Wednesday, May 1, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldقسیم اخترکی مخمور عبارتیں!

قسیم اخترکی مخمور عبارتیں!

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

سلمان عبدالصمد

قسیم ِ قسمت نے شاید ڈاکٹر قسیم اختر کے لیے تصنیف وتالیف کا کوئی خاص حصہ مختص کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جہاں ایک قابلِ ذکر وفکر شخصیت کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا،وہیں ان کی پہلی کتاب ہی معنوی اور صوری یا کیفیت وکمیت کے اعتبار سے اتنی بہتر ہے، جو ہر لکھنے والے کی قسمت میں کہاں۔پیش نظر کتاب ’’مخمور سعید ی کے شعری آفاق‘‘ کے صفحات پر ڈاکٹر قسیم اختر کی بکھری ہوئی تنقیدی (اور تشریحی )صلاحیتوں کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اُن کے شعری جہات کو واضح کرنے میں اپنی گوناگوں لیاقتوں کو بروئے کار لایا ہے۔ ان کے اندر تنقیدی جرثومے بدرجۂ اتم موجود ہیں ہی، ساتھ ہی انھوں نے تخلیق کا فطری ذوق بھی پایا ہے،وہ بھی شعر وشاعری کا ستھرا ذوق۔ یہی وجہ ہے کہ اشعار کی تشریح میں اُن کی اِ ن دونوں صلاحیتوں نے بھی خوب خوب معاونت کی ہے۔ مخمور سعیدی کے متن سے معانی ومفاہیم اخذ کرنے میں انھوںنے نہ صرف نرے ناقد کا کردار ادا کیا، بلکہ تخلیقی جوہر سے خاطر خواہ استفادہ کرتے ہوئے متعلقہ شاعر کی فکرواحساس تک رسائی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ قسیم اختر کے نثری رویوں میں وضاحت وقطعیت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔وہ بنیادی طورپر ایک استاد ہیں اور کامیاب استاد کی ایک بڑی خصوصیت،وضاحت یا ترسیل وتفہیم کی ہنر مندی سے آگاہی بھی ہے۔ اس خصوصیت نے ڈاکٹر قسیم کے تنقید ی رویوں کوجلا بخشی ہے ۔
کتاب ’’مخمور سعید ی کے شعری آفاق‘‘اساسی طور پر چار زمروں میں منقسم ہے۔ پہلا زمرہ مخمور سعید ی کے حالات زندگی پر مشتمل ہے ۔ اس گوشے میں ان کی صحافیا نہ زندگی کا اور بھی گہرائی سے جائزہ لیا جاتا تو ان کے اشعار کی تفہیم میں مزید مدد ملتی۔ دوسرے زمرے میں مخمور سعیدی کے عہد کے شعری رجحان پر بات کی گئی ہے۔ تیسرا باب اس کتاب کا اہم باب ہے ، جس میں مخمور سعید ی کے تخلیقی معیار ومنہاج کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ چوتھے زمرے میں ’’اپنی پسند‘‘ کے تحت متعلقہ شاعر کے منتخب کلام کا ضمیمہ شامل ِ اشاعت کیا گیا ہے۔ ان ابواب سے ماقبل ’’چند سطور ‘‘ کے عنوان سے حقانی القاسمی کا بسیط مقدمہ ہے، جس کی قرأت سے مخمور سعیدی کی فنی خصوصیات اور شخصی عادات سے بڑی حد تک آگاہی ہوجاتی ہے۔ پیش گفتار کے ضمن میںڈاکٹر قسیم نے دو صفحے کا تعارف لکھا ہے۔ ساتھ ہی بیک کور اور فلیپ پر استاذی پروفیسر انور پاشا، پروفیسر کوثر مظہری اور ڈاکٹر خالد مبشر کی چند سطری تقریظات بھی ہیں،جو ہمیں قسیم کی مخمورعبارتوں سے قریب کر دیتی ہیں ۔
تیس کی دہائی میں پیدا ہونے والے شاعر مخمور سعید ی نے2010 تک اپنی آنکھوں سے کئی تحریکات ورجحانات کو ابھرتے، بکھرتے اور ٹوٹتے دیکھا ہے۔(حقانی القاسمی کے مطابق مخمور سعیدی کی پیدائش 1938میں ہوئی اورمصنف نے 31دسمبر 1934لکھا ہے )۔ ظاہر ہے انھوں نے ان تمام تحریکات وتناظرات سے لاشعوری طور پر بہت کچھ لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مخمور سعیدی کے کلا م میں ان کے پورے عہد کی آواز بہ آسانی سنی جاسکتی ہے۔ تمام تر نظریات کا اثر ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی دور کی آواز کچھ دھیمی ہوگی تو کسی عہد کی تیز۔ مخمور کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ انھوں نے کسی تحریک و تنظیم کو شعوری طور پر لاشعو رکا حصہ نہیں بننے دیا،البتہ ہر تحریک کی تاثیر ان کے یہاں ضرور پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں متفقہ طور پر دو عناصر بدرجۂ اتم موجود ہیں، یعنی یادِ ماضی اور عشقیہ لے۔ میری نگاہ میں عصری آگہی بھی ان کے شاعرانہ لاشعور کا حصہ ہے۔ اسی عصری آگہی نے انھیں کسی اِزم کا پابند نہیں ہونے دیا،بلکہ عام قاری سے بھی قریب کردیا۔ ان کے اندر صحافیانہ خمیر بھی تھا،اس لیے عصری آگہی کی شمولیت نظر آتی ہے ۔ ڈاکٹر قسیم نے اپنی اس کتاب میں ان کی تمام تر آگاہیوں، فنی نزاکتوں ، موضوعاتی باریکیوں ،مشاہدہ کی گہرائیوں، اسلوبیاتی رعنائیوں ، تخلیقی ہنرمندیوں ، فکری جلوہ سامانیوں اور ان کی شاعرانہ تعلّیوں کو بڑی آہستگی سے محسوس کیا ہے۔یہاں جملۂ معترضہ کے طور پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خود قسیم اختر کی شاعری نے بھی یادِ ماضی کے جلو میں اپنی جگہ بڑی آن بان سے محفوظ کرنا شروع کردیا ہے:’’یا دِ ماضی کی اذیت اور مرا نازک سا دل/ اک صحرا تھا کہ دریا کی روانی لے گیا۔‘‘ ظاہر ہے ماضی کی یادوں کو ایسا فکری پیراہن عطا کرنے والا نوجوان شاعر مخمور کی یاد ِ ماضی کو اچھی طرح محسوس کرے گا ۔
متعدد وجودہ سے کتاب ’’مخمور سعید ی کے شعری آفاق‘‘ قابلِ التفات ہے۔ پہلی وجہ تو یہی ہے کہ مخمور سعیدی کے فنی رویوں اور فکری زاویوں کو سمجھنے کے لیے یہ مستقل اولین کتاب ہے۔ البتہ اس سے پہلے مخمور سعید ی پر چند مضامین کا مجموعہ ش ، کاف نظام نے شایع کیا تھا ، مگر تنظیمی اور یک موضوعی تصنیف کے معاملے میں ڈاکٹر قسیم کو ہی اولیت حاصل ہے۔دوسری وجہ، اشعار کی تشریح میںڈاکٹر قسیم نے اپنی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ معلمانہ نزاکتوں اور تدریسی ہنرمندیوں سے بھی کام لیا ہے۔ تیسری وجہ،مخمور سعیدی کے کلام کا عمدہ انتخاب۔ چوتھی وجہ ،فراموشی کے زمرے میں تقریباً پہنچ جانے والے ایک قابل ذکرشاعر کو شاندا ر خراج عقیدت۔ غرض یہ کہ قسیم اختر کی یہ کاوش اہل اردو کے لیے نہ صرف ایک ادبی تحفہ ہے ، بلکہ مخموری دستاویز بھی ۔
9810318692

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular