سید احمدسجاد عابدی
یہ سر شام جو گھنگھور گھٹا چھائی ہے
گیسوئے یار کے کھلنے کی خبر لائی ہے
کیا سے کیا ہو گیا اک آن میں موسم کا مزاج
اک قیامت بت طناز کی انگڑائی ہے
جس طرف اٹھتی ہے ہو جاتے ہیں بسمل کتنے
چشمِ محبوب نے قاتل کی ادا پائی ہے
کیا کوئی بہر خرام آیا ہے پھر گلشن میں
غنچہ و گُل کے چٹکنے کی صدا آئی ہے
کیسے ہو گی شب فرقت کی سحر ہوش نہیں
دل میں ہے یاد تری عالم تنہائی ہے
خواہش دید نہ کر تاب نظر پیدا کر
ورنہ تیری یہ تڑپ باعثِ رسوائی ہے
اب غزل میں نہیں سجادؔ رہا حسن و جمال
شہرت و زر کے لئے قافیہ پیمائی ہے
9005484442