Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldطنز و مزاح کا منفرد شاعر: مسٹر لکھنوی

طنز و مزاح کا منفرد شاعر: مسٹر لکھنوی

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ایچ ایم یٰسین

دنیا کو ثبات نہیں۔ یہاں جو بھی آیا ہے اس کو ملک عدم جانا پڑے گا۔ یہ سلسلہ دراصل ہمارے سب کے باپ حضرت آدم ؑ سے شروع ہوا۔ اماں حو ّا نے جب شیطان کے بہکانے اور کہنے پر شجر ممنوعہ کا پھل کھالیا اور آدم ؑ کو بھی کھلا دیا تو ان دونوں کو باری تعالیٰ نے جنت سے نکلنے کا حکم سنا دیا کہ جائو دنیا میں جائو۔ بس وہ دن تھا کہ یہ آنا جانا شروع ہوگیا۔ اس میں آنے کے لئے تو پھر بھی کچھ شرائط، وقت کی پابندی اور میعاد کا بندھن و بچہ کی شکل کا ہونا ضروری ہے لیکن جانے کیلئے عمر نہ بچپن یا جوانی، نہ بڑھاپے کا ہونا ضروری، ہر عمر کے انسان کو اس دنیا کو اپنے وقت پر چھوڑکر مرجانا ہے۔ جس گھر سے روانگی، اس میں رونا پیٹنا، ماتم و بین، رنج و مایوسی کا ماحول چھا جاتا ہے۔ اس امر سے نہ نبی و اوتار بچے، نہ صوفی سنت نہ دنیادار، مرد ہوں عورت ہوں، بچے، بوڑھے یا پھر جوان سب کو دنیا کی رونقوں سے منھ موڑکر رخصت ہونا ہے۔ موت چیز ہی ایسی ہے جس کا سواگت نہیں ہوتا۔ بددلی یا ناخوشی سے بس اپنایا ہی جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر مرنے والے غم ہی دے کر جاتے ہیں سوائے ان عشاق کے جو اپنے وطن کی خاطر شہید ہوئے ہیں اسی لئے وہ مرتے نہیں شہید کہلاتے ہیں۔ ہمارے یہاں لاکھوں مرنے والے ایسے ہیں جو ’’آج مرے کل دوسرا دن‘‘ لیکن سیکڑوں اشخاص ایسے بھی ہیں جن کی موت کو یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ان کی برسی منائی جاتی ہے اور ہر سال سیکڑوں اشخاص جمع ہوکر ان کو اپنا اپنا خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وہ ہمارے رہنما ہردلعزیز سیاسی لیڈر ہوں یا پھر ہمارے مذہبی اکابر۔ مشہور ادبی شخصیات ہوں ادباء، شعراء، تنقید نگار، ہمارے پیر و مرشد ہوں یا نجات دہندہ یہ ہر ایک کے اپنے عقیدتمندوں، ماننے یا چاہنے والوں اور پسند کرنے والوں کا نجی اور ان کے دل کا معاملہ ہوتا ہے۔
ادبی دنیا کی دو بہت ہی معروف و معتبر شخصیات ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد، جو ہمارے بھی استاد محترم تھے اور ایک دیگر محب جاں ڈاکٹر انور جلال پوری کی برسی یہاں عنقریب بڑے شاندار طریقے سے منائی گئیں اور ان ہی دنوں میں کئی مشہور اکابرین ادب کے انتقال پرملال پر ان کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور اخباروں میں مضامین شائع ہوئے۔ میری یہ خامہ فرسائی اس وقت میری ایک عزیزہ، معاون اور ہم کار کے والد مرحوم اسلم فاروقی المعروف ’’مسٹر لکھنوی‘‘ کی برسی کے موقع پر کی جارہی ہے۔ مسٹر لکھنوی کا انتقال پرملال 04 ستمبر 2017 ء کو خرم نگر میں ہوا تھا۔ مسٹر لکھنوی دراصل بہت عرصے تک صاحب فراش رہے۔ ان کو ایک بار دل کا دورہ پڑا اور ان کی معمول کی زندگی متاثر ہوگئی۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ ان کو ’’شوگر‘‘ کا عارضہ بھی ہوگیا جس سے ان کے اعصاب اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کو بھول جانے کی شکایت ہوگئی۔ شروع شروع میں تو وہ صرف دن، تاریخ بھولنے لگے اور مچھلی محال اپنے غریب خانے میں اپنی بیگم جو ایک نہایت وضعدار کنبہ پرور، ملنسار اور ہمدرد خاتون ہیں، سب کو سمیٹ کر چلتی ہیں ان کی اور اپنی غیرشادی شدہ بیٹی جو ایم اے اُردو اور کمپیوٹر کی ماہر ہے اور ارم گروپ آف کالجز میں کارپرداز ہے ان کی نگرانی میں رہے۔ رفتہ رفتہ وہ پچھلی باتیں جگہ بھولنے لگے، ڈاکٹروںنے تجویز کیا کہ انہیں ’’ڈمنیشیا‘‘ یعنی یادداشت چلے جانے کا مرض لاحق ہوگیا ہے۔ اس کے بعد نیند کے فقدان اور دیگر امراض کی شدت نے ہمہ وقت ان کے پاس ایک آدمی کو مستقل رہنے پر مجبور کردیا۔ جو بیوی کے سر زیادہ رہا چونکہ روزی روٹی علاج معالجہ کیلئے بیٹی کو کام پر جانا ناگزیر ہوگیا۔
اس پریشانی میں اضافی امر یہ ہوا کہ موصوف کی ہمشیرہ جو عرصہ سے علیل تھیں۔ مچھلی محال کے گھر میں آکر ان کے ساتھ فراش ہوگئیں۔ ان کو ظاہرہ کوئی بیماری نہیں تھی لیکن ضعف اور ضعیفی نے ستم ڈھا دیا تھا۔ اس طرح دو ’’انتہائی نگہداشت‘‘ (ICCU) کے مریض گھر میں الگ الگ چارپائیوں پر ’’غیرنرس‘‘ گھریلو عورتوں کی ذمہ داری میں ایک دوسرے سے ہمدردی، پیار، جھگڑے، ’’کٹرپٹر‘‘ کرکے اور ان کے یہ دو تیماردار خوش اسلوبی، خوشی خوشی بغیر حرف شکایت زبان پہ لائے خدمت میں لگے رہتے دعائیں کرتے رہتے اور بالآخر وہ دن آہی گیا جس کا انتظار تھا۔ بہن کا انتقال بھائی کے گھر مچھلی محال میں ہوگیا۔ ان کی میت خرم نگر اپنے گھر میں لے جائی گئی اور بیگم و بیٹی کو بھی معہ مسٹر لکھنوی تجہیز و تکفین کیلئے خرم نگر جانا پڑا۔ اسٹریچر پر کسی طرح مسٹر لکھنوی کو اتارکر خرم نگر لایا گیا۔ کہتے ہیں نا ’مٹی‘ اپنی جگہ خود ڈھونڈ لیتی ہے۔ اگلے ہی دن مسٹر لکھنوی کا بھی وقت موعود آگیا اور اس طرح بہن کا انتقال بھائی کے گھر اور بھائی کا انتقال بہن کے گھر ہوکر یہ سب لواحقین کو پژمردہ، حیراں پریشاں اور غمزدہ چھوڑکر اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔
مسٹر لکھنوی ملک کے نامور مزاحیہ شعراء میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف ملک میں ہی نام کمایا بلکہ کئی غیرملکی مشاعروں کو بھی قہقہہ زار بنایا اور خوب داد لوٹی۔ ان کی طنز و مزاح چبھتی ضرور تھی لیکن اس میں مزاح کا عنصر بہتوں کیلئے اس خارداری کو زیرلب مسکراہٹ کا جامہ بھی پنہا دیتا۔ دوسروں کو ہنسانا بڑا مشکل کام ہے اور طنز و مزاح تو دراصل سماج کیلئے شاعر کا وہ نشتر ہے جس سے انسانی منفی خیالات و فعل کے فاسد مادہ کو باہر نکالنے کا کام کرتا ہے۔ ایسے احساسات کو سوچ کی گہرائی عطا کرکے صحیح ردعمل کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اصلاح کے امکانات روشن کرتا ہے۔ مزاحیہ شاعری کو لوگ ہلکے (Light) طریقہ سے لیتے ہیں۔ اس دنیا میں فی الوقت عشق، رومانس اور سیکس کا دور دورہ ہے اس لئے کلاسیکل شاعری کی وقعت اور پسندیدگی زیادہ ہے۔ لیکن زندگی میں ہنسنا ہنسانا بھی ضروری ہے۔ انسانی قنوطیت اسی سے سر کی جاسکتی ہے۔ اس لئے ہنسنے ہنسانے کے مواقع کی ضرورت اور محبوبیت انسان کیلئے، اس کے غموں اور رنجوں کے ازالہ یا مزاج کی چاشنی کیلئے بے حد ناگزیر ہے۔
غنائیت، موسیقی یا سنگیت کا اثر سنا ہے پھول پودوں تک پڑتا ہے انسان تو اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہی ہیں۔ سنجیدہ یا رومانی کلام سب کو نہیں ہلاتے البتہ طنز و مزاح نثر ہو یا نظم یہ انسان کو زیادہ ہلاتے اور ہنساتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر مشاعرہ گرمانہ رہا ہو تو ناظم مشاعرہ کسی مزاحیہ شاعر کو طلب کرتا ہے جو اپنے طنز و مزاح سوئے ہوئے سامعین کو بھی جگاکر ان سے داد حاصل کرلیتا ہے اور مشاعرہ جم جاتا ہے۔
لکھنؤ میں اس قبیل کے اور بہت سے مشہور شاعر گذرے ہیں آفتاب لکھنوی، ناظر خیامی، ساغر خیامی، ظریف لکھنوی، جھنجھٹ لکھنوی، عادل لکھنوی، ماچس لکھنوی وغیرہ، عطا حسین عطا، شہباز امروہوی وغیرہ مسٹر لکھنوی بھی اسی فکر کے شاعر تھے۔ مسٹر لکھنوی کا اصل نام اسلم فاروقی تھا جن کا آبائی وطن کیولی تحصیل گوشائیں گنج ہے ان کی پیدائش محمد اسماعیل صاحب کے یہاں 02 جنوری 1934 ء کو لکھنؤ میں ہوئی تھی کیونکہ ان کے والد نے نقل مکانی کرلی تھی۔ گیارہ برس کی عمر میں ہی ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا بہ مشکل نویں تک پہونچے کہ مشاعروں کا چسکا لگ گیا۔ بطور سامع وہ لکھنؤ کے ہر مشاعرہ میں شریک ہوئے۔ یہ شوق دیکھ کر شاعری کے مرکزی اسٹینڈ پر پہلے جناب فہمی انصاری، پھر محترم حیات وارثی اور بعدہٗ جناب حفیظ سلمانی نے فتحیابی کیلئے کھڑا کردیا۔ مزاح کا عنصر دل و دماغ میں تھا اس لئے اسی رنگ کو اپنایا اور کچھ عرصہ ساجد صدیقی اور پھر صائم سیدن پوری کی شاگردی اختیار کی اور محترم لئیق صدیقی صاحب کی بزم ’’ادبی تنظیم‘‘ کے ممبر بن گئے۔ شاعری عروج پر آتی گئی اور وہ ملک و بیرون ملک داد بٹورنے لگے۔
ان کی شاعری طنزیہ ضرور ہے لیکن لکھنوی زبان کی چاشنی کے نشتروں سے سسکارتی اور اپنے لہجہ و مزاح کی دھار سے انسانوں کے لبوں پر مسکراہٹ کے ہیولے پیدا کرتی ہے۔ سنجیدگی اگر ہونٹ سکوڑنے کی طرف مائل کرتی ہے تو مزاح ان چپکے ہونٹوں کو پھیلاکر دانتوں کی چمک سے روشناس کراتی ہے ان کا ایک شعری مجموعہ ’’نمک دان‘‘ عوام سے داد لے چکا ہے۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ہم سب کو توفیق کہ ان کی برسی برسہابرس اسی طرح مناتے رہیں۔ آمین یا رب العالمین۔
(9839569545)
٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular