9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
واصف فاروقی
غم کی اب چارہ گری کوئی نہیں چاہتا ہے
شاخِ دل پھر سے ہری کوئی نہیں چاہتا ہے
جو بدل ڈالے سلگتے ہوئے ماحول کا رخ
ایسی آشفتہ سری کوئی نہیں چاہتا ہے
بڑھ گئی شہر میں افواہ پسندی اتنی
اب یہاں خوش خبری کوئی نہیں چاہتا ہے
ہم کو سمجھاتے ہیں مفہوم سب آزادی کا
ہم بھی ہوجائیں بری کوئی نہیں چاہتا ہے
چاہتا کون ہے ہجرت کا نیا تجربہ ہو
مستقل دربدری کوئی نہیں چاہتا ہے
زندگی عشق ہے ٬اورعشق کی سرشاری بھی
یہ ہو نفرت سے بھر ی کوئی نہیں چاہتا ہے
سبز باغوں سے بہلتا ہے میاں دل کس کا
خواب کی سبزپری کوئی نہیں چاہتا ہے
جادو کچھ دیر ہی لگتا ہے بھلا آنکھوں کو
ہرنفس بازی گری کوئی نہیں چاہتا ہے
کون ہے جس کو محبت ہوگھٹن سے واؔصف
زندگی سہمی ڈری کوئی نہیں چاہتا ہے
لکھنؤ۔9415451706