Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمولانا شوکت علی اورتحریک آزادی ہند

مولانا شوکت علی اورتحریک آزادی ہند

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 فیضان حیدر
مولانا شوکت علی بظاہر فرد واحد تھے لیکن در حقیقت ان کی ذات خود ایک انجمن تھی جن کے سینے میں انیک دلوں کی دھڑکنیں ،ہاتھ میں بہت سے کام کرنے والوں کی قوت،دماغ میں سیکڑوں ذہنوں کی صلاحیت اور عمل میں بہت سے نیک انسانوں کی خوبیاں موجود تھیں۔قدرت نے بڑی فیاضی سے ان کی ذات میں وہ تمام خوبیاں ودیعت کردی تھیں جن سے ایک انسان کے اندر مصمم عزم و ارادہ،قوت ادراک و یقین اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور مزید بر آں ایک وطن دوست اور ملت پسند فراخدل ماں کی تربیت نے ان کی نظری اور عملی صلاحیتوںمیں چارچاند لگادئے۔
ہندوستان کی تحریک آزادی میں مولانا کا نام ایک اہم سیاسی رہنما اور سرفروش مجاہد کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ انھوں نے ایسے وقت میں انگریزی حکومت کے خلاف آواز اٹھائی جب پورے ہندوستان میں انگریزوں کا غلبہ تھااورہندوستانی عوام پر ان کی سفاکی اور ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔لیکن ہندوستان کے اکثر افراد ان کی قربانیوں اور خدمتوں سے واقف نہیں ہیں یا اگر واقف بھی ہیں تو جان بوجھ کر ان کی حب الوطنی اور جانثاری کو فراموش کیا جاتا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی تاریخ میں ان کاتذکرہ برائے نام کیا گیا ہے اور بعض جگہوں پر تو ان کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔
مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر کے بڑے بھائی تھے ۔وہ نہایت وجیہ، خوش باش اور ظریف الطّبع انسان تھے،استقامت اور استواری ان کی رگ رگ میں تھی۔ اپنے اصولوں پر مر مٹنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ برجستہ گو،بے باک اور حاضرجواب تھے اور ہر وقت سنجیدہ نہیں رہ سکتے تھے اس لیے بعض اوقات بذلہ سنجی سے بھی کام لیتے تھے۔ ان کے دل میں ملک و ملت کا درد تھا اور کیوں نہ ہوتا؟انھیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے وطن میں بے وطن اور اپنے ملک میں بیگانوں کی طرح زندگی گذار رہے ہیں۔یہ احساس ان کے ذہن پر مستولی تھا چنانچہ انھوں نے دل و جان سے جنگ آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ملک کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔
وہ ۱۰؍ مارچ ۱۸۷۳ء کو رام پورکے ایک مہذّب اور خوش حال گھرانے میں پیدا ہوئے ۔رام پو اس وقت طوائف الملوکی کا شکار تھا لیکن اس کے باوجود علم و دانش کا گہوارہ بنا ہوا تھا ۔ والد کا نام عبد العلی خاں اورماں کانام آبادی بانوبیگم تھاجو تاریخ میں بی اماں کے نام سے مشہور ہوئیں۔ ان کے والد ریاست رامپور کے گھوڑ سواری دستے کے ملازم تھے ،وہ عین جوانی میں جب کہ ان کی عمر فقط تینتیس سال تھی ہیضے کی وبا میں جان بحق ہوگئے ۔ ان کے پس ماندگان میں بیوہ کے علاوہ پانچ بیٹے(بندے علی خاں،ذوالفقار علی خاں،نوازش علی خاں،شوکت علی خاں، محمد علی خاںجوہر) اور ایک بیٹی شامل تھیں ۔ جب علی برادران قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے تھے تو ان کی ماں نے بڑے صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا اور ہندوستان کے گوشے گوشے میں اپنی تحریروں سے مسلمانوں کو بیدار کیا اور انھیں غلامی کی زنجیروں سے نجات حاصل کرنے پر اُکسایا۔
مولانا شوکت علی نے علی گڑھ سے گریجویشن پاس کیا اور سرکاری ملازمت اختیار کرلی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، وہ ان سے کوئی بڑاکام لینا چاہتی تھی اور انھیں بھی اپنی صلاحیتوں اور حوصلوں کے لیے ایک وسیع جولان گاہ کی ضرورت تھی۔ اس وقت کا ہندوستانی سماج و معاشرہ جس ظلم و استبداد اور جبرو بربریت سے گذر رہا تھا ان سے دیکھا نہ گیا چنانچہ ۱۹۱۳ء میں انھوں نے انگریزی ملازمت ترک کردی اور قوم و ملت کی خدمت کرنے کی ٹھان لی۔ انجمن خُدّام کعبہ کی بنیاد ڈالی۔دنیاوی جاہ و منزلت اورترقی کے خواب کو خواب ہی ٹھہرایا، قوم و ملت کی ترقی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی سعی میں مصروف ہوگئے، مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان سے کسب علم و فضل میں مشغول ہوگئے۔ ان کا اس طرح سے سرکاری ملازمت چھوڑنا اور علم دین کی تحصیل میں مشغول ہونا شاید انگریزی حکومت کو ناگوار گذرا جس کے باعث پہلی عالمی جنگ میں انھیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں جسے انھوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا۔
انھیں دنوںوہ اپنے چھوٹے بھائی محمد علی جوہرؔ کی بھی راہنمائی کرنے لگے اور انھیں بھی حب الوطنی اور فرض شناسی کی تلقین کرتے رہے ۔بعد کو دونوں بھائیوں نے مل کر تحریر و تقریر کے ذر یعہ عوام کو انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے اور اپناکھویا ہوا وقارحاصل کرنے پربرانگیختہ کیا جس سے ان کے دلوں میں سامراجی حکومت کے خلاف احتجاج اور نفرت کے جذبات انگڑائیاں لینے لگے۔ قانون کی تعزیرات اور انگریزی فوج کی گولیوں کا خوف لوگوں کے دلوں سے رخصت ہوگیا اور اکثرلوگ حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتے تھے۔ سر انجام انگریزی فوج انھیں گرفتار کرلیتی تھی اور چند ماہ مقد مہ چلتا پھر آزاد ہو جاتے تھے ۔ اکثر تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ لوگ صبح گرفتار ہوئے اور شام کو چھوڑ دئے گئے ۔گویا انگریزی حکومت کے خلاف نعرے بازی اس وقت نوجوانوں کا ایک محبوب مشغلہ بن گیا تھا ۔
وطن کی محبت کم و بیش ہر شخص کے دل میں پائی جاتی ہے لیکن علی برادران خصوصاََ مولانا شوکت علی اورمحمد علی جوہر میں اس کا احساس بڑی شدت سے تھا،انھیں اپنے وطن عزیز کی خاک اور اس کے ذرّے ذرّے سے والہانہ محبت تھی جس کا اظہار مولانا شوکت علی نے اپنی تقریروں میں بارہا کیا ہے۔ ان کی تقریروں میں وطن دوستی کا اظہار ایک مخصوص انقلابی تیور کے ساتھ ملتا ہے۔ وہ ملک و ملت سے محبت،ہندو مسلم بھائی چارے اوراخوت و مروت کے حامی تھے اور قومی سطح پر ابھرنے والے مسائل ، ملک و ملت کے لیے در پیش خطرات کو بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتے تھے۔ مولانا جوہرؔ چوں کہ شاعرانہ طبیعت رکھتے تھے اس لیے اس کا احساس ان کے یہاں ذرا اور لطیف ہے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایسے انقلابی اشعار کہے جو وطن دوستی کا پیمانہ اور’’ از دل خیزد وبر دل نشیند‘‘ کا مصداق قرار پائے ۔ چونکہ وہ کربلاکے جانکاہ اور دل دوز واقعات سے بہت متاثر تھے اور اپنے اشعار میں جگہ جگہ اشاروں اور کنایوں میں سا نحۂ کربلا کو اسلام کی کامیابی اور زندگی کی علامت کے طور پر پیش کرچکے تھے اس لیے ایثار و فداکاری کے جذبے کو مہمیز کرنے کے لیے انھوں نے کربلا کو اپنا آئیڈیل بنایا ،انھیں یقین تھا کہ اس طرح ایک نہ ایک دن ملک کو آزادی ضرور نصیب ہوگی ،ان کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے:
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
در اصل ان کی سر گر میوں اور کارناموں کی بنیاد قومیت ،ملیت اور دینداری پر تھی، ان کی شاعری کے محرک بھی اساسی طور پر یہی رجحانات تھے ۔ان کی زندگی اور شخصیت میں حب الوطنی،ملت دوستی اور دینداری کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے قومی ،ملی اور دینی احساسات ان کے ذاتی تجربات کی حیثیت رکھتے ہیں ،چنانچہ ان کی شاعری میں ایسے الفاظ اور استعاروں سے کام لیا گیا ہے جو قید و بند کی فضا سے مستعار ہیں ۔
۱۹۱۹ء؍۱۹۲۰ء میں جب ’تحریکِ خلافت‘ کی بنیاد ڈالی گئی تو اس وقت یہ دونوں بھائی نظر بند تھے ،لیکن جلد ہی ان کی رہائی کا وقت بھی آپہنچا اور یہ دونوں بھائی قید و بند کی صعوبتوں سے رہائی پاگئے اور اس تحریک کے ایک اہم اور فعال رکن کی حیثیت سے کام کر نے لگے ۔ وہ چندہ وصول کرنے کے لیے شہر شہر قریہ قریہ چھانتے پھرتے لیکن اس وقت بھی اپنا ہدف نہیں بھولتے ا ور مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے اور انھیں غلامی کی زنجیروں سے نجات حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے رہتے۔
اسی دوران گاندھی جی نے ہندو مسلم اتحاد کا پرچم بلند کیا ،انھیں بھی اس بات کا شدّت سے احساس تھا کہ ان دونوں بڑی قوموں کے درمیان اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے اور دونوں قومیں آپس میں لڑتی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں اس لیے انھوں نے بھی گاندھی جی کا ساتھ دیا اور ان کی یہ خواہش تھی کہ ہندو مسلم ایک ہوکر ملک کی آزادی کے لیے جد و جہد کریں لیکن ہندؤں کی سرد مہری اور مسلمانوں کے درمیان آپسی اختلافات کی وجہ سے اس سے دستبردار ہوگئے اور مسلم لیگ سے جو اس وقت مسلمانوں کے مفاد میں کام کررہی تھی ، وابستہ ہوگئے۔
محمد علی جناح مسلم لیگ کے سرو سروا تھے ،مولانا نے اس تنظیم کے لیے بھی رات دن ایک کردیا اور اس طریقے سے اسے پروان چڑھا نے میں منہمک ہوگئے جیسے اس سے قبل خلافت تحریک میں تھے، اب ان کے پیش نظر ملک و ملت کے مسائل تھے ،وہ رات دن اسی میں الجھے رہتے اور تحریر وتقریر کے ذریعے انھیں سلجھانے میں مصروف رہتے۔اب ان کے سامنے دو بڑے مسائل تھے، پہلا مسئلہ یہ تھا کہ اپنے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے کیسے نجات دلایا جائے اور دوسرا بڑامسئلہ یہ تھا کہ اس وقت کی کئی نام نہاد تنظیمیں امت مسلمہ کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے پر تلی تھیں، اب وہ اس فکر میں تھے کہ ملک کی آزادی کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کا کھویا ہوا وقار واپس دلایا جائے اس کے لیے وہ ایک ایسا لائحۂ عمل تیار کرنے میںمصروف ہوگئے جو انھیں اس راہ میں مددگار ثابت ہو ۔بعض اوقات تو وہ اس میں اس قدر منہمک ہوجاتے تھے کہ ان کے دوست احباب ان کے اس عمل پر انھیں طعنے بھی دیتے تھے ۔
۱۹۳۱ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد ان پر ایک جمودی کیفیت طاری ہوگئی تھی اور سیاسی جلسوں اور نشستوں میں جانے سے قدرے گریز کرتے تھیلیکن اس کے باوجود اپنی تقریر اور تحریر دونوں کے ذریعے قوم کو بیدار کرنے ، ان کے ذہنی جمود کو توڑنے اور آپسی خلفشار کو سلجھانے کا کام کرتے رہے۔ انھیں تقریر کے گُر معلوم تھے اور سامعین کے دلوں کو موہ لینے کا ہنربھی اچھی طرح آتا تھا ۔آواز کے نشیب وفراز سے سامعین پر دیر پا اثر چھوڑ جاتے تھے۔ وہ اکثر بلا تمہید گفتگو کرنے کے عادی تھے ،بات بات میں دلیل دینے کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔غرض وہ تقریر کے بہت بڑے مجاہد تھے اور اس باب میں انھوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
مولانا شوکت علی اور ان کے بھائی محمد علی جوہر نے اپنی تحریر و تقریر سے مسلمانوں کی زندگی میں انقلاب پیدا کردیا۔ سب کو مساوات،اخلاص،محبت اور بھائی چارگی کادرس دیا اور قوم کو یکجہتی کا سبق سکھایا ۔وہ نہایت ذہین تھے ،ان کا حافظہ بہت قوی تھا، اگروہ کسی سے ایک بار بھی ملاقات کر لیتے تھے تو دوسری بار ملنے پرانھیں ان کے نام سے پکارتے تھے اور ان کی خیریت کے ساتھ خاندان اور محلے والوں کی بھی خیریت دریافت کرتے تھے۔شفقت،فیاضی ،سخاوت اور ایثار جو بزرگوں کاخاصہ ہے، ان کی ذات میں بدرجۂ اتم موجود تھی۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ دہلی میں مسلم لیگ کا اجلاس تھا ۔ سردی کا زمانہ تھا ،ویسے تو اس کے اجلاس ایک ہی دن میں ہوا کرتے تھے لیکن اس دن بات طولانی ہوتی گئی اور جلسہ کو کل تک کے لیے ملتوی کرنا پڑا ،چنانچہ سید حسن ریاض صاحب کا بیان ہے جو غالباََ بلند شہر کے رہنے والے تھے اور اس تنظیم کے ایک اہم رکن تھے ،کہ جلسے کے ختم ہوتے ہی مولانا نے اصرار کیا کہ آپ میرے گھر قیام کریں اب دیر ہوچکی ہے، بس وغیرہ کا ملنا بھی مشکل ہے ،سردی بھی بہت زیا دہ ہے۔ چنانچہ بہت اصرار پر میں ان کے گھر چلا گیا ،ان کے پاس اوڑھنے اور بچھانے کے لیے اضافی سامان نہ تھا ،اس لیے اپنے اوڑھنے، بچھانے کے سامان میں سے آدھا میرے پاس بھیج دیا بعد کو معلوم ہوا تو انھوں نے شرمند گی ظاہر کی کہ میں آپ کی خاطر خواہ خدمت نہ کرسکا۔
اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی محمد علی جوہر علم و فضل میں ان سے بہت قد آور شخصیت کے مالک تھے لیکن جو چیز ان کی شخصیت کو شرف بخشتی ہے وہ قوم کے تئیں ان کاجذبۂ ہمدردی ہے۔ وہ قوم کے بہی خواہوں میں سے ایک تھے اور چاہتے تھے کہ قوم کو جو اب تک خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے ،جھجھو ڑیں اگر ان میں سے چند بھی بیدار ہوگئے تو ان کا مقصد پورا ہوجائے گا ۔
اسی زمانے میں علی گڑھ میں ایک انجمن ’الفرض‘ کے نام سے قائم کی گئی تھی، اس انجمن کی طرف سے ہر سال ایک وفد ملک کے بڑے بڑے شہروں کا دورہ کرتا تھا اور ایک معقول رقم لاکر انجمن کے فنڈ میں جمع کرتا تھا ۔بمبئی سے عموماََ بیس سے پچیس ہزار روپے وصول کیے جاتے تھے۔ ایک با رلوگوں کے اصرار پر اس وفد کے ساتھ مولانا بھی گئے تو صرف ایک شخص سے پچیس ہزار روپے کا انتظام کرا دیا۔
 پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں ہی مولانا شوکت علی نے ’انجمنِ خُدَّام کعبہ‘ کی بنیاد ڈالی۔ اس انجمن کا بنیادی مقصد قوم کی فلاح و بہبود تھا لیکن اس کے ذریعہ وہ انگریز افسروں کے زخموں کو کریدنا بھی چاہتے تھے تاکہ انھیں اپنی بے وقعتی کا اندازہ ہوجائے۔ اسی وقت محمد علی جوہر نے بھی ایک مضمون لکھا جس میں ترکوں کی تعریف کے ساتھ انگریزوں کی خوب خوب ہنسی اڑائی گئی تھی جس کی پاداش میں دونوں بھائیوں کو سلاخوں میں محبوس ہونا پڑا ۔دورانِ قید انھوں نے قرآن سے خاطر خواہ استفادہ کیا اور اپنے تمام تر اوقات علمی مشغولیات اور عبادت و ریاضت میں صرف کیے۔ رہائی کے بعد انگریزی لباس ترک کردیا اور چہرے پر ڈاڑھی رکھ لی، لہذا اب وضع قطع بھی ایسی ہوگئی کہ لوگ ان کے گرویدہ ہوتے گئے۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مولانا شوکت علی اور ان کے چھوٹے بھائی مولانامحمد علی جوہرکے علاوہ کوئی ایسی نادر اور یکتائے روزگار شخصیت نہیں ملتی جس نے تحریر و تقریر دونوں کے ذریعے ملک و قوم کی خدمت کی اور انھیں ان کا کھویا ہوا وقار واپس دلانے کی کوشش کی ۔ شوکت کے اندر زبان و بیان کی قوت موجود تھی ،وہ معمولی سے معمولی بات کو بھی اچھے طریقے سے پیش کرنے کا ہنر جانتے تھے اور اکثر تقریروں میں دبے الفاظ میں انگریزی حکومت کو بڑی بے خوفی اور بے باکی سے للکارتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ انھیں پوری زندگی خانماں برباد رہنا پڑا،وہ دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہے لیکن حق گوئی سے کبھی سر مومنحرف نہیں ہوئے۔
برّ صغیر ہند و پاک میں آج بھی مولانا کے قدر داں موجود ہیں ،تحریک آزادی کے مجاہدین میں علی برادران خصوصامولانا شوکت علی کا نام جلی حروف میں لکھے جانے کا مستحق ہے،کیوں کہ انھوں نے ملک کی آزادی کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ،ہمارے دلوں میں ان کے لیے ہمیشہ عزت و وقعت قائم رہے گی ۔آخر میں اس عظیم مجاہد آزادی کی خد مت میں ایک شعر کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔
   سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
مرزاغالب )
منابع و مصادر:۱۔اردو شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر،سید مجاور حسین،اتر پردیش اردو اکادمی لکھنو،۲۰۰۴ء،۲۔باغی جوہر،چمن لعل آزاد،جے ہند پبلیشرز رجسٹرڈ لاہور،سنہ ندارد۔۳۔ریاض کراچی،جنوری۱۹۵۴ء،ص۲۱-۵۹۔۴۔کلیات جوہر،علی محمد خاں،مکتبہ الحسنات،۲۰۱۴ء۔۵۔ہماری آزادی،مولانا ابولکلام آزاد،اورینٹ لونگ مین لمیٹڈنئی دلّی،۱۹۹۱ء۔۶۔ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری،گوپی چند نارنگ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی،۲۰۰۳ء،ص۴۶۳-۴۷۸
۷۔ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوںکا حصہ،مظفرالدین فاروقی،انجمن ترقی اردوہند (دہلی)
 شعبۂ فارسی ،بنارس ہندو یونیورسٹی، وارانسی، موبائل نمبر۰۷۳۸۸۸۸۶۶۲۸
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular