Saturday, May 11, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمقبرہ جناب عالیہ

مقبرہ جناب عالیہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

پرویز شکوہ

آج سے تقریباََ دوسوسال قبل کشمیر کے حکمرانوںنے باشندگان کشمیرپربڑے ستم ڈھائے اورانہیں کبھی انسان نہیں سمجھا۔ بقول اُردوکے ایک معروف صحافی سید بشارت شکوہ اس وقت کشمیرآج کے ہندوستانی مسلمان کی طرح تھا جس کاکوئی میرکارواں نہ ہو، اس لئے باشندگان کشمیر نے مجبوراََ اپنے وطن کی سرحدیں پارکرکچھ دہلی کی طرف چلے گئے کچھ عظیم آباد یعنی پٹنہ کی جانب منتقل ہوگئے اورکشمیریوں کے چندبڑے قافلوں نے لکھنؤ میں پناہ لی۔ باشندگان کشمیرکی خوش قسمتی سے اس وقت نواب سعادت علی خاں کادورحکومت تھاان کے وزیراعظم حکیم سیدمہدی تھے جوخود بھی نسلاََ کشمیری تھے اورایک نیک دل انسان بھی تھے۔(جن کا مقبرہ آج بھی لکھنؤ سٹی اسٹیشن اور میڈیکل کالج کے بیچ واقع ہے ) لہٰذا انہوںنے مظلوم بے وطنوںکی آبادکاری میں بھرپورحصہ لیاانہوں نے کشمیری پنڈتوں کے جوبہت سے خاندان لکھنؤ چلے آئے تھے ان کومغربی لکھنؤ میں بسایا۔ جسے بعدمیں کشمیری محلہ کے نام سے موسوم کیاگیا۔ یہ ۱۷۸۰؁ء کے آس پاس کازمانہ تھا۔ انہوںنے لکھنؤکو کچھ اسطرح سے اپنایاکہ بعض اُردوزبان وادب اور لکھنؤ کی تہذیب کی پہچان بن گئے جن میںپنڈت رتن ناتھ سرشار، پنڈت دیاشنکرنسیم، اورپنڈت برج نرائن چکبست کے نام خاص طورسے قابل ذکرہیں۔ یہاںیہ بھی عرض کرتاچلوںکہ ڈاکٹراقبال بھی کشمیری النسل تھے۔ چکبست نے اپنے آبائی وطن کشمیرکیلئے لکھاہے÷
ذرہ ذرہ ہے مرے کشمیر کا مہماں نواز
راہ میں پتھر کے ٹکڑوں نے دیا پانی مجھے
مسلمان سنی مذہب کشمیرمہاجرین کو کٹرہ ابوتراب خاں، نخاس اورچوک میں بسایا۔ جنہوںنے لکھنؤکی تہذیب میں چارچاندلگائے۔ جن میںحکیم خواجہ شمس الدین،پروفیسر عزیزالدین طارق، اورپروفیسر خواجہ جمیل وغیرہ کے نام قابل ذکرہیں۔باشندگان کشمیرکاایک بڑاقافلہ جومسلک شیعہ اثناعشری سے وابستہ تھااورجن میں سادات کی اکثریت تھی حکیم سیدمہدی نے انہیں مختلف علاقوںمیں بسایاتھا۔ بعض کوگومتی کے اس پارجگہ دی بعض کووزیرگنج میںاورکچھ کوگولہ گنج میںمقبرۂ جناب عالیہ کے اِردگردآبادکیاتھا۔
جناب عالیہ اودھ کے پانچویںنواب سعادت علی خاں کی ماںکالقب تھا۔جن کاعالیشان مقبرہ آج بھی گولہ گنج میں(گوئن روڈ،امین آباداوربلرام پوراسپتال کے درمیان)واقع ہے۔ جناب عالیہ کی قبرپرایک بہت بڑااوربلندمقبرہ ہے جس کے اردگردان کی نوکنیزوںکے مقابرہیں۔
مقبرے میں بسنے والوںکولکھنؤکی تہذیب وتمدن کواپنانے کے باوجود اپنی کشمیریت پر فخرتھا۔ مقبرے میں بسنے والے باشندگان کشمیرنے ایک قبیلہ کی سی حیثیت اختیارکرلی تھی۔ یہ آپس میں متحدہوکر، مثل ایک خاندان کے رہتے تھے۔ ان کا اتحاد ضرب المثل تھا۔ عرصہ تک انکی آپسی بات چیت کشمیری زبان میں ہوتی تھی۔ ان کی غذائیں بھی کشمیری اوررسم ورواج کشمیری تھے، ان کی مجلس وماتم کشمیری زبان میںہوتے تھے۔ محلہ مقبرہ جناب عالیہ میں بھی عظیم ہستیاںپیداہوئیں جن میں شیعہ عالم دین مولاناسید ابوالحسن مرحوم اردوشاعری کادرخشاںستارہ اوراستاد سخن عزیزلکھنوی اورڈاکٹروراثت شکوہ کشمیری جوامریکہ ہی نہیں بلکہ دنیاکے سب سے بڑے ریسرچ کے مرکزبنام نیشنل انسٹی ٹیو ٹ ا ٓف ہیلتھ(NIH)کے معروف سائنسداںتھے ۔
مقبرے میں تقریباََسوسال سے زائد عرصہ سے صحافت کابھی سلسلہ چلاآرہاہے۔ تقریباََ۱۹۵۷؁ء میں مقبرے سے نکلنے والے اردو ہفت روزہ’ ہمت‘ کے ایڈیٹر سید وزارت شکوہ کشمیری مرحوم کے نانامیریادعلی مرحوم نے بھی اپنے چھوٹے بھائی حکیم مبارک علی مرحوم کے اشتراک سے ۱۹۰۷؁ء میں ہفتہ روزہ شیعہ گرنٹ نکلاتھا۔ یہ ہفت روزہ بڑاوقیع اور مقبول رہا۔آج بھی یہاں سے اردو روزنامہ’ صحافت‘شائع ہورہاہے جوبڑامقبول عام ہے ۔روز نامہ صحافت کی باقاعدہ اشاعت کاآغازغالباََ1995ء کے آخرمیں ہوا ۔اخبار کے مالک امان عباس صاحب کے بڑے بھائی جناب طاہرعباس مرحوم ہندی کے ایک نامور صحافی تھے ۔
ایک زمانے میں مقبرہ میں غیرکشمیریوں کورہائش نہیںدی جاتی تھی۔ لیکن دورحاضرمیں غیرکشمیری خاندان بھی یہاںآبادہیں۔نمکین کشمیری چائے یہاں کے لوگوںکو خاص ذوق تھاجوآج بھی محلہ میں بچے کشمیری گھرانوںمیں ملتاہے البتہ آج بھی یہاںلوگ اپنی خوشی اورغم آپس میں بانٹتے ہیں۔ باشندگان مقبرہ جناب عا لیہ خصوصاََ اپنے اہل محلہ کی کسی بھی پریشانی غم کے موقع پرایک قبیلہ کی سی صورت میں نظرآتے ہیں شاید یہ اُس قدیم محلہ کے مزاج ہی کاعکس ہے۔
۴۴، مقبرہ جنابِ عالیہ، گولہ گنج، لکھنؤ
موبائل: 7505299211

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular