عظمت علی
دورحاضر کی زیادہ تر مشکلات اقتصادی نظام کے درہم برہم ہونے کے سبب ہے ۔دنیا میں اکثر جرائم اقتصادی فقر کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں اور یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ چوری ،راہزنی اور لوٹ مار کے دردناک حادثات اسی مالی پریشانی پر مبنی ہوتے ہیں ۔اسی طرح مال و دولت کی بے جا طمع معاشرہ کی فضا کومسموم کرنے میں سب سے زیادہ مؤثر ہے ۔چونکہ چور اور ڈاکو صرف چند افراد کے ہی مال و دولت لوٹ کر اپنی شخصیت مجروح کرتے ہیں ۔لیکن ثروت مند حضرات کے دولت کانشہ پوری قوم و ملت کو لے ڈوبتا ہے ۔جس طرح صاحب قدرت کے پاس عوام الناس کی خدمت کے زیادہ وسائل موجود ہوتے ہیں اسی طرح خیانت کاری کے بھی کئی خفیہ راستہ موجود ہوتے ہیں ۔درحقیقت ،مال و منال کی ہوس نے ہی تنگدستی اورفقر میں مزید اضافہ کر رکھاہے ۔
آپ ذرا س غربت کاجائزہ لیں تومعلوم ہوگا کہ “دنیامیں ہر چار سکنڈ میں بھوک کی وجہ سے ایک انسان ہلاک ہوتا ہے ۔(پیرس اخبارونٹ مینوٹ 16اکتوبر 2002بروز بدھ )
اقوام متحدہ ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعات کے مطابق روزانہ 24 ہزار افراد بھو ک کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتےہیں ۔ہر برس پانچ کی عمر سے کم ساٹھ لاکھ بچے مرتے ہیں ۔دنیامیں بھوکے افرادکی تعداد 18 ملین بڑھ کر تقریبا 842 ملین تک پہونچ چکی ہے ۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ دھائی میں دنیا کے 45 ممالک سے زیادہ غربت کا شکار ہوچکے ہیں ۔4 ارب یعنی تقریبا 800 ملین افراد کو زندگی گزارنے کے لئے مکمل خوراک میسر نہیں ہے ۔عالمی بینک کے مطابق 3 ارب سے زائد افراد شب و روز ایک ڈالر سے بھی کم پر بھی زندگی بسرکرتے ہیں اور ایک ارب کی روزانہ کی آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے ۔یعنی دنیا کی نصف آبادی غربت سے نچلی سطح پر زندگی گزاررہی ہے ۔(امام مہدی کی آفاقی زندگی صفحہ 89مؤلف :آیۃ ا۔۔۔سید مرتضی مجتہدی سیستانی ،ترجمہ عرفان حیدر طبع اول 2010)
شکستی انسانیت اور دم توڑتی بشریت کب تک چشم انتظار رواکئے رہے گی ؟آخر کب یہ دنیا سکون کی سانس لے گی ؟آخر کب ؟یہ امید ہے ؟کوئی ہے مسیحا؟جی ہاں ! ہے ۔۔۔!
جب حضرت قائم کی حکومت کا قیام ہوگاتوطبیعی اور قدرت کی انگنت نعمات سے بہترین طور پر استفادہ کیاجائے گااور اس کومعاشرہ میں عدل و انصاف کےساتھ تقسیم کیا جائے گایہاں تک کہ سماج سے ناداری اور مفلسی کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔
حضرت امام محمد باقر نے فرمایا:آپ (امام مہدی )لوگوں کو سال بھر میں دوبارہ بخشش اورمہینہ میں دو دفعہ ان کی روزی (ضروریات زندگی )عطافرمائیں گے ۔۔۔۔ان کے درمیان مساوات قائم کریں گے کہ زکوۃ لینے والاکوئی ضرورت مند نہ بچے گا۔(بحارالانوار جلد 52 صفحہ 390 حدیث 212بحوالہ محور کائنات )
رسول اسلا م آپ کی بخشش کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :۔۔۔اور خداوند عالم میری امت کو یوں بے نیاز فرمائے گا کہ ۔۔۔جب منادی ند ا دے گاکہ کون ہے جس کو مال و دولت کی ضرورت ہے ؟
توسوائے ایک شخص کے کوئی قدم نہیں بڑھائے گا۔اس وقت آپ فرمائیں گے کہ خرانچی کے پاس جاؤ ۔۔۔جب وہ دولت کو اپنے ہمراہ لےجائے گاتو احساس شرمندگی ہوگی اور وہ اسے واپس کرنا چاہے گامگر جواب ملے گاکہ ہم دی ہوئی چیز واپس نہیں لیتے !(بحارالانوار جلد 15صفحہ 29 بحوالہ محور کائنات )
اس طرح سے عادلانی تقسیم کا نتیجہ یہ ہوگاکہ کوئی کسی کے سامنے دست دراز نہیں کرے گا ۔ہر قسم کاطبقاتی نظام ختم ہوجائے گا۔ہر انسان خوش وخرم نظر آئے گا۔اسلامی نقطہ نظر سے اس ذات کاآنا یقینی ہے جو ظلم و جور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھردے گا ۔غیراسلامی مذاہب و فرق میں بھی ایک منجی بشریت کاتصور ہے اور وہ اس کا انتظار بھی کررہے ہیں ۔رہی بات یہ کہ وہ کب آئے گا؟اور ہم اس کے انتظارمیں کیاکردار ادا کرسکتے ہیں؟آسان راہ اور جواب اس کی آمد کی دعاہے اور مقدمات فراہم کرنا ہے ۔جس خاندان سے اس ذات کاتعلق ہے انہوں نے ہی بتایا ہے کہ کہ “واکثرو ا الدعا لتعجیل الفرج ۔”اس کی آمد کی دعاکرو کیونکہ اس میں تمہاری گشائش ہے ۔لہذا! آئیے مل کر دعاکریں ۔”اللھم عجل لو لیک الفرج ۔”
Rascov205gmail.com