزز شخصیات موجود تھیں ۔
پروگرام کاآغاز مجروح سلطانپوری کی غزل
جلالے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
سے شنے نقوی نے کیا۔
اس موقع محبت وشعور پر ملک کے مختلف مقالہ نگار کے مختلف مضامین کے مجموعہ کی رونمائی کی گئی