Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمسلم سائنسدانوں کے اہم کارنامے

مسلم سائنسدانوں کے اہم کارنامے

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

غلام علی اخضرؔ

اسلام کی آفاقی تعلیمات کی بنیادخیالی مفروضوں کی بجائے ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ اس لیے قدرتی طور پر مسلمان اہل علم کی سوچ بھی سائنسی سوچ ٹھہری، جس سے تحقیق و جستجو نے یونانی موشگافیوں سے جان چھڑا کر جدید سائنسی طریقِ کار سے تحقیق کرنے کی طرح ڈالی ۔
مسلم سائنسدانوں نے جس سائنسی علوم کی فصل بوئی تھی ،موجودہ دور اُسی کی کو کاشت کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر رواںدواںہے۔ مسلمانوںنے جب تک علمی روش کواپنایا اور اسے اپنی کامیابی کا سرچشمہ سمجھا ،یہ سارے جہاں کے امام و مقتدا رہے اور جوں ہی اس سے غفلت برتی، زول و پستی ان کا مقدر بن گئی۔ اپنے اجداد کے علمی خزانے کو بھی انھوں نے فراموش کردیا ع
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اور مسلمان آج تک اسی مرض میں مبتلا ہیں ۔جب کہ دور قدیم میں مسلمان ہر میدان میں علم کا کوہ ہمالہ ہواکرتے اور مختلف علوم و فنون ان کے سینوں کی زینت ہواکرتے تھے۔انھوں نے اپنی علمی و فکری خدمات کے ساتھ اپنے اسلاف و اکابر کے علمی آثار اور زرین افکار و خیالات کی حفاظت کی اور ان کی اشاعت و ترویج میں تاریخی کار نامہ انجام دیا ہے ، جو لائبریریوں کی زینت بنا ہوا ہے ۔
آج اپنے اسلاف کی تعلیمات و خدمات سے استفادہ کرنے کے بجائے ہم نے انھیں بالائے طاق رکھ دیا ہے ۔ ضرور یات زندگی کی وہ کون سی حیر ت انگیز ایجادات و انکشافات ہیں ،جن کامو جدمسلما ن نہ ہو ،جدید سائنس کی ترویج وترقی میں مسلما نوں کا جو اہم رول رہا،وہ اظہرمن الشمس ہے ۔عالم اسلام کا وہ سنہرا دور جب ایشیا ، افریقہ اوریورپ کے بیشترممالک پرچم اسلام کے زیر سایہ شب وروز ترقی کی راہ پر گامزن تھے۔ ہر سو امن وامان تھا۔ خاص وعام بحرتہذیب و تمدن سے علم کاصدف نکال کر اپنے عملی نمونے اورعلمی افکار سے عوام الناس کو بہرہ ور کرتے اور مقبول عام ہوئے تھے۔تاریخ کے اس سنہرے دور کی اوراق گردانی سے معلوم ہوتا ہے، کہ وہ کون سے علوم وفنو ن ہیں ،جن میں مسلما نوں نے دسترس حاصل نہ کیا ہو؟وہ کون سی ایجادات وانکشافات تھیں ،جن میں مسلمانوں کی تحقیق وتخلیق کا دخل نہ ہو۔
انھوں نے ایک طرف ملک ’’فارس‘‘ کے شہر’’ اصفہان‘‘ میں شمشیر سازی کی صنعت کو بام عروج پر پہنچایا، تو دوسری طرف’’ حلب‘‘ میں آئینہ سازی، اور ’’سمرقند‘‘ میں کاغذکا اختراع کر کے دنیا کو تعجب میں ڈال دیا ،’’مراکش‘‘ میں چمڑے کی دبا غت کی،تو’’یمن‘‘ میں ریشمی چادریں بنائی ،’’ٹیونش ‘‘میں جہاز سازی کی ،تو’’بغداد‘‘ میں بارود بناکر دور سابق کی جنگی دنیا میں لرزہ خیز تغیرپیدا کر کے اپنے ادراک وجستجو اور فن کا لو ہا منوالیا۔ غرض کہ اسلا م کے دور عروج میں کوئی شعبۂ حیا ت ایسا نہ تھا جو مسلمانوں کی تحقیق،تدبرّ اور کوشش وجستجو میں اپنی ترویج و ترقی سے محروم رہا ہو،ویسے تو مسلمان تمام علوم وفنون میں لا ثانی تھے،لیکن تکنیکی تعلیم میں ان کو بے پناہ دسترس ومہارت حا صل تھیں ،جن کی تعریف کرتے ہو ئے اہل یورپ نے بھی انہیں استاذِ زمانہ ماناہے۔
مسلمانوں کی اختراعات وایجادات اور سائنسی تاریخ میں ان کی نمایاں خدمات کے حوالے سے یہاں چند چیزوں کو مختصراً پیش کیا جارہا ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
بندوق اوربارود: میر فتح اللہ شیرازی ایک ایسے بندوق کے موجد ہیں ،جس کو چلا نے پر بارہ فا ئر ایک ساتھ ہو تے تھے۔ اس کے متعلق ایک شہرت یافتہ فرانسی مؤرخ لیبان کا قول ہے کہ:’’ من جملہ عربوں کے ایجادات میں بندوق و بارود ایک بڑی ایجاد ہے‘‘ ۔یک دوسرے مؤرخ مسٹر سی پی اسکاٹ اس طرح لکھتے ہیں ’’ دینار فوئے لیبان اور ان جیسے مدبر فاضل علما نے ایسی تحقیق و تدقیق کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ اہل عرب ہی بارود و توپ کے موجد ہیں‘‘ ۔
جہاز سازی:جہازسازی میں مسلمانوں نے کچھ کم ترقی نہ کی ،شام اور مصر کے سواحل پرجہاز سازی کے بڑے بڑے کار خانے قائم کیے ، یورپ میں ’’اندلس‘‘ کے خلیفہ عبد الرحمن نے ایک ایسا جہاز تیار کیا تھا، کہ اس وقت تک یورپ کا کوئی جہاز اس کے مثل نہ تھا، اس کے متعلق ڈاکٹر لیبان کا کہنا ہے :
’’عرب قوم میں بہت بڑے بڑے تاجر تھے ۔ ان کے تعلقات چین سے اس وقت قائم ہوچکے تھے ، جس وقت برصغیر کے وجود کا علم اہل یورپ کو نہ تھا ۔اور عربوں نے ہی سب سے پہلے قطب نما گھڑی کا استعمال جہاز رانی میںکیا تھا ۔ اہل یورپ کو بھی قطب نما گھڑی عربوں کے ذریعے حاصل ہوئی تھی ۔
ہوا ئی جہاز Aeroplane) ):ہوائی جہاز عرب کی ایجاد ہے ۔ امیر معا ویہ کے زمانے مین قسطنطنیہ پر چڑھا ئی کے وقت سمندر ی جہاز کے علا وہ ہوا ئی جہاز کا بھی استعمال کیا گیا تھا ۔ مصری مؤرخ علی جلال الدین حسینی نے لکھا ہے کہ’’ ایک عرب انجینئر اپنے جہاز پر سوار ہو کر قسطنطیہ کی طرف اُڑا تھا ، لیکن کچھ دُور جانے کے بعد مشین فیل ہوگئی اور جہاز گر پڑا‘‘۔
ہوائی جہاز کا دوسرا موجد:ہوائی جہاز کے ایک دوسرے موجد اسپین کے ابوالقاسم ہیں۔پروفیسر ڈیوران لکھتا ہے:
’’ اسپین کے ایک مسلم سائنسدان ابوالقاسم نے تین چیزیں ایجاد کر کے دنیا کو حیرت میں مبتلا کر دیا تھا:
۱۔ چشمہ۔۲۔ گھڑی۔۳۔ ہوائی جہاز۔
اس نے اندلس کے موسوی حکمرانوں کی مدد سے کئی تکنیکی چیزیں ایجاد کیں۔ باقاعدہ طور پر ہوامیں اڑنے کا خیال سب سے پہلے اسی کو آیا، مگر ہوائی جہاز میں اس کو بھی مکمل طور پر کامیابی نہیں ملی ۔
راکٹ(Raket):عرب سائنسدانوں میں سے ایک سائنسدان جس کا نام حسن رماح تھا ، اس انجینئر نے نہ صرف راکٹ ایجاد کیا بلکہ راکٹ میں پہلی بار تارپیڈو (Torpedo) کا بھی استعمال کیا تھا ۔ روماح نے اپنے راکٹ میں جن چیروں کا استعمال کیا، شورہ ، رال اور مٹی کا تیل وغیرہ تھا۔ اس راکٹ کی نقل پہلے قسطنطنیہ کے سائنسدانوں نے کی، اس کے بعد یورپ کے سائنسدانوں نے روماح کے نسخے سے پورا فائدہ اُٹھایا۔
کیمرہ(Camera):تیسری صدی ہجری کے عظیم سائنسداں عباس بن فرناس نے کیمرہ ایجاد کیا۔ انھوں نے اپنے دولت خانے میںجو کیمرہ تیار کررکھا تھا ۔ وہ دورِ جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium) کی بنیاد بنا۔ اس میں ستارے ، بادل ،بجلی کی گرج اورچمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا تھا ۔
گھڑی اور پنڈولم کی ایجاد:ابن یونس نے وقت کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے آلہ پنڈولم ایجاد کیا ۔ ابن الساعتی ایک بہت ہی مشہورِ زمانہ گھڑی ساز تھا ۔ وہ اس فن میں یکتائے روزگار تھا ، کلاک ٹاور اسی کا اخترا ع تھا۔ کلاک ٹاور کے متعلق ایک مشہور واقعہ ہے کہ خلیفہ ہارون رشید نے شاہ فرانس مسٹر ستارلین کو ایک گھڑی بطور تحفہ بھیجی جس کو دیکھ کر وہاں کے لوگ دنگ رہ گئے اور کچھ کسی کی سمجھ میں بات نہیں آئی کہ کس طرح اس کو استعمال میں لائی جائے ۔ یہ گھڑی نادر تکنیک (Technique) سے تیار کی گئی تھی کہ اس کے اندر سے ایک بجے ایک سوار نکلتا، دوبجے دوسوار اور تین بجے تین سوار اسی طرح ہر ایک گھنٹہ کے بعد ایک سوار زیادہ نکلتا تھا۔
کرّئہ ارض کی پیمائش :محمد موسیٰ پہلا شخص تھا ۔ جس نے کرئہ ارض کی پیمائش کا طریقہ اپنایا ۔ اس کے لیے آلات ایجاد کیے اور اس فن میں بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔
غرق شدہ جہاز کو نکالنے کا آلہ:ابوالصلت نے جر ثقیل کے وہ آلے بنائے جن کی مدد سے غرق شدہ جہاز کو آسانی سے نکال لیا جاتا تھا۔
دوربین:دوربین کا موجد بھی ایک مسلمان ہی ہے ، جس کا نام ابوالحسن تھا ۔ اس کا پورا نام ابوالحسن علی احمد بن محمد بن مسکویہ تھا ۔ یہ مشہور سائنسداں بوعلی سینا کا استاد تھا۔
ہواکا رخ معلوم کرنے کا آلہ:مسلمانوں نے ہوا کا رخ معلوم کرنے کے لیے ایک جدید طرز کاآلہ بنایا ، شام کی جامع مسجد کے گنبد کے اوپر ایک مجسمہ تھا ، جس کی شہادت کی انگلی ہوا کے سمت خود بخود ہوجایا کرتی تھی۔
پانی کی گہرائی معلوم کرنے کا آلہ:ابو عباس احمد الفرغانی ترکی کے ایک شہر’’ فرغانہ‘‘ میں ۸۳۲ ء میں پیدا ہوا ، یہ نویں صدی عیسوی کا مشہور سائنسداں ہے۔ یورپ میں الفرغانی کو الفریکانوس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا کار نامہ زمین کا محیط معلوم کرنے کا آلہ ایجاد کرنا ہے۔ اسی نے پانی کی گہرائی ناپنے کے لیے ایک حیرت انگیز پیمانہ ایجاد کیا ، جو دریا کے نیل کی مناسبت سے آج نیلومیٹر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
تھرمامیٹر:بوعلی سینا پہلا سائنسداں ہے ، جس نے جسمانی بخار ناپنے کا آلہ ایجاد کیا ۔ جو بعد میں تھر مامیٹر کے نام سے مشہور ہوا ۔ طب یعنی میڈیکل سائنس(Medical science) پر اس کی کتاب ’’القانون فی الطب‘‘ مشہور ہے۔ ۱۰۳۷ء میں انتقال کیا ۔
سرجری:علوم جرائی کو سرجری سائنس کہتے ہیں ، اس فن کے ماہرین میں ابوالقاسم اور ابن رشد بہت مشہور ہیں ۔ ویسے محمد عربی )صلی اللہ علیہ وسلم (کے زمانے سے ہی سرجری سائنس کو ترقی ملنے لگی تھی۔ یہاں تک کہ مرد تو مرد عورتیں بھی سرجری کے فن میںبڑی مہارت رکھتی تھیں۔ ان میں دوتاریخ کے آئینے میں بہت مشہور ہیں ، اول بی بی رفیدہ انصاری اور دوم بی بی ام عمارہ انصاری۔ یہ دونوں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ تھیں۔
سورج اور چاند کی گردش، سورج گہن کو از قبل وقت معلوم:ابن یونس ، البطانی ، البیرونی ان مسلمان سائنسدانوں میں سے ہیں جنھوں نے چاند و سورج کی گردش کا مکمل حساب معلوم کرنے اور چاند و سورج گہن کو وقت سے پہلے دریافت کرنے کا نظام وضع کیا ۔اس کے متعلق انھوںنے (Toledo Astronomical Tables) مرتب کیے ۔اس حقیقت کا اعتراف غیر مسلم مؤرخین نے بھی کیا ہے :
“Muslim astrologers also discovered (around the thirteenth century) the system for giving the ephemerids of the sun and the moon … later extended to the other planets … as a function of concrete annual dates. Such was the origin of the almanacs which were to be so widely used when trans- oceanic navigation began.”(The Legacy of Islam ,PP.474-482)
عیسوی کلینڈر:اندلس کے مسلم سائنسداں عمر خیام نے عیسوی کلینڈر کی اصطلاحات مرتب کیں ۔
سورج پر ریسرچ:سورج پر سب سے پہلے جس نے ریسرچ کیا، وہ اندلس کے عظیم سائنسداں ماہرِفلکیات ابن رشد ہیں۔ انھوں نے سورج کی سطح کے دھبوں (sun spots) کو سب سے پہلے پہچانا۔
جدید بصریات کے بانی:ابن الہیثم اپنے وقت کے ماہر بصریات سائنسداں ہیں انھوں نے یونانی نظریۂ بصارت ( Nature of vision) کورد کرکے دنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے روشناس کرایااور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں(Rays) آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ باہری اجسام (External.Objects) کی طرف سے آتی ہیں ۔ انھوں نے نظریۂ بصریات میں جس تحقیقی اعتبار سے پیش رفت کی، تاریخ میں ان کے جیسا کوئی دوسرا شخص پیدا نہیں ہوا ۔ اس لیے وہ جدید بصریات کے بانی مانے جاتے ہیں ۔
اسلامی تاریخ کا سب سے پہلا باقاعدہ ہسپتال: خلیفہ ولید بن عبدالملک (۸۶ھ تا ۹۶ھ) کے زمانے میں پہلی صدی ہجری میں اسلامی تاریخ کا سب سے پہلا باقاعدہ ہسپتال تعمیر ہواتھا۔ اس سے قبل ڈسپنسری(Dispensaries) موبائل میڈیکل یونٹ (Mobile medical units) اور میڈیکل ایڈسنٹرز (Medical aidcentres) وغیرہ موجود تھے، جو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں غزوئہ خندق کے موقعے پر بھی مدینہ طیبہ میں کام کررہے تھے ۔ اس ہسپتال میں (Indoor patients) کے باقاعدہ وارڈز تھے ۔ اور ڈاکٹروں کوقیام و طعام کی سہولیات کے ساتھ ساتھ معقول مشاہرا بھی دیا جاتاتھا ۔ قائین کے لیے ہم اس بات کا بھی خلاصہ کردیں کہ اسلامی دور کے اسپتالوں میں درج ذیل شعبہ جات چلتے تھے:
Department of Systematematic Diseases(1)
Ophthamic department (2)
Surgical deprtment(3)
Orthopaedic dipartment(4)
(5) Department of mentaldisedese
ابو بکر رازی کا اسپتال بنا نے میں زمینی تجربہ :ابوبکر محمد بن زکر یا رازی کا سب سے عظیم کارنامہ یہ ہے ،کہ انھوں نے بغداد کی سر زمین پر ایک بڑا اسپتال بنانے کا ارادہ کیا۔اسپتال کے لیے ایک خاص جگہ تلا ش کی ،بعض لو گوں نے اس جگہ کو اسپتال کے لیے مناسب نہیں سمجھا اور رازی کی متعین کر دہ جگہ سے اختلاف کر ڈالا اور دوسری جگہ کو اہمیت دے دی، تورازی نے انھیں بتا یا، کہ یہ جگہ اسپتال کے لیے زیا دہ مناسب ہے اور مریضوں کے لیے صحت بخش ہے ۔ہم رازی کے تجربے کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں ،کہ رازی نے ان دونوں مقا ما ت پر گوشت کے بڑے بڑے ٹکرے لٹکادیئے۔اختلاف کرنے والوں نے جس جگہ کوپسند کیا تھا، وہا ں کے گو شت کا ٹکرا بہ نسبت رازی کی جگہ جلد خراب ہوگیا ۔رازی کے اس تجر بہ اور ذہانت کو دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے ۔اسپتال بننے کے بعد رازی اس کے پہلے سپر نٹینڈینٹ (Superintendent)(مہتمم)مقرر ہوئے ۔رازی نے صحت ،زندگی اور مرض پر ۵۶؍کتابیں تحریرکیں۔ ان کی پیدائش ۸۶۵ء میں ہوئی اور پھر ۹۲۵ء میں اس دارفانی سے چل بسے ۔
میڈیکل اسٹور (Medical Store) :عرب مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے میڈیکل اسٹور قائم کیا ۔ ایک غیر مسلم مغربی مفکر E.G.Browneلکھتا ہے:
’’جب عیسائی یورپ کے لوگ اپنے علاج کے لیے بتوں کے سامنے جھکتے تھے۔ اس وقت مسلمانوں کے یہاںلائسنس یافتہ ڈاکٹر ، معالجین، ماہریںاور شاندار ہسپتال موجود تھے‘‘ پھر آگے اس نے اپنی کتاب “Arabian Medicine”ص:۱۰۱پرلکھتا ہے :
اسلامی دنیا میں دسویں صدیں عیسوی سے ہی علم طب اور ادوِیہ سازی کو منظم اور مرتب کردیاگیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا ، جب سنان بن ثابت بغداد میں ممتحنین کے بورڈ صدر تھے۔ ادوِیہ سازوں کو بھی باقاعدہ منظم کیاگیا تھا۔ اور عربوں ہی نے سب سے پہلے میڈیکل اسٹورز قائم کیا۔
نرسنگ ہوم(Nursing Home):نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری میں مرد تو مرد عورتوں کوبھی تمدن نکھارنے اور سنوار نے کا موقع ملا۔ یہی وجہ ہے ،کہ علم و ادب اورتہذیب وتمدن کے میدان میں عورتوں نے بھی اہم رول ادا کیا ۔ خاص طور سے میڈیکل سائنس اور نرسنگ ہوم میں ان کا تجربہ بہت زیادہ بڑھاہوا تھا ۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ مسجد نبوی کے پاس بی بی رفیدہ نرسنگ ہوم تھا ۔
سرجری سے پہلے بے ہوش کرنے کا نظام :علی بن عیسیٰ دنیائے علم طب میں پہلا سائنسداں تھا ۔ جس نے سرجری سے پہلے مریضوں کو بے ہوش وبے حس کرنے کے طریقے تجویز کیے، ان کے علاوے اور بھی نام ملتے ہیں۔جیسے اندلس کا نامور سرجن ابوالقاسم الزہراوی۔
قرون وسطیٰ کا سب سے بڑا سرجن:بغداد میں رازی کے بعد دنیائے اسلام میں سب سے بڑے Clinicکا مالک ابوالقاسم الزہراوی تھا۔ اس نے آپریشن کے لیے خاص مہارت کے ساتھ خود بہترین آلات بھی تیار کررکھے تھے،جن کی مددسے وہ ایسے پیچیدہ آپریشن کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ جن میں ۱۰۰؍ فیصد کامیابی کی توقع دورِحاضر کے ماہرین سرجن بھی نہیں کرپاتے۔ یہاں ایک واقعہ قلم بند کیا جارہاہے۔ اس سے فنِ سرجری میں زہراوی کی مہارت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔
ایک بار اس نے ایک ایسے شخص کا آپریشن کرنے میں کامیابی حاصل کی جس کا پیٹ چاک ہوئے ۲۴؍ گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا ۔ زہراوی نے کمالِ مہارت سے اس کے پیٹ سے باہر نکل آنے والی آنتڑیوں کو اصل مقام پر رکھا اور اپنے ہی ایجاد کردہ آلات ِسرجری کی مدد سے اس کا پیٹ سی دیا۔ اس سے نہ صرف اس کی زندگی بچ گئی، بلکہ چند ہی روز میں وہ بیٹھنے کے قابل بھی ہوگیا ۔ زہراوی کے کمال فن کا حال یہ تھا ،کہ زخم کی سلائی اس طریقے سے کرتا کہ باہر کی سمت اس کا نشان مکمل طور پر غائب ہو جاتا۔ یہ زہراوی ہی کا طریقہ تھا ،کہ آپریشن سے پہلے بڑی شریانوں کو باندھ دیتا اور نچلے حصہ بدن کے آپریشن کے دوران میں پائوں کو سرسے اونچا رکھنے کی تاکید کرتا ۔ یہ دونوں طریقے بالترتیب فرانس کے ایک سرجن Pare اور جرمنی کے سرجن Frederichکی طرف غلط منسوب کیے جاتے ہیں ۔ لوزتین(Tonsils) کے آپریشن کا طریقہ اسی کا ایجاد کردہ ہے ۔ پیٹ،جگر، پیشاب کی نالی ، ناک کان ، گلے اور آنکھ کے آپریشن میں وہ ماہر تھا ۔ مثانہ سے پتھری توڑ کر نکالنے کا طریقہ بھی اسی کا ایجاد کردہ ہے۔
چیچک کا ٹیکہ:چیچک کا ٹیکہ جس نے سب سے پہلے ایجاد کیا، اس کا نام ابومحمد بن زکریاہے ۔
تیزاب:اسپرٹ اور تیزاب کا موجد عرب کا ایک سائنسداں ہے۔ جن کا نام جابربن حیان تھا ۔ انھوں نے کئی کیمیاوی مرکبات تیار کیے۔ انھوں نے الکوحل، شورے کے تیزاب،نائٹرک ایسڈ(Nitric Acid) نمک کے تیزاب، کلورک ایسڈ، فاس فورس سے دنیا کو متعارف کرایا۔
روئی سے بننے والے کاغذ:روئی سے بننے والے کاغذ کا موجد بھی مسلمان سائنسداں ہی ہے۔ ۷۰۶ء میں یوسف بن عمر نے روئی سے بننے والا کاغذایجاد کیا تھا ۔ یہ کاغذ دمشقی کا غذ کے نام سے جانا گیا، جس نے سمرقندی کاغذ کو مات دے دیا ۔
ٹیکس ٹائل ٹیکنالوجی Textile Technology:کپڑے بننے والی مشین ، اسپین کو متعارف کروانے کا سہرا بھی عرب مسلمانوں ہی کے سرہے ۔ مسلمانوں نے دوسری صدی ہجری میں وہاں ٹیکسٹائل ( Textile) کی صنعت کا آغاز کر دیا تھا۔ جب کہ فرانس اور جرمنی میں یہ صنعت بہت عرصہ بعد بالترتیب چھٹی اور آٹھویں ہجری میں پہنچی۔
شیشہ:رنگین شیشہ کی ایجاد کا سہرا بھی عربوں کے سر بندھتا ہے ۔ مشہور عرب سائنسداں ابوالقاسم بن فرناس نے سب سے پہلے شیشہ بنایا تھا ۔ اس نے شیشہ سازی کا ایک نیا طریقہ اپنایا تھا ۔ چکنی مٹی کو بھٹی میں پکاتا اور اس سے شیشہ بناتا تھا ۔
صابن: جسے ہم یورپ والے کی ایجاد سمجھے ہوئے ہیں، وہ دراصل مسلمانوں کی ہی ایجاد کردہ ہے ۔ اسی کی مزید تحقیق کے لیے ہم اندلس کی ایک اخباری عبارت پیش کرتے ہیں:
’’ اقوام زمانہ قدیم ہونے کے باوجود اپنی تمام تہذیب وتمدن کے ، صابن سے بالکل ناآشنا تھیں جو اہل عرب کی ایجاد ہے‘‘ ۔
جائزہ:
یہ توسائنس کی ابتدائی زندگی کا ایک جائزہ ہے ، جس میں مسلمانوں نے اپنی انمٹ چھاپ چھوڑی ہے ۔ اب جب کہ سائنس نے انسان کے تمام شعبۂ حیات میں حیرت انگیز انقلاب برپاکردیا ہے ۔ اور ہمارا ہندوستان جو کہ سائنس کی ترویج و ترقی میں کافی بچھڑاتھا، اب سائنسی ممالک کی صف میں شمار ہونے لگا ہے ۔ ۱۹۸۰ء میں سائنسی میدان میں ہندوستان نے چھٹی پوزیشن حاصل کی ، کیوں کہ مصنوعی سیارہ کو خلا میں داغنے کے لیے اس کے پاس اپنی خود ساختہ راکٹ (Rocket) SLV3ہے جس کی تعمیرمیں کامیابی کا سہرا مشہور سائنسداں ڈاکٹر ابوالکلام کے سرہے ۔
٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular