Saturday, May 11, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldصبر، اخلاق و بیان کا پیکر : شارب ردولوی

صبر، اخلاق و بیان کا پیکر : شارب ردولوی

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

پروفیسر جمال نصرت

اسی طرح اس کو چاہتے ہیں بہت
گر تو بھی ہے تو کیا خاص ہے
سید مسیب عباس ،قلمی نام شارب ردولوی ،جناب حکیم سید حسن عباس اور امیر انسا بی بی کے یہاں ردولوی ضلع بارہ بنکی میں 1935میں پیدا ہوئے ۔یہ زمیندار اور علمی خانوادہ ہے ۔دو سال کی عمر میں ہی والدہ نہ رہیں ۔والد اور شفیق ہمشیرہ نے پر ورش کی ۔انہیں صورتوں میں بچے بے راہروی کی طرف اکثر مائل ہوجاتے ہیں ۔لیکن یہ فرد اپنے گھرانے ،قصبے،صوبہ ہی کیا پوری اردو دنیا کے لئےایک اہم ستون بنا ۔
ردولوی ،اس تاریخی قصبے کو پہچان حضرت مخدوم عبدالحق ،مخدوم صاحب نامی صوفی بزرگ سے ملی جن کے مریدین چشتیہ اور صابریہ سلسلے سے تمام ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہیں اور عرس مبارک پر حاضری دے کر فیض حاصل کرتے ہیں ۔یہاں کے دیگر اہم اشخاص جنہوں نے نام اونچا کیا ان میں چودھری محمد علی، مجاز ردولوی اور شارب ردولوی ہیں ۔
یوں میری ممانی جان بھی بہت فخر سے کہتی تھیں کہ میں ردولوی شریف کی ہوں ۔وہ مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں جس کا مجھے فخر ہے ۔
وہ جو بھی پکاتیں ،ڈونگوں میں نکالتیں کھلاتیں ،یا پھلوں کو تراشتیں سب میںہی سلیقہ نمایاں ہوتا ۔میں کہہ نہیں سکتاکہ کیوں شارب بھائی میں ان کی جھلک مجھکو دکھتی ہے ۔شارب بھائی کا نام عباس ہے ۔یہ ہی نام حضرت امام حسینؑ کے چھوٹے بھائی حضرت عباس کا بھی تھا جنہوں نے اپنے بھائی کی ہر خوشی اور خیال کو پورا کرنے کا کام اپنے نام مقرر کر رکھا تھا ۔وہ صبر ،شکر ،ادب ،خلوص،ایثار کے فرد واحد تھے ۔یہ سب خصوصیات شارب بھائی کی شخصیت میں نمایاں ہیں جو نام عظیم کی برکت ہے ۔
شارب بھائی سے میری ملاقات غالباً 1996 میں عابد سہیل صاحب اور نصرت بھابھی کے گھر پر ان کی بیٹی کی شادی کے دوران ہوئی جب وہ اور نکہت صاحبہ ان کے گھر علی گنج سیکٹر سی میں آئے تھے ۔عابد بھائی کا مکان نمبر 25 تھا اور میرے مکان کا نمبر 15 تھا ۔ہم دونوں کے سامنے ایک بڑا سا پارک تھا وہیں سے شادی بھی ہوئی تھی ۔شارب بھائی اور عابد بھائی ہم زلف بھی ہیں اور اردو زبان کے اہم نامور شخص بھی دونوں ہیں ۔شارب بھائی کے بارے میں میری چھوٹی بہن ڈاکٹر صبیحہ انور نے اور ان کی اہلیہ شمیم نکہت صاحبہ مرحومہ اور شعاع بی بی کے بارے میں پہلے ہی بتا رکھا تھا ۔جیسا سنا تھا اس سے بھی سوا پایا ۔اس کے بعد ایک لمبا وقفہ گزر گیا یوں ان کا ذکر اور اسکول کے دوسری بڑی جگہ چلے جانے اور اس کی ترقی کے بارے میں برابر معلوم ہوتا رہا ۔ہمیشہ یہ خبرملتی کی اس اسکول کے سب بچے فرسٹ آئے ۔وقار رضوی صاحب کے اخبار اودھ نامہ کے صدارتی بورڈ میں شارب بھائی ہیں اور اسی اخبار میں میرے سائنسی مضامین بھی شائع ہوتے ،اردو رائٹرس فورم ،فروغ اردو کے سلسلے سے ،شہر لکھنو کی ادبی سماجی اور اصلاحی مجلسوں میں بھی برابر ملاقات رہتی اس کے علاوہ غالب اور آم ،کیفی اکادمی ،اور مشاعروں میں بھی ہم دونوں ہی شریک ہوتے جبکہ اور ڈائس پر اور میں عام لوگوں میں۔ یوں کئی بار میں بھی ڈائس پر ان کے ساتھ رہا بھی ہوں ۔ان کی مصروفیات ادبی کام شعاع کالج اور یہ سب جلسوں میں جانا بھی تھا اور میں انجینرس کے ریفریشر کورس لیتا اور بہت دنوں میں کوئی مضمون لکھ پاتا ۔ہم میں مشترک اردو محبت ہے ۔مجھے شعاع کالج میں آنے کے لئے کہا اور اپنی گاڑی بھیج کر میرا وقار بڑھایا ۔میں نے بھی اسکول کی کھلی زمین میں’’ رین واٹر ہاروسٹنگ ‘‘کا ایک نقشہ بنا کر دیا ۔وہ بہت خوش ہوئے اور میرا شکریہ ادا کرنے لگے ۔
وقار صاحب نے شیعہ اور سنی حضرات میں جو لکھنو میں اکثر محرم یا دیگر موقعوں پر کبھی راستوں پر کبھی لاوڈ اسپیکر کے رخ پر کبھی نعروں پر من مٹاؤ ہوجاتا ہے کو دور کرنے کے لئے ایک مہم چلائی کہ کچھ ایسا نہ ہو جس سے عظیم شہر کے وقار کو کوئی ٹھیس پہونچے ۔اس کا پہلا جلسہ اما ناتھ بلی ہال قیصر باغ میں ہورہا تھا ۔مرحوم انور جلالپوری ،شارب بھائی اور میں پاس ہی پاس تھے ۔انور صاحب نے کہا کہ جلالپور میں محرم ماہ کے دوران یہ معلوم ہی نہیں ہونے پاتاکہ کون شیعہ ہے اور کون سنی ۔شارب بھائی نے ردولی کے لوگوں کے بارے میں کہا کہ دونوں کی کوشش ہوتی کہ ان کی مجلس اور دیگر احکام سب سے بہتر ہوں ۔میں نے بھی بتایا کہ میرے گھر میں تو امام باڑہ ہے وہاں کے شربت اور مجلسوں کو سننے لوگ دوردورسے آتے تھے ۔معلوم نہیں لکھنو میں یہ لعنت کیوں ہے ۔اسے یقیناً دور ہونا چاہیئے ۔
2016میں میرے والد مرحوم وجاہت علی سندیلوی پر ایک خاص نمبر رسالہ نیادور والے نکال رہے تھے ۔اسی سال ان کی صد سالہ یوم پیدائش تھی ۔اس کے مدیر ڈاکٹر وضاہت حسین چاہتے تھے کہ ان کی زندگی کے ہر شعبے کے تعلق سے سب سے اہم مصنف سے مضمون لیئے جائیں اور شارب بھائی سے مضمون لینے کی ذمہ داری مجھکو ہی دے دی ۔یہ وہی وقت تھا جب بھابھی صاحبہ علیل تھیں اور شارب بھائی بہت فکر مند تھے ۔اس سب کے بعد بھی میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے فرمائش کردی ۔جو ابا کہنے لگے کہ میں لکھ تو دونگا لیکن کچھ فکر وں کی وجہ سے دیر بھی ہو سکتی ہے ۔خیر آپ ان کی کچھ کتابیں مجھے مدد کے لئے بھجوادیں اس کے کچھ ہی دنوں بعد شمیم بھابھی کی علالت اور بھی بڑھ گئی ۔مدیر صاحب مضمون کا تقاضہ کر رہے تھے جس پر میں نے ان سے معافی مانگ لی کہ اب میری ہمت نہیں ہے ۔ان سب فکر وں کے باوجود شارب بھائی نے رات رات پڑھ کر ایک طویل مضمون ،وجاہت علی سندیلوی اور تفہیم غالب ،بروقت لکھ کر ہم سب کو بہت احسان مند بنا دیا ۔اس کے کچھ ہی دنوں بعد بھابھی صاحبہ کی رحلت بھی ہوگئی ۔ایسے ہیں مرد مومن شارب بھائی کہ ان صبر آزما موقوں پر بھی وعدہ پورا کیا ۔میرے تو یہ سوچ کر ہی آنسو نکل آتے ہیں ۔میری تو آج تک بھی ہمت نہیں پڑی کہ ان سے شکریہ کا لفظ کہتا کیونکہ یہ لفظ تو بہت چھوٹا ہے اور صحیح لفظ مجھےآتا نہیں ۔یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ جو کتابیں اس مضمون کے سلسلے میں میں نے ان کو دی تھیں وہ انہوں نے رجسٹرڈ ڈاک سے ٹکٹ لگوا کر مجھے بھیجیں ۔جب میں نے ملنے کی رسید فون پر دی اور کہا کہ آپ فرمادیتے تو میں خود ہی لے لیتا تو کہا کہ مجھے اسی میں آسانی تھی ڈاک سے بھیجنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی ۔اس پیارے انسان نے محض دوسال کی عمر میں ایک بچے کی سب سے قیمتی چیز کھودی یعنی والدہ جب زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنے کا وقت تھا اس وقت اپنی دلاری شادی شدہ بیٹی اور پھر رٹائرمینٹ کے بعد اپنی شریک حیات ۔اللہ نے بہت امتحان کیئے لیکن یہ مومن اپنی ذمہ داریاں اور زیادہ لگن اور محنت سے پوری کر رہا ہے ،آج بھی گھر سے کالج صبح صبح خود گاڑی چلاکر پہنچ جاتا ہے ، جہاں اب ایک ہزار سے زیادہ بچیاں ہیں اور سب اونچے نمبر لاکر اپنے گھر اور خاندان کا نام بلند کرتی ہیں ،شعاع کالج میں کئی سالوں سے کوئی بچہ فیل ہوا ہی نہیں زیادہ تر لڑکیاں فرسٹ ڈویژن آتی ہیں ،
شارب بھائی قریب ڈیڑھ درجن کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ولی دکنی، مجاز ردولی ،جگر مراد آبادی ،مرثیہ تنقید اور دیگر ہیں ۔ہر ایک کتاب اپنے مضمون پر حرف آخر ہے ۔یوں میری رائے اگر کچھ ہو سکتی ہے اور وقت سن 2018جب بہت سے لوگ ہم سے جدا ہو چکے ہیں تو شارب ردولوی بلا شبہ سب سے بڑے اور اعلیٰ تنقید نگار ہیںاور ان کے آس پاس بھی کوئی دوسرا نہیں ایک اور تنقید نگار صاحب جن کا نام میںرقم نہیں کرنا چاہتا اور وہ گزشتہ سال لکھنو آئے اور اسی موضوع پر کہنے لگے کہ فکشن کے معنی ہیں جھوٹ یا دل سے بنائی گئی کہانی ۔جب میں نے ان کے اس خیال کو رد کرتے ہوئے شارب بھائی سے عرض کیا کہ میں نے تو یہ ہی سنا اور سمجھا ہے کہ وہ کہانی جو سچ ہوتی ہے وہی سب سے زیادہ پر اثر ہوتی ہے ۔اس پر وہ کچھ مسکرا کر بولے کہ آپکی پر اثر والی بات تو صحیح ہے لیکن رد کرنے والی بات پر پھر بات ہوگی۔ ایک بار لکھنو یونیورسٹی میں ان کا لیکچر تھا ۔کسی شعر کے معنی سمجھا رہے تھے اور شعر میں جو لفظ آیا تھا اس کی تعریف کر رہے تھے اور یہ کہ موقع کے لحاظ سے لفظ کا استعمال ہونا چائیے کیونکہ ان کے اثر میں رنگوں کے شیڈس shades کی طرح لطف نہاں ہوتا ہے ۔اسی کو سلیقہ بھی کہتے ہیں ۔اور بھی اچھا سمجھانے کے لئے کئی مثالیں دیں ِ،برا ہوا ،افسوس ہوا ،دکھ ہوا ،غم ،الم ،صانحہ یا صدمہ ہوا یہ سب ہی درست ہو سکتے ہیں لیکن موقعوں کے حساب سے۔اردو کی اس دور میں بھی اسی طرح لگے ہوئے ہیں ۔میں نے بار ہا دیکھا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہوتے ۔شارب بھائی عموماً صدر مجلس یا مہمان خصوصی ہوتےاور جب ان کے کہنے کا نمبر آتا تو وہ مجلس کے سبھی اہم لوگوں کو نام سے یاد کرتے شکریہ کہتے اور بڑی سادگی سے یہ دہراتے کہ سب اہم پہلوؤں پر تو لوگ کہہ چکے ہیں ،لیکن نہیں ان کے پاس موضوع کے سلسلے سے سب سے اہم بات باقی رہتی اور اس کو وہ اپنے پر خلوص انداز سے بیان فرماتے ۔کبھی کسی کتاب کی رسم اجراپر بولنا ہوتا تو اسے پڑھ کر اور صرف اسی کتاب پر رائے دیتے ۔غصہ کبھی نہیں آتا لیکن خوشی اور فکر کے احساسات چہرے سے نمایاں ہوجاتے ۔مجھے دکھ ہے کہ زمانے سے انہیں وہ نہیں ملا جس کے وہ حقدار ہیں ۔یوں ان کو غالب اوارڈ میر اوارڈ ،اردو کی سبھی اکادمیوں کے بڑے اوارڈ ،یونیورسیٹوں کے اوارڈ و اعزاز، یش بھارتی اوارڈ اور بھی نہ جانے کتنے اعزاز مل چکے ہیں ۔ان کے وطن والے ان کے نام سے سڑک کا نام رکھ رہے ہیں ۔جرمنی سے اردو دوست کے نام سے اعزاز مل رہا ہے لیکن یہ سب سچ ہیں اس اعزاز کے سامنے جو ان کو دسمبر 2018کی پہلی سے تیسری تاریخ کے درمیان میں ان کے شاگردوں نے دیا جو حیدر آباد ،جموں وکشمیر ،کولکاتہ ،بہار ،ہی کیا پورے ہندوستان اور جرمنی تک سے آکر ایک بہت بڑا جشن کیا اور اسے ہرسال اسی طرح ملک کے الگ الگ شہروں میں منانے کا وعدہ بھی کیا ۔یہ تین دنوں کا جشن اپنے آپ میں با لکل منفرد تھا ایساپہلے بھی کسی استاد کے لئے کسی بھی زبان والے کا کبھی نہیں ہوا تھا ۔قریب 60مقررین نے اپنے مقالے پڑھے اور اپنی محبت اور خلوص کو پیش کیا ۔یہ سب کسی بھی ساہتیہ اکادمی گیان پیٹھ یا پدم اعزازات سے بڑھ کر ہیں ۔
شعاع کالج و متعلق ادارے ہوں ہمیشہ شادماں
سر بلند ہو تو شارب زمانے میں مثال کہکشاں
کاوشیں تری رہیں یو ں کامیاب وکامراں
تیرے گلشن کابنے ہر پھول گل سے گلستاں
٭٭٭
پرانہ حیدرآباد لکھنؤ۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular