Sunday, April 28, 2024
spot_img

محبت

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

عادل نصیر

میں آج بھی شہر کی مشہور پارک کے کونے میں رکھے بنچ پر بیٹھا کسی کا انتظار کر رہا تھا ۔ میں کل بھی یہیں منتظر تھا اور آج بھی۔ میں پچھلے بیس برس سے ایسے ہی آتا اور مایوس ہوکے چلا جاتا ہوں۔ پارک کےبلند قامت طویل عمر چنار بھی اب میری مایوسی کے ہمراز بن چکے تھے۔ان کی خاموشی دیکھ کر ایسا لگتا کہ جیسے یہ خاموشی میری خاموشی کی ہمدرد ساتھی ہے لیکن جب میرا کرب مجھے بے قرار کرکے رکھ دیتا اور ناامید ہوکر وہاں سے نکل پڑتا تو چلتے چلتے چنار کے پتوں کی سرسراہٹ گویا میری ناکامی پر قہقہہ مارنے لگتی ہے ۔ سو اس دن میں ٹھہر گیا ۔
درختوں کی شاخوں پر محو گفتگو پرندوں کو دیکھکر میں بھی اپنے ماضی کی یادوں میں چلا گیا ۔ جب میری جوانی شباب پر تھی۔ اور میں اپنی ادیفہ کے سنگ باغ کے اسی بنچ پر دیر تک محو گفتگو رہتا ۔ کتنے حسین لمحے تھے ۔وہ پہروں بیٹھے رہنا ، کبھی ہنسنا، کبھی قہقہے مارنا ، کبھی روٹھنا ، کبھی منانا ، ڈھیر ساری باتیں اور وہ قلفی جو اسکی من پسند تھی ۔ ہاہا۔۔
کیسے ضد کرتی تھی بلکل بچوں کی طرح ۔ مجھے یاد ہے اس دن کیسے زوروں روئی جب میری وجہ سے اسکی قلفی گر گئی ۔ اور پھر میں نے پانچ کلفیاں کھلانے کا وعدہ کرکے چپ کرایا تھا ۔ بدھو !
میں ابھی ان ہی حسین خوابوں کی دنیا میں تھا کہ مچھر کے ڈنک نے واپس ہوش میں لایا ۔ جیسے مجھ سے کہہ رہا ہو ۔ “بے وفا ، ظالم۔ تو جن یادوں کے گلستانوں کی سیر کر رہا ہے اسے ویران کرنے والا بھی تو ہی ہے ، سو تجھے کوئی حق نہیں کہ تو ماضی کو یاد کرے۔”
لیکن میں بے وفا نہیں تھا ۔ میں نے محبت کی تھی ۔ محبت جسے دنیا میں کوئی بیان نہیں کر سکتا اور نہ کوئی رشتہ محبت کی تکمیل کی سند دے سکتا ہے ۔ محبت رشتوں یا بندھنوں کی محتاج نہیں ۔ محبت احساس کا نام ہے، وہ احساس جو گمنام کو بھی رشتے کا نام دیتا ہے ۔ محبت بیس برس اضطراب کے سمندر میں ڈوبنے کے باوجود کنارے کی تلاش کا نام ہے ۔ محبت لفظوں میں بیان نہیں ہوسکتی، محبت صرف محبت ہے ۔
میں بے وفا نہیں تھا ۔ کبھی کبھی زندگی میں کچھ موڈ ایسے آتے ہیں جہاں محبت قربان کرنی پڑتی ہے ۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ محبت ختم ہو جاتی ہے ۔ یہ امتحان ہوتا ہے اور میں اس امتحان میں بزرگوں کی جیت کیلئے اپنی محبت ہار کے آگیا تھا۔ میرے والد صاحب شہر کے بڑے اور معتبر شخصیتوں میں سے تھے ۔ جب میں اٹھارہ سال کا ہوگیا تب سے ہی میری شادی کی فکر گھروالوں سے زیادہ رشتہ داروں کو ہونے لگی اور اکثر میرے نکاح کا ذکر چھیڑتے ۔ جب میں نے اپنی محبت کا انکشاف اپنے والد صاحب کے سامنے کیا تو معلوم ہوا کہ میرے والد صاحب نے شہر کے مشہور تاجر کی بیٹی سے میرا نکاح پہلے سے ہی طے کیا ہے اور میرے والد صاحب نے میرے سامنے شرط رکھ دی
” آصف بیٹا ۔ ۔ تم جس ادیفہ کا ذکر کر رہے ہو تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اس کا پورا خاندان ہمارے کھیتوں میں مزدوری کرتا ہے اور تم چاہتے ہو کہ وہ ہمارے گھر میں بچھے قیمتی قالین پر کیچڑ سے لتھیڑ دیں ۔ ہر گز نہیں ۔ بھول جاو اسے اور اگر نہیں بھول سکتے تو مجھے بھول جاؤ”
میں نے انہیں سمجھانے کی کافی کوشش کی مگر مادیت کی عینک سے جذبات، احساسات اور محبت نہیں دیکھی جا سکتی اور میں ہار گیا ۔
میں نے اسکے بعد ادیفہ کو کبھی نہیں دیکھا، نہ اس سے بات ہوئی ۔ میں بنچ پر بیٹھا اپنی حیات کے نشیب و فراز کے جھرمٹوں میں گم تھا کہ ایک ادھیڑ عمر خاتون نے مجھے چونکا دیا ۔
” جی ۔۔ اسلام علیکم ۔۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں ”
میں بنچ کے ایک سرے کی طرف سرک گیا اور وہ بیٹھ گئی ۔ شاید وہ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ آئی تھی ،جو دور پارک میں کھیل رہے تھے اور وہ انہیں ہلکی مسکان کے ساتھ دیکھ رہی تھی ۔
” آپ کے پوتے ہیں؟ ” میں نے پوچھا
” جی نہیں ۔ میرے محلے میں رہتے ہیں ” اس نے بنا میری طرف نظر کئے جواب دیا۔
” آپ کہاں سے ہیں ” میں نے پھر پوچھا ۔
” میں ۔۔۔ قبرستان سے ؟” ہاہاہا ۔۔ وہ ہنستے ہوئے بولی
” قبرستان ” ؟ میں نے تعجب سے پوچھا
” میری زندگی کی تنہائی لحد کی تنہائی سے کچھ کم نہیں ”
وہ کچھ اور کہنا چاہتی تھی مگر آنکھوں سے بہہ رہے اشکوں کے سیلاب نے زبان پر سسکیوں کا باندھ کھڑا کردیا ۔ وہ اس باندھ کو توڑنے کی جستجو میں تھی کہ بچے دوڑتے چلے آئے ۔
” ادیفہ آپا ۔ چلیں واپس چلتے ہیں ۔ ”
ہندوارہ ،شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
9596253135
ضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular