Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldما بعد جدید خرافات کے ایک اہم ناقد کی رخصتی

ما بعد جدید خرافات کے ایک اہم ناقد کی رخصتی

عالم نقوی

بے لوث اور بے اندازہ محبت کرنے والے ہمارے ایک اور بزرگ اور ہمارے عہد کے ایک نامور ادیب ، استاد ،شاعر ،صحافی اور مابعد جدیدیت کے سب سے اہم نقاد دانشور فضیل جعفری بھی رخصت ہو کر وہاں چلے گئے جہاں آج نہیں تو کل ہم سب کو جانا ہے ،یہ اور بات ہے کہ اُس کی تیاری سے غافل رہنے کی جہالت کو علم سمجھنے کا مرض عام ہو چکا ہے ۔
ہم شمیم حنفی سے متفق ہیں کہ ’’ہمارے زمانے نے تہذیب ،معاشرت ،ادب اور اخلاق کی قدروں کا رُخ ۔۔ سرے سے بدل کر رکھ دیا ہے ۔انسانی حافظے کے تمام توانا لفظ اپنی روح کھو بیٹھے ہیں ۔بہت سی قدروں کی قیمت کا خیال بھی دھندلا چکا ہے ۔اصطلاحیں بے معنی ہو گئی ہیں ‘‘(۱)
زندگی کا جھوٹ ہی سب سے بڑا سچ ہے فضیل ۔۔۔صرف اب کردار ہیں ،جو صاحب ِکردار تھے !
سروں پہ قدغن گھروں میں مدفن نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن
فضیل صاحب کو (تھی) یہ الجھن رَجَز پڑھیں ۔۔یا غزل سنائیں!
ہمارے نزدیک فضیل صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے مابعد جدیدیت کی بیہودہ و بے معنیٰ ساختیات اور پس ساختیات کو برہنہ کر کے اردو ادب و تنقید کے سنجیدہ قاری کو گمراہی کے دَلدَل میں پھنسنے سے بچا لیا۔
ان کے تنقیدی مضامین کی آخری کتاب ’آبشار اور آتش فشاں ‘میں شامل قریب سو صفحات پر مشتمل دو آخری مضامین’’ساختیاتی کباب میں رَدِّ تشکیل کی ہڈِّی ‘‘اور ’’تھیوری ،امریکی شوگر ڈیڈی اور مابعد جدیدیت ‘‘ ادب کے نام پر اس غیر ادبی خرافات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے ۔ سکندر احمد اور عمران شاہد بھنڈر نے بعد میں رہی سہی کثر بھی پوری کردی ۔
ایسا نہیں کہ مابعد جدیدیت کے مردہ افکار کو زندہ کرنے کی کوئی سعی مجہول و مردود بعد میں نہیں ہوئی لیکن شمیم حنفی ہی کے بقول اس عہد نافرجام میں جب ’’ بہت سے لوگ (خود ) ادب (ہی) کی موت کا اعلان کرنے لگے ہیں ،(جب ) لوگوں کے پاس ادب پڑھنے کا وقت (ہی )نہیں( ہے)اور وہ لوگ جو اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہونے کی سب سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں اُنہیں ادب پڑھنے کی نہ(فرصت ہے ) نہ ضرورت ۔(اور جب ہمارے چاروں طرف ایک ) حلقہ (اُن نام نہاد )دانشمندوں کا ( فروغ پا چکا )ہے جو ادب کو کرئیر کے طور پر برتتے ہیں ۔اسے امیروں وزیروں ۔۔ تک رسائی کا بہانہ بناتے ہیں۔انعام پاتے ہیں ۔۔اور ادب کے نام پر نمائشی جذبوں ،مُستعار تجربوں ،اپنی ہستی کی بنیادوں سے کوئی تعلق نہ رکھنے والے تصورات اور آپ اپنی بے یقینی کی فضا میں سانس لینے والے احساسات کی دوکانیں سجاتے ہیں ۔۔(نئی)تنقید لوگوں کو ادب کے واسطے سے مہذب بنانے کی کسی بھی سرگرمی کو قابل اعتنا نہیں سمجھتی ‘‘(۲)
اور جب ہمارے ادبی تدریسی حلقوں میں بنام ادب و تنقید ’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو ‘ والی ایک قدیم لیکن نامطلوب و نا محمود روایت جڑ پکڑنے لگی ہے تو مابعد جدیدیت کی سڑی ہوئی لاش ڈھونے والوں کو بھلا کون پوچھے گا !
ہوتے نہ لکچرر تو کوئی لوگ جعفری ۔۔ساحل پہ بیچتے کہیں چھولے ،دہی بڑے !
ہے طلب شہرت کی یا ذلت کی آندھی جعفری ۔۔چیتھڑے لوگوں کی نظروں میں رسالے ہو گئے ۱
تھیوری ،ساختیات ،رد تشکیل جیسی بے معنی یا دور از کار معنی رکھنے والی ما بعد جدیدیت کیا ہے ؟ فضیل جعفری کے لفظوں میں ’’غیر معمولی حد تک پیچیدہ زبان کا استعمال اور محیر ا لعقول قسم کی اصطلاحیں وضع کرنا ساختیاتی و پس ساختیاتی نقادوں (دریدا ،لاکاں اور فوکو وغیرہ اور ان کے بے بصر غلاموں ) کا عام و طیرہ ہے اس لئیے اُن کے تمام خیالات کو اردو میں منتقل کرنا ممکن نہیں ۔۔‘‘(۳)
فضیل صاحب’ دریدا ‘کوبر خود غلط مابعد جدید نقادوں کے بر خلاف ادبی نقاد ہی تسلیم نہیں کرتے ۔ڈی سی آر گونے تلکے نے لکھا ہے کہ سلمان رشدی کی شیطانی آیات مابعد جدید یت کا معتبر ترین متنی حوالہ ہے ۔شیطانی آیات قرآن کی پیروڈی ہے اور پیروڈی ہی ما بعد جدیدیت میں ایک ’سنجیدہ ادبی صنف ‘ ہے ! مابعد جدید ادیبہ اور دریدا کی پرستار مارگریٹ روز نے لکھا ہے کہ ’آجکل پیروڈی ہی (مابعد جدید ) تنقید کا غالب رجحان ہے ‘(۴) شیطانی آیات دنیا کی چوبیس یونیورسٹیوں میں مابعد جدیدیت کی نصابی کتاب Text Bookکے طور پر پڑھائی جاتی ہے ۔سلمان رشدی کے نزدیک مابعد جدیدیت کی چار شناختیں خاص ہیں (ایک )مذہبی انکار کی صورت میں داڑھی نہ رکھنا (دو)سر عام بوس و کنار سے اجتناب نہ کرنا (تین) Hamخنزیری سینڈوچ کھانا اور (چار) یہودیوں سے بطور خاص محبت کرنا ۔
مابعد جدیدیت کی سب سے اہم خصوصیت متن کو معنی سے محروم کرنا ہے یعنی ان کے نزدیک معنی متن میں نہیں قاری کے ذہن میں ہوتے ہیں کوئی بھی قاری کسی بھی متن کے جو چاہے معنی نکال سکتا ہے ۔ دریدا نے یہ سارا کھٹراگ الوہی متون توریت ،زبور ،انجیل اور قرآن کی اہمیت کم کرنے بلکہ ختم کرنے کے لیے پھیلایا تھا ۔اور پھر قاری کجے لیے بھی کسی متن کو سمجھنے کے لیے اتنی شرطیں عائد کردی گئیں کہ کسی عام قاری کے لیے کسی بھی متن کو سمجھنا ما بعد جدیدیوں کے نزدیک ممکن ہی نہیں ہے ۔اسٹینلے فِش نے اس کے لیے ’’جانکار قاری ‘‘ کی خاص اصطلاح استعمال کی اور لکھا کہ ’’قاری وہ شخص ہے جو چومسکی کے اصطلاحی معنوں میں لسانی اہلیت رکھتا ہے ۔ایسا قاری کم از کم اتنے نحوی اور معنیاتی علم کو اپنے داخلی وجود کا حصہ بنا چکتا ہے جتنا ادبی قرائت کے لیے ضروری ہے ۔ ادبی متن کے ’جانکار قاری ‘ سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ادبی روایت اور ادبی طور طریقوں اور ادبی اصول و ضوابط کا بھر پور علم رکھتا ہو‘‘ ۔۔’’اس اقتباس میں ادب کی قرائت پر جو کڑی شرطیں عائد کی گئیں ہیں،اُن سے کیا یہ حقیقت مترشح نہیں ہوتی کہ (نام نہاد )’’قاری اساس تنقید‘‘ کے (بظاہر بھاری بھرکم )نام پر عام قارئین ادب کو ادب سے دیس نکالا دیا جا رہا ہے ؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ادب کو محض (ڈگری یافتہ نام نہاد اور بزعم خود )’اعلیٰ تعلیم یافتہطبقہ اشرافیہ ‘ کی جاگیر اور ملکیت بنانے کی کوشش ہے ‘‘(۵)
اب اس ستم ظریفی کو کیا روئیں کہ جس طرح سنجیدہ و صحت مند ادب سے قاری کو دور کرنے کے لیے یہ نظریہ گھڑا گیا اسی طرح قرآن کریم سے قاری کو دور کرنے کے لیے ’ایک طبقہ خاص کی طرف سے یہ کہا جانے لگا ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے ۷۲ علوم میں مہارت کی ضرورت ہے !
حوالے (۱)شمیم حنفی ۔ادب ادیب اور معاشرتی تشدد۔مکتبہ جامعہ نئی دہلی ۲۰۰۸ص۱۱
(۲)شمیم حنفی ۔قاری سے مکالمہ ۔مکتبہ جامعہ نئی دہلی ۱۹۹۸ص۷۔۸)
(۳)آبشار اور آتش فشاں ۔ص ۲۹۴،(۴)ایضاً ۔ص۳۲۷،(۵)ایضاً ص ۳۴۳۔۳۴۴،ص۳۲۷

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular