Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldفکر و احساس کی قندیلیں

فکر و احساس کی قندیلیں

پروفیسرشارب ردولوی

نظیف الرحمان صاحب سنبھلی کا یہ دوسرامجموعۂ مضامین ہے۔ ان کے نام کے ساتھ سنبھلی کا لاحقہ ان کے علمی شغف اور ادبی ذوق کے لئے سند کی حیثیت رکھتا ہے ۔علمائے سنبھل کے خانوادے سے تعلق نے اور جلا کر دی۔
زیر نظر مجموعہ مضامین ’’فکر و احساس کی قندیلیں‘‘ ۳۰؍مضامین پر مشتمل ہے۔ جس میں کچھ علماء کی دینی و ملّی خدمات اوران کے علمی کارناموں سے متعلق ہیں چنداہم ادبی شخصیات اور کچھ خود نظیف الرحمان صاحب کے اپنے ادبی و علمی اور تحقیقی و تجزیات پر مشتمل ہیں۔ اس مجموعے میں کئی مضامین علمائے سنبھل کے علمی اور ادبی کمالات پر ہیں جن میں مولانا منظور نعمانی، مولانا نسیم احمد فریدی، مولانا کریم بخش سنبھلی، مولانا محمود اسرائیلی سنبھلی ، مولانا محمد حسن بدرسنبھلی ، مولانا محب الحق خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ادبی مضامین کی تعداد زیادہ ہے۔ نظیف الرحمان صاحب بنیادی طور پر محقق ہیں اور بغیر سند کے کوئی بات نہیں کرتے۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جب تک کسی موضوع کے بارے میں خود مطمئن نہیں ہوتے اس کے بارے میں قلم نہیں اٹھاتے ۔ جس کی ایک معمولی سی مثال یہ ہے کہ داغؔ کا مشہور شعر جو ہر شخص کو یاد ہوگا ؎
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
لوگ اسے بارہا اپنے مضامین میں لکھتے اور جلسوں میں پڑھتے رہتے ہیں لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ واقعی یہ شعر کس طرح ہے۔ نظیف الرحمان صاحب نے جہاں اپنے مضمون میں داغ کیؔ خوش طبعی، فصاحت اور ان کی ٹکسالی زبان کا ذکر کیا وہاں اس شعر کابھی حوالہ آیا وہ ’سارے جہاں‘ پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’۔۔۔غور طلب امر یہ بھی ہے کہ داغؔ کی پیدائش 1878 اور وفات 1905 کی ہے یہ زمانہ عوام الناس میں اردو کے چلن کا نہ تھا۔تو پھر سارے جہاں میں اردو کی دھوم کہاں ہو سکتی تھی۔ اردو کا عام چلن تو جس میں نظم و نثر دونوں شامل ہیں شروع میںعلی گڑھ تحریک اور تحریک آزادی ، کوئی 1920 سے ہوا۔‘‘
اس شعر کی طرف کسی شخص نے ان کی توجہ دلائی ان کا حوالہ بھی انھوں نے مضمون کے آخر میں نوٹ کی شکل میں دے دیا ہے۔ لیکن اس توجہ دہانی کے بعد انھوں نے خود تحقیق کی کہ یہ غلطی کس طرح رائج ہوئی اور جس نتیجے پر وہ پہنچے اسے وہ مضمون کے آخر میں ان الفاظ میں درج کرتے ہیں

’’ ردولی (بارہ بنکی) کے ایک صاحب نے جن کا نام اس وقت یاد نہیں آرہا، فون کے ذریعے توجہ دلائی کہ شعر کا دوسرا مصرع اس طرح ہے ’’ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے ۔۔۔دیوان دیکھا تو واقعی شعر اسی طرح سے تھا۔ مگر چونکہ شعر مشہور ’سارے جہاں میں دھوم‘ کے ساتھ سنتے آرہے ہیں اس لئے تجسس ہوا۔ لائبریری میں داغؔ کے خطوط کا ایک مجموعہ مرتبہ سید رفیق مارہروی جو داغ ؔکے شاگر د رشید ہیں دیکھا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ حضرت داغؔ نے اپنے منظوم کلام کیلئے دعویٰ فرمایا تھا کہ
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوان شائع ہونے کے بعد داغؔ نے کسی وقت دوسرے مصرعے میں خود ہی ترمیم کر دی ہوگی۔۔‘‘
سوال تو اب بھی باقی رہتے ہیں لیکن نظیف الرحمان صاحب کی یہ جستجو کہ یہ معلوم کیاجائے کہ یہ تبدیلی کب آئی اور کیا یہ تبدیلی خود داغؔ نے کی ہوگی ایک بڑی بات ہے ، انہوں نے اس کیلئے داغ کے خطوط سے اصل متن تک پہنچنے کی کوشش کی۔
اسی طرح ایک مضمون ’’مولانا عبدالماجد دریاآبادی کا ایک شعری محاکمہ‘‘ میں مولانا کی تشریح میں ایک لفظ کے استعمال سے انھیں اختلاف ہوا تو انھوں نے بڑی معذرت کے ساتھ اس کا اظہار کر دیا۔ یہ ان کے علمی و ادبی خلوص اور تحقیقی مزاج کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ کسی علمی و ادبی بحث پر کس طرح غور کرتے ہیں۔یہ لکھنؤ کے شعرا کے دو اشعار کا معاملہ تھا جس میں مولانا عبدالماجد دریاآبادی سے دریافت کیا گیا کہ کون سا شعر زیادہ بہتر ہے ،مولانا نے ان پر رائے دیتے وقت انھیں ’’ہم مضمون‘‘ قرار دیا۔نظیف الرحمان صاحب نے وضاحت کے ساتھ اشعار کے الفاظ اور ان کی معنویت پر رائے دیتے ہوئے لکھا کہ :
’’۔۔۔بہ ایں وجہ دونوں اشعار کے تقابل سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اشعار ہم مضمون نہیں ہیں جیسا کہ مولانا نے فرمایا ہے شاید مولانا کا ذہن ’’تازہ گرفتاروں‘‘ کی طرف نہیں گیا ورنہ وہ دونوں شعروں کو ہم مضمون نہ لکھتے‘‘
اس مجموعے کا ایک اہم مضمون ’’مولانا محمد منظور نعمانی کا اسلوب بیان‘‘ہے اس میں جہاں اسلوب کی معنویت اور اہمیت کی وضاحت کی گئی ہے وہیں بعض باتیں آج کے حالات میں ان کی وسعتِ فکر و نظر کے بارے میں بھی کی گئی ہیں جو بہت اہم ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمارے قدیم اساتذہ ، سرسیدؔ ، حالیؔ، شبلیؔ، عبدالحق مختلف علوم پر دسترس رکھتے تھے۔ وہ ادب و شاعری کے بارے میں بھی رائے دیتے تھے تو ان کی نگاہ فارسی، عربی شعر وادب پر بھی رہتی تھی ۔آج ہم لسانی اور فکری سطح پر محدود ہوتے جارہے ہیں جب کہ جدید دور نے علم و ادب کے افق کو پہلے کے مقابلے میںبہت وسیع کر دیا ہے وہ لکھتے ہیں:
’’آج ہم جدید دور میں سفر کر رہے ہیں اس لئے ہمارے فکر و نظر میں وسعت ہونی چاہئے۔ ہمیں ادب کے دائرے کو وسیع ترکرنا چاہئے۔ ادب کو خاص خاص موضوعات کے دائرے میںمحدود کر کے نہ ہم زبان کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں اور نہ ادب ہی کی کوئی خدمت کر سکتے ہیں۔ بلا شبہ شعر و شاعری بھی ادب ہے ناول، افسانہ وغیرہ بھی۔ اگر ہم ان ہی اصناف تک ادب کو محدود کرتے ہیں تو اس سے زبان واسلوب کا دائرہ تنگ ہوجائیگا۔‘‘
ادب اگر زندگی کا ترجمان یا عکاس ہے تو زندگی ہی کی طرح وسیع بھی ہے۔ ہر جذبہ، ہر خیال ، ہر علم ،ہر نئی معلومات اس کا حصہ ہے۔ مولانا منظور نعمانی کا اسلوب بیحد سادہ اور سلیس تھا۔ حالانکہ ان کا موضوع مذہبی، ملی اور قومی تھا اور ان موضوعات پر لکھنے والے عام طور پر سلیس اسلوب کی پابندی نہیں کرپاتے لیکن مولانا منظور نعمانی اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے کہ ہمارا مخاطب کون ہے اور ظاہر ہے ان کا تخاطب عام انسان اور بالخصوص عام مسلمان سے تھا جس کی اصلاح کی وہ ضرورت محسوس کرتے تھے اس لئے انھوں نے وہ اسلوب اپنایا جس سے وہ ان کے دلوں اوراور ذہنوں تک پہنچ سکیں۔ نظیف الرحمان صاحب نے بڑے سلیقے سے ان کے اسلوب کاتجزیہ کرتے ہوئے ان کی کتابوں سے بحث کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ مولانا نے ابتدا میں مولانا آزادکے اسلوب کو اپنایا لیکن حالات کی تبدیلی کو محسوس کر کے انھوں نے اپنے اسلوب کو تبدیل کیا تاکہ کم پڑھا لکھا طبقہ بھی ان کی تحریروں کو سمجھ سکے۔
نظیف الرحمان صاحب کاایک اہم علمی مضمون ’مرصع نگاری‘ ہے۔ ’مرصع نگاری ‘ ہمارے ادب خاص طور پر کلاسیکی نثر و نظم کی ایک خصوصیت ہے۔ آج ادب کا کارواں اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ اب مرصع نگاری بدیع و بیان اور درس بلاغت کی کتابوں میں مثال کے طور پر ہی نظر آتی ہے۔نظیف الرحمان صاحب نے اس کی تعریف سے لیکر اردو میںملنے والی ان کی مثالوں سے بحث کرتے ہوئے اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور اس اصطلاح کو نظم تک محدود رکھنے کے بجائے یہی نتیجہ نکالا ہے لفظ مرصع، نظم کے علاوہ نثر کیلئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
نظیف الرحمان صاحب مذہبی مسائل کے ساتھ اردو نثر ونظم پر بھی گہری نظررکھتے ہیں اس مجموعہ میں شامل ان کے ادبی مضامین ان کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انھوںنے مثنوی ’زہر عشق‘ پر بھی مضمون لکھا ہے جو ان کے جیسا مزاج رکھنے والے شخص کیلئے ایک مشکل کام تھا ۔انھوں نے تہذیبی لحاظ سے بعض باتوں پر اعتراض کیا ہے لیکن بڑی بات یہ ہے کہ نا اتفاقی کے باوجود انہوں نے اس کی زبان و بیان ، سلاست و سادگی، منظرنگاری اور حسن تاثیر کی پوری طرح داد دی ہے۔ اسی طرح ’مرصع نگاری‘اور ’وجدان‘ جیسے مضامین لکھ کر انھوں نے زبان اور فرہنگ پر اپنے تحقیقی شعور کا احساس دلایا ہے۔
میں انھیں نئے مجموعہ کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ وہ اسی طرح علم و ادب کی خدمت انجام دیتے رہیں۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular