Saturday, May 11, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمروّتوں اور فراخدلی کے پیکر شارب صاحب

مروّتوں اور فراخدلی کے پیکر شارب صاحب

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

شاہ نواز قریشی
موبائل : 9956813853

ردولی ایک ایسا مردم خیز قصبہ ہے جس نے بہت سی ناقابل فراموش شخصیتیں اردو زبان و ادب کو دیں۔ جن کا ذکر یا تو بالکل نہیں ہوتا یا بہت کم ہوتا ہے۔ اسے لوگوں کی بے حسی کہا جائے کہ یادداشت کی کمزوری؟ یہ سوال اکثر ہمارے ذہن میں کلبلایا کرتا ہے لیکن جب ہم شارب صاحب کو دیکھتے ہیں تو ان سے جو تحریک ملتی ہے، وہ ہمیں پوری ترقی پسند تحریک سے بھی نہیں ملی ہوگی۔ کیونکہ وہ 83سال کی عمر میں بھی جتنے متحرک اور فعال رہتے ہیں اتنے رٹائرمنٹ سے پہلے شاید ہی رہے ہوں۔
ردولی کے حوالے سے ہمیں دو شخصیتیں اور یاد آتی ہیں۔ ایک مجازؔ دوسرے باقر مہدی۔ ان میں مجازؔ تھے تو شاعر مگر ظرافت کا پیکر بھی تھے۔ حالانکہ انہوں نے ظریفانہ شاعری نہیں کی۔ شاعری میں تو وہ بہت سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ لیکن گفتگو میں طنز و ظرافت کا پیکر بن جاتے تھے۔ اگرچہ اندر سے وہ بہت ٹوٹے ہوئے انسان تھے۔ مگر ان کے طنزیہ فقروں سے یہ کبھی ظاہر نہیں ہوا کہ وہ اندر سے کتنے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ اب رہے باقرمہدی تو وہ بڑے غضبناک اور جارح قسم کے دانشور تھے۔ بڑے تیکھے اور حملہ آورانہ مزاج کے قلمکار تھے۔ کسی کو بخشتے نہیں تھے۔ ممبئی کی ایک تقریب میں موسیقار خیام نے انہیں دیکھتے ہی کہا ’’باقربھائی آداب‘‘ باقرمہدی نے فوراً حملہ کردیا ’’اماں آپ کے حالات اب اتنے خراب ہوگئے کہ آپ مجھے سلام کرنے لگے۔‘‘
اس کے برعکس شارب صاحب کی شخصیت میں سادگی، انکساری، متانت اور توازن بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ نرم آہنگی، معتدل مزاجی اور دھیمی آواز میں بولنے کی خصوصیات ان میں رچی بسی نظر آتی ہیں۔ ادبی جلسوں اور نشستوں میں بھی وہ اس طرح بولتے ہیں گویا بہ آواز بلند سوچ رہے ہوں۔ وہ کسی سے اختلاف رائے بھی اس طرح کرتے ہیں جیسے اتفاق رائے کا اظہار کررہے ہوں۔ نظریات کے اعتبار سے شارب صاحب ترقی پسند رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ لیکن وہ اشتراکی غالباً کبھی نہیں رہے۔ حالانکہ ایک زمانے میں ترقی پسند ہونے کا مطلب کمیونسٹ ہونا ہی ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب اسے تسلیم کرلیا گیا ہے کہ ترقی پسند ہونے کے لیے کمیونسٹ ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے ایک ایسا دور بھی آجائے جب یہ کہا جانے لگے کہ کمیونسٹ ہونے کے لیے ترقی پسند ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک کی سیاست کب کونسا ستم ڈھا جائے اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
ہمارے ایک دوست کا کہنا تھا کہ ترقی پسند وہ ہوتا ہے جو ترقی کو صرف پسند کرے۔ مگر خود ترقی نہ کرپائے۔ مگر اب یہ تعریف بھی غلط ثابت ہوچکی ہے۔ کیونکہ ترقی پسندوں نے اتنی ترقی کرلی کہ وہ اسٹبلشمنٹ کا حصہ لگنے لگے۔ غالباً اسی تناظر میں افتخارعارف نے کہا تھا کہ ؎
ہم تو سدا کے بندۂ زر تھے ہمارا کیا
نام آورانِ عہد بغاوت کو کیا ہوا
ترقی پسند قلمکار مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لیے ہمیشہ نبردآزما رہے۔ ان کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ مگر مزدور اور کسان کے مسائل جب حل نہیں ہوئے تو یہ ترقی پسند اپنا غم غلط کرنے کے لیے وہسکی کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے۔ اس مجبوری کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ وہ وہسکی کے ایک پیگ میں مزدوروں اور کسانوں کے مسائل حل کرلیتے تھے۔ لیکن شارب صاحب ترقی پسند ہونے کے باوجود وہسکی جیسی نعمت سے شاید ہمیشہ محروم رہے۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے شارب صاحب نے کبھی جھنڈا نہیں اٹھایا۔ کوئی پرچم لے کر نہیں چلے۔ بڑی خاموشی سے، قلم کے ذریعے وہ جتنا کچھ کرسکتے تھے۔ بس اتنا کرتے رہے ان کا قلم ہی ان کا پرچم تھا۔
شارب صاحب بہت بامروت اور فراخ دل بھی ہیں۔ چنانچہ بلاتفریقِ نظریات وہ ہر قلم کار پر کچھ نہ کچھ لکھ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ کسی ریزرویشن کے قائل نہیں ہیں۔ اسی لیے وہ قلمکار کا نظریہ نہیں دیکھتے۔ چاہے وہ ترقی پسند ہو یا رجعت پسند۔ ان کی مروت انہیں انکار نہیں کرنے دیتی۔ اس طرح وہ ہر طرح کے جلسوں میں بھی بڑی سرگرمی سے شریک ہوتے ہیں۔ ان کی یہ ادا بعض دانشوران ادب کو گراں گذرتی ہے۔
شارب صاحب خواہ دلی میں رہے ہوں یا لکھنؤ میں وہ ردولوی ہمیشہ رہے۔ انہیں نہ کوئی دہلوی بناسکا نہ لکھنوی۔ حالانکہ لکھنؤ اور لکھنویت کے اثرات ان کی شخصیت میں نمایاں طور سے نظر آتے ہیں۔
وکیل اختر نے کہا تھا کہ ؎
آپ سے جھک کے جو ملتا ہوگا
اس کا قد آپ سے اونچا ہوگا
شارب صاحب سب سے جھک کر ملتے ہیں۔ اسی لیے ان کا قداونچا ہے۔ ویسے جسمانی اعتبار سے تو وہ طویل القامت ہیں ہی۔
آخر میں تھوڑا سا ذکر ردولی کا بھی کرنا برمحل ہوگا یہ ایک ایسا قصبہ ہے۔ جس پر کبھی فیض آباد والے اپنا حق جتاتے ہیں تو کبھی بارہ بنکی والے۔ ان دونوں ضلعوں کے لوگ چاہتے ہیں کہ ردولی کو ان کے ضلع کا حصہ ہونا چاہیے۔ حالانکہ ردولی چاہے جس ضلع کا حصہ ہو۔ وہ رہے گا اپنی ہی جگہ وہاں سے کھسکے گا نہیں۔ چنانچہ ہماری تجویز ہے کہ ردولی کو ضلع بناکر بارہ بنکی اور فیض آباد دونوں کو ردولی میں شامل کردیا جائے۔ تاکہ یہ تنازعہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ مگر کیا ایسا ہوسکے گا۔ ظاہر ہے اس سوال کاجواب ارباب سیاست و اقتدار ہی دے سکتے ہیں۔
ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ردولی کو سب سے زیادہ شہرت شارب صاحب کی بدولت ملی ہے۔ کیونکہ ردولی ہمیشہ ان کے نام کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔ آخر میں ہم شارب صاحب کو ان کی مروتوں اور فراخ دلی کے لیے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular