Saturday, May 11, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldنظیر اکبر آبادی کی شاعری میں جزئیات نگاری

نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں جزئیات نگاری

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر نورفاطمہ
  اسسٹنٹ پروفیسر
شاعری، جہاں انسان کے جذبات و احساسات کا نام ہے، وہیں جذبات و احساسات کو متحرک کرنے والے مظاہر کائنات بھی کسی شاعر کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ جب کبھی وہ کائنات کا مشاہدہ یا تجزیہ کرتا ہے تو اس کے ردّعمل میں ہی اس کے احساسات متحرک ہوتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ بھی اپنی جگہ شعری تصورات کو جنم دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جس شاعر کا مطالعۂ کائنات جتنا گہرا اور جزئیات پر حاوی ہوتا ہے اسی قدر اس کی شاعری میں کائنات اپنی تمام رنگارنگی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ الطاف حسین حالی نے مقدمہ شعروشاعری میں انگریزی کے رومانی شاعر ورڈس ورتھ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اکثر اپنے چمن میں جاکر پھولوں کے ایک ایک ٹکڑے کی تفصیلات اور ان کے نام معلوم کیا کرتا تھا، تاکہ ان کی جزئیات تک کو اپنی شاعری میں جگہ دے سکے۔
اردو کے کلاسیکی شاعروں میں اگر نظیراکبرآبادی کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک تو اپنے زمانے کے دوسرے شاعروں سے خاصے مختلف ہیں، دوسرے یہ کہ وہ اپنے زمانے کی مقبول ترین صنف سخن ’غزل‘ کے بجائے نظم گوئی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے کہ نظم کی شاعری میں اپنے خیالات کو تسلسل سے پیش کرنے کی گنجائش بھی ہوتی ہے اور اپنے موضوعات کی تمام جزئیات کو نمایاں کرنے کا امکان بھی ہوتا ہے۔ بظاہر نظیراکبر آبادی کی شاعری بہت عام انداز کی معلوم ہوتی ہے۔ ان کی پوری شاعری عوامی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ کیا محرکات و عوامل ہیں جن کی وجہ سے نظیر کی شاعری عام ہوتے ہوئے بھی خاص درجہ اختیار کرلیتی ہے۔ دراصل انہوںنے عوامی شاعری کو بھی دنیا کے سامنے ایک منفرد اور انوکھے لب و لہجہ میں بیان کرنے کی کوشش کی۔ ان کے مشاہدے میں غیرمعمولی گہرائی ہے۔ وہ اپنے زمانے کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اپنے گرد پھیلی ہوئی کائنات کو اس کی جزئیات کے ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیگر شعرا کے مقابلے میں ان کا اختصاص یہ ہے کہ وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ہیں اس کے بارے میں تمام تفصیلات ان کی دیکھی اور سوچی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ ان کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز مختلف اور جداگانہ ہے۔ ان کی شاعری میں انفرادیت کے بجائے اجتماعیت کی عمدہ تصویرکشی ملتی ہے۔ انہوںنے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا مطالعہ بہت باریک بینی سے کیا تھا اور اپنی شاعری کے ذریعہ دنیا کی تلخ و شیریں دونوں طرح کی حقیقتوں سے لوگوں کو روشناس کرایا تھا۔ آج یہ کوئی حیرت کی بات نہیں معلوم ہوتی کہ قدیم تذکرہ نگاروں نے نظیر کو عوامی یا بازاری شاعر قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ کسی نے ان پر فحاشی کا الزام لگایا، کسی نے نظیر کو اشرافیہ طبقے کے معیار سے گری ہوئی شاعری کرنے والا بتایا تھا۔ لیکن زمانے کے ارتقا اور شاعری کے بارے میں بدلتے ہوئے تصورات نے بالآخر اشرافیہ اور غیراشرافیہ کے فرق کو مٹا دیا اور وقت کے ساتھ نظیر اکبر آبادی کی عوامی اور اوسط درجے کی شاعری کا شمار اب اردو کے نمائندہ شعری نمونوں کے طورپر کیاجانے لگا ہے۔
جزئیات نگاری، نظیر کی شاعری کی سب سے اہم اور نمایاں خصوصیت ہے۔ جن موضوعات کو دوسرے شعرا معمولی اور سطحی سمجھ کر نظرانداز کردیا کرتے تھے، نظیر نے انھیں معمولی چیزوں پر نہ صرف یہ کہ خاص توجہ صرف کی بلکہ ان کو اپنی شاعری کا مستقل موضوع بنایا۔ اس طریقۂ کار سے ان کی وسعت نظر اور گہرے مشاہدے کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کا ذکر کچھ اس انداز سے کرتے ہیںکہ پڑھنے والا حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور ان کے مشاہدے کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ وہ حیران رہ جاتا ہے کہ نظیر کے اندر وہ کون سی صلاحیت ہے جو اس کی رسائی اپنے موضوع کی تمام جزئیات اور تفصیلات تک کرا دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں جزئیات نگاری کے عمدہ نمونے کثرت سے ملتے ہیں۔ خواہ وہ خوشی کا موقع ہو یا غم کا، بہار کے منظر کا بیان ہو یا خزاں کا، کسی تہوار کا ذکر ہو یا پھر کسی مذہب کا، ان سب موضوعات پر نظیر کے یہاں جزئیات نگاری کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ انہوںنے اپنی شاعری میں جزئیات نگاری کو فطرت سے ہم آہنگ کرکے پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی منظرکشی میں بھی جزئیات نگاری کی کثرت ہے۔ مثال کے طورپر ان کی نظم ’’ہولی‘‘ کے اشعار پیش کیے جاسکتے ہیں۔ انہوںنے ہولی پر تقریباً دس نظمیں لکھیں۔ اتفاق سے ہر نظم میں جزئیات نگاری کے ساتھ منظرنگاری انتہائے کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ سرسری نگاہ ڈالنے والے یہی جانتے ہیںکہ ہولی ہندوؤں کا تہوار ہے۔ اس رات کو آگ جلائی جاتی ہے اور صبح کو رنگ کھیلا جاتا ہے، مگر جب نظیر ہولی کا بیان کرتے ہیں تو اس پر ایک منفرد اور انوکھے انداز میں روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کی نگاہیں مناظر کی ایسی باریکیوں تک پہنچ جاتی ہیں جن کو شاید دیکھتے تو سبھی لوگ ہیں مگر ان کو اہمیت نہیں دیتے۔ اس رویّے سے پتہ چلتا ہے کہ نظیراکبرآبادی کائنات کی ہرچیز اور ہر مظہر کو خدا کا کتنا بڑا عطیہ سمجھتے ہیں۔ بعض نمونے یہاں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
یا سوانگ کہوں یا رنگ کہوں یا حسن بتاؤں ہولی کا
سب ابرن تن پر جھمک رہا اور کیسر کا ماتھے ٹیکا
ابرن یعنی گہنوں کا تن پر جھمکنا اور ماتھے پر کیسر کا ٹیکا لگانا یہ ایسی باتیں ہیں جنہیں ہم لوگ دیکھتے تو ضرور ہیں مگر اکثر ان کو قابل ذکر نہیں شمار کرتے۔ جب کہ نظیر کے نزدیک ہر منظر اور ہرطرح کی جزئیات اپنی کوئی نہ کوئی معنویت ضرور رکھتی ہے۔
کچھ طبلے کھٹکے تال بجے کچھ ڈھولک اور مردنگ بجی
کچھ چھیڑیں بین رُبابوں کی کچھ سارنگی اور چنگ بجی
کچھ تار طنبوروں کے جھنکے کچھ ڈھمڈھمی اور منھ چنگ بجی
کچھ گھنگھرو کھٹکے جھم جھم جھم کچھ گت گت پر آہنگ بجی
کہیں ہوتی دھینگا مشتی ہے کہیں ٹھہرا کھنچا تانی ہے
کہیں لٹیاں جھمکتی رنگ بھری کہیں جوتا کیچڑ پانی ہے
ہولی میں گانا بجانا ہوتا ہے یہ تو سب جانتے ہیں مگر نظیر یہاں بھی عمدہ جزئیات نگاری سے کام لیتے ہیں۔ وہ صرف یہ بتانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے کہ ہولی میں صرف گانا بجانا ہوتا ہے بلکہ وہ ان تمام سازوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جو ہولی کے موقع پر خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ نظیراکبر آبادی کا یہ انداز نظر ایک طرح ہماری سوسائٹی اور ہماری زبان کے تہذیبی مرقع کو ریکارڈ کرنے میں بھی مدد دیتا ہے اور ان کی مشاہدے کی قوت کے ساتھ انفرادیت کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ پہلے شعر میں طبلہ، ڈھولک اور مردنگ کا ذکر ہے جو طبلہ کی طرح بجائی جاتی ہے۔ رباب، سارنگی اور چنگ (جوکہ ستار کی طرح ہوتا ہے) کے صوتی آہنگ سے اور دوسرے شعر میں طنبورہ یعنی تان پورہ کے تاروں کے جھنکنے کی آواز ڈھمڈھمی یعنی ڈفلی اور گھنگھرو کی جھم جھم اور گت گت کی صوتی تکرار کے ذریعہ مشترک انداز کا آہنگ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان چھوٹی چھوٹی جزئیات کے بیان کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے تھے اس پر انھیں مکمل عبور حاصل ہے۔ اسی طرح تیسرے شعر میں کہا گیا ہے کہ ہولی میں رنگ بھری پچکاریوں کا استعمال تو سبھی کرتے ہیں مگر جب رنگ سے کام نہیں چلتا تو بات دھینگامشتی اور کھینچاتانی پر اتر آتی ہے اور رنگ بھری لٹیاں لنڈھائی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ کیچڑ اور مٹی کے استعمال سے بھی پرہیز نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک ایسا جیتا جاگتا منظرنامہ ہے کہ ہرچیز ہماری آنکھوں کے سامنے متحرک نظر آنے لگتی ہے۔
شاعری میں جزئیات نگاری کے لیے الفاظ کا انتخاب اور صوتی آہنگ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ جب تک شاعر الفاظ کے مناسب ترین انتخاب اور ان کے انفرادی استعمال سے واقف نہیں ہوگا تب تک وہ اچھی شعری مصوری نہیں کرسکتا۔ اس لیے جب نظیر کسی بھی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو پہلے اس سے متعلق معمولی سے معمولی تفصیلات پر غور کرتے ہیں اور ان جزئیات اور تفصیلات پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے مناسب ذخیرۂ الفاط کو اپنے اظہار کا وسیلہ بناتے ہیں۔ نظیر کے کلام میں جزئیات نگاری کی دو جہتیں بہت نمایاں ہیں۔ ایک تو وہ انسان کے وجود اور اس کے متعلق تفصیلات اور انسانوں کے ہجوم میں شخصی خصوصیات اور انفرادی پہچان کا تعین کرتے ہیں اور دوسری طرف انسان ، مشاہدۂ کائنات کے ذریعہ جن جن جزئیات سے اثر قبول کرتا ہے، ان کائناتی مظاہر کی تفصیل کو بھی کبھی اپنی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ موسم کی تبدیلی، وقت کی تبدیلی، مناظر قدرت کا تنوع، جیسی تمام چیزیں ان کے کلام میں الگ الگ کرکے دیکھی اور پہچانی جاسکتی ہیں۔ ان کی جزئیات نگاری کہیں منظرنگاری بن جاتی ہے، کہیں تصویر کشی کا گمان گزرتا ہے اور کہیں عقل کو حیران کردینے والی صورت حال ان کے یہاں نمایاں ہوتی رہتی ہے۔ اس ضمن میں برسات کے موضوع پر ان کی متعدد نظمیں ہیں جن کی جزئیات نگاری خاص اہمیت رکھتی ہے۔ مثلاً برسات اور پھسلن، برسات کا تماشا، بہار، بر سات کی بہاریں، جاڑے کی بہاریں وغیرہ نظمیںبہت اہم اور مقبول ہیں۔ نظم ’’برسات کی بہاریں‘‘ کامیاب اور متنوع تصویروں سے بھری پڑی ہے۔ یہ نظم چلتی پھرتی تصویروں کا ایک نگارخانہ ہے۔ مثال کے طورپر یہ اشعار دیکھئے جن میں پانی کے زور کو انوکھے اور اچھوتے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
کوئی پکارتا ہے لو یہ مکان ٹپکا
گرتی ہے چھت کی مٹی اور سائبان ٹپکا
چھلنی ہوئی اٹاری کو ٹھا ندان ٹپکا
باقی تھا اک اُسارا سو وہ بھی آن ٹپکا
کیا کیا مچی ہیں یاروں برسات کی بہاریں
برسات سے جس طرح مکانات پناہ مانگتے ہیں، یہ بات تو سبھی کو معلوم ہے اور عجب نہیں ہے کہ کسی نے برسات میں مکانوں کے گرنے کا ذکر بھی کیا ہو۔ نظیر، مکان کے گرنے کو کوئی نئی بات تو تصور نہیں کرتے مگر اس کے ایک ایک جزو کو نشان زد کرکے اپنے بیان کو سب سے الگ اور اتنا زوردار بنا دیتے ہیںکہ یہ کیفیت کسی اور شاعر کے یہاں تلاش کرنی مشکل معلوم ہوتی ہے۔ اس نظم میں ایک طرف تو برسات کے نتیجے میں مکان کے ٹپکنے کا ذکر ہے، پھر آگے چل کر کیچڑ کا یہ عالم دکھایا گیا ہے کہ آنکھوں کے سامنے کیچڑ سے متاثر زمین، انسان کی بے بسی، لوگوں کا پھسلنا، گندگی کی افراط وغیرہ کی نہایت متحرک تصویریں اس طرح  آجاتی ہیں کہ ناپسندیدہ منظر بھی دلچسپ اور قابل توجہ بن جاتا ہے۔
گر کر کسی کے کپڑے دلدل میں ہیں معطر
پھسلا کوئی، کسی کا کیچڑ میں منہ گیا بھر
اک دو نہیں پھسلتے کچھ اس میں آن اکثر
ہوتے ہیں سینکڑوں کے سر نیچے پاؤں اوپر
کیا کیا مچی ہیں یاروں برسات کی بہاریں
کتنے تو کیچڑوں کی دلدل میں پھنس رہے ہیں
کپڑے تمام گندی دلدل میں بس رہے ہیں
کتنے اٹھے ہیں مرمر کتنے اکس رہے ہیں
وہ دکھ میں پھنس رہے ہیں اور لوگ ہنس رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یاروں برسات کی بہاریں
اہم بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا بند میں برسات کا اگر منفی اور پریشان کن منظر سامنے آتا ہے تو بعد کے بند میں برسات کے موسم کی خوش گواری اور موسم کے معتدل ہوجانے کے سبب جو خوشی اور مسرت کا ماحول بن جاتا ہے اس پر بھی نظیر کی نگاہ رہتی ہے۔ یہ نظیر کی ایسی خصوصیت ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی جزئیات نگاری میں دنیا میں پائے جانے والے تضادات کو بھی ضرور نمایاں کردیتے ہیں۔ وہ منظر کی مناسبت سے اس طرح لفظوں کا استعمال کرتے ہیں کہ لفظوں کے اتار چڑھاؤ اور موسیقیت اور مترنم الفاظ کے استعمال سے قاری کی آنکھوں کے سامنے نہ صرف خوشی کا منظر پیش کردیتے ہیں، بلکہ شاعرانہ حسن کاری کا بھی ثبوت دیتے ہیں۔
کتنے شراب پی کر ہو مست چھک رہے ہیں
مے کی گلابی آگے، پیالے چھلک رہے ہیں
ہوتا ہے ناچ گھر گھر، گھنگھرو جھنک رہے ہیں
پڑتا ہے مینہ جھڑاجھڑ طبلے کھڑک رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یاروں برسات کی بہاریں
یوں تو یہ نظم بہت طویل ہے تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایک ہی موضوع پر نظیرنے کیا کیا پہلو نکالے ہیں۔ اس نظم میں جگہ جگہ اپنے وطن کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں اور مختلف قسم کی صورت حال کو مختلف الفاظ اور تراکیب کے ذریعہ بیان کیاگیا ہے۔ برسات کے نتیجے میں پیش آنے والی ہر تصویر میں حقیقت کی جھلک ملتی ہے اور کوئی بھی تصویر مصنوعی نہیں معلوم ہوتی۔ دراصل نظیر حددرجہ حقیقت نگار شاعر تھے۔ جو چیزیں وہ اپنے گردوپیش میں دیکھتے تھے اس میں مشاہدے کی باریکی سے نت نئے گوشے پیدا کرلیا کرتے تھے۔
ان کی جزئیات نگاری کے فن کا بہترین نمونہ ان کی نظم ’’پری کا سراپا‘‘ ہے۔ اس نظم جیسی دوسری مثال اردو  شاعری میں مشکل سے ملے گی۔ یہ نظم جمالیاتی نقطۂ نظر سے بھی بہت اہم ہے۔ اس نظم میں پری کے پردے میں عورت کی فطرت کے بہت سے نکات بھی سامنے لائے گئے ہیں۔ عورتوں کے حسن اور نازو ادا سے لے کر زیورات اور لباس تک کے استعمال میں چھوٹی چھوٹی جزئیات کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا ہے۔ مثال کے طورپر الگ الگ بند سے چند اشعار ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں    ؎
خونریز کرشمہ، ناز و ستم، غمزوں کی جھکاوٹ ویسی ہے
مژگاں کی سناں، نظروں کی انی، ابرو کی کھچاوٹ ویسی ہے
بیدرد ستم گر بے پروا بے کل چنچل چٹکیلی سی
دل سخت قیامت پتھر سا اور باتیں نرم رسیلی سی
چہرے پر حسن کی گرمی سے ہر آن چمکتے موتی سے
خوش رنگ پسینے کی بوندیں، سو بار جھمکتے موتی سے
وہ کافر دھج جی دیکھ جسے سو بار قیامت کا لرزے
پازیب، کڑے، پایل، گھنگھرو، کڑیا، چھڑیاں، گجرے توڑے
نظموں کے ساتھ ساتھ نظیراکبر آبادی کی غزلوں میں بھی جزئیات نگاری کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ جزئیات نگاری کے عمل میں جس طرح زبان پر قدرت اور ذخیرۂ الفاظ پر دسترس کا ذکر کیا گیا ہے، اسی طرح چیزوں کی تفصیلات اور مظاہر فطرت سے متعلق معلومات بھی لازمی ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں مولانا عبدالباری آسی لکھتے ہیںکہ:
’’نظیر جس چیز کا ذکر کرتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تمام متعلقات اور ضروری ضروری چیزیں اس کے گردوپیش کھڑی ہوئی ہیں اور وہ ان کو دیکھ دیکھ کر اشعار میں نظم کرتا جاتا ہے۔‘‘
(نظیرنامہ۔ ص:۴۶-۴۷)
ذخیرۂ الفاظ پر قدرت کا سب سے بڑا نتیجہ ان کا زور بیان ہے۔ چنانچہ اپنے زوربیان اور ذخیرۂ الفاظ سے انہوںنے جس نقاشی سے کام لیا ہے اس کو جزئیات نگاری کا اعلیٰ نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
وہ عارض اور جبیں تاباں کہ ہوں دیکھ اس کو شرمندہ
قمر، خورشید، زہرہ، شمع، شعلہ، مشتری، مشعل
نزاکت اور لطافت وہ کفِ پا تک کہ حیراں ہوں
سمن، گل لالہ، نسرین، نسترن، دُر، پرنیاں، مخمل
نظیر کا کمال یہ ہے کہ وہ جس منظر کی تصویر کھینچتے ہیںاس کا پورا سماں آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ہولی ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ گذشتہ صفحات میں ہولی سے متعلق ان کی نظم کا تذکرہ آچکا ہے۔ اب ہولی پر نظیر کی یہ غزل ملاحظہ فرمائیے جس سے ان کی رنگِ ظرافت کا پتہ چلتا ہے۔ یہاں یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ نظیر کی غزلیں عموماً مسلسل ہوتی ہیں اور ان کی کیفیت نظموں ہی جیسی ہوجاتی ہے۔
ہولی کی رنگ فشانی سے ہے رنگ یہ کچھ پیراہن کا
جو رنگارنگ بہاروں میں ہو صحن چمن اور گلشن کا
ہے روپ عبیروں کا مہوش اور رنگ گلالوں کا گلگوں
ہیں بھرنے جس میں رنگ بنا ہے رنگ عجیب اس برتن کا
جن شاعروں کو مکمل طورپر جزئیات نگاری پر عبور حاصل ہوتا ہے وہ قدرتی طورپر فنی خوبیوں کو زیادہ کامیابی سے استعمال کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ مگر نظیر کے نقادوں نے عام طورپر ان کے شاعرانہ محاسن کا کم ذکر کیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نظیر شعوری طورپر تو محاسنِ کلام کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے، مگر فطری انداز کے محاسنِ شاعری ان کے یہاں اپنے آپ پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طورپر ذیل کے اشعار میں تشبیہوں کی ندرت دیکھی جاسکتی ہے    ؎
منھ چاند کا ٹکڑا ہے بدن چاندنی کی تختی
دنداں ہیں گہر، ہونٹ عقیق یمنی ہے
بلور کی پتلی کہوں یا موتی کا دانہ
یا چین میں اک چینی کی مورت یہ بنی ہے
ان تمام اشعار میں شعری محاسن کے استعمال میں نزاکت خیال اپنی انتہا پر ہے۔ نظیر کی مصوری اور نزاکت خیال کے ساتھ ان کا شعری آہنگ اتنا قوی ہے کہ وہ معمولی چیزوں میں بھی جان پیدا کردیتا ہے۔
اس کے علاوہ نظیر کی متعدد نظمیں ایسی ہیں جن سے ان کے مشاہدہ فطرت اور تجزیہ نگاری کا ثبوت ملتا ہے۔ انہوںنے اپنی شاعری میں الفاظ کے ذریعہ پیکرتراشی اور امیجری کی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ شاعری کا ایک اہم جزو امیجری یا مصوری ہے۔ اس کے بغیر اعلیٰ شاعری وجود میں نہیں آسکتی۔ وہ حرکت اور آوازوں کے صوتی آہنگ سے بھی اپنی شعری تصویروں میں زندگی کی نئی لہر دوڑا دیتے ہیں۔ نظم ’’روپے کی فلاسفی‘‘ کا یہ بند ملاحظہ ہو    ؎
نقشا ہے عیاں سو طرب و رقص کی رے کا
ہے ربط بہم طبلۂ و سارنگی و نے کا
چھنکار مجیروں کی ہے اور شور ہے لے کا
مینا کی جھلک، جام ادھر جھلکے ہے مے کا
جھمکا نظر آتا ہے ہر اک عیش کی شے کا
دنیا میں عجب روپ جھلکتا ہے روپے کا
پہلے شعر میں طرب و رقص کی رعایت سے ’طبلہ‘، ’سارنگی‘ اور ’نے‘ کا استعمال ہے تو دوسرے شعر میں مجیر کی مناسبت سے چھنکار اور شور کا ذکر ہے تو دوسری طرف شراب، جام اور مینا کے چھلکنے کے تلازمات کے استعمال سے نظیر نے ایک نیا ماحول پیدا کردیاہے۔
ان کی نظم ’’جھونپڑا‘‘ بھی حسب معمول تفصیل اور جزئیات نگاری سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں کوئی پُرامید منظر تو نہیں مگر اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ نظیر دولت اور غربت یا نشیب اور فرازسے متعلق دونوں پہلوؤں کو کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔
یہ تن جو ہے ہر اک کے اتارے کا جھونپڑا
اس میں ہے اب بھی سب کے سہارے کا جھونپڑا
اس سے ہے بادشاہ کے نظارے کا جھونپڑا
اس میں ہی ہے فقیر بچارے کا جھونپڑا
اپنا نہ مول کا نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے، دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس نظم میں انسانی مساوات کے ذکر کے ساتھ ساتھ جزئیات نگاری سے بھی پوری طرح کام لیا گیا ہے۔ اس جھونپڑے میں بھولے بھالے، سیانے، ہوشیار اور دیوانے ہیں، اسی میں اپنے اور بیگانے ہیں، اسی میں عشق و محبت کرنے والوں کی گزر ہے، اور اسی میں شوخ چاند ستاروں کا مقام ہے۔ اسی میںدوست اور پیارے ،اہل دولت، منعم، امیر بھی ہیں اور اسی میں سارے جہاں کے فقیر بھی بستے ہیں۔ نظم کے اختتام پر پتہ چلتا ہے کہ شاہ، وزیر، چور، ٹھگ، کوتوال، پارسا، رند، وکیل، بخشی وغیرہ سب اسی جھونپڑے کے مکین ہیں۔ دیکھا جائے تو نظم میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے، مگر انہوںنے انسانی مساوات کے اس بنیادی پہلو کو جس طرح دیکھا ہے وہ اردو شاعری کے افق پر اس سے پہلے نظر نہیں آتا۔ نظیر نے طرح طرح کے موضوعات کی جزئیات اور تفصیل اتنی کثرت کے ساتھ پیش کی ہیں کہ بقول بعض نقادوں کے ان کی شاعری کا بدل زندگی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ان مختلف النوع موضوعات اور ان کی جزئیات نگاری کے لیے ان کے یہاں الفاظ کا ذخیرہ بھی اتنا ہے کہ مولانا الطاف حسین حالی جیسے نکتہ رس نقاد بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ اس ضمن میں نظیرؔ، میر انیسؔ سے بھی بازی لے گئے ہیں۔ یوں تو کلیم الدین احمدنے بھی ان کی شاعری میں جزئیات نگاری کی تعریف کی ہے، مگر ان کا کہنا ہے کہ کہیںکہیں ان کے یہاں جزئیات نگاری اتنی بڑھ جاتی ہے کہ شاعری مجروح ہوجاتی ہے اور شعریت میں کمی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ:
’’ان کی ہر نظم بوقلموں جذبات و خیالات کا گلدستہ ہے۔ وہ اجمال کے عوض تفصیل سے کام لیتے ہیں۔ جزئیات کا خیال رکھتے ہیں بلکہ جزئیات کی نقاشی میں ایک خاص لطف محسوس کرتے ہیں، اور اس کا انھیں اچھا ملکہ ہے۔ لیکن کبھی کبھی وہ جزئیات میں اس قدر منہمک ہوجاتے ہیںکہ مکمل نظم کے حسن کو بھول جاتے ہیں۔‘‘ (اردو شاعری پر ایک نظر۔ ص:۴۵۲)
شاعرانہ منظرنگاری کرنے میں جزئیات سے سروکار رکھنا لازمی معلوم ہوتا ہے مگر نظیر کا امتیاز یہ ہے کہ معاملہ منظرنگاری کا ہو یا جذبات نگاری کا، وہ حکمت اور تصوف کے موضوع پر اظہار خیال کریں یا عشق و محبت کے معاملات پر شعرلکھیں۔ زندگی کے ہرپہلو پر اپنی جزئیات نگاری کا کمال ضرور دکھاتے ہیں۔ زندگی کے روشن پہلوؤں کے ساتھ تاریک پہلو بھی ان کی پہنچ سے باہر نہیں معلوم ہوتے اور وہ ہر رنگ، روپ اور ہر موضوع پر اس طرح نکتہ رسی اور جزئیات نگاری کے عمدہ نمونے پیش کردیتے ہیںکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جزئیات نگاری ہی ان کا سب سے بڑا شاعرانہ امتیاز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ڈاکٹرنور فاطمہ
                                                             اسسٹنٹ پروفیسر
      شعبۂ اردو ،مانو
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular