Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldلائبریری کی پہلی زیارت

لائبریری کی پہلی زیارت

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

احتشام الحق آفاقی

یہ میری بد قسمتی رہی کہ میں اپنے ۹ سالہ تعلیمی سفر کے دوران تک مدرسہ کی لائبریری کے علاوہ کسی بھی مرکزی و عوامی لا ئبریری کے استفادہ سے محروم رہا ، میں ہمیشہ یہ سوچا کرتا تھا کہ ، کاش میں کسی لائبریری کے قریب ہوتا اور اس کے فیض سے فیضیاب ہوتا۔ آخر یہ کب ممکن ہوگا جب کہ میں اردو زبان سے وابستہ ہوں ، لکھنا پڑھنا اور بولنا سب اردو زبان میں ہی ہوتا ہے ، لائبریری سے دوری کا احساس مجھ پر غالب تھا ۔ چنانچہ ایک عزیز سے میں نے اس کا تذکرہ کیا توانھوںں نے بر جستہ کہا کہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ! جبکہ آپ ہندستان کے چنندہ لائبریری میں سے ایک کے قریب رہتے ہیں (امیر الدولہ پبلک لائبریری قیصر باغ لکھنؤ) پھر بھی آپ اس سے نا واقف ہے ، تو میں نے جھٹ ان سے کہا کہ آپ ایک مرتبہ میرے ساتھ جاکر لائبریری میں رہنمائی کردیں، توآپ کی بڑی مہربانی ہو گی ،مہربانی ہو اس رفیق کا (امتیاز احمد براڑی) اس زحمت کے لئے وہ تیار ہوگئے، اور انہو ں نے کچھ دن انتظار کرنے کیلئے کہا ، اور میں اس دن کا انتظار کرنے لگا ، وہ دن بھی آگیا جب ہم لائبریری کے گیٹ پر پہنچا تو دیکھا کہ میں یہاں سے برابر دو سال کی مدت سے گزر رہا ہوں پھر بھی میں نے کبھی اس کی طرف دیکھا تک نہیں ، یہ کیا بات ہے ، اتنی شاندار اور بلند ترین عمارت ہے ، اور شاہی تزئین کاری نے اس پر مزید چار چاند لگا دئے ہیں ، اور دل میں خیال بھی پیدا ہوا کہ شاید میں اس کی ویرانی کی وجہ سے بے خبر ہوں ، چنانچہ میں صدر دروازے سے داخل ہوکر لائبریری کے اندر گیا سامنے لگے بورڈ کو پڑھنے لگا،پڑھنے کے بعد وہیںپر بیٹھے ہوئے ایک ضعیف العمر شخص سے سلام و دعا کے بعد معلوم کیا کہ ہمیں اردو ڈپار ٹمنٹ میں جانا ہے تو انہوں نے باادب ہم سے کہا کہ ! رجسٹر میں نام و پتہ لکھ دیجئے اور اسی راستہ سے اندر دائیں جانب دوسری منزل پر ہے ، تو ہم آگے بڑھے اور اندر کے جانب داخل ہونے لگے ۔یہ کیا کاؤنٹر کے اندر سے ایک ناگوار آواز آئی ہم لوگ فوراََ رک گئے تو انہوں نے سخت لہجہ میں کہا ایسے کیسے اندربڑھے جا رہے ہو ، ایڈمٹ کارڈ دکھاؤ تو ہم نے کہا کہ ہم پہلی مرتبہ آئے ہیں ۔ لہذا ہمارے پاس ایڈمٹ کارڈ نہیں ہے ، انہوں نے پھر اسی آواز میں کہا کہ بغیر ایڈمٹ کارڈ کے اندر انٹری نہیں ہے ، آپ واپس جا سکتے ہیں ۔ تو میں نے کہا کہ جناب ایڈمٹ کارڈ بنانے کیلئے ہمیں کہاں جانا ہوگاآپ بن بات کے سخت لہجہ اختیار کر رہے ہیں، آپ کو ہماری رہنمائی کرنی چاہئے۔تو انہوں نے اپنے پاس سے ایک فارم عنایت کیا جس میں لائبریری کے متعلق شرائط و ضوابط لکھے ہوئے تھے ، اور کہنے لگے فارم صرف ہندی یا انگلش میں بھریں، شاید وہ ہمارے لباس سے ہمیں دنیا کے سب سے بڑا بے وقوف اور احمق سمجھ رہے تھے ۔ اس وقت مجھے اپنے استاذ محترم کا وہ قول یاد آگیا جسمیں وہ اکثر کہا کرتے ہیںاگر گدھے کے اوپر دنیا کی ساری کتابیں لاد دیا جائے پھر اس سے معلومات حاصل کی جائیں تو وہ معلومات فراہم نہیں کر سکتا ، کیوں کہ وہ گدھا ہے ۔ استاذ محترم کے قول سے ہم نے یہ سیکھا کہ چاہے یہ شخص ہزاروں اور لاکھوں کتابوں کو اپنی نگرانی میں لئے بیٹھا ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک کہ اس سے فائدے حاصل نہ کئے جائیں ۔ خیر ہم نے فارم پر کیا کاغذی کارروائی پوری کرنے کے بعد ہم لوگ اندر داخل ہوئے ہماری انٹری سے لوگوںنے اپنی کتابوں سے دھیان ہٹاکر ہماری طرف پوری توجہ مرکوز کر دیا ۔ خیر ہم اپنی نظر بچاتے ہوئے اردو ڈپارٹمنٹ میں گئے ، میں نے اس لمحہ بہت خوشی محسوس کی کہ میں آج اتنی بڑی لائبریری اور اتنی ساری کتابوں کے درمیان کھڑا ہوں ۔ ہم نے ڈھائی تین گھنٹے خوشی و مسرت کا لمحہ لائبریری میں گزارا ، کسی کتاب کا مکمل مطالعہ تو نہ کرسکا ، کیونکہ یہ فیصلہ کر پانا میرے لئے قدرے مشکل تھا کہ میں کس کتاب کا مطالعہ کروں اور کس کو چھوڑ دوں ، وہ دن تو میرا ایسا ہی رہا اور ہم پھر تھوڑی دیربعد لوٹ آئے ۔لائبریری کی زیارت کے دوران چند باتوںکو میں نے محسوس کیا ، وہ یہ کہ اتنا بڑا اردو ڈپارٹمنٹ اور اتنی کثیر تعداد میں کتابیں اور پھر اس میں قارئین ایک بھی نہیں پھر ہم نے غور کیا کہ اسی وجہ سے لوگ ہمیں دیکھ رہے تھے کہ بہت دنوں کے بعد کوئی اردو پڑھنے آیا ہے ، اردو ڈپارٹمنٹ میں جو لاپرواہی تھی شاید یہ اس کی ویرانی کی وجہ سے تھی نہ تولائٹ جل رہی تھی نہ پنکھے کا کوئی انتظام ، اور نہ کوئی کتاب اپنی جگہ رکھی ہوئی ، کتابوں پر دھول جمی ہوئی اور پھر جس کتاب کو تلاش کیا جائے اس کا نہ مل پانا ، پھر ہماری نگاہ ایک رجسٹر پر پڑی جس میں کتابوں کی فہرست تھی جب اس کو کھولا اور دیکھا تو اس کے رسم الخط سے یہ سمجھ نہ پایا کہ یہ کون سی کتاب کا نام لکھا ہے ، کیاکروں تحریر ہی ایسی تھی ۔ میرے ذہن میں اس وقت یہ بات آئی کہ جو لوگ اردو کی بقا کے لئے اور اس کے تحفظ کیلئے پیش پیش رہتے ہیں وہ آخر کہاں ہیں ؟ کیا انکی نگاہ اس لائبریری پر نہیں ہے ، اور جو لوگ اردو سے ڈگری حاصل کر کے آئے دن سڑکو ں پر دھرنا دے رہے ہیں ، کیا ان کو نہیں چاہئے کہ وہ لوگ وقت نکال کر اردو لائبریری کو آباد کریں، کیا وہ اتنا پڑھ چکے ہیں کہ ان کو اردو لائبریری میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
محمد علی جوہر یونیورسٹی ،رامپور
موبائل:7060695172

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular