Wednesday, May 1, 2024
spot_img
HomeArticleعلمی و ثقافتی اقدار و عناصر کے امین و پاسبان ،منشی نول...

علمی و ثقافتی اقدار و عناصر کے امین و پاسبان ،منشی نول کشور

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

ذکی نور عظیم ندوی

منشی نول کشور انیسویں صدی کی ان مایہ ناز شخصیتوں میں ہیں جنہوں نے اپنے اسلاف اور معاصرین کی عظیم علمی و ادبی ،تہذیبی و ثقافتی روایات اور علم و دانش کے سرمایہ کی حفاظت اور ان کی توسیع کے لئے گراںقدر خدمات انجام دیئے۔ انہوں نے ہندوستان کی اسلامی ثقافت اورعربی ، فارسی اوراردو کے کلاسیکی ،علمی و ادبی اور مذہبی و اخلاقی ورثہ کو اپنی لگاتار کوششوں ،خلوص و ایثار اور دلچسپی کے ساتھ لاکھوں صفحات پر چھاپ کر گھر گھر پہونچا دیا،علمی و ادبی نشأۃ ثانیہ کے لئے راہیں ہموار کیں، اجداد کے وقیع کارناموں کو آنے والی نسلوں تک منتقل کر کے ہماری تہذیبی تاریخ کو نئی سمت دی، نئی نسل کی مشرقیت اور اس کے صحت مند ورثہ سے کمزور ہوتے ہوئے رشتہ کو مستحکم بنا دیا ۔ مغرب کی یلغار کے بالمقابل اسے ایک مضبوط چٹان کی طرح دوبارہ کھڑا کر دیا ،ہندوستان ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک اور مشرق وسطی کے ممالک کی تہذیبی و ثقافتی سرمایہ کو بھی حیات دوام اورپھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے ، ان کی کاوشیں ایک تجارتی ادارہ سے آگے بڑھ کر ایک فکری تحریک ،اجتماعی نصب العین کی حصولیابی کے لئے اپنی علمی اور ثقافتی روایت کی سطح پر ایک مستقل جدوجہد کا مرکز اور معاشرتی و تمدنی ، تعلیمی و مذہبی تاریخ کی آبیاری اور اس کی پاسبانی کی علامت بن گئیں ۔
منشی نول کشور کا تعلق بھارگو خاندان کے ایک ایسے خوشحال اور ذی علم گھرانے سے تھا جو مغلیہ دور سے ہی اہم دیوانی عہدوں پر فائز چلے آرہے تھے اور اسی وجہ سے ان کے ایک بزرگ کو ’’منشی ‘‘کے خطاب سے نوازا گیا تھا اور اسی وقت سے یہ خطاب ان کے اصحاب خاندان کے ناموں کا لازمی جز بن گیا۔
منشی نول کشور کا آبائی وطن ’’ساسنی ‘‘ضلع علی گڑھ تھا ،لیکن ان کی ولادت ۳/ جنوری ۱۸۳۶ء کو متھرا ضلع کے ایک گائوں ریڑھا (بلدیو)میں ننیہال میں ہوئی ،ابتدائی تعلیم ساسنی میں حاصل کی اور دس برس کی عمر میں ثانوی تعلیم کے لئے آگرہ بھیج دیا گیا ،جہاں پانچ سال تک آگرہ کالج میں انگریزی اور دیگر عصری علوم میں مہارت حاصل کی ۔ دوران تعلیم نثر نگاری کا شوق پیدا ہوا تو اخبارات کے لئے مراسلہ لکھنے لگے اور جلد ہی مضمون نگاری کرنے لگے اور مقامی اخبار ماہنامہ ’’سفیر آگرہ‘‘میں آپ کے مضامین شائع ہونے لگے ،اور پھر آگرہ کالج سے تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے باقاعدہ ’’سفیر آگرہ‘‘سے منسلک ہو گئے ،اور ایک سال بعد ۱۸۵۲ء میں لاہور جا کر اخبار’’ کوہ نور‘‘ سے رشتہ جوڑ لیا ،اور اپنی لگاتار کوششوں، محنت و لگن ،خلوص و ایثار اور علمی و انتظامی صلاحیتوں کے ذریعہ جلد ہی اتنا اعتماد اور اعتبار حاصل کر لیا کہ اخبار کے جملہ امور کے مختار کل بنا دئے گئے ۔۱۸۵۷ء کے اواخر میں بعض نا گزیر اسباب و وجوہ کی بناپر یہ ملازمت ترک کر کے آگرہ آگئے اور کچھ دنوں قیام کے بعد ۱۸۵۸ء میں لکھنؤ چلے آئے ،جہاں تہذیب و تمدن اور علم و فن کے چراغ کی مدھم ہو رہی روشنی کو آگرہ و لاہور میں اخبار سے وابستگی کے درمیان حاصل شدہ تجربہ کی روشنی سے منور کرنے لگے ،اور اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے اسی شہر کا انتخاب کیا ،جہاں مشرقی تہذیب اور علم و فن کے سر سبز و با ثمر باغات کو عہد خزاں نے تہس نہس تو کر دیا تھا لیکن نیست و نابود نہ کر سکی تھی ،لہذا ملبوں میں دبی نیم جاں نعمتوں کو بھانپ اور تلاش کر نول کشور نے اپنی محنت و کاوش بار آور بنانے کا بیڑا اٹھایا اور ۲۳نومبر ۱۸۵۵ء میں ابتدائی طور پر دستی پریس کی شکل میں ایک نشریاتی تجارتی ادارہ قائم کیا۔
منشی نول کشور نے اپنے پریس کو کاروبار اور تجارت کے مقصد سے قائم کیا تھا مگر بعد کے حالات اور اس پریس کے بانی کے طریقہ کار نے اس تصور کو غلط ثابت کر کے یہ حقیقت واضح کر دی کہ وہ اپنے پریس ،اشاعت کتب اور اخبار و رسائل کے ذریعہ ایک طرح سے تہذیبی احیاء کے فریضہ کو انجام دے رہے ہیں اور یہ سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی کہ نول کشور پریس کے بغیر ،تاریخ کے نا جانے کتنے صفحات زمانہ کی آنکھ سے اوجھل رہ گئے ہوتے اور ہمارا کتنا علمی سرمایہ ضائع ہو گیا ہوتا ۔اپنے ماضی کا تحفط جو حال کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے ایک ایسا تہذیبی فریضہ ہے جس کی صحیح طور پر ادائیگی نہ کی جائے تو حال کا تحفظ اور مستقبل کی تعمیر و ترقی خواب خرگوش ثابت ہوتی ہے ۔چنانچہ منشی نول کشور نے پریس کے قیام کے چند دنوں بعد ہی اپنے پریس سے اودھ اخبار کے نام سے نہایت عظیم الشان اخبار جاری کیا جو اپنی معاصر زندگی ، ہم عصر تہذیب اور ادبی صورت حال کا صحیح معنوں میں عکاس و آئینہ دار تھا۔ یہ اخبار ابتداء میں ہفتہ وار تھا مگر امتداد وقت کے ساتھ سہ روزہ اور بعد کے برسوں میں کچھ عرصہ کے لئے روز نامہ کی صورت میں بھی شائع ہوا۔یہ اخبار اقوام عالم کی سیاسی و سماجی خبروں کے ساتھ عدالت، میونسپل کمیٹیوں کی کاروائیوں، ریلوے سے متعلق اشتہار و اطلاعات ،ادبی و ثقافتی انجمنوں ،جلسوں یا تقریبات کی تفصیلی روداد ،شعراء کے کلام اورادبی معرکوں سے متعلق تحریروں غرض کہ انیسویں صدی کے نصف آخر کی ان تمام اہم معلومات پر مشتمل تھا جو کسی معیاری اخبار اور رسالہ کے لئے جامعیت اور معیار کی علامت و ضمانت ہو سکتی تھیں۔
منشی نول کشور کی تعلیم و تربیت میں ان تمام تہذیبی عناصر کا اشتراک تھا جس کے باعث مذہبی و لسانی اور علاقائی وسیع المشربی کو فروغ مل سکتا تھا چنانچہ اپنے مذہبی بنیادی اقدار کے ساتھ دوسرے مذاہب سے رواداری کا برتائو ان کے تاجرانہ مشن کا بھی حصہ بن گیا ۔جہاں ان کو سنسکرت اور ہندی سے لگائو تھا وہیں عربی فارسی اور اردو سے ان کی وابستگی محض کاروباری نہ ہو کر جذباتی اور فطری نوعیت رکھتی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ ان کا پریس دوسری زبانوں میں کتابیں چھاپنے کے باوجود بنیادی طور پر اردو اور فارسی کتب و رسائل کی اشاعت کا سب سے بڑا ہندوستانی وسیلہ بن گیا تھا ۔انہوں نے عصبیت و امتیاز کے بغیر ہر مذہب و ملت کی علمی و ادبی اور مذہبی سرمایہ کی طباعت اور اشاعت کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ان کی مذہبی رواداری اور علم دوستی ہمارے ملک کی امن و سلامتی اور اتحاد و یکجہتی کی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور آج کے سیاسی رہنمائوں اور دانشوروں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے ۔انہوں نے اسلام کی دینی ،ادبی اور تاریخی کتابوں کو بھی اہتمام و احترام کے ساتھ شائع کیا بہت سے علمی نسخوں کو زیور طبع سے آراستہ کیا اور بہت سی نایاب و کم یاب کتابوں کو شائع کر کے عوام و خواص تک پہو نچایا اسلامی کتابوں سے ان کی دلچسپی اس حد تک بڑھ گئی کہ ان کا پریس اسلامیات کی طباعت و اشاعت کا مرکز بن گیا۔لہذا یہ کہنا ہر گز مبالغہ نہ ہو گا ’’کہ انہوں نے اپنے پریس کو جس طرح اسلامیات، عربی و فارسی اور اردو ادبیا ت کے لئے وقف کر دیا تھا اور اس کے ذریعہ نادر ونایاب کتابوں کو جس طرح سب کے لئے دستیاب کر دیا تھا وہ مسلمانوں اور اہل علم کے اوپر ان کا احسان عظیم ہے‘‘۔
منشی نول کشور نے اپنے پریس کے ذریعہ مسلم تہذیب و ثقافت اور اس کے دینی و علمی آثار کو محفوظ کرنے اور اسے ترقی دینے میں دلچسپی لی اور ساتھ ہی ساتھ مسلمان علماء ،حفاظ،مؤرخ،ادباء خطاط اور فن کاروں کی بڑی تعداد کو اپنی پریس سے منسلک کر کے ان کو معاشی تحفظ فراہم کرنے میں مدد پہو نچائی ،اور یہ حقیقت ہے کہ ’’جس قدر کتابیں تمام مطابع ہند میں سالہا سال میں چھپتی ہوں گی اس سے کہیں زیادہ فقط ان کے چھاپہ خانہ میں تیار ہوئیںاوراتنی ضخیم، و مختلف علوم و فنون کی چھپی ہیں کہ اکثر ان میں کی آج تک کسی ملک ایشیاء اورافریقااور یورپ کے چھاپہ خانہ میں بھی نہیں چھپی ہیں ،اور ایسی خوش خط اور صاف اور صحیح کہ جس کے دیکھنے سے آنکھوں کو نور اور دل کو سرور حاصل ہوتا ہے ‘‘۔
گویا نول کشور پریس محض ایک پریس و چھاپا خانہ نہیں بلکہ علمی و تہذیبی اقدار و عناصر کا محافظ خانہ و میوزیم تھا جس کی بدولت مشرقی تہذیب و تمدن کے مظاہر کا محض احیاء نہیں ہوا بلکہ ان تمام مظاہر کو مستقبل سازی کے عمل میں شریک ہونے کا موقع ملا اس اعتبار سے منشی نول کشور اور ان کا پریس تہذیبی نشأۃ ثانیہ کا ایک ایسا غیر معمولی وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے جس نے مختلف علمی اداروں ،اکیڈمیوں اور اصلاحی تحریکات اور نامور دانشوروں اور مصلحین سے کہیں زیادہ کار آمد خدمات انجام دیں اور یہ بات بلا کسی تردد کہی جا سکتی ہے کہ منشی نول کشور اولین شخص تھے جنہوں نے طباعت و اشاعت کے کام کو آفاقی اور عالم گیر بنا دیا اور ہندوستان کی تہذیب و تمدن اور تاریخی اور ثقافتی ورثہ جو گم نامی میں پڑا ہوا تھا، اس کی طباعت و اشاعت کے ذریعہ اس کو نئی زندگی دی اور دوسری طرف علوم و فنون ،تواریخ و ادبیات اور شعر و سخن کی آبیاری کی ۔اور اس طرح انہوں نے طباعت و اشاعت کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا اور گوشہ گوشہ سے انمول جواہر پارہ اور شاہ پارہ حاصل کر کے اور ان کی اشاعت کر کے اہل علم ودانش پراحسان عظیم کیا ۔
آج منشی نول کشور نہیں ہیں لیکن ان کے کارہائے نمایاں ،ان کی خدمات جلیلہ اور ان کی وہ عظیم کاوشیں جو انہوں نے عربی ،اسلامیات اور فارسی علوم کے بقاء و تحفظ اور احیاء و ارتقاء کے لئے انجام دیں وہ ان کو اب بھی ایک معمار وطن، کاروان سالار، دانش ور ،علمی و ادبی اور تہذیبی و ثقافتی اقدار وعناصر کے امین و پاسبان اور محسن و خادم اور طباعت و اشاعت کے روح رواں کی حیثیت سے زندہ جاوید رکھے گی۔
لیکن اس کے ساتھ نہایت ہی افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ آج تعلیم یافتہ طبقوں اور تعلیمی اداروں میں منشی نول کشور کی خدمات ،ان کے ذریعہ دینی علمی اور اسلامی ورثہ کی منتقلی میں ان کا ناقابل فراموش کردار نئی نسل تک پہونچانے کا کوئی مناسب و معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ عظیم کاوشیں جو بڑی بڑی اکیڈمیوں اور سرکاری اداروں سے کہیں زیادہ فائق و برتر تھیں نظروں سے اوجھل ہوتی جا رہی ہیں کیا ہی بہتر ہوتا اگر منشی نول کشور سے منسوب کسی ایسے نئے ادارہ کا قیام عمل میں لایا جائے جس کے ذریعہ ان کے مشن ،عربی و فارسی اور اسلامیات کی تعلیم و ترویج کو مزید فروغ دیا جا سکے ،تا کہ ان کی کاوشوں سے نئی نسل واقف بھی ہو سکے اور قومی یک جہتی اورمذہبی رواداری کے احیاء کے ساتھ ساتھ زبان وادب اور علوم و فنون کو مختلف خانوںمیں بانٹنے کے بجائے اسے مشترکہ قومی سرمایہ سمجھنے کا مزاج عام ہو سکے اور اس کے ذریعہ سماج میں پیار و محبت، امن و آشتی، ہمدردی و غمگساری، اتحاد و یکجہتی اور آپسی بھائی چارہ کا وہ جذبہ پیدا کیا جا سکے جو اس وقت ہمارے ملک کی سب سے بڑی ضرورت اور غالبا منشی نول کشور کی زندگی کا اصل مقصد اور بنیادی پیغام تھا ۔
[email protected]
9450652663

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular