Saturday, May 4, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldنیا سماج اور نیا افسانہ

نیا سماج اور نیا افسانہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

محمد بشیر مالیرکوٹلوی

 

مضمون کا عنوان پڑھ کر آپ سوچیں گے کہ ہمارا سماج تو نیا نہیں، کیونکہ سماج کی وہی بے ڈھنگی چال ہے جو پہلے تھی۔ افسانے میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی وہی بیانیہ کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے یہ اچھا ہوا کہ میں حصار میں قید نہیں ہوا یعنی میں اردو ادب کے کسی سنگ میل سے نہیں بندھا۔ جی سنگ میل!
دراصل اب تک ہمارے دو بڑے میں ایک نے اردو ادب کو 1960 سے 1980 تک جدیدیت میں قید رکھا۔ ان بیس سالوں میں افسانے پر خوب خوب زیادتیاں ہوئیں۔ پھر ہمارے دوسرے بڑے نے مابعدازجدیدیت کا سنگ میل قائم کردیا۔ گویہ سب انگریزوں کی نقل تھی۔
پچھلے 38 سال سے ہم تیسرے سنگ میل کی تلاش میں ہیں۔ کوئی تیسرا بڑا پیدا ہو تو نئے اور تیسرے دور کا آغاز ہو۔ ایک راز کی بات بتاؤں؟ نیا دور تو کب کا شروع ہوچکا، ہم سب اسے محسوس بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اس کی نوٹی فیکیشن نہیں کر رہے۔
جی! وہ ہے دور احتجاج اب آپ سوال کریں گے کہ صاحب اردو افسانہ تو پیدا ہی احتجاج کی کوکھ سے ہوا تھا۔ مانتا ہوں۔ وہ احتجاج راجے، رجواڑوں اور جاگیرداروں کے خلاف غصہ تھا آج کا احتجاج شدید ترین ہوچکا ہے، بہرحال نئے سماج سے مراد ہے معاشرے میں ہونے والی کربناک انسانیت سوز تبدیلیاں، نئے افسانے سے مراد ہے نئے موضوعات کا بوجھ اٹھائے آگے بڑھتا ہوا اردو افسانہ۔ دیکھئے نا چھوٹی چھوٹی بچیوں کی عصمت کی دھجیاں اُڑ رہی ہیں۔ بزرگ عورتوں کا جنسی استحصال۔ بھگوا غنڈہ گردی۔ گھر واپسی۔ جانوروں کو لے کر انسانوں کا قتل۔
چلتی ہوئی نفرت کی خونی آندھیاں۔ اقلیتیں سہمی ہوئی ہیں۔ اپنی جان کی حفاظت کے پیش نظر فکرمند ہیں۔ مذہبی جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہر کمزور انسان سوچ رہا ہے کہ کل کیا ہوگا؟ آج کا افسانہ نگار انگشت بدنداں کھڑا سوچ رہا ہے کہ وہ ڈور کے سرے کو کہاں سے پکڑے؟ کیسے سلجھائیے ان مسائل کو۔ کیسے وہ ایک ادیب ہونے کا فرض نبھائے۔
بلاؤ۔۔۔۔ ہمارے پروجوں میں سے کرشن چندر جی کو جنہوں نے کہا تھا ’’منٹو نے سماج کا سارا زہر پی لیا ہے وہ شنکر بن چکا‘‘ حالانکہ وہ خود بھی شنکر بن سکتے تھے۔ مگر حسب فطرت وہ مہا لکشمی کے پل کی چھ ساڑھیوں میں الجھے رہے۔ ترقی پسندی کے نعرے لگا کر اپنا گلا خراب کرتے رہے۔ منٹو نے تو ایک خاص ٹھکرائے ہوئے سماج کا زہر پیا اورشنکر ہوگئے۔
ہم؟؟ ہم اس کرب ناک دور ۔۔۔ جس میں جینا بھی ایک فن ہے۔ ایک جہاد ہے، ہم کیا ہے بھائی؟ کیا ہیں ہم؟ جن کے سامنے سماج نے زہر ہی زہر پھیلا رکھا ہے۔ امرت کی ایک بوند بھی ناپید ہے۔
ہم سماج کے اس زہر کا بوجھ اٹھائے کربناک حالت میں روز روز امرت ڈھونڈنے نکلتے ہیں اور خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ اگر امرت نظر آبھی جاتا ہے تو اسے چھوتے ہی وہ زہر بن کر ٹپک جاتا ہے۔
ماضی بعید کی بات کریں تو صحافت اور ادب الگ الگ خانوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اُن دنوں صحافت محض خبر رسانی تک محدود تھی۔ اخبار نکلتے تھے۔ کل کیا ہوا۔۔۔؟ خبروں کو عوام تک پہنچا کر فارغ ہو جاتے تھے۔ یہ صرف ادیب کا کام ہوتا تھا سماج میں چھپی ہوئی برائیوں، عوام کی محرومی و مشکلات کو عوام کے سامنے پروسے۔ ان دنوں زبان و ادب لوگوں کی زندگی سے جڑا ہوا تھا۔ ادب کا مطالعہ ذہنی تفریح و تسکین کا خاص ذریعہ تھا۔
لوگ اردو ادب کو اہمیت دیتے تھے کیونکہ ادب عام آدمی کی زندگی پر اثر انداز ہوتا تھا۔ استاد منٹو پر فحش نگاری کے الزامات لگے۔ ان کو عدالتوں میں گھسیٹا گیا۔ وہ بے چارے ممبئی سے کراچی کا سفر صرف مقدمات میں حاضری دینے کے لیے کرتے رہے۔ لوگ اُن دنوں ادب کے تئیں بیدار تھے۔ اچھے ادب کی حمایت اور برے ادب کی مخالفت اپنا فرض سمجھتے تھے۔ منٹو نے پریشانیاں اس لیے جھیلیں کہ کچھ لوگوں کا ماننا تھا کہ منٹو کا تخلیق کردہ ادب نوجوان طبقے کے اخلاق کو بگاڑ رہا ہے۔ اور آج۔۔۔۔۔۔؟آپ کچھ بھی لکھتے رہیے۔ کوئی نہیں پوچھتا۔ ہمارے کچھ ادیب دوست ہمارے جسم کے پوشیدہ اعضاء کا بڑی ڈھٹائی سے ننگا نام لکھ دیتے ہیں۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کون پڑھتا ہے؟ ویسے بھی آج تو فحاشی آرٹ بن کر رہ گئی ہے۔ اس آرٹ کا نتیجہ ہی ہے شاید، جو ہر طرف می ٹو ۔۔۔۔۔۔ می ٹو کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
منشی پریم چند نے غریب کسان اور مزدور کی محرومیت و ناداری اور مایوسیوں سے بھری زندگی سے پردہ اٹھایا۔ کفن ان کا انتہائی اہم افسانہ تھا۔ پریم چندنے اسی ماحول میں سانس لی انہوں نے اس سماج کو کھلی آنکھوں سے دیکھا اور برداشت بھی کیا۔ بعد میں لال سلام کے تحت ادیبوں اور شاعروں کی جماعت ان کے ساتھ ساتھ چل پڑی اور مشترکہ طور پر جاگرداری نظام کے خلاف لکھنے کا عزم کرلیا۔ استاد منٹو اپنی لاابالی طبیعت کے پیش نظر اس جماعت کی پابندیوں کو قبول نہ کر سکے۔ وہ اپنی دھن میں بازار حسن کی مسائل کے بارے میں لکھتے رہے۔ صحافت کا ان باتوں سے کچھ لینا دینا نہ تھا۔ ان دنوں سماج کے اندھیروں کو روشنی دکھانے کا کام صرف ادیب ہی کیا کرتے تھے۔ دور حاضر کو دیکھتے ہیں تو پورا منظر ہی بدل گیا۔ صحافت نے اس قدر ہاتھ پاؤں نکال لیے کہ سب کچھ اپنے قبضے میں کرلیا۔
آج دنیا کے کسی بھی حصے میں مزدور اور کسان پر ظلم ہو رہا ہے، کسی عورت کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے یا کوئی قتل ہو رہا ہے، میڈیا ساری دنیا میں رپورٹ اور تصاویر کے ذریعے سے خبر پھیلا دیتا ہے۔ یہ کہنا بھی درست ہے کہ سماج میں ہونے والے خوفناک واقعات کا علم ہمیں صحافت کے ذریعے ہی ہونے لگا ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ نئی کہانی کا ہیولا ہم تک پہنچے تو کیسے۔۔۔؟ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، اور سوشل میڈیا ہی ہمارا ذریعہ بنتے ہیں۔ دن بھر کے آپ کے مشاہدات آپ کو کتنے نئے موضوعات دے سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ کہ نقاد آج کے ادیب کو اخباری ادیب کہنے سے پرہیز نہیں کرتا۔
صحافت سے ہمارا کام ویسے بھی مختلف اور مشکل ہوتا ہے۔ صحافت موقعہ واردات پر پہنچ کر اپنی اسٹوری، بیان اور تصاویر کے ذریعے جوں کی توں پیش کرکے اپنا کام مکمل کر لیتی ہے۔ افسانہ نگار کو قارئین تک اپنا واقعہ پہنچانے میں مشقت درکار ہے۔ یعنی واقعہ کو افسانہ نگار کی تنقیدی نظر سے گزرنا ہوتا ہے۔ تکنیکی چاشنی میں ڈوب کر اسے دلچسپ بننا ہوتا ہے۔ اسے فن کے لوازمات، خوبصورت الفاظ اور پراثر جملوں اور مکالموں سے آراستہ ہونا پڑتا ہے۔ تب کہیں جاکر وہ اشاعت کی نذر ہوتا ہے اور عوام تک پہنچتا ہے۔
ہمارا ذریعہ اظہار تو افسانہ ہی ٹھہرا۔ جب صحافت سماج میں ہونے والے واقعات، چاہے وہ اخلاق کا قتل ہو یا کٹھوعہ کی بچی کا ریپ اور قتل ہو، مظفرپور کے آشرم کی داستان ہو یا مشترکہ خود کشی کا سانحہ، عوام کے روبرو رکھتی ہے۔ تو افسانہ نگار پریشان ہو اٹھتا ہے کہ اب وہ کیا خاص، کیا غیر مطبوعہ پیش کرے سب کچھ تو میڈیا والے دکھا دیتے ہیں۔ یہ مشکل یہ مسئلہ ان افسانہ نگاروں کو درپیش ہوتا ہے جو احتجاج پسند ہیں۔
جو افسانہ نگار آج کے اس دور میں بھی رومانس کی بانسری بجاتے رہتے ہیں۔ اپنی تخلیقات انسانی نفسیات کے موضوعات کی نذر کرتے رہتے ہیں۔ ایسے افسانہ نگاروں پر صحافت بہت کم اثر انداز ہوتی ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ادیب تو بے حد حساس ہوا کرتے ہیں۔
درد سے کوئی کرا رہا ہو اس کی تکلیف وہ اپنے اندر محسوس کرتے ہیں۔ ایسا معاشرہ جس میں کم سن بچیاں جنس زدہ لوگوں کی حوس کا شکار ہو رہی ہوں۔ جہاں جانوروں کی حفاظت کے پیش نظر انسانوں کا قتل ہو رہا ہو۔ جہاں غنڈہ گردی عروج پر ہو۔ جمہوریت سسکیاں لے رہی ہو۔ ہر طرف لاقانونیت ہی لا قانونیت ہو۔ جس سماج میں انصاف کرنے والے خود انصاف کے طالب ہوں۔ ایسے سماج میں سانس لینے والا ادیب کیسے رومان پرور باتیں کرسکتا ہے۔ ابھی ابھی ایک سرکاری پرچے میں ایک بہت بڑے افسانہ نگار کی تخلیق چھپی ہے۔ وہ کسی دوست کے ناکام معاشقوں کی کہانی سنا رہے ہیں۔
آخر اس ذہن میں گل و رخسار کی خوبصورت تصویر کیسے سما سکتی ہے۔ جہاں پہلے ہی معصوم بچیوں کا خون جما ہوا ہو۔ کیا صبح کا اخبار ان کو نہیں دہلاتا؟ کیا ایسے قلمکار خودفریبی کا شکار ہوتے ہیں؟ کیا وہ مصالحت پسند ہیں؟ یا پھر ان کا قلم خوف زدہ ہے؟
انسانی خون اور بربریت ہر ذی ہوش انسان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ احتجاج کی چنگاریاں تو ان کے اندر بھی پھوٹتی ہوں گی۔ احتجاج کی آواز تو ان کے اندر بھی گونجتی ہوگی۔ یہاں ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دلوں پہ یکساں
ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے
ایسے افسانہ نگار جو اپنی بے باک اور بے خوف طبیعت کے پیش نظر آگے بڑھ کر اس بدشکل سماج کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ اور احتجاج کا پرچم بلند کرتے ہیں میں ایسے اُدبا کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ وہ صحیح معنوں میں آج کے شنکر کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ ایسے شنکر جن کی رگ رگ میں اس سماج نے زہر بھر دیا ہے۔ شاید مشیر جھنجھانوی ایسے ہی ادیبوں کے لیے کہہ گئے۔
زہر اس ماحول کا میرے اندر یوں بھر گیا
سانپ نے کاٹا مجھے اور کاٹتے ہی مر گیا
دنیا کے مختصر افسانے کی عمر تقریبا ڈیڑھ سو برس کی رہی ہوگی۔ منشی پریم چند نے کہا تھا کہ ادب زندگی کی تنقید ہے۔ ادیب کا کام صرف عوام کا دل بہلانا نہیں یہ کام تو بھانڈ مداری اور مسخرے بھی کیا کرتے ہیں۔ ادیب کا کام اس سے کہیں اونچا ہے راہنما ہوتا ہے۔ ادیب ہمارا راہ نما ہوتا ہے۔ وہ ہمارے اندر سوئی ہوئی انسانیت کو جگاتا ہے۔ ہمارے اندر دوسروں کے تئیں نیک خواہشات اور محبتیں پیدا کرتا ہے، ہماری نظروں کو وسعت دیتا ہے۔ ادیب ہمیشہ ہی معاشرے کے لیے فکرمند رہتا ہے۔ اور معاشرے کی اصلاح کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ معاشرے کے تئیں اس کے کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ جیسے پریم چند نے سماجی رجعت پسندی اور دقیانوسیت کے خلاف غصے کا اظہار کیا۔ منٹو نے معاشرے کے غلیظ سے غلیظ گوشے کو کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ انہوں نے ویشیاؤں، دلالوں اور بازار حسن کے غنڈوں کو عام آدمی کی طرح نفرت سے نہیں دیکھا۔ بلکہ ان کو خاص انسانیت کی نظر سے دیکھا۔ ان کے مسائل کو سمجھا۔ تقسیم ملک کا المناک سانحہ رونما ہوا کچھ ادیب خود بھی لامکانی کا شکار ہوئے، اور کٹی پھٹی لاشوں کو دیکھ کر خون کے آنسو بہاتے رہے۔ بیدی قاسمی نے استاد منٹو، کرشن چندر، بیدی، قاسمی نے تقسیم کے بارے میں خوب خوب لکھا۔ افسانوں کے عنوانات بھی گنا سکتا ہوں۔ یہ کام تو پچھلے چالیس سال سے مضامین لکھنے والے نقاد حضرات کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جو ہم سب کو ازبر ہیں۔ قراۃ العین حیدر اور انتظار حسین نے بھی ہجرت کے المیہ کو موضوع بنایا اور پراثر افسانے تخلیق کیے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ افسانہ نگار اپنے دور کو لکھتا ہے۔ اسی لئے افسانہ نگار کو اپنے دور کا مورخ بھی کہا جاتا ہے۔
اگر کسی افسانہ نگار کی تمام تر تخلیقات یکجا کی جائیں اور اس کے کلیات کا مطالعہ کیا جائے تو ہم یقینا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موصوف کس کس دور سے گذرا ہوگا اس کو کن کن حالات سے دوچار ہونا پڑا ہوگا۔ ہمیں ہی دیکھ لیں آٹھویں دھاکے میں ہم ملاوٹ اور کرپشن کے خلاف لکھا کرتے تھے۔ 84 کے دنگے ہم نے کھلی آنکھوں سے دیکھے۔ وقت آگے بڑھا پنجاب نفرتوں کی تیز آندھیوں سے بھر گیا قتل وغارت کا بازار گرم ہوا ہم نے دہشت گردی اور ہجرت کے موضوعات لے کر خوب خوب لکھا۔ وقت اپنی بے ڈھنگی چال سے آگے بڑھتا رہا، دیکھتے ہی دیکھتے جنسی جنون نے منہ پھاڑ لیا۔ انسانی رشتوں میں گراوٹ آنے لگی بیٹی اپنے باپ اور بھائی کے گھر میں بھی غیر محفوظ ہو کر رہ گئی۔
ماضی قریب میں ایک سیاسی انقلاب برپا ہوا۔ مذہبی جنون کے بادل لہرانے لگے۔ انسان کی زندگی کی کوئی قیمت نہ رہی۔ جنسیات کے جذبے مزید پاگل ہو اٹھے۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں جنسی بھوک کا شکار ہونے لگیں۔ ہم نے افسانہ ’’ڈسچارچ سلپ‘‘ لکھ کر خاص طور پر ماؤں کو پیغام دیا کہ وہ اپنی بچیوں کو ان کے جسم کے پوشیدہ اعضاء کے بارے میں بیدار کریں۔ تازہ ترین حالات سے ہم نے نہ ہار مانی ہے نہ ہمارا قلم تھکا ہے۔ پچھلے دنوں ہمیں می ٹو ۔ می ٹو کی آوازوں نے پریشان کیا ہم نے می ٹو پر لکھنا شروع کردیا۔ اب کہاں کہاں سے اس کٹے پھٹے سماج کو پیوند لگائیں۔ اب ایک بڑا کربناک مسئلہ منہ پھاڑے ہماری فکر کو نگلنے کے لیے تیار ہے، جو ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے، اور شاید یہ سانحہ ہماری بد قسمتی کی مثال ثابت ہوگا۔ وہ یہ کہ اس معاشرے میں سوتنترتاسینانی وہی عزت پائے گا جس کا حسب نصب اکثریت سے ہوگا۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والے مجاہد آزادی کو کوئی نہیں مانے گا۔
کیا نعوذباللہ ۔۔۔۔ ہمیں اپنے مجاہدین جنہوں نے دیش کیلئے اپنی جانیں نچھاور کردیں۔ بعد از مرگ ان کا نام بھی بدلنا ہوگا؟ کیا ہمارے اجداد کے چہروں پر بھی ٹیپوسلطان کی طرح ریڈ کراس لگا دیا جائے گا؟ کیا اسے ہی جمہوریت کہتے ہیں۔ ’’ ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا‘‘ کوئی بعید نہیں۔ کوئی سرپھرا اٹھ کر یہ کہہ دے کہ یہ ترانہ بھی ان کے خلاف سازش تھی۔ اگر اس خوبصورت ترانے کو کوئی اپنا لکھ دیتا تو شاید اسکی 200 میٹر لمبی مورتی کہیں نصب کر دی جاتی۔ بہرحال ۔۔۔۔ میرا یہ کہنا ہے کہ سماجی تبدیلیاں اور افسانہ نگار کی فکر کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور رہے گا۔
Moh. Aleem Ismail (محمد علیم اسماعیل)
(Assist.Teacher Edu.Dept.Pri.)
Behind Police station
At,Post,Taluka-Nandura
(M.H) PIN- 443404
Attachments area

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular