Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldعرفان صدیقی کے امتیازی لہجے اور انفرادی اسلوب کا جائزہ

عرفان صدیقی کے امتیازی لہجے اور انفرادی اسلوب کا جائزہ

ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفقؔ

میرا خیال ہے کہ لسانی روایت سے وابستہ شاعری میں متکلم وسامع کے عمل،الفاظ کی رموز واوقاف سے وابستگی ،حروف اور الفاظ پر زور دینے اورزبان کو کہنے اور آہنگ کے ساتھ ترسیلی سطح پر برتنے کا نام شعری لہجہ ہے جہاں تک عرفانؔ صدیقی کے شعری لہجہ کا تعلق ہے تو ان کے شعری لہجہ کے تعین میں زبان کی نحوی ساخت سے انحراف اور حرف وصوت کی ادائیگی کا انفرادی انداز بہت اہم ہے ہر چند کہ عرفانؔ صدیقی کا متن اپنی معنوی دبازت کی عقدہ کشائی کے لئے استعار اتی اور علامتی طرز کا سہارا لیتا ہے مگر عرفان صدیقی کا شاعرانہ لہجہ بھی معنی آفرینی کے عمل میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔
شاعری میں محاورہ اور روزمرہ کا خیال ،زبان کو روایتی سلاست اور روانی کے ساتھ استعمال کرنا اور رائج لسانی ضابطوں کے غایت احتیاط کے ساتھ برتنا ،زبان میں اپنے مخصوص طرز ادا کے ذریعہ نئے معنی کا امکان پیدا کرنا اور لہجے کے نشیب وفراز سے مفہوم میں کسی نئی جہت کی گنجائش پیدا کرنا عرفانؔ صدیقی کا مخصوص ہنر ہے۔
عرفانؔ صدیقی کے یہاں شعری خیال بھی ایسی حیرت انگیز وحدت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ اس کے لئے نظر ثانی کی بھی گنجائش نہیں رہتی ۔عام طور پر شاعر کو ایک شعر کے مکمل کرنے کے لئے تلازمات اور کئی لوازمات سے کام لینا پڑتا ہے ردیف اور قوافی بعض اوقات ابلاغ میں حائل ہو جاتے ہیںلیکن عرفانؔ صدیقی کا ہر شعر اظہار میں ایسا مکمل اور ایسا فوری (Spontanious) ہے کہ اسے سوائے تخلیقی معجزے کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا، عرفانؔ صدیقی کے خیال اور ہیئت میں ایسی یک جائی اور ہم آہنگی ہے کہ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ان کے یہاں ایسے اشعار کثرت سے پائے جاتے ہیںجو ان کی غیرمعمولی شعری صلاحیتوں کی غمازی کرتے ہیں چند اشعار بطور نمونہ درج کئے جاتے ہیں :
تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد
شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو
لہو رکاب پہ ہے اور شکار زین میں ہے
مگر کمند ابھی دستِ سبکتگین میں ہے
ہر طرف پرسش غم ، پرسش غم ، پرسش غم
چین سے بوجھ بھی ڈھونے نہیں دیتا کوئی
غزلوں میں تو یوں کہنے کا دستور ہے ورنہ
سچ مچ مرا محبوب ستم گر تو نہیں تھا
سبک نہ تھا ترا بازوئے تیغ زن اتنا
ترے ہنر میں میرے بانکپن کا جادو ہے
بزرگ وقت ، کسی شے کو لا زوال بھی کر
تو کیسا شعبدہ گر ہے ، کوئی کمال بھی کر
میں شب اداس بہت تھا تو مہرباں موسم
گلے میں بازوئے مہتاب ڈالنے آیا
پھر کوئی خیمہ کسی اذنِ عُقوبت کا شکار
پھر کوئی نیزہ کسی دولت سر کا وارث
میں نئے موسم میں برگ تازہ بن کر آوں گا
پھر ملیں گے اے ہوائے شاخسار اگلے برس
عجب خلائے سخن ہے سماعتوں کے ادھر
یہ کون بول رہا ہے زبانِ گمشدگاں
ندی سے پھول ، نہ گنج گہر نکلتا ہے
جو طشتِ موج اٹھاتا ہوں ، سر نکلتا ہے
پیاس نے آبِ رواں کو کر دیا موجِ سراب
یہ تماشا دیکھ کر دریا کو حیرانی ہوئی
اپنا ہی چہرہ انہیں مجھ میں دکھائی دے گا
لوگ تصویر سمجھتے ہیں ، میں آئینا ہوں
ناچیز بھی خُوباں سے ملاقات میں گم ہے
مجذوب ذرا سیر مقامات میں گم ہے
بہت ہے ، آئینے جن قیمتوں پہ بک جائیں
یہ پتھروں کا زمانہ ہے شیشہ گر میرے
تیرا یقین سچ ہے ، مری چشمِ اعتبار
سب کچھ فصیلِ شب کے ادھر بھی اسی کا ہے
میں اور سیلِ گریہ خدا ساز بات ہے
قسمت میں تھا خزینۂ گوہر لکھا ہوا
اسی کا خانۂ ویراں اسی کا طاق ابد
میں اِک چراغ ہوں چاہے جہاں جلائے مجھے
مدت سے فقیروں کا یہ رشتہ ہے فلک سے
جس سمت وہ ہوتا ہے ادھر ہم نہیں ہوتے
آئینہ چمکے تو ہوتا ہے سراپا روشن
دل جو روشن ہے ، مری جان تو دنیا روشن
مندرجہ بالا اشعار میں لغوی اور محاوراتی معنوں کے تصادم سے قول محال یا پیراڈوکس (Paradox)کی تخلیق کی جو کیفیت ملتی ہے اس کا سلسلہ عام انسانی تجربات سے لے کر روحانی یا متصوفانہ تصور کائنات تک جاتا ہے وہ تصوف کے گہرے مسائل کی ترجمانی کرنے کے بجائے لفظوں کی مدد سے ایک پر قوت کائنات کی تشکیل کرتے ہیں۔
عرفانؔ صدیقی کے کلام میں روز مرہ ،محاورہ ،استعارہ اور تمثیل کا جو استعمال ملتا ہے وہ عموماً کسی معروض (Object)کی نمائندگی کے بجائے اپنے آپ میں الفاظ کو معروض کی حیثیت سے برتنے پر قائم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ خود بجائے انسانی تجربے یا تصور کائنات کی تخلیق کرتے ہیں یہی سبب ہے کہ وہ مناسبت یا تضاد جس کو لفظوں کی سطح پر روا رکھا گیا ہے وہ کائنات کے متناسب یا متضاد نظام کو نئے سرے سے مرتب کرتا ہے۔ درج شدہ اشعار میں لہجہ کا رول بھی زبان کے رول سے کسی طرح کم نہیں ہے۔لہجے کے فرق سے ہی قائل اور قول کی نوعیت متعین ہوتی ہے اور صحیح قرأت کے بغیر عام فہم الفاظ کے استعمال کے باوجود معنی مبہم رہتے ہیں لیکن عرفان ؔ صدیقی کی خوبی یہ ہے کہ وہ غیر مانوس الفاظ کو بھی اپنے شعری لہجے کی کشش سے مانوس اور عام فہم بنا دیتے ہیں۔
عرفانؔ صدیقی کے یہاں استفہامیہ اور استعجابیہ، قاری کو بادی النظر میں منعطف کر لیتا ہے۔ ان کی متعدد غزلیں ایسی ہیں جن میں زمین کے استعمال اور ردیف کے انتخاب نے پوری پوری غزل کو سوالیہ اور استفہامیہ اشعار کا مجموعہ بنا دیا ہے وہ کبھی لفظوں اور آوازوں کی تکرار سے کبھی کسی لفظ میں تخفیف یا اضافے کے ذریعے ،کبھی کسی مناسبات لفظی کی بنیاد پر اپنے لہجے میں ارتعاشات پیدا کرتے ہیں اور کبھی مکالمے ،تقابل اور موازنے کا طریقہ استعمال کرکے متناسب یا متضاد صورت حال کو ابھارتے ہیں ۔لہجے کا تنوع ان کی شاعری میں بلند آہنگی اور شکوہ ،کبھی ٹھہراؤ، کبھی سرگوشی،کبھی محزونی ،کبھی دھیماپن اور کبھی نرم روی پیدا کر دیتا ہے اس پر مستزادیہ ہے کہ کثرت مضامین کے باوجود ان کا لہجہ کبھی پست اور انفعالیت زدہ نہیں ہوتا ہے۔
عرفانؔ صدیقی کا شعری لہجہ مختلف اور منفرد ہی نہیں بلکہ چونکا دینے والا بھی ہے انھوں نے اپنی شاعری ،اپنی تراکیب ،اپنی لفظیات ،اپنے افکار،اپنے خیالات،اپنے زاویۂ نگاہ ،اپنے ڈکشن اور اپنی بندشوں سے ادبی دنیا کے ساتھ ساتھ آج کے قاری اور سامع کو بھی چونکایا ہے۔عرفانؔ صدیقی کے ہر شعر میں معانی کے جہان اور مفاہیم کی دنیا آباد ہے۔عرفانؔ صدیقی کے یہاں قدم قدم پر منفرد اور چونکا دینے والے لہجے میں ایسے ایسے اشعار ہیں کہ اگر ان میں سے ایک شعر بھی کوئی کہہ لے تو وہ اس کی ادبی زندگی کی ضمانت بن جائے۔ ایسے چونکا دینے والے شعر حیرت انگیز حد تک سادہ بلکہ سہل ممتنع کے انداز میں ہیں ۔ عرفانؔ صدیقی نے حیرت انگیز طور پر (Epigramatic) کم سے کم الفاظ میں جذبات وخیالات کی ایک دنیا بسا کر دکھائی ہے۔ اس نوع کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :
خرابہ تھا مگر ایسا نہیں تھا
عزیزو! میرا گھر ایسا نہیں تھا
مجھے بھی حکم نہیں شہر سے نکلنے کا
مرا حریف بھی میدان میں نہیں آتا
لکھ رہی ہیں سلگتی ہوئی انگلیاں
دھوپ کے شہر میں سائبانوںکے نام
تنہا نہیں میں نواحِ شب میں
آہٹ سنائی دے تو جانوں
تابندہ ہے دلوں میں لہو روشنائی سے
دنیا کے نام نامۂ سرور لکھا ہوا
سر حدیں اچھی کہ سر حد پہ نہ رکنا اچھا
سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا
عرفانؔ صدیقی نے اپنے انوکھے تصورات اور اپنے نرالے طرز ترسیل،اشاریت اور ابہام کی وجہ سے اپنی شناخت قائم کی ہے ۔عرفانؔ صدیقی کی شاعری کہیں کہیں ان کی شخصیت کی طرح پر اسرار نظر آتی ہے ۔اشاریت،ابہام، اور پیچیدہ علامات نے عرفانؔ صدیقی کی بعض غزلوں کو عام قاری کے لئے سر بستہ راز اور چیستاںبنا دیا ہے اردو غزل میں عرفانؔ صدیقی کی حیثیت ایک روایت شکن شاعر کی ہے جس نے موضوع اور ہیئت دونوں سے انحراف کر کے اپنی ایک نئی راہ نکالی ہے۔
عرفانؔ صدیقی کی شاعری کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ وہ کبھی کوئی بات کھل کر نہیں کہتے جو بات بھی کہنی ہوتی ہے اسے رمزیت اور ایمائیت کے لہجے میں کہتے ہیںاور تفہیم شعر اور اخذ معنی قاری کے وجدان اور ذوق شعری کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔وہ تفصیل کے نہیں اجمال کے شاعرہیں۔ ان کے شعروں میں وہ اشاراتی انداز اور کہی ان کہی کی درمیانی کیفیت ہوتی ہے جیسے لفظ سرگوشی کر رہے ہوں۔ وہ خوبصورت استعاروں ،نئی ترکیبوں اور لفظوں کی تکرار سے ایک معنوی فضا تیار کرتے ہیں جسے محسوس کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔آہستہ روی،نرم کلامی،اور مدھم لے ان کی پہچان ہے اس کا سبب یہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر کلاسیکی مزاج رکھتے ہیں۔زندگی کے بدلتے اقدار پر ان کی نظر ہے اور اردو فارسی کی شعری روایت سے بھی انھوں نے اپنا رشتہ قائم کر رکھا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لینا مناسب نہیں ہے کہ وہ روایت پرست ہیں۔بیان کیا جا چکا ہے کہ عرفانؔ صدیقی روایت پرست نہیں ہیں البتہ روایت پر ان کی گہری نظر ہے اور اس کا احترام بھی ان کے یہاں ملتا ہے۔ضرورت کے مطابق اس سے وہ کام بھی لیتے ہیں اور اسی وصف نے ان کے شعروں کو کلاسیکی رچاؤ اور تغزل کی کیفیت عطا کی ہے جو ان کے معاصرین کے یہاں کمیاب ہے۔
عرفانؔ صدیقی کی غزلوں کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے یہاں ارتقاء ہے۔ ان کی شاعری ایک محور پر نہیں گھوم رہی ہے بلکہ نئے امکانات اور نئے زاوئیے تلاش کر رہی ہے ہر لمحہ رواںدواں زندگی سے یہ مطابقت جنیون (Genuine)فنکاروں کے یہاں ہوتی ہے ان کا خلاق ذہن شعر کی نئی جہات کی تلاش میںہمہ وقت سرگرداں رہتا ہے۔ ان کی اسی تلاش کا نتیجہ ہے ان کی شاعری کا وہ حصہ جو بدن کی جمالیات پر مشتمل ہے۔ بدن کی جمالیات پراردو شاعری میں سب سے زیادہ فراقؔ نے شعر کہے ہیں لیکن فراقؔ نے اس قبیل کی شاعری کے رموز کو پوری طرح نہیں سمجھا جس کی وجہ سے وہ سطحی شاعری کے زمرے سے باہر نہیں آسکی اس کے علی الرغم عرفانؔ صدیقی نے بدن کے جمالیات کو بڑے سلیقہ سے پیش کیا ہے۔ جمالیاتی شاعری کے جتنے بھی ممکنہ پہلو ہو سکتے ہیںعرفانؔ صدیقی نے انہیں بخوبی نمایاں کیا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو شاعری کی ایک بہت بڑی کمی کو عرفانؔ صدیقی نے دور کیا ہے اور غزل کے دامن کو جسمانی شاعری سے بھر دیا ہے۔ ہم عرفان صدیقی کی جمالیاتی شاعری کو بغیر کسی تردد کے عالمی ادب کے مقابل رکھ سکتے ہیں۔
عرض کیا جا چکا ہے عرفانؔ صدیقی نے بدن کے لمسیات کو مختلف زاویوں سے پیش کیا ہے اور اس طرح کے کلام کو ایک الگ شکل میں ’’عشق نامہ‘‘کے نام سے مرتب کیا ہے جس پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے فی الوقت ان کے ابتدائی کلام سے چند اشعار بطورنمونہ حاضر ہیں :
کہیں کسی کے بدن سے بدن نہ چھو جائے
اس احتیاط میں خواہش کا ڈھنگ سا کچھ ہے
حیراں ہوں کہ پھر اس نے نہ کی صبر کی تاکید
بازو جو میرا بازوئے دلدار میں آیا
عارض کی دھوپ زلف کے سائے بدن کی آنچ
ہنگامہ بن کے دل میں بپا ہو گئی ہے شام
اس کی آنکھوں میں بھی رقصاں ہے وہی گرمیٔ شوق
غالباً محرمِ اسرارِ بدن وہ بھی ہے
اس کے حلقے میں تگ وتاز کی وسعت ہے بہت
آہوئے شہر مری بانہوں کی زنجیر میں آ
اداس خشک لبوں پر لرز رہا ہوگا
وہ ایک بوسہ جو اب تک مری جبیں پہ نہیں
عجب گداز پرندے بدن میں اڑتے ہیں
اسے گلے سے لگائے ہوئے زمانہ ہوا
مندرجہ بالا اشعار کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ عرفانؔ صدیقی کے یہاں بدن کی لمسیاتی شاعری ابتدا ہی سے موجود تھی مگر آگے چل کراس نے ایک رجحان کی شکل اختیار کر لی اور ’’عشق نامہ‘‘کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ اس ضمن میں عرفانؔ صدیقی کے یہاں وہ ساری لطیف اور تازہ کار تشبیہیں،استعارے اور تراکیب آئی ہیں جو عرفانؔ صدیقی کی شناخت بن گئی ہیں۔ اور قاری وسامع کے دل ودماغ میں روشنی کی لکیر اور آسودگی کے دائرے پیدا کرتی ہوئی گزر جاتی ہیں غرض کہ ان کے یہاں لمسیات کی ایک دنیا آباد ہے جوغنائی اور جمالیاتی کیفیت بیدار کرتی ہے۔
عرفان ؔصدیقی کی شاعری میں جمال وجلال کاا ِئتلاف بڑی ہنر مندی اور فنکارانہ چابک دستی سے ہوا ہے ۔اُن کی شاعری ہمیں تفکر کی نئی جہات سے روشناس کراتی ہے۔ انھوں نے تشبیہات واستعارات اور رموز وعلائم کو اپنی شاعری میں اس قدر حسین پیرائے میں برتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے اسرار فطرت کے اظہار کے لئے ان کی فکری کارگاہ میں اسالیب خود بخود ڈھلتے چلے جاتے ہیں ۔عرفانؔ صدیقی نے رموز تخلیق اوراسرار کائنات کوسمجھا ہے یہی وجہ ہے کہ افلاس ،سامراجی استحصال اور جبرو استبداد کی گرم ہواؤں میں جھلستے ہوئے اور کراہتے ہوئے نیم جاں افراد کیلئے عرفانؔ صدیقی کی شاعری شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتی ہے۔عرفانؔ صدیقی کی انسان دوستی اور ان کے غنائی لہجہ کا ذکر اس مقام پر بے محل نہیں ہوگا۔عرفانؔ صدیقی ظلم کے خلاف احتجاج اور مظلوم کی حمایت کا اعلان ببانگ دہل کرتے ہیںلیکن اس اعلان میں وہ غزل کی حرمت کو مجروح نہیں ہونے دیتے ۔ عرفاؔن صدیقی کی غزل کے دو اہم عناصر ایسے بھی ہیں جن کی طرف توجہ نہایت ضروری ہے۔ایک ان کا عربی داں ہونا اور دوسرے موسیقی سے لگاؤ اور موسیقی سے رمز شناسی، چنانچہ عرفانؔ صدیقی کی غنائیت کوئی معمولی درجہ کی یا محض رومانیت کے وفور کا نتیجہ نہیں ہے ۔اس غنائیت میں ان کا رجزیہ لہجہ برابر قائم رہتا ہے۔عرفانؔ صدیقی کے نقطۂ نظر میں جہاں منطقی انداز اور حیلہ جوئی اور ’’اگرمگر ‘‘کا کوئی گزر نہیں، وہیں وہ دوسروں کے لئے منافقت اورریاکاری کو بھی برداشت نہیں کرتے ان کے اس رویہ کی گونج ان کی شاعری میں جابجا سنائی دیتی ہے :
فقط یہ بڑھتا ہوا دست دوستی ہی نہیں
ہمیں قبول ہے وہ بھی جو آستین میں ہے
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لئے
بچا رہا تھا میں شہ زور دشمنوں سے اسے
مگر وہ شخص مجھی سے لپٹ گیا آخر
آسماں کی زد میں زیر آسماں میں ہی نہیں
تو بھی ہے ظالم نشانے پر یہاں میں ہی نہیں
آسماں اپنی کماں توڑ چکا ، یہ نہ سمجھ
اب کوئی تیر جو چھوٹا تو ہدف تو بھی ہے
شاخ کے بعد زمیں سے بھی جدا ہونا ہے
برگِ افتادہ ابھی رقص ہوا ہونا ہے
میں کس طرح ،مرے قاتل گلے لگاؤں تجھے
یہ تیر ، تیرے مرے درمیاں ، ابھی تک ہے
گُرگ وہاں کوئی سر نہیں کرتا آہو پر بندوق
اس بستی کو جنگل کہنا جنگل کی توہین
اتنی افسردہ نہ ہو کوچۂ قاتل کی ہوا
چھوکے تو دیکھ ابھی رنگ بہت ہے مجھ میں
میں چاہوں مرے دل کا لہو کسی کام آجائے
موسم چاہے چہروں کو گلفام نہ رکھنا
بارش سنگ ہی جب میرا مقدرہے تو پھر
اے خدا ! شاخ ثمردار بنا دے مجھ کو
عرفانؔ صدیقی نے جزاوسزا،آخرت وعافیت اور اعتقادات کی بھول بھلیوں میں کبھی اپنے کو نہیں الجھایا۔ دنیا کا کوئی بھی ازم عظمت انسانی سے بڑا نہیں ہو سکتا کیونکہ دنیا کا ہر ازم ہر مسلک ہر مذہب انسان کا محافظ اور اس کی خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے اس لئے کسی بھی ازم کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ انسانی اقدار کو پامال کرے۔ شاعر ہو یا ادیب،مصور یا مغنی،فلسفی ہو یا سائنسداںکوئی بھی بڑا فنکار کسی ازم کی تابع داری نہیں کرتا وہ صرف انسانی اقدار کا پابند اور تابع دار ہوتا ہے۔عرفانؔصدیقی کی عظمت کی نشانیاں اس امر میں مضمر ہیں کہ وہ اس زمین پر صالح اور نیک انسانوں کا اقتدار چاہتے ہیں۔
عرفانؔ صدیقی اپنے اشعار سے، گفتار وکردار سے، تحریر وتقریر سے کبھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیتے کہ وہ ہم میں سے نہیں ہیں یا وہ ہم سے مختلف ہیں۔وہ اسی زمین کے باشندے ہیں اور ان کے پاؤں ہمیشہ اسی زمین پر ٹکے رہتے ہیں ۔غیر ضروری فلسفہ کے تیرونشتر سے ان کی شاعری مجروح نہیں ہوتی ان کے افکار ما بعد الطبیعاتی کشمکش سے پاک ہیں۔وہ ہمیشہ اسی زمین پر بسنے والوں کی باتیں سوچتے ہیں اور کہتے ہیں امن وشانتی کی باتیں،خوشحالی اور بہتر عقل کی باتیں۔ وہ ایک ایسی دنیا کے متمنی ہیں جہاں ناانصافی نہ ہو جہاں انسان سکھ ،شانتی اور وقار کے ساتھ جی سکے،جہاں استحصال نہ ہو جہاں کی دولت اور پیداوار پر مٹھی بھر خود غرض لوگوں کی اجارہ داری نہ ہو ،جہاں انسان کو انسان کی اطاعت اور حلقہ بگوشی پر مجبور نہ ہونا پڑے۔وہ اپنی شاعر ی کے ذریعہ ایک ایسے سماج کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں جہاں صرف محبت ہی محبت ہو ،دو ستی اوراخوت ہو انسانیت اور ہمدردی ہو، عداوت اور دشمنی سے انہیں سخت نفرت ہے وہ ملک کی یک جہتی اور انسانی رشتے کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔وہ محبوب کے خلوت کدے میں بھی آزادی وخود مختاری کا خیال باقی رکھتے ہیں۔وہ حسن کی پرستش اور اس کی پذیرائی کے ساتھ ساتھ عورت کی آزادی اور سماجی مرتبے کے بھی طرفدار ہیں:
میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جان مراد
خود کو زنجیر محبت سے رہا چاہتی ہے
میرے اندر کا ہرن شیوۂ رَم بھول گیا
کیسے وحشی کو گرفتار کیا ہے اس نے
اس تجزیاتی مطالعہ کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ عرفانؔ صدیقی نے جہاں نئے موضوعات ومسائل کی ترجمانی کی وہیں ایک نیا ڈکشن (Diction)بھی ایجا د کیا اور انھوں نے پرانی علامتوں کو نئے مفاہیم سے روشناس کرایا۔ نئے استعارے اور نئی ترکیبیں وضع کیں بقول پروفیسر محمد حسن:
’’عرفانؔ صدیقی کی غزلوں کی کوملتا اور پاکیزگی اور ۔۔۔۔۔۔۔ان کے شعر وشعار میں ذات اور کائنات کی سرحدپر سفر کی خو اور غزل کو روایتی علامتوں اور آرائشی گل بوٹوں سے آزاد برتنے کا انداز، سخن فہموں کی توجہ چاہتاہے کہ ممکن ہے انہی اسالیب میں کہیں کل کا سورج چھپا ہو ،گذرے ہوئے کل کا نہیں آنے والے کل کا۔‘‘
(غزل کا تخلیقی سفر بحوالہ معاصر اردو غزل ،ص۲۲قمر رئیس ،دہلی)
جب ان ساری باتوں کا احاطہ کیا جائے گا تویہ کہنا پڑے گا کہ عرفانؔ صدیقی نے ہماری شاعری کو ایک نئی زبان دی ہے جو ہرچند کہ ہماری ادبی روایت سے مربوط اور مستفید ہے تا ہم نئی بھی ہے۔
٭٭٭
صدر: شعبہ اردو، حسین آباد گورنمنٹ کالج لکھنؤ

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular