Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldنورالحسنین کی افسانہ نگاری تہذیبی زوال کی داستان

نورالحسنین کی افسانہ نگاری تہذیبی زوال کی داستان

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

محمد علیم اسماعیل

نورالحسنین سے میری پہلی ملاقات ادارہ ادب اسلامی مہاراشٹر کی سالانہ ادبی کانفرنس کے تیسرے و آخری دن ہوئی تھی۔ یہ کانفرنس جلگاؤں میں بتاریخ 28 جنوری 2018 کو منعقد ہوئی تھی۔ جہاں انھوں نے ’’ناول نگار نورالحسنین سے ملاقات‘‘ (انٹرویو سیشن) میں فن ناول پر پوچھے گئے تمام سوالات کے اطمینان بخش جوابات دے کر قارئین کی تشنگی کو دور کیا تھا۔ موصوف نے ناول پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے ایک ایک پہلو کو مثالوں سے واضح کیا تھا۔ اس پروگرام میں موقع پاتے ہی میں ان کے قریب جاکر بیٹھ گیا۔ اس سے پہلے میں نے انھیں صرف کتابوں اور رسالوں میں ہی پڑھا و دیکھا تھا۔ اور فیس بک تصویروں کی زبانی ان کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس روز وہ میرے سامنے تھے بالکل سامنے۔ درمیانہ قد، خندہ پیشانی، متناسب ناک، گھنی بھنویں اور شگفتہ انداز ِ گفتگو مجھے یوں لگا جیسے کوئی فرشتہ آسمان سے زمین پر اتر آیا ہے۔
معین الدین عثمانی نے نورالحسنین سے میری ملاقات کرواتے ہوئے کہا تھا، اس لڑکے کو کچھ نصیحتیں کیجیئے یہ سوشل میڈیا پر بہت دھوم مچاتا ہے۔ نورالحسنین سے دوسری ملاقات 27 مئی 2018 کو اورنگ آباد میں موصوف کے گھر پر وسیم عقیل شاہ کے توسط سے ہوئی تھی۔ اس روز اورنگ میں وسیم عقیل شاہ سے میری ملاقات بی۔ایڈ انٹرانس ٹیسٹ سینٹر پر اچانک ہوگئی تھی۔ میرے افسانہ نگار دوست اشفاق حمید انصاری اور وسیم عقیل کے دوست احباب بیل بجتے ہی امتحان گاہ میں چلے گئے تھے۔ اس کے بعد میں اور وسیم عقیل شاہ اردو افسانے کے بازیگر سے ملاقات کے لیے نکل پڑے تھے۔
نورالحسنین 1980 کے بعد کے افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہیں۔
وہ پچھلے 40 برسوں سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ اب تک ان کے چار افسانوی مجموعے، سمٹتے دائرے 1985، مور رقص اور تماشائی 1988، گڑھی میں اترتی شام 1999، فقط بیان تک 2012، میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے افسانے نہ ترقی پسندی کا پروپیگنڈہ ہیں نہ ہی جدیدیت کے مہر زدہ ہیں۔ نورالحسنین کہتے ہیں، جنسیات انسانی زندگی میں اتنی ہی ہے جتنا کھانے میں نمک۔ اس لیے ان کے افسانوں میں جنسیات کا دخل بہت کم ہے۔ تہذیب و اخلاق کا زوال اور ماضی کی بازیافت ان کے پسندیدہ موضوعات معلوم ہوتے ہیں۔ گڑھی میں اترتی شام، کلمہ گو، پیتل کی چھئیاں، بیساکھیوں پر کھڑے لوگ، بھنور بھئی جاگو، ایک اداس شام وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
افسانہ ’’ایک اداس شام‘‘ آنکھوں کے سامنے ابھرتے ماضی کے جھلملاتے اور آپ ہی تحلیل ہوتے خوش گوار مناظر اور یادوں کے سہارے آگے بڑھتی کہانی ہے۔ کہانی دھیرے دھیرے ‎قاری کو یوں جکڑ لیتی ہے کہ اسے یہ اپنی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ اخلاص و محبت میں ڈوبا ہوا ایک ہنستا کھیلتا مخلوط خاندان جہاں امی ،ابا، چچی اور دادی منوں میاں کو منانے میں لگے ہیں۔ بعد میں منوں میاں کی پسند کی شادی ہوئی اور چولہے الگ ہوگئے، گھر کا بٹوارہ ہوا اور ساری خوشیاں وقت کی چکی میں پس کر ریزہ ریزہ ہو گیئں۔
اب ناراض منوں میاں کو منانے والی کوئی آواز کانوں تک نہیں آرہی ہے۔
پہلے لوگ اپنے بزرگوں کے فرماں بردار ہوا کرتے تھے۔ نہ لڑکے کو لڑکی دکھائی جاتی تھی اور ناہی لڑکی کو لڑکا۔ وہ کہاں اپنے پسند کی شادیاں کرتے تھے پھر بھی اللہ نے ان کے رشتوں میں وہ تاثر رکھی تھی کہ ایک ان دیکھے ساتھی کی محبت میں پوری زندگی گزار دیا کرتے تھے۔ آج کل تو بات بات پر سیز فائر کا معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔
’’ کل شام بیوی سے ان بن ہوگئی تھی۔ تب سے تنہا بھوکا پیاسا پلنگ پر اوندھا منہ پڑا ہوں۔ منانے والی کوئی آواز میرے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہے کیونکہ مقابل کے کمرے میں ناراض بیوی اور بچے ٹی وی دیکھ رہے ہیں اور میں انتظار کر رہا ہوں کہ کوئی چپکے سے آکر مجھے منا لے ۔۔۔۔۔‘‘
ایک عمدہ و دلخراش کہانی۔ یہ نورالحسین کے قلم کی سحر البیانی ہے کہ جس نے منوں میاں کے ذہن کی اسکرین پر بنتے ماضی کے دائروں سے بچپن کی سیر کرادی ہے۔ اس کہانی میں نورالحسنین نے فلیش بیک کے واقعات کو اسکرین پلے کی تکنیک میں ڈھالا ہیں۔ اس لیے کہانی کا ہر منظر ایک اکائی ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مربوط ہے۔
افسانہ ’’کلمہ گو‘‘ دکنی ماحول و فضا میں سانس لیتا ہے۔ جس میں کرداروں کی زبان اپنے ماحول اور علاقے کی ترجمان ہے۔ یہ ایک ابو دادا نامی غنڈے کی کہانی ہے۔ ‎جس میں خامیوں کے ساتھ ساتھ چند خوبیاں بھی جمع ہو گئی ہیں۔ اس کا اصل کاروبار سود کا ہے اور حسن اس کی کمزوری ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ رحم دل بھی ہے۔ غریبوں کی مدد بھی کرتا ہے۔ اور جمعہ کے دن کوئی برا کام نہیں کرتا۔ ایک انگریز طالبہ ماریا برونٹ ابودادا سے سود پر پانچ ہزار روپئے لیتی ہے۔ ابودادا اس کے حسن کا دیوانہ ہے۔ پیسے ادا نہ کر پانے کی صورت میں ایک دن ماریا پیسوں کے عوض اپنے آپ کو یہ کہتے ہوئے ابودادا کے سامنے پیش کرتی ہے ’’ ہم انگریز کمیونٹی کبھی کسی کا احسان نہیں رکھتا۔‘‘ تب ابودادا کا ایمان بھی جوش مارنے لگتا ہے اور وہ کہتا ہے ’’ ماریا ہم مسلمان ہیں ۔۔۔۔ کلمہ گو ۔۔۔۔ کس چیز کی کیا قیمت ہوتی ہے۔ وہ ہم بھی جانتا ہے۔۔۔۔‘‘
افسانہ ’’بھور بھئی جاگو‘‘ کی شوٹنگ نورالحسین نے ریاست کیرالہ کے دیہات اندلور سے شروع کیں۔ اس کے بعد منگلور، کریم نگر، ایلورہ ہوتے ہوئے واپس اندلور پہنچ گئے۔ ہر مقام کے لحاظ سے منظر نگاری اور زبان و بیان کا انھوں نے پورا خیال رکھا ہے۔ کنجوپائتما (فاطمہ)، احمد علی اور کنجوپائتما کے والد افسانے کے اہم کردار ہیں۔ کنجوپائتما ایک پڑھی لکھی لڑکی ہے جو کیرالہ کے ایک دیہات اندلور سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ ماں کی ممتا سے محروم ہے۔ اس کے والد حکیم و عامل ہیں۔ افسانے کا دوسرا اہم کردار احمد علی آثار قدیمہ کا ملازم ہے۔ جو پہلی نظر میں ہی کنجوپائتما پر عاشق ہو جاتا ہے۔ افسانے میں شعور کی رو سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ کہانی کی شروعات رومانی انداز سے ہوتی ہے۔ اور اختتام مسلمانوں کے 73 فرقے ایک ہوجانے کی خواہش پر ہوتا ہے۔ نورالحسین مسلمانوں کے 73 فرقوں سے، مسلکی جھگڑوں سے اور اسلامی تہذیب و تمدن کے مٹتے ہوئے نقوش سے دکھی ہیں۔ وہ اسلام کے شاندار ماضی کی بازیافت چاہتے ہیں۔ ان کی افسانہ نگاری ایک بامقصد افسانہ نگاری ہے لیکن ان کا مقصد فن پر حاوی نہیں ہوتا ہے۔
’’گڑھی میں اترتی شام‘‘ 1948 کے پولیس ایکشن کے بعد حیدرآباد کے ماحول میں لکھا گیا افسانہ ہے۔ پولس ایکشن سے قبل شیروں کا شکار کرنے والے کریم الدین کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔ وہ تیتر باز ہیں۔ اور تیتروں کا شوق انھیں اس وقت ہوا جب پولس ایکشن میں ان کی بندوق چھین لی گئی تھی۔ کریم الدین کے علاوہ زمیندار فاطمہ خالہ، زمیندار کا پوتا خورشید، نائی کاشی ناتھ اور بوڑھا گھسٹری افسانے کے جیتے جاگتے کردار ہیں۔
پیپل کی چھئیاں مہاراشٹر کے ایک نہایت سخت گیر مذہبی برہمن خاندان کی کہانی ہے۔ جس میں مذہب کے غلط تصورات کے خلاف احتجاج و کشمکش افسانے کا نقطہ عروج ہے۔ پنڈت روی شاستری، ان کے دو بیٹے وجے شاستری اور اجے شاستری افسانے کے اہم کردار ہیں۔ جس میں وجے شاستری کٹر مذہبی روایات اور اندھے عقائد کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔ افسانے میں پیپل کی کونپل کو اکھاڑ پھینکنا اندھے عقائد ماننے سے انکار کرنے کی طرف اشارہ ہے۔
افسانہ ’’بیساکھیوں کے پر کھڑے لوگ‘‘ میں جذباتی و نفسیاتی الجھنوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ مادی خوشحالی اور روشن مستقبل کے لیے بچوں کو بیرون ملک بھیج دینا اور پھر ان گنت یادوں کے سہارے زندگی کے مشکل دن گزارنے والے لوگوں کی کہانی ہے۔ جس میں زندگی گھڑی کے پنڈولم میں قید ہو کر رہ گئی ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار حیدر ہے۔ جس کے جذبات و احساسات پورے افسانے پر چھائے ہوئے ہیں۔ بہترین طرزبیان اور فلسفیانہ رنگ نے افسانے کو شہکار بنا دیا ہے۔
آئیے اب دیکھتے ہیں نورالحسین کا فن اہل ادب کی نظر میں۔
ڈاکٹر قمر رئیس، دیلی ۔۔۔ آپ کے فنی روئیے میں خاصی تازگی اور تہہ داری ہے، اور بڑی بات یہ ہے کہ آپ ہم عصر زندگی کے جلتے ہوئے مسائل سے منحرف نہیں ہیں۔
جیلانی بانو، حیدرآباد ۔۔۔ آپ کے ہاں کہانی سنانے کا جو انداز ہے۔ وہ افسانے کے موضوع کی اہمیت بھی بڑھا دیتا ہے۔
نیر مسعود،لکھنو ۔۔۔ آپ کو کہانی بیان کرنے کا سلیقہ ہے۔
سلام بن رزاق، ممبئی ۔۔۔ ماضی کی بازیافت نورالحسین کے پسندیدہ موضوعات میں سے ہے۔
بشر نواز، اورنگ آباد ۔۔۔ اس کے ہاں کہانی بنتی ہے۔
شوکت حیات، پٹنہ ۔۔۔ 1970 کے بعد جدید افسانوں میں جن مثبت تبدیلیوں کی باتیں میں کرتا ہوں ان کی جھلکیاں آپ کی بعض کہانیوں میں ملتی ہیں۔
ڈاکٹر ارتضیٰ کریم، دہلی ۔۔۔ نورالحسین کا فن روشن امکانات کا حامل ہے۔ ان کے یہاں موضوعات میں تنوع اور مشاہدے کا عام فہم زبان میں اظہار ہے۔
نورالحسین کے افسانوں کے پلاٹ مربوط ہوتے ہیں۔ اور واقعات میں ترتیب ہوتی ہیں۔ وہ کہانی میں ماحول کی ہوبہو تصویر کھینچتے ہیں۔ افسانے کے موضوع کی مناسبت سے اسلوب کا انتخاب کرتے ہیں۔ افسانے میں اپنے نقطہ نظر کو زیادہ نمایاں ہونے نہیں دیتیں۔ آخر میں کوئی فیصلہ نہیں سناتے سب کچھ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں۔ کرداروں کو بڑی محنت سے گڑھتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں کے لیے ایک ماحول منتخب کرتے ہیں۔ پھر اس ماحول میں ان کرداروں کو بساتے ہیں۔ انہیں زندگی عطا کرتے ہیں۔ اور ماحول کے عین مطابق انھیں زبان عطا کرتے ہیں۔ ان کے کردار ملی جلی کیفیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جن میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں ایک تاثر ہوتی ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد قاری کے دل پر ایک کیفیت گزرتی ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری کی طرح نورالحسین بھی دھیمے لہجے سے افسانے کی شروعات کرتے ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے کشمکش اور اضطراب سر اٹھاتے ہیں اور ایک تجسّس پیدا کردیتے ہیں۔
بقول آل احمد سرور ’’راجندر سنگھ بیدی اینٹ پر اینٹ رکھ کر افسانہ تعمیر کرتے ہیں۔ ان کا ہر افسانہ تراشا ہوا ہیرا ہے۔‘‘ اور بقول کنہیا لال کپور ’’ راجندر سنگھ بیدی تھیم کا بادشاہ ہے۔‘‘ بس یہ دونوں قول مجھے نورالحسین کی افسانہ نگاری پر صادق نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ وہ افسانے نگاری کے بازیگر ہیں۔
( ناندورہ، مہاراشٹر)

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular