9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عارفہ مسعود عنبر
دل کی آواز چلو اس کو سنا دی جائے
بات جو دل میں چھپی ہے وہ بتا دی جائے
تیرے آنے سے مہکتی ہیں ہماری سانسیں
آج خوشبو وہ چلو گھر میں بسا دی جائے
شہر نفرت کا بسایا ہے کسی ظالم نے
ہو سکے تو اسے اب أگ لگا دی جائے
شہریاروں سے کہو دار سجا کر رکھنا
ہے خطا میری تو پھر مجھ کو سزا دی جائے
جس نے آنکھوں کو مری اشک دئے ہیں پیہم
دل یہ کہتا ہے اسے پھر بھی دعا دی جائے
قید خوشبو ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے عنبر
بات اتنی سی یہ پھولوں کو بتا دی جائے