لفظوں کا بازیگر : شبیر احمد شادؔ

0
279

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

محمد علیم اسماعیل

نے 12 نومبر 2017 کو میرا ایک افسانہ مشیر احمد انصاری کے واٹس ایپ گروپ ’’اردو گگن‘‘ میں شیئر کیا تھا۔ گروپ میں شامل شبیر احمد شادؔ نے جب میرے نام کے ساتھ ناندورہ لکھا ہوا دیکھا تب فوراً مجھے کال لگائی اور گفتگو کا ایک سلسلہ جاری ہوگیا۔ ریاست مہاراشٹر کے ضلع بلڈانہ میں ایک شہر ناندورہ ہے جہاں سے شبیر احمد شادؔ کی بچپن کی کچھ یادیں وابستہ ہیں ۔
آج کل واٹس ایپ سے پیغامات کی ترسیل و موصولی بہت آسان ہو گئی ہے۔ واٹس ایپ سے معلومات کی منتقلی کی محض رفتار ہی اس کے جواز کے لیے کافی ہے۔ اور یہی اس کی مقبولیت کا راز بھی ہے۔
شبیر احمد شاد بھی واٹس ایپ سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ روزانہ ایک شعر مختلف ادبی گروپس میں شئیر کرکے داد و تحسین حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے ادب کی ترسیل کرکے وہ تیز رفتار زمانہ کے ساتھ قدم بہ قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ روزانہ ایک شعر سے میں محظوظ ہو ہی رہا تھا کہ اسی دوران ان کا شعری مجموعہ ’’لفظوں کے تانے بانے‘‘ بذریعہ ڈاک موصول ہوا اور لطف اندوزی کا ایک خزینہ دستیاب ہو گیا۔ اس کے علاوہ یوٹیوب پر بھی ان کی شاعری سے شادماں ہونے کا موقع ملا۔
شبیر احمد شادؔ سے پہلی ملاقات 17 اپریل 2018 بروز منگل کو ناندورہ میں ہوئی۔ جہاں ‎شال و گل پیش کر کے ان کا پر تپاک استقبال کیا گیا۔ موصوف کی آمد پر ایک ‎شعری نشست کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں شبیر شادؔ نے نہایت ہی پر اثر انداز میں اپنا کلام سنا کر سبھی کا دل جیت لیا۔ فین کے اراکین سے مل کر انھوں نے نہایت خوشی کا اظہار کیا۔ اور کہا، آپ لوگوں کی تحریریں اخبارات و رسائل میں دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ ناندورہ میں بھی ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ دوران گفتگو شبیر احمد شادؔ کے متعلق بہت سی دلچسپ باتیں ظاہر ہوئیں اور اردو ادب کے تئیں ان کی والہانہ محبت کے واقعات بھی عیاں ہوئے۔ انھوں نے اپنے دن رات شاعری کے لیے وقف کر رکھے ہیں۔ ان کا ایک ہی محبوب مشغلہ ہے اور وہ ہے شاعری۔ ان کے سبھی بچے اچھے سے سیٹ ہو گئے ہیں اور گھر کی تمام ذمہ داریوں کو ہنسی خوشی نبھا رہے ہیں۔ اپنے کاروبار سے جو کچھ کمائی ہوتی ہے وہ اسے ادبی سرگرمیوں اور کتابوں کی اشاعت پر لگا دیتے ہیں۔ وہ بچوں سے ایک روپئے کے طلب گار نہیں اور ناہی بچے ان سے۔ موصوف کی تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور چوتھی تصنیف منظر عام پر آنے کے لیے بے قرار ہے۔
شاعری
شبیر احمد شادؔ بڑے ہی شگفتہ مزاج اور مخلص انسان ہیں۔ کلام پیش کرنے کا انداز اتنا دلچسپ ہے کہ وہ جس محفل میں ہوتے ہیں حاضرین کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ نرم و شگفتہ لہجے سے کلام میں بلا کی تاثیر پیدا ہوگئی ہے۔
انھوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن بنیادی طور سے وہ غزل کے شاعر ہیں ۔ غزل کو ہی انھوں نے اپنے احساسات و جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے ۔
بھیونڈی اور ممبئی کے ادبی ماحول میں وہ ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔
بکھرتی و پامال ہوتی اخلاقی قدروں سے وہ غمگین ہیں۔
اور اپنی شاعری کے ذریعے اخلاقی درس دیتے ہیں۔
کاروباری مصروفیات کے باوجود وہ شاعری کے ذریعے تہذیب و ثقافت کی آبیاری اور مثبت قدروں کو پروان چڑھانے میں خون جگر صرف کر رہے ہیں۔
وہ موضوعات کا انتخاب زندگی کی ناہمواریوں سے کرتے ہیں۔ معاشرتی حالات اور موجودہ زمانے کے واقعات ان کی شاعری میں جابجا نظر آتے ہیں۔
کلام میں سادگی ہے تو گہرائی بھی۔
ان کی شاعری اپنے عہد کی ترجمانی ہے جس میں حقیقت کے ساتھ ساتھ مجاز اور تخیل کے بھی اشعار ملتے ہیں۔
شبیر احمد شادؔ الفاظ کو برتنے کا سلیقہ جانتے ہیں جس سے کلام میں حسن و دلکشی پیدا ہو گئی ہے ۔
ان کے اشعار میں میرؔ کی طرح خود کلامی ہے تو اقبال کی طرح واعظ بھی ہے۔
رشید احمد صدیقی نے غزل کو اردو شاعری کی آبرو کہا ہے اور شبیر احمد شادؔ بھی غزل کو اتنا ہی عزیز رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں تغزل، واردات عشق، معاملہ بندی اور نازک خیالی بھی نظر آتی ہیں۔
فراق گورکھپوری نے غزل کو مختلف پھولوں کی مالا کہا ہے اور شبیر احمد شادؔ نے اس مالا میں ہر طرح کے مضامین باندھے ہیں۔
انھوں نے فکر کی بلندیوں اور گہرائیوں کی ایک دنیا قائم کی ہے۔ اور اپنے جذبات کو شاعری کی آگ میں پگھلا کر بہترین نقش و نگار ابھارے ہیں۔
ان کا پیغام سیدھا قاری کے ذہن سے جا ٹکراتا ہے۔ وہ بلاواسطہ پتے کی بات کرتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ نہایت ہی عمیق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری مختلف موضوعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔
محسنؔ امیدی برہان پوری لکھتے ہیں ’’ان کے شعروں میں جہاں روایت کی پاسداری ملتی ہے، وہیں جدید موضوعات کے لوازم کا احترام بھی پایا جاتا ہے۔ وہ آپ بیتی کو جگ بیتی اور جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔‘‘
شکیل احمد شکیلؔ فرماتے ہیں ’’ دامنِ غزل کو لفظوں کے تانے بانے سے آراستہ کرنے والا یہ شاعر دل کی دھڑکنوں اور دماغ کی الجھنوں سے بھی واقفیت رکھتا ہے۔ ‘‘
شبیر احمد شادؔ کا شعری مجموعہ ’’لفظوں کے تانے بانے‘‘ مختلف پھولوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔ اسے میں ان کے اب تک کے ادبی سفر کا حاصل سمجھتا ہوں۔ جس میں حمد پاک، نعت پاک، غزلیں اور قطعات کو لفظوں کی بازی گری سے سنوارا گیا ہے۔
نمونہ ِ کلام
اس چمن کی یعنی کہ ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں مسلمان بھی پیش پیش تھے۔ ہم نے بھی ہمارا خون بہایا تھا۔ اور کچھ دیش کے غدار کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان چلے جانا چاہیے، اس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ شبیر احمد شادؔ نے اس منظر کو بڑی خوبی سے لفظوں میں قید کیا گیاہے۔
ہمیں نے اپنےلہوسےچمن کوسینچا ہے
ہمارا فضلِ بہاراں پہ اختیار نہیں
آج کل عدالتوں کے فیصلے بھی بڑے عجیب وغریب آرہے ہیں۔ یہاں شبیر شادؔ نے بڑی بیباکی سے عدالتی نظام کو آئینہ دکھایا ہے۔
بے قصور جیلوں میں قید ہے اور فسادی آزاد گھوم رہےہیں۔
عدالتوں میں یہ منصف نےفیصلہ ہے دیا
ستم گروں میں کوئی بھی قصور وار نہیں
شبیر شادؔ کے حوصلوں کی اڑان اونچی ہے۔ جب منزل کو پانے کا حوصلہ ہو تو منزل بالکل سامنے ہی نظر آتی ہے۔ ان میں خود اعتمادی اور خودداری کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اور ان کی شخصیت کے یہ پہلو ان کے اشعار میں جھلکتے ہیں۔
منزل سمٹ کے آگئی نظروں کے سامنے
جب حوصلوں کی تھام کے ہم انگلیاں چلے
غیروں کی عنایت کو گوارا نہیں کرتے
ہم دست طلب کو کبھی کاسہ نہیں کرتے
اس سے پہلے بھی مختلف شعرا نے غمِ جاناں اور غمِ روزگار کو اپنے کلام پیش کیا ہے لیکن شبیر شادؔ نے اسے اپنے انداز سے باندھا ہے۔ غمِ روزگار کو اکثر تمام غموں پر فوقیت رہی ہے۔ شبیر احمد شادؔ نے تخیلات کی ایک دنیا آباد کی ہے۔ جس میں انھوں نے مختلف تصورات کے عکس ابھارے ہیں۔
اے شادؔ اب بھلا ہو غمِ روزگار کا
مجھ کو خیال یار میں کھونے نہیں دیا
شبیر احمدشادؔ کی شاعری میں جہاں موجودہ حالات کی عکاسی، دم توڑتی اخلاقی قدروں پر اظہار غم اور اصلاحی تدابیر ہیں وہاں عشق و عاشقی کی واردات بھی اپنے عروج پر ہے۔ وہ اپنے محبوب کو رسوا نہیں کر سکتے نہ ہی محبت کو کھیل تماشہ بنتے دیکھ سکتے ہیں۔
اور وہ میل ملاپ میں کسی بھی طرح کا تکلف نہیں چاہتے ہیں۔
ہےجن سےمحبت انھیں رسوانہیں کرتے
ہم نام محبت کا تماشہ نہیں کرتے
میں بھی کھلی کتاب کی صورت کھڑا رہوں
تو بھی تکلفات کی چادر اتار دے
شبیر احمد شادؔ ایک حساس شاعر ہیں۔ جن کے کلام میں تخیل کی بلندی اور فکر کی گہرائی پائی جاتی ہے۔
��

ناندورہ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here