Tuesday, April 30, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمکاتیب ِ شبلی میں موضوعاتی تنوع

مکاتیب ِ شبلی میں موضوعاتی تنوع

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

مہتاب عالم فیضانیؔ 
مکتوبات تاریخِ ادب اور خاص کر نثری ادب کا ایک اہم حصہ ہے۔ اردو ادب میں مکتوبات کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ اس کے ذریعے اردو ادب کے غیر افسانوی ادب میں سے کچھ صنفوں کو تقویت کے ساتھ پیش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ خطوط کی اہمیت اس معنی میں بھی زیادہ ہے کہ دوسروں کی ذاتی زندگی میں جھانکنا انسان کا محبوب مشغلہ ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ بہر حال اردو ادب میں مکاتیب و خطوط کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
خطوط کے ابتدا کی بات کی جائے تو ہم وہاں سے مان سکتے ہیں جہاں سے انسان نے لکھنا پڑھناشروع کیا اور پھر باہمی رابطے کے لیے اس نے ایک دوسرے کو پیغامات لکھنے شروع کیے قطع نظر اس سے کہ لکھنے کے لیے کن آلات کا استعمالکیا جاتاتھا۔زمانہ گزرتاگیا اور بہت سی چیزیںانسان کے لاشعور سے شعور میں آئیںاوروہ ترقی کرتا گیا۔اس طرح گردشِ زماں ومکاں کے ساتھ باقاعدہ خطوط نگاری کا سلسلہ شروع ہوا۔خطو ط تو بہت ہی قدیم زمانے سے لکھے جارہے ہیں لیکن جہاں تک ادبی خطوط کی بات ہے تو تقریباً اُدبا کی یہی رائے ہے کہ اردو زبان میں مکتوب نگاری کو بطور صنفِ ادب متعارف کرانے والے اردو کی شاہکار داستان’’فسانہ ٔعجائب‘‘ کے مصنف’’مرزا رجب علی بیگ سرور‘‘ ہیں۔اردو ادبی خطو ط کا سہرا سر ور کے سر ضرور جاتا ہے لیکن اس کے باوجو د یہ کہنا بجا ہوگا کہ سرور کے یہ خطوط اسلوب کی چاشنی اور ان موضوعاتی تنوع سے خالی ہیں جو غالب اور ان کے بعد کے خطوط میں پائے جاتے ہیں۔اس لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ اردو میں مکتوب نگاری کو بہ حیثیت ایک صنفِ ادب متعارف کرانے کا سہرا مزرا اسداللہ خان غالب کے سر جاتا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’تاریخِ ادب ِ اردو میں مرزا غالب سے پہلے بھی خطوط کا سراغ ملتا ہے(ماہنامہ معارف، فروری ۲۰۱۶،ص ۱۱۹)،لیکن مرزا غالب نے اسے مستقل فن بنا دیا۔ ان کی اس اختراع سے اردو نثر کو بقا ئے دوام ملااور سلاست، سادگی، روانی، رعنائی اور بر جستگی کے جوہر اردو نثر میں پیداہوئے۔ صحیح یہ ہے کہ خطوط نگاری میں غالب کا کوئی حریف مقابل نہیں،(آثارِ شبلی،ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی،ص ۵۸۸،شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ۲۰۱۳؁ء)‘‘۔
غالب کے بعد جن مشاہیر ِادب نے مکتوب نگاری پر توجہ دی ان میں سر سید ،محمد حسین آزادؔ، الطاف حسین حالیؔ،محسن الملک، وقارالملک، نذیر احمد، اکبر الہ آبادی، داغ دہلوی، امیر مینائی، ریاض خیر آبادی،سید علی ناصر کے نام قابل ذکر ہیں۔ان تمام کے علاوہ مکتوب نگاری کے حوالے سے غالب کے بعد’’علامہ شبلی نعمانیؔ‘‘کو مکتوب نگاری میں ثانیویت حاصل ہے۔ اس لیے محمد الیاس کہتے ہیں:
’’غالب کے بعد جس نے اس فن کو آب و تاب بخشی اور درجہ کمال تک پہو نچایا و ہ علامہ شبلی کی شخصیت ہے،(مذکورہ حوالہ)‘‘۔
ڈاکٹر الیاس نے اپنی کتاب میں کئ دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ غالب کے بعد سب سے بہترین مکتوب نگار شبلی ہیں۔بلکہ یہاں تک کہاہے کہ’’دراصل شبلی کے خطوط مکتوب نگاری کی ترقی یافتہ شکل ہے‘‘۔ خطوط شبلی کے اب تک تین مجموعے منظر ِ عام پر آئے ہیں جن میں دو مکاتیب شبلی اور ایک خطوط شبلی کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔مکاتیبِ شبلی کی دو جلدوں میں ۵۵مکتوب الیہ کے نام تقریباً۷۴۸ اردو خطوط ہیں۔۱۰ حضرات کے نام ۳۳ فارسی خطوط اور ۳ مکتوب الیہ کے نام ۳ عربی خطوط ہیں ان دونوں جلدوں میں وہ خطوط شامل ہیں جو شبلی نے اپنے ہم عصر علماء،دانشور، اور قوم و ملت کے رہنماؤں کو لکھا تھا اور خطو ط شبلی نامی مجمو عہ میں عطیہ اور زہرا فیضی کے نام لکھے ہوئے خطوط شامل ہیں۔
علامہ شبلی کے خطوط گوناگو ں پہلؤں سے آراستہ ہیں ،جس میں دین کے لیے تقدس، دنیا کی لذتیں ،زندگی کو بھر پور طور پر حاصل کرنے کی امنگ ساتھ قوم کا درد ان کے فکر و خیال کا حصہ ہے۔ سادگی ، اختصار، سنجیدگی،شگفتگی،وقار، متانت، رنگینی،اسلوب کی نمایاں صفات ہیں۔ مکاتیب شبلی پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے پروفیسر خوشید الاسلام کہتے ہیں:
’’شبلی پہلے یونانی ہیں جو مسلمانوں میں پیدا ہوئے ۔ وہ انشا پرداز تھے ،انشا پردارز نہ ہوتے تو مصور ہوتے، ان کا علم، ان کی بصیرت، ان کی پرواز فرشتوں سے لاگ نہیں کھاتی۔یہی ان کی سب سے بڑ ی خوبی ہے،(علی گڑھ میکزین،خوشید الاسلام،اگست ۱۹۴۷؁ء)‘‘۔
مکاتیب شبلی کی ادبی خصوصیات بیان کرنے کی لیے ایک الگ مضمون درکار ہے۔اس لیے طوالت سے گریز کرتے ہوئے میں سیدھے اپنے موضو ع پر آتا ہوں۔ ایک بات اور ذہن نشیں رکھیے کہ مکاتیب شبلی اور خطوط شبلی کے موضوعات مختلف ہیں۔ چونکہ مکاتیب شبلی کے خطوط بڑے اشخاص کے نام لکھے گئے ہیں جبکہ خطوط شبلی میں موجو خطوط فیضی بہنوں کے نام ہیں۔
کسی بھی شخص کے خطو ط میں اس کی ذاتی زند گی کے حالات زیادہ شامل ہوتے ہیں۔اس لیے پہلے شبلی کے ذاتی حالات کو بیان کرتا ہوں۔شبلی کی ذاتی زندگی اور گھریلو حالات بہت اچھے نہیں تھے۔ قرض کی ادائیگی،بھائیوں اور والدین سے تعلقات،جائدادوں اور گھریلو مشکلات کے علاوہ شادی سے متعلق کئ چیزیں خطوط میں موجو د ہیں۔مکاتیب شبلی سے ان کی طبیعت اور مزاج کابھی پتہ چلتا ہے۔اقتباس دیکھیے:
’’مولوی صاحب روپیا او ردولت کی قدر مجھ سے زیادہ کسی کو نہیں۔ میں کچھ ابراہیم اوہم پابایزیدنہیں ہوں۔ میرا رواں رواں دنیا کی خواہشوں سے جگڑا ہوا ہے لیکن دنیا کو سلیقہ سے ساتھ حاصل کرنا چاہتاہوں۔ مجھ سے جوڑ توڑ،سازش ،دربار داری، خوشامد ، لوگوں کی جھوٹی آؤ بھگت نہیں ہو سکتی،(مکاتیب شبلی،ج ۱،ص ۷) ‘‘۔
اس اقتباس میں جہاں ایک طرف شبلی اپنی خودداری اور بے نیازی کو ظاہرکرتے ہیں وہیں اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ سکون اور عیش و آرائش بھر ی زندگی کے بھی وہ مطمنی ہیں۔یعنی اگر اچھائی کو بیان کرتے ہیں تو کمیوں کو بھی آشکار کرتے ہیں۔
مکاتیب شبلی کے جلد ایک صفحہ نمبر ۱۴۵ پر وہ ندوہ میں اپنے خلاف ہونے والی ریشہ دوانیوں کی تفصیل لکھتے ہیں کہ کس طرح نااہلوں کو بڑی بڑی ذمے دار ی صرف ان کے عہدے بڑھانے کے لیے سونپ دی گئیں۔ اور کس طرح ان کو اہم مجلسوں اور کمیٹیوں سے خارج رکھا گیا۔ مکاتیب شبلی میں ان کے طالب علمی کے زمانے کے بھی کچھ خطوط ہیں جن سے ان کے گھریلو حالات کا پتہ چلتا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی کے والد نے دوسری شادی کرلی تھی جس کی وجہ سے شبلی اپنے والد سے بہت ہی ناراض تھے جس کا اثر شبلی کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے۔ جب شبلی اپنی اہلیہ کے انتقال کے پانچ سال بعد دوسری شادی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تویہ بھی اسی مشکل سے گزرتے ہیں جس سے ان کے والد گزرے تھے،یعنی اپنے والد کے دوسری شادی کرنے پر جس طرح اِنہوں نے مخالفت کی تھی ان کا بیٹا بھی شبلی کی دوسری شادی کی مخافت میں گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ذاتی زند گی سے متعلق انہی مذکورہ باتوں کی وجہ سے خواجہ احمد فاروقی اپنی کتاب’’اردو مکتوب نگاری آغار و ارتقا‘‘ میں لکھتے ہیں :’’سوانح نگاری میں خطوط سے زیادہ بہتر کوئی بھی ذریعہ نہیں ہے‘‘علامہ شبلی کے مکاتیب میں جن موضوعات کی شمولیت ہے ان میںسب سے اہم ان کی ذاتی زندگی ہے۔
علامہ شبلی ایک ایسے انسان تھے جو اپنے دل میں اپنی قوم و ملت کے خاطر درد رکھتے تھے۔ قوم کی دنیا بہترین بنانے کے ساتھ وہ ان کی آخرت کی بھی فکر کرتے تھے۔ اسی فکر کا ثبوت ندوۃالعلماء کا قیام تھا۔ قوم و ملت کے نمایاں عصر ی مسائل کا ذکر ان کے خطوط میں آپ جا بجا دیکھ سکتے ہیں۔ قوم کی پستی و زبوحالی کے ساتھ اس کا علاج اور مداوا بھی ان کے مکاتیب میںملتاہے۔کانگریس ،مسلم لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ قوم و ملت کے خاطر سیاست کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’پولیٹکل معاملات میں جو طوائف الملوکی پیدا ہوگئ ہے سخت قابل نفرت ہے۔ وزیر حسن اور امیر علی کا کیا مقابلہ ہے۔ قوم حقیقت میں سر سید مرحوم کے وقت بھی اندھی تھی اور اب بھی ہے،(مکاتیب شبلی،ج ا،ص ۲۹۲)‘‘۔
مذکورہ عبارت میں جہاں شبلی نے قوم و ملت سے متعلق سیاسی موضوع کو چھیڑکر انہیں سیاسی اعتبار سے بیدار ہونے کی ترغیب دی ہے وہیں دوسری طرف سرسید کے بارے میں ان کے خیالات کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک اور خط میں سرسید سے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’ رائے میں ہمیشہ آزاد رہا، سرسید کے ساتھ سولہ برس تک رہا لیکن پولیٹکل مسائل میں ہمیشہ ان کا مخالف رہا اور کانگریس کو پسند کرتا تھا۔اور سرسید سے بارہابحثیں کیں‘‘۔اس طرح دیکھا جائے تو شبلی نے سیاست اور سر سید سے اختلاف کو بھی اپنے خطوط کا حصہ بنایا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی بنیادی طور پر ایک عالم دین تھے اس لیے تعلیم و تعلّم سے ا ن کا گہرا رشتہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ علی گڑھ میں سولہ سال درس تدریس کے خدمات انجام دینے سے پہلے وہ انفرادی طور پر اعظم گڑھ میں بھی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے اور پھر علی گڑھ سے نکلنے کے بعد انہوںنے ندوۃالعلماء کی بنیاد ڈالی اور جو نصاب ِ تعلیم و تدریس مرتب کیا ان تمام کی کیفیات مکاتیبِ شبلی میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔نیشنل اسکول اور دارالعلوم کا قیام، قدیم نصابِ تعلیم کی کمیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید نصاب تعلیم کی ترتیب ،جدید نافع مشورات اور تعلیمی مباحث وغیرہ ان کے خطوط کے موضوعات ہیں۔خطوط شبلی صفحہ نمبر ۲۹ اور مکاتیب شبلی جلد دوم صفحہ نمبر۴۶،۴۷ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شبلی نے اپنے خطوط میں تعلیمی اہمیت پر کتنی سنجیدگی سے بحث کی ہے۔
شبلی نعمانی علمی و ادبی مسائل پر بھی اپنے ہم عصروں سے خطو ط کے ذریعے تبادلہ ٔخیال کرتے تھے۔اردو، عربی، فارسی ادب کے علاوہ ترکی اور انگریزی ادب سے متعلق بھی بہت سی قیمتی نکات ان کے خطوط کے موضوع ہیں۔ مسلم و غیرمسلم، مستشرقین کے علمی و ادبی خدمات کے ساتھ ان کا نقطئہ نظر، اسلام دشمنی میں لکھی ہوئی کتابیں ،سیرت و شریعت کو مسخ کرنے والے جراثیم، دشنام طرازی اوربے ہودہ باتوں کا تفصیلی ذکر بطور ثبوت مکاتیب شبلی میں موجود ہے۔مذکورہ مسائل پر مولانا شیرانی کے نام کئ خطوط ہیں۔ ایک خط میںحبیب الرحمن خان شیرانی شبلی کے اشعار پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آپ جو طرحیں اختیار کرتے ہیں وہ مقید اور محدود ہوتی ہیں۔ آپ کو قافیہ ،ردیف کے نباہنے کے لیے شعر کہنے ہوتے ہیں۔طرحیں ایسی لیجئے کہ جو خیال دل میں بے تکلف بندھ جائے یا ایسا شگفتہ ہو کہ جو شعر نکلے خواہ مخواہ رواں اور برجستہ ہو،(مکاتیب شبلی،ج ۱،ص ۱۳۷)‘‘۔
مکاتیب شبلی کا ایک موضوع انجمن اور اداروں پر گفتگو ہے۔شبلی کے خطوط میں ہندوستان کے علاوہ دنیا کے دیگر اسلامی اور غیر اسلامی علمی و ادبی انجمنوں اور اداروں کا ذکر ملتا ہے۔ چونکہ شبلی ایک بڑے عالمِ دین اور قوم وملت کے ایک ذمے درا شخص ہونے کے ناطے  اپنا فریضہ سمجھتے تھے کہ وہ ان اداروں اور علمی و ادبی انجمنوں سے باخبر رہیں جن سے قوم و ملت کو نقصان یا نفع ہو سکتا ہے۔ اس لیے مکاتیب شبلی میں علی گڑھ کالج، انجمن ترقی اردو،ندوہ، ترکی اور مصر کے کالجوں کے ساتھ ساتھ کچھ انگریزی کالجوں کا بھی ذکرملتا ہے۔جامعہ عثمانیہ کا قیام اور نصابِ تعلیم ،مدینہ یونیورسٹی کا قیام اور نصابِ تعلیم بھی خطوط میں درج ہیں۔ ایک خط میں ندوہ کے ایک اجلاس کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اب کی متعصب مولویوں سے پالی لڑنی پڑی۔ جلسہ انتظامیہ میں نائب سکریٹری ندوہ نے جو اپنے آپ کو سکریٹری کہتے ہیں اور لکھتے ہیں ،تجویز پیش کی کہ شبلی الگ کردیا جائے یعنی اس کا عہدہ ہی توڑڈالا جائے۔ یارانِ قدیم علی گڑھ نے طعنہ دیا کہ اور مولویوں میں گھس۔۔۔۔۔۔بہر حال یہ نہ ہوتے تو ندوہ کی حاجت ہی کیا تھی،(مکاتیب شبلی،ج ۲،ص۲۲۲)‘‘۔
مکاتیب شبلی نہ صرف علمی ،ادبی انجمنوں ،اداروںکی روداد اور قوم و ملت کے مسائل و عزائم و منصوبوں کا ایک خاکہ ہے بلکہ ادب و انشا کا ایک بہترین نمونہ بھی ہے۔ علامہ شبلی نعمانیؔ میں تمام خوبیوں کے ساتھ ایک انشا پرداز ہونے کی خوبی بھی بدرجہ اتم موجوج تھی،اس لیے مکاتیب ِشبلی میں آپ کو جابجا شبلی کے انشاپردازی کے نمونے دکھائی دیں گے۔ایک خط میں اپنے شعری مجموعے کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’بوئے گل کی نسبت تمام اہل نظر کی رائے ہے کہ دستۂ گل اور اس میں ،جذب و سلوک کا فرق ہے۔واقعی دونوں کے شانِ نزول اسی قدر مختلف ہیں جس قدر دونوں کے جوش و سر مستی میں فرق ہے،(مکاتیب شبلی جلد۱،ص ۲۲۱)‘‘۔
اس طرح علامہ شبلی کے خطوط انشا پردازی کے بہترین نمونے معلوم ہوتے ہیں۔ان میں دلآویزی کی وہی کیفیت پائی جاتی ہے جو روایتی غزلوں میں ہوتی ہے۔اس کے زیادہ تر عناصر مہدی افادی، مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی، مولانا ابوالکلام آزاد، عطیہ فیضی اور مولوی سمیع کے خطوط میں بخوبی نمایاں ہیں۔اقتباس دیکھیے:
’’مدت ہوئی البشیر میں قاموس الاسلام کے عنوان سے ایک مضمون لکھا، نیچے مہدی حسن کی دستخط تھی،حیرت ہوئی کہ وہی مرزاپوری دوست ہیں یا نذید احمد و آزاد کی دو روحوں نے ایک قالب اختیارکیا ہے کئ دن تک دیکھتا رہا اور احباب کو دکھاتا رہا،(مکاتیب شبلی،ج۲،ص ۱۷۱)‘‘۔
شبلی کے خطوط کا ایک موضوع حکومتوں کے حالات ہیں۔ وہ اپنے خطوط میں ہندوستانی، انگریزی،اسلامی عالمی و ریاستی سطح پر موجود حکومتوں پربھی گفتگو کرتے ہیں۔حکومت کی پالیسیوں اور کام کرنے کے غلط طریقہ کی نشاندہی کرتے ہوئے درستگی کا مشورہ دیتے ہیں۔
شبلی کے خطوط میں ان کے معاصرین میں بڑے بڑے بزرگوں اور طالب علموںکی حالات زندگی بھی درج ہے۔ جسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ شبلی نے اپنے معاصرین میں سے بہت سے لوگوں کی حالاتِ زندگی کو بھی اپنے خطوط کا موضوع بنایا ہے۔ اس کے علاوہ وہ قوم و ملت کے عقائد کی فکر کرتے ہوئے اصلاحی انجمنوں اور مکاتیب کے قیام کو بھی دوسرے احباب کے سامنے رکھتے ہیں۔ اُس زمانہ میں نو مسلموں پر آریہ سماج کے لوگ محنت کرکے اپنا ہم نوا بنا لیا کرتے تھے۔لہذا شبلی نے اس کے سد باب کے لیے جن انجمنوں اور مکتبوں کو قائم کیا تھا ان کی کار کردگی پوری فہرست مکاتیب شبلی میں موجو دہے۔
 مکاتیب شبلی و خطوط شبلی میں اتنے موضوعات ہیں کہ اگر ہر ایک موضوع پر لکھاجائے تو ایک کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ مذکورہ چیزوں کے علاوہ علمی منصوبے،کتابوں کی جانکاری او رمختلف تاریخ و سنین میں لغزشوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی۔ اتنا ہی نہیں شبلی نے اپنے خطوط کے ذریعے اصلاحِ اِملا اور اصلاحِ زبان کا کام بھی کیا ہے۔ خطوط شبلی جن میں فیضی بہنوں کے نام خطوط ہیں اس میں اصلاحِ املا اور اصلاح زبان کے موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئ ہے۔
مکاتیب شبلی کے علاوہ خطوط شبلی میں تعلیم نسواں کا موضوع بھی پایا جاتاہے۔ یہ موضوع خطوط شبلی میں اس لیے بھی زیادہ ہے کہ فیضی بہنوں سے جو خط و کتابت ہوتی تھی وہ زیادہ تر خواتین کی شخصی ،علمی اور ادبی صلاحیتوں کے علاوہ ان کی بہترین تربیت کے تعلق سے ہوتی تھی۔عام طور پر مولویوں کو آزادئ نسواں کا دشمن سمجھا جاتا ہے لیکن شبلی اس زمانے میںبھی آزادئنسواں کے حامی تھے۔وہ مردوں کی جانب سے خواتین پرہونے والے ظلم کے معترف تھے۔خطوط شبلی کے صفحہ نمبر ۵۳ پر جو خط موجود ہے شبلی اس خط میں خواتین سے متعلق بہت ہی فلسفیانہ اور حیرت انگریز گفتگو کرتے ہیں۔ اقتباس قدر ے طویل ہے پھر بھی میں یہاں نقل کرنا چاہوں گا:
’’عورتوں کے متعلق تمہاری رائے ہے کہ وہ دنیوی اور معاشی علوم کم پڑھیں اور تم اس کو پسند نہیں کرتیں کہ عورتیں خود کمائیں اور کھائیں۔ لیکن یاد رکھو مردوں نے جتنے ظلم عورتوں پر کیے اِس بَل پر کیے کہ عورتیں ان کی دست نگر تھیں۔ تم عورتوں کا بہادر اور دیوپیکر ہونا اچھا نہیں سمجھتی ہو لیکن یہ تو پرانا خیال تھا کہ عورتوں کو دھان پان چھوئی موئی اور روئی کا گالا ہونا چاہیے۔ جمال اور حسن نزاکت پر موقوف نہیں تنو مندی،دلیری،دیوپیکری اور شجاعت میں حسن و جمال قائم رہ سکتا ہے۔ مرد نما عورت زنانہ نزاکت سے زیادہ محبوب ہو سکتی ہے،(خطوط شبلی،ص۵۳)‘‘۔
دیکھا آپ نے حقوق ِ نسواں کے بارے میں شبلی کس قدر فلسفیانہ باتیں کر رہے ہیں کہ نزاکت اور شرم و حیا کے ساتھ قوت ِ بازو بھی ہونا ضروری ہے۔تمام شرعی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے خود کو ظالم کے مقابلے کے لائق بنا نا ہوگا۔شبلی تو یہاں تک کہتے ہیں’’ جب تک عورتیں نازک بنی رہیں گی مرد ان کو پورے حقوق نہ دیں گے‘‘میں یہاں حقوق نسواں سے متعلق شبلی کی کن کن باتوں کو بیان کروں ؟آپ خطوط شبلی ۳۰ تا ۱۱۰ صفحات کا مطالعہ کر ڈالیے آپ کو حقوق نسواں سے متعلق کئ ساری باتیں معلوم ہوں گی اوربہت سی چیزوں کو شبلی نے تاریخ سے ثابت بھی کیا ہے۔
خطوط شبلی میںنادر کتابوں کی جانکاری ایک اہم موضوع ہے۔اس وقت جو بھی نادر یا اہم کتابیں شبلی کی نظر سے گزرتی تھی شبلی ان کا ذکرعطیہ فیضی سے ضرور کرتے تھے، ان میں بہت سے کتابیں وہ ہیں جو شبلی نے عطیہ فیضی کو عطیہ بھی کی تھی۔انہی خطوط میں ندوہ کے بہت سے پوشیدہ رازمخفی ہیں اور ندوہ کے کچھ اہم کاغذات کا بھی ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ندوہ کی عمارت کے لیے کس نے کتنے پیسے دیے اورکتنے اساتذہ وہاں درس و تدریس کی خدمت انجام دے رہے تھے ۔ندوہ سے متعلق اور بھی کئ اہم باتیں خطوط شبلی کا موضوع ہے۔
عطیہ فیضی اور زہرا فیضی کے نام لکھے ہوئے خطوط سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شبلی نے ان کی کونسی کتاب کب تصنیف کی اورکونسی کتاب کب چھپی۔خطوط سے یہ تک پتہ چلتا ہے کہ وہ کس دن اور کس تاریخ میں کس مضمون سے فارغ ہوئے۔ایک خط میں لکھتے ہیں’’شعر العجم میں حافظ سے فارغ ہو کر خسرو کے حالات اور ریویو لکھ رہاہوں‘‘(خطوط شبلی، ص ۳۶)،اس خط کی تاریخ سے آ پ یہ پتہ لگا سکتے ہیں کہ شبلی نے شعرالعجم کی تصنیف کے دوران حافظ کے حالات کب سے فارغ ہوکر خسرو کے بارے میں لکھنا شروع کیا تھا۔
مذکورہ موضوعات کے علاوہ فنونِ لطیفہ میں سے موسیقی،مصوری کے ساتھ خطابت اور کئ سارے موضوعات مکاتیب شبلی اور خطوط شبلی کا حصہ ہیں۔جہاں تک میں نے مکاتیبِ شبلی اور خطوط شبلی کا مطالعہ کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ پچاس سے زیادہ ایسے اہم موضوعات ہیں جن پر شبلی نے اپنے خطوط و مکاتیب میں گفتگو کی ہے۔احوال و سوانح نگاری، شخصیت سازی، تعلیم و تعلّم، انجمن و ادارے،حکومت سازی، سیاست، علمی و ادبی مباحث، اصلاحِ زبان و املا، دینی فکر ی مسائل،نصابِ تعلیم و علمی منصوبہ بندی، کتابوں کی فہرست اور نادر کتابوں کا ذکر،تاریخ و سنین میں درستگی۔حقوق نسواں اور خواتین کے مسائل، موسیقی مصوری فنونِ لطیفہ کے ساتھ فن ِ خطابت اور فیضی بہنوں کی تربیت وغیرہ۔مکاتیب شبلی اور خطوط شبلی کے ایسے موضوعات ہیں جن پر میرے خیال سے ایک مقالہ، مضمون یہاں تک کہ مکمل کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
مجھے لگتا ہے یہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم مکاتیب شبلی اور خطوط شبلی میں موجود موضوعات کو سامنے لائیں۔ اور لوگوں کو اس بات سے واقف کرائیں کہ علامہ شبلی نعمانی نے کن کن موضوعات پر بحث کی ہے۔ قوم و ملت کے لیے، تعلیم و تربیت کے لیے ان کی سوچ و فکر کیا تھی؟اگرہم شبلی کے ان فکار سے دنیا والوں کو واقف کراپائے توشایدہم یہ کہہ پائیںگے کہ شبلی کے جو ہم پرحقوق ہیں وہ مکمل تو نہیں لیکن شاید عشر عشیرادا کردیا۔اور یہ عشر عشیر بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مانند ہوگا۔
٭٭٭٭٭
Mahtab Alam Faizani
8-1-523/145/1,Brindavan Colony
Gait No 1,Road No 4,Tolichoki,Hyderabad
Telangana,500008
phon.7416646297/8897762531
 اسکالر شعبۂ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular