Saturday, May 11, 2024
spot_img
HomeMuslim World"منزلِ شوق" کی شاعری کا مطالعہ

“منزلِ شوق” کی شاعری کا مطالعہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

تمثـــــــیلہ لطیــــــــف
راولپنڈی ۔ پاکستان

“منزلِ شوق” محمّد ہارون اکسؔیر کی شاعری کا مجموعہ ہے جسے نورانی آفیسٹ پریس مالیگاؤں سے شائع کیا گیا ہے۔ یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے ابتدا میں ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی ، سیّد معین ادیب علیمی ، پروفیسر مبین نذیر اور محمد احسان الاسلام قاسمی کے لکھے مضامین ہیں۔ ان کا پسندیدہ مضمون تو نعت، منقبت و سلام ہے لیکن انہوں نے غزل بھی بہت عمدہ لکھی ہے۔ بیسویں صدی کے ایوانِ ادب میں جن شعراء کی تصاویر پورے قد کے ساتھ آویزاں ہیں ان میں ایک نام محمد ہارون اکسؔیر کا بھی ہے۔ انہوں نے زندگی کی پر جہت اور کائنات کے مختلف رُخوں کا مطالعہ کمال فنی مشاقی کے ساتھ کیا ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ترقی پسند شعراء کی طرح غزل کو شجرِ ممنوعہ نہیں گردانا بلکہ ان کی غزلیہ شاعری جدّتِ ادا کا نمونہ ہے۔
حمد سے انہوں نے آغاز کیا ہے اور حمدیہ شعر میں تلمیح کے استعمال سے انہوں نے شعر کے صوتی حسن میں اضافہ کیا ہے؎
تونے ہی کشتی بچائی نوح کی طوفان سے
پیٹ میں مچھلی کےدی یونس کوتونےہی اماں
تونے ابراہیم کو وہ جوشِ ایمانی دیا
آتشِ نمرود کو جس نے بنایا گلستاں
ایک طرف صنعتِ تکرار لفظی برمحل برتی گئی ہے تو دوسری طرف حرف ‘ت’ کی تکرار شعر کے صوتی و صوری حسن میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
نعت کے اشعار شاعر کے دردِ دل اور محبت رسولﷺ کی گواہی دیتے ہیں۔ غزلیہ اشعار مشاہدے کی چاشنی جب الفاظ کے پیرہن میں جلوہ گر ہوتی ہے تو دل و نگاہ کو خیرہ کرکے رکھ دیتی ہے۔ اس وقت قاری کے لبوں پر بیساختہ داد و تحسین کے الفاظ مچلنے لگتے ہیں؎
ضرور دل میں وہ سازش رچا کے دیکھتے ہیں
جو بار بار ہمیں مسکرا کے دیکھتے ہیں
محاورات کا استعمال بھی خوبی سے کیا گیا ہے اور موجودہ دور میں سماجی رشتوں کی شکست و ریخت کا المیہ کس طرح انسانی زندگی کے پیمانوں کو لبریز کرنے کا سبب بنتا ہے اس کی ہارون اکسیر نے کچھ اس طرح عکاسی کی ہے ؎
گرجتے ہیں جو برسنا نصیب کب ان کا
یہ کہہ کے ہم چلو تیور گھٹا کے دیکھتے ہیں
میں اپنے بچوں کے کردار سے ہوں خوف زدہ
وہ میری آنکھوں سے آنکھیں ملا کے دیکھتے ہیں
ہارون اکسؔیر نے اپنی شاعری میں انسان خاص کر آج کے انسان کی دقّتِ نظر سے تحلیلِ نفسی کی ہے۔ اور اس زندگی کے عصری شعور کا جائزہ لے کر مشاہدات کا اک جہان سامنے رکھ دیا ہے۔ اس لئے یہ کہنے میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ زندگی کے شاعر ہیں۔ وہ زندگی کے مختلف پرتیں الٹتے ہیں تو معاشرتی اقدارکو اجاگر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ان کے یہاں زندگی کی تصویریں ملتی ہیں ان میں منظر کی دلکشی کے ساتھ ساتھ انسان کی بدنصیبی اور ایک طرح کی بے چارگی کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے ان کی غزل میں کلاسیکی رچاؤ بھی ہے اور جدّتِ ادا بھی۔ وہ جہاں جہاں ضرورت محسوس کرتے ہیں نئے تلازمات اور علائم سے اردو غزل کا دامن بھرتے جاتے ہیں ؎
کس کا اعجازِ نظر تھا کہ سرِ راہ گزار
پیکرِ جہل کی مُٹّھی میں بھی کنکر جاگے
میری تنہائی نہ کردے مجھے گمراہ کہیں
خضر بن کر تو مری راہ گزر میں رہنا
شعر میں تلمیح کو برتنا فنی ہنر مندی کی عکاسی کرتا ہے اور مکالمے یا خود کلامی کا انسلاک ہو اور شعر تلمیح کا ہو تو لطف دو آتشہ ہوجاتا ہے درج بالا اشعا میں یہی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے
وہ تراکیب کا استعمال بھی فنی مشاقی سے کرتے ہیں۔ ان کے یہاں تراکیب میں بھی جدّت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ چند مثالیں دیکھیئے
معرکۂ فتح و ظفر، ہنگامۂ محشر، پیکرِ جہل، سلطنتِ شب، تابہ کجا ورطہ نثر میں بارِ الم، وسعتِ فکر و نظر، معرکۂ کرب و بلا، پسِ گرد قہر و عذاب، وحشت کربلا، حدِ انتہا، شبِ تارِ غم، مشکیزۂ امید، صلیبِ حادثاتِ وقت، اعتبارِ نغمۂ سوزِ وفا، حصارِ کرب و بلا، وغیرہ جیسی تراکیب سے اردو شاعری کا دامن بھر دیا۔
ان کے یہاں یادِ یار میں اُجڑنے کی کتھا دلدوزی سے سنائی جاتی ہے ؎
دیکھنا ہے کسی مفلس کا اگر حالِ تباہ
تو کسی روز تو چل کر مرے گھر میں رہنا
صنعتِ تکرارِ لفظی کا استعمال اپنی بہاریں دِکھاتا شاعر کے جمال پسند ہونے کی گواہی دیتا ہے ؎
ورق ورق لیے بوسیدگی کا بارِ الم
ہوں دیدہ زیب رسالوں کی بھیڑ میں تنہا
ہارون اکسؔیر نے اپنی جدّتِ طبع سے نیا تخلیقی شعور پیدا کیا ہے۔ ان کی غزل میں قدیم و جدید رنگ کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ شعر کی باطنی توانائی سے ایسے فکری و فنی کمالات دکھاتے ہیں کہ مضمون کے ساتھ ساتھ ان کا اسلوب بھی جگ مگ جگ مگ کرنے لگتا ہے۔ ان کے یہاں دلربایانہ انداز میں باشعور انسان کے، انسانوں کی بھیڑ میں گم سم اکیلا ہونے کی عکّاسی بھی ملتی ہے۔ اور جدّتِ ادا ان کے غزلیہ فن کی کی ایک ایسی خوبی لگتی ہے جو دورِ جدید میں بہت کم شعراء کا نصیب ہوئی ہے۔
سمندر اور پیاس کا استعارہ جس انداز سے برتا گیا ہے وہ ان کی شاعرانہ فنی ریاضت کا عکّاس ہے ؎
کھڑا ہوں وسعتِ فکر و نظر کی شمع لیے
میں اپنے چاہنے والوں کی بھیڑ میں تنہا
تو سمندر ہے تو پھر پیاس تری کیا معنی
مجھ کو یہ بات تری تجھ سے جدا لگتی ہے
دورِ حاضر میں مذہبی، مسلکی، صوبائی اور علاقائی تعصّب میں انسانوں کے مبتلا ہونے کا منظر نامہ شاعر کے یہاں جس انداز سے پیش کیا گیا ہے ذرا اس کی ایک جھلک دیکھیئے، شاعر کی قادرالکلامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ؎
لو لگی چلنے تعصّب کی گلی کوچوں میں
ہر نظر اب تو ہمیں خوفزدہ لگتی ہے
یہی عصری حسّیت ایک اور طرح سے اپنا اظہار کرتی ہے تو شاعر کے حساس ہونے کا علم ہوتا ہے ؎
وہ جس میں ڈوب کر پھر پار آنا غیر ممکن ہو
تباہی کا وہ بحرِ بیکراں منظر بہ منظر تھا
ہارون اکسؔیر کی شاعری میں حسرت و یاس، سوزِ دروں، افلاس، زندگی کی کشمکش، زمانے کی بے حسی، عدم مساوات، منافقت، حالاتِ حاضرہ، دنیا کی بے ثباتی، انسانیت اور درد مندی کے ساتھ ساتھ امید اور مثبت سوچ کی عکّاسی بھی ملتی ہے ؎
(جاری)
بجھ گئے وقت سے پہلے یہ سمجھ کر تارے
اب ہے بیکار تمنّائے سحر میں رہنا
سوزِ دروں کو شعروں میں اپنے پُرو گیا
مجھ سے جنوں کی رو میں بڑا کام ہوگیا
میرے تلوؤں میں جب افلاس کے چھالے دیکھے
ٹوٹ کر تب میری دہلیز کا پتّھر رویا
اکسؔیر بے شمار مسائل کے درمیان
ہر ایک شخص میری طرح کمشکش میں تھا
ہارون اکسؔیر کی شاعری، لطیف جذبات کی شاعری ہے۔ ان کی شاعری میں رومانوی رنگ گہرے ہیں، اداسی بے پناہ ہے اور خیال اپنے پورے وجود کے ساتھ نمایاں ہے ان کی شاعری میں موضوعات کی ترتیب بتاتی ہے کہ ان کی شاعری کا محور داخلی معاملات نہیں بلکہ خارجی مسائل پر بھی پوری نظر تھی وہ ذاتی تنہائی کے احساس سے معاشرے کے اکیلے پن تک ہر جگہ اپنا درد مند دل رکھ دیتے تھے ؎
ان کی مجبوریاں فٹ پاتھ پہ لائی ہیں انہیں
ورنہ چاہے گا کوئی راہ گزر میں رہنا
فن تو وہی فن ہے جس فن کو مان لیں خود ہی اہلِ فن
اور جسے منوایا جائے اس فن کا میعار غلط
جانے کیا بات ہے حو مجھ سے خفا لگتی ہے
زندگی معرکۂ ِ کرب و بلا لگتی ہے
جب ہارون اکسؔیر کی شعری تخلیقات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ہمیں گھٹا، الم، صحرا، تنہائی، تاریک نگر، مشعل، موسم، موج، سنمدر، محشر، سلطنتِ شب کا وجود، پیمبر، زمین، چاند، اجلے شہر، آندھی، کھنڈر، اندھیرے، ورطۂ شہر، ماضی، بھنور، بوسیدگی، شمع، کرب، بلا، سمندر، پیاس، لو، تباہی، مسائل، شفق، خون، پیراہن، گھر، دھواں، آرزو، مدفن، بحر، شام، سحر، بوڑھا شجر، سورج، غزال، ظلمات، برگد، آسیب، گل، ثمر، ادا، وفا، صبا وغیرہ جیسی علامتیں ملتی ہیں۔ کائنات اور فطرت میں بکھری ہوئی یہ علامتیں ہارون اکسؔیر کے یہاں چراغوں اور جگنوؤں کی طرح چمکتی نظر آتی ہیں ہر علامت اپنے اندر جدّت اور حیرت سمیٹے ہوئے ہے۔
یہ اشعار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان کی تخلیق کارِ فطرت کے بہت قریب ہے چنانچہ انہوں نے فطرت کے ساتھ تصادم کی بجائے مراسم کو اہمیت دی۔ انہوں نے فطرت سے بہت کچھ سیکھا یہ اشعار دیکھیئے ؎
میں کتابِ غمِ ہستی کا وہ بوسیدہ ورق
جس کو پڑھ لینے سے جینے کی ادا ملتی ہے
کبھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں میں کبھی بہکی بہکی فضاؤں میں
کبھی کالی کالی گھٹاؤں میں تری خوب ہم سفری رہی
سورج کی تمازت سے جھلستے ہوئے بَن میں
بے برگ و ثمر بوڑھا شجر کس کے لیے تھا
اپنے نظریۂ فن کے مطابق اپنے وطن سے ان کی محبت لازوال ہے۔ وہ وطن سے محبت کا پختہ عہد رکھتے ہیں۔ اپنی مٹی سے وابستگی ان کے لیے جزوِ ایماں ہے یہ شعر دیکھیئے ؎
اچھّا ہوا اکسؔیر جو کام آیا وطن کے
ورنہ میں یہی سوچتا سَر کس کے لیے تھا
شعلہ شعلہ ہوئی جب فضائے چمن
صرف ہم ہی اٹھے اور گھٹا ہوگئے
ہارون اکسؔیر کے یہاں عصری حسّیت کا المیہ اپنی تمام وحشتوں کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر زیست کرنے والوں کی قلعی عمدگی سے کھولی گئی ہے یہ شعر دیکھیئے ؎
تھا جنہیں ہمنوائی کا دعویٰ بہت
وقت پڑتے ہی سارے ہوا ہوگئے
ہارون اکسؔیر تلمیح کا استعمال اتنی برجستگی سے اور برمحل کرتے ہیں کہ قاری کے لبوں سے بے ساختہ واہ واہ کے الفاظ نکل جاتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعے کو انہوں نے عمدگی سے صفحۂ قرطاس پر بکھیرا ہے ؎
فرطِ حیرت سے خدائی اس کا منہ تکتی رہی
خود خدا نے کی تھی جس کی رہنمائی آگ میں
ہارون اکسؔیر کے یہاں خالص عشقیہ شاعری کے نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں یہ چند اشعار دیکھیں ؎
تم اپنی زلفِ برہم کو یونہی شانوں پہ رہنے دو
تمہاری زلف کے سائے میں مرجانے کو جی چاہے
ائے کاش کبھی تو کوئی اس پھول بدن کے
اس رہگزرِ دل سے گزرنے کی خبر دے
تو نہیں ہے نہ سہی تیری یہ تصویر تو ہے
چند لمحے اسی تصویر سے باتیں کرلوں
تصور سے ترے اپنی غزل کا
میں ہر مصرع سجانا چاہتا ہوں
غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غمِ دوراں بھی اکسؔیر کی شاعری کا اہم جزو ہے یہ اشعار ملاحظہ کیجیئے ؎
سچ کہنا پل صراط پہ چلنے سے کم نہیں
آتا نہیں یقیں تو کبھی آزما کے دیکھ
آسائشوں سے درد کا رشتہ ہی کب رہا
ہم خستہ حال لوگوں کی بستی میں آکے دیکھ
اسیرِ حلقہِ زنجیرِ رسم کرکے ہمیں
نہ جانے اور ابھی کیا سماج مانگے ہے
وہ دور جس میں تھا انسان انس کا پیکر
مجھے بتاؤ کہاں کس کتاب میں گم ہے
عصری حسّیت کا المیہ بھی پوری وحشتوں کے ساتھ اکسؔیر کی شاعری کا موضوع بنتا ہے ؎
غیر محفوظ ہر اک شخص کی ہے دولتِ زیست
کیسے دن آئے ہیں یہ کیسے زمانے آئے
لب سی کے نہ جی پاؤ گے ملّت کے جوانو
اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچا دو
جدیدیت کی وبائیں کہاں سے پھوٹ پڑیں
زن اور مرد کا جو ایک سا لباس ہوا
اب اس کی بھی نظریں مرے عیبوں پہ لگی ہیں
جس نے کہ کبھی جھانک کے اندر نہیں دیکھا
جدید اردو شاعری میں ہارون اکسؔیر ایک بے مثال تخلیق کار کے طور پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کی نمایاں پہچان فکر و احساس کی انفرادیت جرأتِ اظہار کی نمائندگی اور حقیقت اور صداقت نگاری کی پیشکش ہے وہ بہترین اور سچّے شاعر ہیں۔ جہاں تک ان کی طرزِ ادا کی بات ہے تو اس میں سادگی کے باوجود سوز و گداز کی ہلچل اور تاریکی کے ساتھ ساتھ شگفتگی بھی موجود ہے انہیں کچھ غیر انسانی رویّے بالکل پسند نہیں لیکن امید کا دامن پکڑے رہتے ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ بھی ان کے زرخیز ذہن سے شاعری کے اعلیٰ نمونے صفحۂ قرطاس پر رقم ہوتے رہیں گے _

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular