Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمشرقی اقدار کے حامی: اکبرؔالٰہ آبادی

مشرقی اقدار کے حامی: اکبرؔالٰہ آبادی

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

سلیم انور

اکبر الٰہ آبادی کا عہد ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے بعد کا ہے۔ہندوستان کے مسلمانوں پر یہ دور بڑی مشقت اور زبوں حالی کا تھا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ ۱۸۵۷ کی تحریک آزادی میں مسلمانوں نے بڑی تعداد میں حصہ لیاتھا۔ جس کی پاداش میں انگریزوں کے غلبہ کے بعدمسلمان ان کے عتاب کا خاص طورسے نشانہ بنے۔ انگریزوں کی اس منتقمانہ رویے نے مسلمانوں کے تئیں ہر طرح کے ظلم و استبداد کو روا تصور کرتے ہوئے وہ داستانِ لہوفشاں رقم کی کہ اس کے آگے چنگیز و ہلاکو خان کی سفاکی و بربریت بھی پھیکی پڑ گئی۔اس طرح وہ قوم جو پہلے ہی سیاسی و معاشی بحران سے گذر رہی تھی انگریزوں کے قہر سے مزید زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔انگریزوں نے ہندوستانیوں کی جسمانی غلامی پرہی اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ ذہنی طور پر بھی ان کو اپنا ہمنوا اور اطاعت گزار دیکھنا چاہتے تھے۔اس لئے جنگ آزادی کے ہنگامے اور انتقامی جوش کے فرو ہو جانے کے بعد انھوں نے بڑی ہوشیاری اور عیاری سے ہندوستانیوں کے دل و دماغ کو تبدیل کرنے کی کوششیں کیں ۔ اپنی حکومت کو پائیدار بنانے میں جو کام تیر و تفنگ اور گولہ بارود سے نہ کر سکے تھے اسے ہندوستانیوں کے جذبۂ احساس کمتری کا فائدہ اٹھا کر کرنے لگے ۔جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہو رہے تھے۔ ہندستانیوں کا ایک طبقہ بڑی تیزی سے انگریزوں سے مرعوب ہو رہاتھااور ان کے تہذیب و تمدن ، رہن سہن، تعلیم اور معاشرت کو یہ طبقہ تحسین کی نظر سے دیکھنے لگا۔ اس تعلق سے ضیا چکدینوی لکھتے ہیں:
’’دلی اور دلی کے آس پاس کے علاقوں کے قتل عام سے بھی انگریز جب مطمئن نہ ہوئے تو بالعموم ہندوستان اور ہندوستانیوں پر بالخصوص ان کے قلب و ذہن پر حکومت کرنے کی خواہش ان کے دل میں پیدا ہوئی ۔ لہذااپنی اسی خواہش کی تکمیل کے لیے بڑی ہوشیاری و عیاری کے ساتھ ہندوستانی تہذیب و تمدن کو پسپا کرنے لگے اور اس کی جگہ اپنی کھوکھلی تہذیب اور کھوکھلے تمدن کو لانے لگے۔ انگریزی تعلیم کو بزور ہندوستانیوںپر تھوپ دیا گیا۔ عموماً بدیر ہی سہی لیکن مغلوب قومیں غالب قوموں سے متاثر ہو جاتی ہیں اور ہندوستانی کیوں نہ ہوتے؟ جہاں ایک طبقہ پہلے سے ہی انگریزوںکا استقبال کرنے کو تیار تھا۔ عمررسیدہ و پرانی تہذیب والے اپنے مذہبی تصورات اور ہندوستانی روایات کو کسی بھی قیمت پر ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے تھے جبکہ نوجوان و نئی نسل مغربی تہذیب و تمدن اور اس کی ظاہری چمک دمک کے گرویدہ ہو چکے تھے اور اس کی طرف تیزی سے بھاگ رہے تھے اور انگریز بھی تو یہی چاہتے تھے کہ انھیں ان کے مشن میں کامیابی ملے۔‘‘۱؎
۱؎’’اکبر الہ آبادی بحیثیت لسان العصر‘‘ ضیا چکدینوی،مشمولہ: روح ادب، مغربی بنگال اردو اکاڈمی کلکتہ،جولائی تا ستمبر ۱۹۹۱ء۔ ص:۵۷۔۵۸
اکبر الہ آبادی ان معدودے چند شعرا میں سے ہیں جنھیں اپنے ملک اور قوم سے بے لوث محبت اور ہمدری تھی۔ اپنے ملک کی خوشحالی اور امن و امان کے لیے وہ ہمیشہ فکر مند رہتے تھے ۔ ایک حساس طبیعت کا شخص اپنے گردواطراف میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تو اکبراس سے کیسے بچ سکتے تھے۔ انھوں نے اپنے معاشرے میں جو کچھ بھی اچھائیاں اور برائیاں دیکھیں انھیں بے خوف و خطر بیان کر دیا۔وہ کہتے ہیں:
جو سچی بات ہے کہدوں گا بے خوف و خطر اس کو
نہیں رکنے کا میں ہر گز پری ٹوکے کہ جن ٹوکے
ہندوستان میں مصلح ، مفکراور دانشوروں کاایک طبقہ ایساتھا جس کو اپنی تہذیب سے گہری وابستگی اور والہانامحبت و عقیدت تھی،اوراس نے اپنی تہذیب کو مضبوطی سے پکڑے رکھا ۔ اکبر الہ آبادی کاتعلق اسی طبقے سے تھا۔ وہ قطعی طور پر نہیں چاہتے تھے کہ مغربی تہذیب کو اپنایا جائے کیونکہ وہ اپنی دوراندیشی سے یہ بھانپ رہے تھے کہ اس کے کیا نتا ئج برآمد ہونے والے ہیں۔اس لیے وہ مغرب کی ہر اس چیز کی مخالفت کرتے تھے جو مشرقی تہذیب کی روح کو مجروح کرے۔مگر یہ بات کہاں ممکن تھی کہ ملک کا ہر شہری ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب بھی سماج میں کوئی نئی چیز آتی ہے یا کوئی نظام تبدیل ہوتا ہے تواسے فوراً قبول عام حاصل نہیں ہو تا ۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اس کی سرے سے مذمت کرتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک طبقہ اس کی مخالفت کرتا ہے تو دوسرا اس کی حمایت۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ لوگ اس کی طرف متوجہ ہونے لگتے ہیںاور اس کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ کچھ اسی طرح کا حال مغربی تہذیب کے ساتھ بھی ہوا ۔ایک طبقہ اس کی مخالفت تو دوسرا حمایت میں لگا رہا۔ سن رسیدہ اور بزرگ و سنجیدہ حضرات نے اس کی مخالفت کی ۔لیکن نئی نسل دھیرے دھیرے انگریزیت کی چمک دمک کی طرف مائل ہوئی ۔یہ سلسلہ روز بہ روز بڑھتا گیااور ایک بڑی تعداد مغربی تہذیب کی حامی بن گئی۔ اور اس طرح ان کی یہ تہذیب یہاں اپنا پیر جمانے میں کامیاب ہوئی۔ لوگ مغربی کلچر اور نظام حیات کو اپنانے میں فخر اوراپنا اسٹینڈرڈ سمجھنے لگے ۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ برسوں سے چلی آرہی ہماری ہندوستانی تہذیب و تمدن جن سے ہماری ایک انفرادی شناخت قائم تھی اس سے لوگ دور ہوتے گئے۔ اپنے رسم ورواج ،ر ہن سہن ،مذہب اور زبان کی طرف سے بھی توجہ کم ہوگئی۔ لوگوں نے اس چمک دمک میں خود کو اتنا گم کر لیاکہ وہ مغربی تہذیب کو کھوکھلا سمجھنے کے بجائے مشرقی تہذیب کو ہی فضول اور از کار رفتہ تصور کرنے لگے ۔یہ بات صرف مسلمانوں کے اندر ہی پیدا نہیں ہوئی بلکہ ہندو ئوں کے یہاںبھی در آئی تھی۔یہاں تک کہ دونوں اپنے مذہب سے بھی بیزاری کا اظہار کرنے لگے۔ان حالات میں اکبر خود کوروک نہ سکے اوراپنے ہم وطنوں کو احساس دلایا کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کس طرح کھورہے ہیں:
کہاں کی پوجا نماز کیسی کہاں کی گنگا کہاں کا زمزم
ڈٹا ہے ہوٹل کے در پہ ہر اک ہمیں بھی دو ایک جام صاحب
خالی حرم کو شیخ ہی تنہا نہ کر گئے
حیرت میں بت بھی ہیں کہ برہمن کدھر گئے
کہاںکے مسلم کہاں کے ہندو بھلائی ہیں سب نے اگلی رسمیں
عقیدے سب کے ہیں تین تیرہ نہ گیارویں ہے نہ اسٹمی ہے
ا کبر نے جگہ جگہ لوگوں کے احساس کو بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ انھوں نے مغربی تعلیم سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی طرف اشارہ کیا اور یہ بتایا کہ اس سے ہماری نئی نسل کس طرح تباہی کی طر ف تیزی سے بڑھ رہی ہے اور روحانیت کو چھوڑکر مادہ پرستی اور عیش پرستی کی طرف مائل ہورہی ہے۔
اس مس پہ کون میرے سوا ہو فریفتہ
گاہک میں ہی ہوں ہند میں لندن کے مال کا
رکھنا پڑا ہے اس بت کافر سے میل جول
موقع نہیں ہے بحث حرام و حلال کا
کیا ذوق عبادت ہو ان کو جو مس کے لبوں کے شیدا ہیں
حلوائے بہشتی ایک طرف ہوٹل کی مٹھائی ایک طرف
خوشامدی کو مبارک ہو رات دن چکر
یہاں تو رکھتے ہیں بس کام اپنے کام سے ہم
خواہ صاحب کو تم سلام کرو
خواہ مندر میں رام رام کرو
بھائی جی کا فقط یہ مطلب ہے
جس میں روپیہ ملے وہ کام کرو
اکبر جس خاندان میں پلے ، بڑھے اور جوان ہوئے وہاں مذہبی ماحول تھا ۔جن اساتذہ سے تربیت پائی وہ مذہب کے پاس دار تھے۔ مذہب اکبر کے رگ وریشے میںسمایا ہوا تھا۔اس لئے وہ زندگی میں رونما ہونے والے ہر طرح کے مسائل کا حل مذہب میں تلاش کرتے تھے اورتادم آخر اس روش پرقائم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان انھیں دل و جان سے عزیز تھااور وہ اس سے کسی طرح سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔لیکن مغربی تعلیم نے ہندوستانیوں کے ذہن کو ایسے موڑا کہ اس کا اثر ان کے دین ومذہب پر بھی پڑا اور بے کم وکاست وہ دین سے بھی منحرف ہونے لگے۔اکبر نے اس رجحان کی طرف یوں اشارہ کیاہے:
نئی تہذیب میں دقت زیادہ تو نہیں ہوتی
مذاہب رہتے ہیں قائم فقط ایمان جاتا ہے
خدا کے منکر نبی سے غافل کہاں کے پیر و امام صاحب
انھیں کے در پہ جھکی ہے گردن سلام صاحب سلام صاحب
دین کو جب ہم نے دنیا پر مقدم کر دیا
دنیوی درجہ کو بھی اللہ نے کم کردیا
اکبر ایک تعلیم یافتہ ،صلاحیت منداورباشعور انسان تھے۔وہ تعلیم کے حامی تھے اور اسے حاصل کرنے کی تلقین بھی کرتے تھے۔انھوں نے عورتوں کو بھی تعلیم دینے پر زور دیا اور اسے ضروری بتایا۔لیکن وہ جس تعلیم کے حامی تھے وہ مذہبی تعلیم تھی ۔
کیونکہ مذہب ہرطرح کے غلط اور برے راستے پر جانے سے روکتااور صحیح اور نیک راستے پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ان کا یہ مانناتھا کہ عورت اگرتعلیم یافتہ نہ ہوگی تو اپنے بچوں کی صحیح اور اچھی طرح تربیت نہیں کر سکتی ،اور ہماری آنے والی نسلیں جہالت اور غیر مہذبی کا شکار ہو جائیں گی۔ جو نہ صرف اپنے خاندان اور سماج بلکہ ملک کے لیے بھی محض ایک بوجھ بن کر رہ جائیں گی۔ اگر وہ پڑھی لکھی،صلاحیت مند اور نیک سیرت والی خاتون ہوگی تو اپنے بچوں کو بھی اسی راستے پر لے جائے گی جس کی وہ خود پروردہ ہے، ان کی اچھی طرح تربیت کرکے گھر ،خاندان، سماج اور ملک کے لیے ایک اچھا شہری بنا سکتی ہے۔ جو اپنے سماج اور ملک کے کسی کام آئے۔ کسی گھر کے بننے اور بگڑنے میں عورت کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ یہی عورت گر پڑھی لکھی اور صلاحیت مند ہوگی تو خاندان کو اجڑنے اور تباہ ہونے سے بچا سکتی ہے۔لیکن اگر وہ اس کے برعکس ہے تو بنتے ہوئے کام کو بھی بگاڑ سکتی ہے۔ اس لیے اس کو ایسی تعلیم دی جائے جس سے گھر ،سماج اور معاشرہ میں خوشحالی کی فضا قائم ہو سکے ۔تعلیم سے انسان کی صلاحیت نکھرتی ہے،اس سے شعور وسلیقہ آتا ہے۔اسی لیے اکبر کہتے ہیں:
تعلیم عورتوں کو بھی دینا ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہو تو وہ بے شعور ہے
اکبر نے مغربی تعلیم سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی پرزور مذمت کی۔ ہندوستانی سماج کی وہ لڑکیا ں جو ابھی تک ہندوستانی تہذیب وتمدن کے مطابق اپنی زندگی گزار رہی تھیںانھوں نے انگریزوں کی تہذیب کو اپنا نا شروع کر دیاتھا۔ کالج کی ہوا لگنے کے بعد پردہ نشین خواتین محفل کی زینت بننے لگی تھیں۔اپنے بڑوں کا ادب ،پردہ اور شرم وحیا نام کی چیز ان کے اندر جاتی رہی۔ ا س کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اکبر کہتے ہیں:
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی
اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی

تعلیم کی خرابی سے ہوگئی بالآخر
شوہر پرست بیوی پبلک پسند لیڈی

خدا کے فضل سے بیوی میاں دونوں مہذب ہیں
حجاب ان کو نہیں آتا انھیں غصہ نہیں آتا
اکبر ایسی تعلیم کے خواہاں تھے جو اقدار حیات کو بہتر بنائے،اپنے بڑوں کی قدر کرنا سکھائے،جو اپنی تہذیب اور مذہب سے بھی رشتہ قائم رکھنے والا بنائے۔انھوں نے ہر طرح کے دنیاوی علوم و فنون سیکھنے کی ترغیب دی ،تا کہ ہمارے ملک کا ہر شہری آگے بڑھ سکے اور ترقی کے اعلی سے اعلی منازل طے کرے۔اس تعلق سے وہ کہتے ہیں:
تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں جھولو
لازم ہے فضائوں میں اڑو، عرش کو چھولو
اس بندۂ ناچیز کی اک بات رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

وہ باتیں جن سے قومیں ہو رہی ہیں ناموور سیکھو
اٹھو تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو
بڑھائو تجربے اطرافِ دنیا میں سفر سیکھو
خواصِ خشک و تر سیکھو، علومِ بحر و بر سیکھو
خدا کے واسطے اے نوجوانوں ہوش میں آئو
دلوں میں اپنے غیرت کو جگہ دو جوش میں آئو
المختصر یہ کہ اکبر الہ آبادی ایک ایسے مصلح قوم اور وطن پرست تھے جنھوںنے اپنے ملک کی تہذیبی و ثقافتی ا ورسماجی و معاشرتی اقدار کی بقا کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیا۔ وہ ملک اور قوم کو خوشحال دیکھنا چاہتے تھے۔اسی لیے انھوں نے جب لوگوں کو برائی کے راستے پر گامزن دیکھا تو اپنی شاعری کے ذریعہ انھیں احساس دلایااور ان کے دلوں کو بیدار کرنے کی سعی کی۔ ایسا مخلص اور محسن صدیوں میں پیدا ہوتا ہے جوگھر ،سماج، معاشرہ اور ملک کو سنوارنے اور نکھارنے میں اپنی صلاحیت اور قوت صرف کردے۔ ایسی نابغۂ روزگار ہستی کو نہ صرف دنیائے ادب بلکہ ملک کا ہر وہ شہری جو ان کے کارناموں سے واقف ہے، بھلا نہیں سکتا۔
٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular