Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمحمد بشیر مالیرکوٹلوی ایک بیباک فنکار

محمد بشیر مالیرکوٹلوی ایک بیباک فنکار

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

محمد علیم اسماعیل

محمد بشیر مالیرکوٹلوی سے میرا رابطہ فیس بک کے ذریعے ہوا۔ اب ان سے موبائل پر اکثر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ وہ میرے ادبی دوستوں میں سے ایک ہیں۔ان کی پینتالیس سالہ ادبی زندگی کے اچھے برے تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔موصوف گیارہ کتابوں کے مصنف ہیں۔اور نام ونمود کے پیچھے دوڑنے والوں میں سے نہیں۔ دکھاوا کرنا بالکل بھی پسند نہیں۔ بڑی ہی خودار شخصیت کے مالک ہیں لیکن نئی نسل کی آبیاری فکرِ دامن گیر رہتی ہے۔
بقول محمد بشیر مالیر کوٹلوی ’’سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ وہ افسانے کے سارے رموز سے واقف ہیں۔ ارے استاد جی سارے رموز اپنے سینے میں لیے منوں مٹی میں دفن ہوگئے۔اور وہاں دبے سوچ رہے ہیں کہ آپ بڑے تخلیق کار ہیں یا خدا۔ وہ سارے رموز ہمارے لئے اور آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑ جاتے۔‘‘
محمد بشیر مالیرکوٹلوی کہتے ہیں ’’میں نے افسانے کی گہرائی کو جس حد تک سمجھا ہے۔ اسے اپنی کتاب ’افسانہ افسانچہ تنقیدی تناظر میں‘ میں بیان کردیا ہے۔ اس کتاب میں میں نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا صرف اپنے خیالات کا اظہار کیا ہیں۔‘‘
وہ سینئرافسانہ نگار جو افسانے کی گہرائی کو سمجھتے ہیں، اپنے تخلیقی عمل میں سر گرداں ہیں اور بڑے بڑے ایوارڈ حاصل کر رہے ہیں۔ بشیر مالیرکوٹلوی انھیں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ بھی افسانے کی تکنیک پر اپنے تاثرات قلمبند کریں۔اور علم عروض کی طرح افسانے کا کوئی میٹر یا تکنیک طے کریں۔ تاکہ یہ پیمانہ نئے لکھنے والوں اور نئی نسل کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔نہیں تو آنے والی نسل ان سے سوال کرے گی اور وقت معاف نہیں کرے گا۔نئی نسل کو تکنیکی اسباق دینے ہی ہوں گے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کا مقصد نئی نسل کی آبیاری کرنا ہے۔اسی مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے مالیرکوٹلہ میں رجسٹرڈ ’’افسانہ کلب‘‘ شروع کیا۔ جو ماشاءاللہ اپنے مقصد میں کامیاب ہے۔ہر ماہ افسانوی نشست منعقد کی جاتی ہے۔ جس میں افسانے پڑھے جاتے ہیں اور ان پر تجزیے و تبصرے ہوتے ہیں۔‎مالیرکوٹلہ میں افسانوں اور افسانچوں کی فضا قائم کرنے اور استحکام بخشنے میں ’افسانہ کلب‘ کی خدمات قابل قدر ہیں۔افسانچوں کو فروغ دینے میں جوگندر پال اور رتن سنگھ کے بعد محمد بشیر مالیر کوٹلوی اور ڈاکٹر ایم اے حق کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
افسانہ نگاری
محمد بشیر مالیرکوٹلوی بطور افسانہ نگار ترجمان حقیقت ہیں۔حکومت کا دوغلا پن، پولیس کا ظالمانہ برتاؤ، سماجی برائیاں، ٹوٹتی دم توڑتی سماجی اخلاقی قدروں کو وہ اپنے افسانوں میں پیش کر دیتے ہیں۔جس کا مقصد برائیوں کی نشاندھی کر کے ان کی اصلاح کرنا ہیں۔
ان کے افسانوی مجموعے،قدم قدم دوزخ 1987،سلگتے لمحے 1999، چنگاریاں 2007، کرب آگہی 2013،عکس در عکس 2014، جگنو شہر(افسانچے) 2010، افسانہ افسانچہ تنقیدی تناظر میں(تنقیدی مضامین) 2015، ہم قلم(تنقیدی مضامین) 2017، گستاخی معاف (تجزیے)2017, جسی(ناول)2018 شائع ہو کر داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔
ان کے افسانوں کے موضوعات جدید اور اچھوتے ہوتے ہیں۔ہر افسانے میں ایک کہانی بیان ہوتی ہے۔جسے کہانی پن کہتے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی گزر گیا جب بنا کہانی کے افسانے بھی لکھے گئے لیکن آج ایسے افسانے قابل قبول نہیں۔محمد بشیر نے کہانی پن کی تعریف اس طرح کی ہے۔’’افسانے اور قاری کے درمیان جو کشش پائی جاتی ہیں اسے کہانی پن کہا جاتا ہے۔‘‘
افسانے میں موضوعات کے متعلق محمد بشیر کا ماننا ہے کہ موضوع کا انتخاب بہت ہی سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔اور منتخب موضوع کے ہر پہلو کو نظر میں رکھنا چاہیے۔وہ تخلیق کے ذریعے اصلاحی اور مثبت پیغام دینے کے قائل ہیں۔اور موضوع کا انتخاب کرتے وقت قاری کی پسند ناپسند اور عصری تقاضوں کو نظر میں رکھنے پر زور دیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’منٹو نے اس طبقہ کی خوشیوں اور محرومیوں کو اپنے فن کا لباس پہنایا جس کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہ تھا۔بالکل پچھڑا ہوا طبقہ غیر معتبر اور سماج کی نفرت کا شکار موضوع عام اور گھسا پٹا ہو تو مقبول نہیں ہو پاتا۔‘‘
منظر نگاری کے متعلق وہ کہتے ہیں ’’منظر نگاری بہت کم نپے تلے الفاظ میں کی جائے تو بہتر بےجا لفاظی اور بلاضرورت شاعرانہ مثالوں سے پرہیز کیا جائے۔یہاں میں عرض کرتا چلوں کہ شاعرانہ طرز تحریر اور شاعرانہ منظر نگاری کا مخالف ہرگز نہیں ہوں مگر ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ادب نے ہمیشہ وقت کے تقاضوں کی عزت کی ہے اس لئے آج کے اختصار پسندوں کو بھی سمجھنا چاہیے۔بات مختصر ہو اور جامع ہو تبھی اثر رکھتی ہے۔‘‘
ان کے افسانوں میں مکالمے مختصر لیکن جامع ہوتے ہیں۔جس سے کردار کی اندرونی کیفیت، خوشی، غم، کشمکش اور نفسیات کا پتہ چلتا ہے۔وہ بلاوجہ بات کو طول نہیں دیتے۔سادہ بیانیہ میں بلاواسطہ اپنی بات کہتے ہیں۔اور علامتوں میں الجھنے و الجھانے کا خطرہ مول نہیں لیتے۔ان کی کہانیوں کے اختتام بڑی ہی جاندار ہوتے ہیں جو قاری کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔غیر متوقع کلائمکس قاری کے ذہین میں ایک پٹا خے کی طرح پھٹتا ہے۔
وہ ادب سے سماجی اصلاح کا کام لینا چاہتے ہیں۔اور اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ سماج میں تبدیلی لانا آسان کام نہیں۔ان کے پاس ایک واضح تنقیدی نظریہ ہے اور اسی نظریے کے مطابق وہ تخلیقی عمل سے گزرتے ہیں۔بطور تنقید نگار بڑی بیباکی سے کام لیتے ہیں۔
تجزیہ و تنقید نگاری
محمد بشیر مالیر کوٹلوی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے افسانچوں پر بھی کافی کام کیا ہے۔ انھوں نے افسانہ وہ افسانچہ کی تکنیک پر بھی کتاب لکھی ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک افسانہ و افسانچہ نگار ہی اس کی تکنیک و تنقید بہتر طور سے لکھ سکتا ہے۔
محمد بشیر مالیرکوٹلوی ایک اچھے افسانہ و افسانچہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین تجزیہ نگار بھی ہیں۔ انہوں نے افسانوں کے تجزیوں میں باریک بینی سے کام لیتے ہوئے بہت سے اہم پوائنٹ تلاش کیے ہیں جہاں تک بڑے بڑے نقادوں کی نظریں پہنچ نہیں سکیں۔ ان میں تجزیہ نگاری کی ایک بھرپور خداداد صلاحیت موجود ہے۔ محمد بشیر مالیرکوٹلوی نے اپنی کتاب’’ گستاخی معاف‘‘ میں اردو کے چھ مشہور و معروف افسانہ نگاروں کے شہکار گیارہ افسانوں کے چونکا دینے والے تجزیہ کیے ہیں۔
جس میں منٹو کے بو، ٹھنڈا گوشت، پھوجا حرام دا، شہیدساز، بابو گوپی ناتھ، اور موذیل، قاضی عبدالستار کا پیتل کا گھنٹہ، ندیم احمد قاسمی کا بین، بیدی کا لاجونتی، عصمت چغتائی کا لحاف، اور کرشن چندر کا مہالکشمی کا پل پر کیے گئے تجزیے شامل ہیں۔
محمد بشیر مالیرکوٹلوی سعادت حسن منٹو کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ جس طرح ایکلویہ نے دروناچاریہ کے بت کو اپنا استاد مان کر تیر اندازی میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ویسی ہی عقیدت بشیر مالیرکوٹلوی کو منٹو سے ہے۔ اور گیارہ میں سے چھ افسانے ان کے استاد کے ہی ہیں۔ جس کو انہوں نے ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔
افسانہ ’بو‘ میں رندھیر متعدد بار کی طرح کی لڑکیوں سے سیکس کر چکا تھا۔ پھر کیوں وہ گھاٹن لڑکی کے جسم کا دیوانہ ہو گیا؟
افسانہ ’ ٹھندا گوشت‘ میں ایشر سنگھ کا گلا کٹ جاتا ہے۔خون کے فوارے اچھل اچھل کر اس کی مونچھوں پر گر تے ہیں۔اور وہ اسی حالت میں کلونت کور کو اپنی پوری کہانی سنا تا ہے۔یہاں بشیر مالیرکوٹلوی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جس کا گلا کٹ جائے وہ بول بھی نہیں سکتا۔تو ایشر سنگھ پوری کہانی کیسے سنا سکتا ہے؟ اور سائنسی نقطہ نظر سے ان کا یہ اعتراض درست بھی ہے۔
افسانہ ’بابو گوپی ناتھ‘ کے کلائمکس کو موصوف نے کمزور کہا ہے۔
افسانہ ’ موذیل ‘ پر انھوں نے بہت سے سوالات کھڑے کیے ہیں۔اور وہ درست بھی ہیں۔ مثلاً:-’’ کرداروں کی نفسیات کو دھیان میں نہیں رکھا گیا۔موذیل کو ننگا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔کپڑے اتارنے سے کہانی میں چار چاند نہیں لگ گئے۔‘‘ اس کے علاوہ بھی موصوف نے اور بھی سوالات اٹھائے ہیں جو طوالت کے متقاضی ہیں۔اس تجزیے کو میں نے پہلی بار فکر و تحقیق کے اکتوبر تا دسمبر 2014 کے شمارے میں پڑھا تھا۔واقعی بڑاہی جاندار و شاندار تجزیہ ہے۔محمد بشیر مالیرکوٹلوی نے منٹو کو اپنا استاد تسلیم کیا ہے۔منٹو نہ لکھنے سے قبل سوچتے تھے نہ لکھنے کے بعد جبکہ موصوف راجندر سنگھ بیدی کی طرح لکھنے سے پہلے سوچتے ہیں اور لکھنے کے بعد بھی۔
افسانہ ’ پیتل کا گھنٹہ‘ کا تجزیہ ایک بہترین تجزیہ ہے جس میں موصوف کے ہاتھ کوئی نقص نہیں لگا۔
افسانہ ’بین‘ میں ان کا اعتراض یہ ہے کہ ایک ماں اپنی معصوم بچی کو سائیں دولھے شاہ کے مزار پر اکیلا کیسے چھوڑ سکتی ہی؟
افسانہ’لحاف‘ میں لحاف ایک فٹ یا ایک انچ اوپر اٹھا پر بحث کی گئی ہے۔
افسانہ ’لاجونتی‘ پر کیا گیا تجزیہ بھی لاجواب ہے۔جس میں موصوف کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ لاجونتی کو کس نے اغوا کیا؟ لاجونتی پاکستان کیسے پہنچ گئی؟ سندرلال فرشتہ کیوں بن گیا؟
’’بیدی کا افسانہ لاجونتی کا بنیادی مسئلہ لاجونتی کا اغوا ہوناہے۔ اسےاغوا کس نے کیا؟ اس کا شوہر سندر لال مہاجر ہر گز نہ تھا۔ وہ ایک با رسوخ مقامی باشندہ تھا۔مہا جر ہوتا تو راستے میں اس سے کوئی لاجونتی کو چھین سکتا تھا۔ادھر کوئی لٹا پٹا خوفزدہ مسلمان اسے پاکستان نہیں لے جا سکتا تھا۔لاجونتی پاکستان گئی تو کیسے؟‘‘
’گستاخی معاف‘محمد بشیر مالیرکوٹلوی کا ایک زبردست کارنامہ ہے۔ جس میں انھوں نے گیارہ شہکار افسانوں کے بے لاگ تجزیے کیے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک بیباک تجزیہ نگار ہیں جو اپنے استاد کو بھی نہیں بخشے ہیں۔
(02/08/2018)
Mohd Alim
M.A, B.Ed
NET, SET
(Assist.Teacher)
Govt. ZP Urdu School(Maharashtra)

ناندورہ، مہاراشٹر

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular