Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldعاشق کا جنازہ...

عاشق کا جنازہ…

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

ارے لائٹ ٹھیک سے لگانا دیکھو زیادہ فاصلہ نہ ہو ورنہ بھدا لگے گا،
ابھی”یاور” لائٹ والے کو سمجھا ہی رہا تھا کہ کشور آنٹی نے آواز دی:- ارے بیٹا یاور یہاں آنا.
یاور سارے کام چھوڑ کر آنٹی کے پاس گیا:- کیا بات ہے آنٹی، فرمائیں.
ارے بیٹا دیکھ ذرا ابھی تک باورچی نہیں آیا ہے مہمان آنا شروع ہوگئے ہیں، تسلیم اور ببلو بازار گیے ہوئے ہیں، گھر میں کوئی سنجیدہ لڑکا نظر نہیں آتا سوائے تیرے…
“سنجیدہ اور یہ”… عنایا زور سے ہنسی، امی کیسی بات کر رہی ہیں آپ، “یہ ہماری کلاس کا سب سے زیادہ مزاحیہ لڑکا ہے. لوگ کہتے ہیں کہ یہ بندہ کبھی زندگی میں سنجیدہ بھی ہوا ہے۔”
عنایا بے خیالی میں یہ بھول گئی کہ وہ جس جوکر نما یاور کو جانتی تھی وہ تو اسی دن مرگیا جس دن اس کی شادی کی تاریخ طے ہوئی تھی،
یاور نے اس کی بات کو نظر انداز کیا اور باورچی کو بلانے چلاگیا، تھوڑی دیر کے بعد وہ باورچی کو ساتھ لیکر آیا اور کشور انٹی کو آواز دی، کہ وہ کام کے بارے میں باورچی کو بتادیں، اور خود اور کاموں میں مصروف ہوگیا۔
تھوڑی دیر بعد ایک بچی بھاگتی ہوئ آئی،
یاور بھائی، آپ کو عیانا اپو بلا رہی ہیں، یہ عنایا کے بڑے بھائی کی بچی تھی۔
یاور فورا عنایا کے پاس گیا،
اس وقت کمرے میں عیانا اور بچوں کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔
عنایا نے برجستہ پوچھا:- تم خوش تو ہو نا یاور؟
طنزیہ لہجہ میں کہا۔
میم صاحب “میں ایک جوکر ہوں، میرے لئے غمگین ہونا گناہ کبیرہ ہے…” جی بتائیے کیسے بلایا ؟
عنایا:- بس ایسے ہی سوچا تم سے کچھ بات کر لی جائے، کچھ پرانی یادیں تازہ کرلی جائیں، پھر وقت ملے نہ ملے۔
یاور:- “میم صاحب یادوں کے پیچھے دوڑنا چھوڑ دو کیونکہ یادیں تکالیف کے سوا کچھ نہیں دیتی ہیں، آپ ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے جارہی ہیں، جو کسی کی یادوں کے سہارے نہیں بسر کی جاسکتی اور ویسے بھی زندگی میں ماضی و مستقبل کوئی معنی نہیں رکھتے. جو حال ہے، وہی سب کچھ ہے… اچھا چلتا ہوں بہت کام ہے۔
باہر نکلتے ہوئے یاور کی آنکھیں نم تھیں.
صبا سے اس حالت میں یاور کا آمنا سامنا ہوگیا وہ سارے حالات سے تقریباً واقف تھی اور مجبور بھی۔
شادی کی تیاریاں اپنے شباب پر تھیں اور آخر کار وہ دن بھی آگیا جب عنایا راؤ صاحب کی شریک حیات بن کر رخصت ہورہی تھی۔
آج یاور کو سید اشرف کی ناول “آخری سواریاں” مکمل طور پر سمجھ میں آئی اور اس نے جمن کی شکل میں عنایا کو اور چھوٹے میاں کی شکل میں خود کو پایا۔ آج اس کو چھوٹے میاں کے کرب کا اندازہ اچھی طرح سے ہوا۔
“انسان کے لیے دو رخصتیاں ناقابل برداشت ہوتی ہیں، ایک بوڑھے باپ کے لئے جوان اولاد کے جنازہ کی رخصتی، دوسری کسی عاشق کو اس کے معشوق کی رخصتی۔”
راؤ صاحب ایک سنجیدہ قسم کے انسان اور با شعور شخصیت کے مالک بھی تھے۔ وہ یاور کے چہرے کا کافی دیر سے بغور مطالعہ کر رہے تھے۔ انہوں نے رخصتی سے قبل یاور کو اکیلے میں بلایا اور پوچھا:- میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، امید کرتا ہوں کہ سچا جواب ملے گا…!
جی فرمائیے:- …
“کیا تم عنایا سے محبت کرتے ہو”؟ ، راؤ صاحب کے اس سوال نے یاور کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا،
اس نے خود سنبھالتے ہویے کہا:- “جناب محبت کیا ہوتی ہے میں نہیں جانتا، لغت میں اس کے کیا معنی ہیں مجھے نہیں معلوم، ہاں! عنایا سے بات کر نا، اس کے ساتھ وقت گزارنا مجھے اچھا لگتا ہے، اب آپ کی لغت میں اس کو محبت کہتے ہیں تو محبت ہی سہی۔
راؤ صاحب:- یہ میرے سوال کا معقول جواب نہیں،
یاور:- “راؤ صاحب، معقولات کے چکر میں پڑینگے تو زندگی آپ کو بہت بیچھے چھوڑ دے گی اور ویسے بھی شاعر اور جوکر کی قسمت میں محبت نہیں ہوتی ہے اور میرا المیہ یہ ہے کہ میں بیک وقت دونوں ہوں،”
یاور کی اس بات پر راؤ صاحب زور سے ہنسے اور عنایا کو اپنی شریک حیات بناکر رخصت ہوگئے،
یاور نےہنستےہویے صبا سے کہا:- کیوں عاشق کا جنازہ شان سے نکلا کہ نہیں…؟

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular