Monday, May 13, 2024
spot_img
HomeMuslim World’میک ان انڈیا ‘یا ’ریپ ان انڈیا‘

’میک ان انڈیا ‘یا ’ریپ ان انڈیا‘

ڈاکٹرزین شمسی

اپنی پانچ سالہ بیٹی کو گود میں بٹھاکر میں ’’آصفہ‘‘ کے ساتھ ہوئے وحشیانہ سلوک کی خبر سن رہا تھا۔ پہلی بات جو میرے دماغ میں آئی، وہ یہ تھی کہ میری بیٹی بھی تو اسی سماج کا حصہ ہے ،اسی گلستاں کا پھول ہے، جہاں آج کل نفرتوں کا گہرا سایہ بچوں تک پہنچ چکا ہے۔ بیٹی کی طرف دیکھ کر کلیجہ پھٹنے لگا۔ جس ملک میں 8 سال کی بچی کے جسم کو نوچ نوچ کر کھانے والے درندے موجود ہیں،کیاوہ ملک بیٹیاں پیدا کرنے کے قابل ہے؟
گوتم نےگمبھیر بات کہی کہ’بیٹی بچائو‘ کا قول اب زانی بچائو‘ کے فعل میں تبدیل ہو چکا ہے۔
لیڈروں نے پہلے کریمنل کا ساتھ لیا اور اب ریپسٹ کا ساتھ لے کر معصوم بچی کی مردہ لاش پر سیاست کر رہے ہیں۔
عصمت دری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسی وحشیانہ حرکتیں ہوتی ہیں ، لیکن واردات کے دوران اور بعد میں پولیس، وکلا اور سیاسی بھیڑنے جو کچھ کیا، وہ شرمناک ہی نہیں بلکہ بھارت جیسے ملک کے لئے خطرناک بھی ہے۔
انائو میں ریپ کرنے والا بی جے پی ایم ایل اے مسکرا کر کہہ رہا ہے کہ کوئی تین بچوں کی ماں کے ساتھ ریپ کر سکتا ہے۔ متاثرہ انصاف کے لیے یوگی جی کے گھر کے سامنے خودکشی کی کوشش کی کرتی ہے اور اسے انصاف کی جگہ اس کے باپ کی لاش تھما دی جاتی ہے۔
جموں میں بھگوان بھی شرمندہ ہے کہ اس کے مندر میں گھنائونا کھیل کھیلا گیا۔ تمام مشینری زناکار کے ساتھ کھڑی رہی ۔ حتیٰ کہ مری ہوئی بچی کو پھینکنے سے پہلے ایک پولیس والا کہتا ہے کہ ’ وہ ایک بار اور مزہ لینا چاہتا ہے‘۔ یہ نفرت کی انتہا ہی نہیں ہے بلکہ انسانیت کی وہ نچلی سطح ہے کہ جس پر افسوس بھی نہیں کیا جا سکتا۔’آصفہ‘ کے ساتھ ہونے والا ریپ محض ہوس پرستی تو قطعی نہیں ہے۔8 سال کی اس معصوم بچی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے حیوانیت کہنا بھی حیوان کو ذلیل کرنے جیسا ہوگا۔ یہ ایک خاص کمینوٹی کے خلاف نفرت کا منتہائے عروج ہے۔
ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ ریپسٹ کی حمایت میں بھیڑ دکھائی دے رہی ہو۔ انائو میں ایس آئی ٹی کو روکنے کے لیے نفرت کے ٹھیکیداروں نے بھیڑ اکٹھی کی اور جموں میں ایف آئی آر درج کرانے پہنچی پولیس کو بھیڑ سے مزاحمت کرنے میں 6گھنٹے لگے۔ آخر ہم کس دیش میں رہتے ہیں۔ یہ دیش کہاں جا رہا ہے۔
پہلے خواتین اور اب بچے۔ کل تک ہم خواتین تحفظ بل کے لیے لڑ رہے تھے، لیکن کیا اب اطفال سلامتی قانون کو ریویو کرنے پر بھی بحث چھیڑیں گے؟
صدیوں سے یہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ دہلی گینگ ریپ کے بعد جو ماحول بنا تھا، اس سے لگا تھا کہ شاید کچھ تبدیلی آئے گی لیکن یہ امید بے معنی ثابت ہوئی۔ بچے ہمیشہ سے سافٹ ٹارگیٹ رہے ہیں، لیکن اب جب خواتین نے بھی ظلم اور استحصال کے خلاف آواز اٹھا دی ہے، وہ اپنے حق کے لیے کھڑی ہونے لگی ہیں، تو بچوں پر آ گئے۔
اب کیا ہم بچوں کو بھی ان کے بچپن میں یہ سکھانے بیٹھیں گے کہ بیٹا تمہیں کوئی یہاں چھوئے، تو یہ پیپر اسپرے جو تمہارے بیگ میں رکھا ہے، اسے اس کی آنکھوں میں جھونک دینا؟ یا پھر ہم معصوم سی بچی کو یہ سکھائیں گے کہ ’گڈ ٹچ‘ کیا ہوتا ہے اور ’بیڈ ٹچ‘ کیا ہوتا ہے ؟ اوف آخر یہ کیسی خاموشی ہے؟ جب بھی ہم اس طرح کی زیادتیوں پر بات کرتے ہیں تو بات صرف اور صرف سیکس پر آکر مرکوزہو جاتی ہے، لیکن سیکس کیا کسی بچی کے جسم کو کچل دینے کا نام ہے؟ قصور دراصل ذہنیت میں ہے۔ سیکس کرنا، کاٹنا، نوچنا، کھسوٹنا ہوس کا نتیجہ ہو سکتا ہے، لیکن ’نربھیا ‘کے پیٹ میں راڈ ڈالنا، گڑیاکے عضوخاص میں شیشی اور موم بتیاں ڈال دینا، آصفہ کے مردہ جسم کے ساتھ زنا کرنا یہ کیا ہے؟۔میں اسے ہوس پرستی نہیں سمجھتا۔ دوسروں کو پریشان کرنے میں ملنے والی خوشی ہی اس کی وجہ ہے۔
عصمت دری روکنے کے لیے کوئی برقع پہنانے کا مشورہ دے گا، تو کوئی سلائی دار کپڑے پہنانے کا، لیکن اس معاشرے کی اصلاح کا طریقہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ سماج بنتا ہے کردار سے، سماجی طرز عمل سکھانے سے، اس ادب کو پڑھانے سے جو متاثرین کے ذہنی تنائو کی عکاسی کرتا ہو۔ پریم چند ، بھرت ہری اور اقبال کو پڑھنے والا شاید ہی کسی غریب یا دلت سے بدسلوکی کر سکتا ہے۔ لیکن یہاں تو ادب کیا تاریخ کو توڑنے مروڑنے والی سرکار بیٹھی ہے۔کل ملا کر اس ملک میں سب نے اپنے بنیادی اقدار کو چھوڑ دیا ہے۔خواہ لیڈران ہوں، خواہ انتظامی افسر ان ہوں،پولیس ہوں یا درندہ بن چکی بھیڑ ہو یا پھر اس ملک کے شہری اور جس ملک میں اقدار پر عمل نہ ہو، اس ملک میں بیٹی پیدا کرنا کوئی عقلمندی کا کام تو نہیں ہی کہا جا سکتا۔
پھانسی دینے سے کیا اس کا علاج ہو جائے گا؟ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ پہلے رام سنگھ کے لیے پھانسی مانگی، پھر گڑیا کے درندے کے لیے پھانسی کا مطالبہ کیا، اب آصفہ کے لیے بھی یہی کر رہے ہیں، لیکن کیا انہیں پھانسی دینے سے معاشرے کو صحیح سمت مل جائے گی؟ کیا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟
خوفزدہ ہوں اور کیوں نہ ہوں کہ آخر میں بھی تو بیٹی کا باپ ہوں اور روزانہ ایک بیٹی کو بے آبرو ہوتے ہوئے سنتا ہوں؟ خدا نہ کرے کل میری بیٹی بھی ان نیوز چینلوں کی ہیڈلائنس بن جائے۔ کیسے بچائوں اپنی بیٹی کو ایسی ہیڈلائن بننے سے؟ سوچا تو یہی تھا کہ بیٹی تو مجھے بھی چاہیے، وہ بھی ایسی کہ ’جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن میں زینت ‘ لیکن آج جب چمن میںبیٹی آئی تو پورا چمنستان ہی خاروں میں لپٹا نظر آرہا ہے۔ کس کے بھروسے کوئی بیٹی کو جنم دے؟ گھر سے باہر نکلی ’نربھیا‘ کے ساتھ جب دہلی کی سڑکوں پر درندگی کا کھیل کھیلا گیا، تو سوچا کہ اپنی بیٹی کو گھر میں ہی محفوظ رکھ کر بڑا کر لوں گا، لیکن جب گاندھی نگر میں پانچ سال کی ’گڑیا ‘کے ساتھ ہوئی درندگی کے بارے میں نیوز دیکھی، تو سب سے پہلے یہی خیال آیا کہ گھر میں بھی محفوظ نہیں ہے میری بیٹی۔آصفہ کے ساتھ ہوئی درندگی دیکھی تو خوف سے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔آپ ہی بتائیں کس طرح محفوظ رکھیں اپنی بیٹی کو؟ پولیس کے پاس جائیں؟ کیا اس کے ساتھ چوبیس گھنٹے دو باڈی گارڈ رکھیں، ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے، جو ہر والدین کوکچوکے لگا رہا ہے۔
چلئے آپ کی بات یہ بھی مان لی کہ اسے کسی دوست کے گھر نہیں بھیجوں گا، اس کو اسکول – کالج خود لینے جاؤںگا، لیکن صرف اس خوف سے کہ کہیں میری بیٹی بھی ’’آصفہ‘‘ نہ بن جائے، میں اس کی آزادی ختم کر دوں؟ اور اس کے ساتھ سائے کی طرح رہوں؟ یا پھر اس دنیا سے ایسے درندے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارنا شروع کر دوں، یہ سب کوری باتیں ہیں، جیسے حکومت بیٹیوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتی، ویسے ہی ہم ماں باپ بھی آج لاچار ہیں اپنی بیٹیوں کی حفاظت کے تعلق سے۔
مجھے لگتا ہے کہ جرم میں تیزی تبھی آتی ہے، جب مجرموں کو یہ یقین ہوتاہے کہ اسے سزا نہیں ہوگی اور اگر ہوگی بھی توابھی نہیں ہوگی۔عدلیہ اور پولیس کا نظام ایسا ہے کہ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ سب کچھ مینج ہو جائے گا۔آج لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسے مجرموں کو سر عام پھانسی دی جائے تاکہ لوگوں کو جرم کرنے کی جرآت نہ ہو۔اسلامی قانون بھی یہی کہتا ہے کہ ایسے مجرموں کو سنگسار کر دیا جائے۔کیا یہ قانون نافذ کرنے کی ہمت ہمارا ملک دکھائے گا۔
دھوپ اب تو آن پہنچی جھاڑیوں کے اندر بھی
اب پناہ لینے کو تیرگی کدھر جائے

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular