Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldقصیدے کی شعریات

قصیدے کی شعریات

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

خان محمد رضوان

یہ کتاب شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی ،میں یو جی سی کے تحت منظور شدہ ڈی آر ایس کے ذریعہ منعقدہ سہ روزہ کل ہند سیمینار 28/فروری 2016 میں پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے- یہ کتاب اس طور پر بھی اہم ہے کہ قصیدہ جیسی اہم کلاسیکی صنف پر مبنی ہے- آزادی کے بعد یہ صنف رفتہ رفتہ زوال پزیر ہوگیا-اس لیے-اس سیمینار کے ذریعہ صنف قصیدہ کو نئے سرے سے تازہ کرنے اور از سر نو اس سے رشتہ قائم کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے-
اس سے قبل کہ اس کتاب پر براہ راست گفتگو ہو مرتبین کے تعلق سے چند ضروری باتیں کرنا چاہتا ہوں تاکہ ان کی ادبی خدمات کا بھی تعین قدر ہوسکے-پروفیسر شہپر رسول اردو دنیا کا نہ صرف اہم بلکہ اردو شعر و ادب کا معتبر اور عالمی شہرت یافتہ نام ہے -یہ ان اختصاص میں ہے کہ اردو زبان جہاں جہاں بولی اور سمجھی جاتی وہاں وہاں شہپر رسول کا نام متعارف ہے- وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز غزل گو کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں- ان کی شاعری میں جہان معنی پوشیدہ ہے- وہیں ان کے یہاں امکانات کی دنیا بھی کافی وسیع ہے- ابتک ان کے دو مجموعہ کلام “صدف سمندر”اور” سخن سراب ” منظر عام پر آ چکے ہیں- ” نقش ورنگ ” کےعنوان سے ان کے مضامین کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے- اس کے علاوہ غزل کی پیکر تراشی کے متعلق پہلی دفعہ بے حد جامع، تحقیقی ہے جسے مکتبہ جامعہ اور قومی اردو کونسل نے اپنے اشتراک سے شائع کیا ہے-یہ کتاب ملک کی کئی یونیورسٹیوں اور دانش گاہوں کے نصاب میں بھی شامل ہے-
پروفیسر وہاج الدین علوی شعبہ اردو جامعہ ملیہ میں سینئر استاد ہیں، فی الوقت ڈین فیکلٹی کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں- آپ معتدل ناقد اور معتبر محقق ہیں- آپ کی دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں- “خود آگہی”یہ چار خودنوشت سوانح عمری سے متعلق ہے جن کے مصنف مذہبی اشخاص تھے- دوسری کتاب “جستجو وگفتگو” کے عنوان سے ہے، یہ کتاب ان کے مضامین کا مجموعہ ہے-
اس میں علوم افکار پر عمدہ گفتگو کی گئی ہے-علم و فکر بالخصوص تصوف کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے-
“قصیدے کی شعریات” اس کتاب کی سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ یہ یک موضوعی کتاب ہے- دوسری اہم بات یہ ہےکہ یہ کتاب کلاسیکی اصناف میں اہم اور فراموش کی جانے والی صنف پر مبنی ہے- یہ کتاب اس کلاسیکی صنف سے اپنا رشتہ استوار کرنے اور اس صنف پر از سرنو غوروفکر کرنے کی دعوت دیتی ہے-
اس کتاب میں تمہیدی گفتگو پروفیسر شہپر رسول نے کی ہے- پیش لفظ پروفیسر وہاج الدین علوی کااور افتتاحی خطبہ شمس الرحمن فاروقی کاہے-
جب کہ کلیدی خطبہ کے طور پر صنف قصیدہ :شعریات ،تہذیب، تاریخ کے عنوان سے پروفیسر ظفر احمد صدیقی کا کلیدی خطبہ شامل ہے – اس کے علاوہ سیمینار میں پڑھے گئے پندرہ مقالات شامل ہیں- ان میں موضوع کی مناسبت سے سبھی مقالے اہم ہیں- ان میں بطور خاص یہ ہیں: “قصیدہ” قاضی افضال حسین، “قصیدے کی شعریات” انیس اشفاق، “اٹھارہویں صدی میں اردو قصیدہے کی صورت حال” ارمان نجمی، اردو میں صنف قصیدہ کے زوال کا ازسر نو جائزہ “معین الدین جینا بڑے،” قصیدے میں علوم بلاغت کی کارفرمائی “سراج اجملی،” فن قصیدہ اور خیال بندی کا اسلوب” احمد محفوظ،” قصیدہ کی صنفی شناخت اور امتیازی پہلو” کوثر مظہری، “اور” کلاسیکی شعری تہذیب میں صنف قصیدہ کا مرتبہ” علی عمران عثمانی وغیرہ اہم ہیں-
اس کتاب کا ایک حصہ دیگر مضامین سے متعلق ہے، اس میں قصیدے سے متعلق آٹھ اہم مضامین شامل ہیں – ان میں “قصیدہ” الطاف حسین حالی، ”
“قصیدہ” امداد امام اثر، “قصیدہ صنف سخن کی حیثیت سے” ابو مح سحر، “قصیدہ صنف سخن کی حیثیت سے” محمود الہی، “قدیم دکنی قصائد” محمد حسن،وغیرہ اہم ہیں-خاص بات یہ ہے کہ محضر رضا نے” اشاریہ قصائد اردو” تیار کیا ہے اور چند نمونے کے قصائد بھی شامل کتاب ہیں-
قصیدہ کی زوال آمادگی کو دیکھ کر مجھے ایک حدیث کا ٹکڑا یاد آرہا ہے کہ “انماالدھر دول” زمانہ گردش میں ہے- زمانے کا گردش میں ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کی ہر چیز زوال آمادہ ہے اور زوال کی انتہا اس وقت ہوگی جب دنیا فنا ہوجاے گی- اگر انسانی زندگی کا جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ قبل مسیح کے انسانوں کی جسمانی بناوٹ، ان کے رہن سہن اور اشیائے خورد ونوش جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں وہ دنیا اور انسانی زندگی کے زوال آمادگی کی حقیقی داستان ہے- اس وقت انسانی ضرورت کے کی تکمیل کے لیے اللہ پاک نے من وسلوی بھیجا مگر فی زمانہ یہ زمینی حقیقت ہے کہ آج زمین ہر بسنے والے انسانوں کی بڑی آبادی بھوکے اور پیا سے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے- کھانے کے لیے غذا اور پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں- اسی طرح دور حاضر میں تعلیم ایک بڑا مسئلہ ہوگیا ہے ایک بڑی آبادی نا خواندگی سے دوچار ہے- علم بیچا جارہا ہے، اور اس علم کی بدولت انسان نے آسمان پر تو کمندیں ڈال دی ہیں مگر باوجود اس کے نا خواندگی، بد تہذیبی اور غیر اخلاقی عمل اس کی زندگی کا مقدر بن چکے ہیں –
علم کی بے انتہا ترقی کے باوجود انسان تہذیبی قدروں سے کوسوں دور جاچکاہے- اس طور پر اگر ہم غور کریں تو علم اپنے زوال کی دہلیز پر ہے-
دور اول میں تعلیم حاصل کرنے کا مقصد شخصیت کی تعمیر ہوتا تھا مگر آج تعلیم پیسہ کمانے اور صرف مالی منفعت کی غرض سے حاصل کی جاتی ہے-
ایک دور وہ بھی تھا جسے راجاؤں، بادشاہوں اور زمین داروں کا دور کہا جاتا تھا – مگر آج وزیروں اور مزدور کا دور ہے- آج کوئی بڑا نہیں اور کوئی چھوٹا نہیں ہے- کوئی بر تر اور کوئی کم تر نہیں اس طور پر ہم غور کریں تو زوال نہ صرف انسانی زندگی کا مقدر بنا ہے بلکہ سیاست، قیادت، حکومت اور علم سے لے کر ہر چھوٹی بڑی چیز کا مقدر ہواہے-
آگرہم تاریخ ادب پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ اصناف ادب میں صنف شاعری کو جو عروج مغلوں کے دور میں نصیب ہوا، شاید ہی کسی صنف کو ہوا ہوگا خاص طور سے قصیدہ کوشہرت ملی-کیوں کہ قصیدہ کی ایجاد ہی روساء اور بادشاہوں کی شان میں قصداً تعریف کرنا، اور اعتراف ذات اور حکومت دونوں کا اعتراف کرنا تھا- شعرا بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہوکر ان کی شان میں شعر پڑھتے اور دادودہشت وصول کرتے- اس ضمن میں قصیدہ کو عروج ملا،چونکہ غزل کے مقابلے میں قصیدہ میں بادشاہ وقت کی تعریف بہتر طور پر کی جاسکتی تھی اور اس صنف کے وجود کا ایک معنوی مقصد بھی تعریف تھا اس وجہ سے یہ صنف بام عروج پر پہنچی –
مگر المیہ یہ ہے کہ بادشاہوں کے زوال کے ساتھ ہی رفتہ رفتہ قصیدہ زوال پذیر ہوتا چلا گیا،اور آج اس کلاسیکی صنف کا صرف نام بھر رہ گیا ہے –
جب کہ قصیدہ صنف شاعری کی مہتم بالشان صنف رہی ہے، اس کی صنفی قدر وقیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صنف شاعری کا تصور قصیدہ کے بغیر ناممکن ہے-
میں اتنے عمدہ کار آمدہ اور اہم صنف پر اس قدر وقیع اور قابل قدر کام کے لیے پروفیسر شہپر رسول اور پروفیسر وہاج الدین علوی صاحبان کو مبار باد پیش کرتا ہوں-
مرتبین :پروفیسر شہپر رسول / پروفیسر وہاج الدین علوی رابطہ :شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ –
ضخامت :356، صفحات
ناشر : شعبہ اردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی – 25
مبصر : خان محمد رضوان
شعبہ اردو ،یونیورسٹی آف دہلی
9810862283
[email protected]

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular