Sunday, May 12, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمچھروں کی درخواست

مچھروں کی درخواست

محمد عارف

جس طرح علی گڑھ کی تعلیم مشہور و معروف ہے اسی طرح اس کے گرد و نواح میں پرورش پانے والی وہ چھوٹی اور انوکھی مخلوق بھی لائق ستائش ہے جو یا تو علی گڑھ میں زیر تعلیم ہے یا پھر طلبائے علی گڑھ کو زیر و زبر کرنے یا پھر ان سے مقابلہ آرائی کرنے کے لیے ہر دن دم بخود رہتی ہے یہ وہی مخلوق ہے جس نے اپنے وہ کرشمے دکھلائے ہیں کہ نمرود کو ان کی وجہ سے اپنے غلاموں کی چپلیں کھانا پڑی ہیں اس ننھی سی مخلوق کے جسم پر غور کرکے ایسا لگتا ہے کہ واقعی یہ مخلوق عجائبات میں سے ہے چھوٹے چھوٹے کئی پر اور منھ میں 32 دانت جو کبھی دکھائی نہیں دیتے اور پیر وہ سریانی و عبرانی کے سمجھ سے بالاتر مگر پھر بھی عدیم المثل ہے۔
جناب جو ان کے دام (جال) میں پھنس گیا نہ تو ضرور اس کی ہیئت کذائیہ بدل کر رکھ دیتے ہیں جسم کی جھنجلاہٹ اور اس کی کھجلاہٹ باعث درد و کرب ہوتی ہے اور پھر ہم ہاتھ اور جسم پھڑپھڑا کر رہ جاتے ہیں۔ یہ چھوٹی سی مخلوق اگرچہ مچھر کے نام سے جانی جاتی ہے مگر بڑی سلیقہ دار ہے وہ اس لیے کہ جب بھی اس کو کوئی نرم و نازک بدن ملتا ہے تو اس کے سب سے صاف حصے میں بڑی صفائی کے ساتھ اپنی پلین والی لینڈنگ کرکے اور اطمئنان بخش حالت میں بیٹھ کر جسم انسانی کا قیمتی سرمایہ چوس ڈالتی ہے اور کبھی کبھی تو ان اعضا کو بھی اپنا شکار بنا لیتی ہے جن کو میں بیان نہیں کر سکتا جنھوں نے مشاہدہ کیا ہے سمجھتے ہوں گے۔ کبھی تو یہ مخلوق نغمہ کن فیکن گاتی ہوئی ہمارے پاس سے نکل جاتی ہے کیونکہ اس کو موقعہ نہیں ملتا اور کبھی لیلی مجنوں کے ایسے نغمے گاتی ہوئی ہمارے پاس آتی ہے جیسے یہ مخلوق ابھی لیلی مجنوں کا ملاپ کر کرا فراغت سے آ رہی ہے اور اب اس کو تازہ دم ہونے کے لیے انسانی خون کی سخت ضرورت ہے پر کچھ بھی سہی واللہ بڑا عجب مسئلہ ہے نہ تو یہ مچھر حضرات کبھی کم ہوتے ہیں اور ناہی کاٹنے سے باز آتے ہیں بلکہ بار بار بھگانے سے بھی بھاگتے نہیں کیونکہ جس طرح ایک انسان بار بار ٹوکنے سے چڑچڑا ہو جاتا ہے کچھ یہی حال مچھر کا بھی ہے کہ بولتا ہوا اور اپنے وجود کو منواتے ہوئے اپنا کام کرکے چلا جاتا ہے۔ اکثر مچھروں کی شکایت ہے کہ ہم کو کھانا پیٹ بھر نہیں ملتا کیا ہمارے مقدر میں صرف غلاظت لکھی ہے نہیں نہیں ہر گز نہیں ہمے بھی انسانوں کی طرح صاف شفاف چیزیں پسند ہیں پر یہ آج کل کے لوگ ہمے ان سے لطف اندوز کہاں ہونے دیتے ہیں جی میں آتا ہے کہ بس مت پوچھو!
ویسے بھی اگر آپ انسان لوگ خود صاف شفاف رہیں اور اپنے گرد و پیش اور ماحول کو اچھا رکھیں تو ہم سچ کہتے ہیں کہ ہمارے پیدا ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے پر آپ لوگ ہیں کہ کچرا اور غلاظت کرنے سے باز نہیں آتے اس لیے آپ ہی گویا ہمے جنم دیتے ہو پھر ہم کاٹتے ہیں تو کبھی ڈینگو یا بخار جیسی دشواریاں پیش آتی ہیں اس سے نقصان تو تمہارا ہی ہے ہمارا؟ پر اگر ہمارا وجود ہے تو ہمے جنیے اور بھر پیٹ کھانے کا حق بھی ملنا چاہیے۔۔۔
سارے مچھر بہ زبان حال کہتے ہیں اے علی گڑھ کے طلبہ پہلی بات تو ہم تم سے بنا کہے اپنی غذا اور تمہارا تھوڑا سا قیمتی سرمایہ لینے آتے ہیں تو اس میں آپ کا کیا چلا جاتا ہے پر پھر بھی ہم بتلا دیتے ہیں کہ ہم آ گیے ہیں اب خون دینے کے لیے تیار ہو جاو لیکن آپ کہاں راضی پر جب ہم زور زبدستی سے اپنا حصہ لینے آتے ہیں تو آپ ہماری جان لینے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ آج اس کمبخت کی خیر نہیں یہ تو بہت اچھا جملہ ہے ورنہ آپ کیا کیا بولتے ہو یہ تو اللہ ہی جانے مگر سن لو تم سب میں ہی تو ہماری زندگی پوشیدہ ہے خدا کا شکر کرو کہ تمہارا خون چوس کر تمہارے جسم کے فاسد پن کو ختم کر دیتے ہیں ورنہ ؟؟؟
بابو دیکھو تم لوگ ہاسپیٹل میں جاتے ہو زرا طبیعت خراب ہوئی ایک سوئی لگوائی جسے تم دیکھ کے یا تو ڈرتے ہو یا پھر مجبوری میں برداشت کرتے ہو پر خون ضرور دیتے ہو تاکہ تمہاری بیماری کا پتہ چل سکے تو ہمارے پاس بھی تو ایک پتلی سی سوئی ہے جو ہاسپیٹل کی سوئی سے کہیں زیادہ باریک ہے ہم سے کون سی نسلی ناراضگی ہے جو ہمے مارنا تو پسند کرتے ہو پر خون دینا پسند نہیں کرتے خیر کبھی کبھی تو ہم لوگ تمہارا خون بھی چوس لیتے ہیں اور تم کو پتہ بھی نہیں چلتا پر بول کر اور سینہ تان کر تب کاٹتے ہیں جب آپ ہمے ہمارا حصہ دینے سے انکار کرتے ہو ایسا کیوں کرتے ہو؟؟؟
کبھی ہم تمہارے روم میں گھس آئیں تو تم ہمارے لیے زہریلی دواوں کا بشکل آل آوٹ بند و بست کرکے رکھتے ہو یا نہ جانے آج کل کیا کیا طریقے ہمے مارنے اور ہماری نسل کو ختم کرنے کے لیے تیار کر رہے ہواوپر سے ایک ایسی مشین کی ایجاد کر بیٹھے ہو جو ہمارا وجود ختم کرکے چتکارے مارتی ہوئی چٹاکھ سے بول کر اس بات کا ثبوت دیتی ہے آج ایک مچھر کا وجود ختم کر دیا اور فتح یاب ہو گیے پر یہ تو آپ کی غلطی فہمی ہے یہ سب اس لیے کرتے ہو تاکہ ہم سے چھٹکارا پا سکو پر ایسا نہیں ہے بابو کیونکہ اگر ہم روز مرتے بھی ہیں تو ہماری مضبوط شکل میں اور بہت سے روز پیدا بھی ہوتے ہیں جن کے اعضا ہم سے بھی زیادہ مستحکم ہوتے ہیں اور ہم سے بھی زیادہ تکلیف دے کر وہ اپنا حصہ تم سے حاصل کر لیتے ہیں بتاو یہ زور زبردستی درست ہے کیا؟؟

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular