Saturday, May 11, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldشاہ است حسینؑ بادشاہ است حسینؑ

شاہ است حسینؑ بادشاہ است حسینؑ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

نجم الدین احمد فاروقی

شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سرداد ، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
یہ رباعی، حضرت امام حسین کی شان عظمت میں، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی کہی ہوی ہے، مکمل تفسیر کا احاتہ کرنا یہاں ممکن نہیں، قارئین کی سہولت کی خاطر ذیل میں مختصر ترین مفہوم دیا جا رہا ہے:
نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے اسلام کو ملوکیت سے خطرہ تھا۔ اس اسلام کو حسین نے پناہ دی۔ یہ بیشتر لوگوں کا دین ہے۔ ان کے لیے حسین دین پناہ ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھیں ارکان اسلام، فقہ اور شریعت کا کچھ علم نہیں۔ وہ فقط حسین حسین کرتے ہیں۔ ان کا دین حسین ہے۔دین است حسین، دین پناہ است حسین!
سر دے دیا یعنی قتل ہونا قبول کرلیا لیکن ہاتھ نہیں دیا یعنی یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔سر داد، نداد دست درِ دست یزیدنبی کریم ﷺ نے سب کی زبان سے اللہ کا اقرار کروالیا تھا لیکن کچھ منافق ایسے تھے جن کی آستینوں میں بُت موجود رہے۔ ان کے دل لا الہ کہنے کو تیار نہیں تھے۔ حسین نے ایک زمینی خدا کا انکار کرکے لا الہ کی بنیاد مضبوط کی۔حقا کہ بنائے لا الہ است حسین”۔
حضرت علی کے امام حسن اور امام حسین کو، نصائح: “الله سے ڈرتے رہنا، دنیا کو ہرگز تلاش نہ کرنا خواہ دنیا تم سے بغاوت کیوں نہ کرے، جو شہ تم سے ہٹا دی جائے اس پر رونا نہیں ہمیشہ حق بات کہنا، یتیموں پر رحم کرنا، پریشان حال کی مدد کرنا، آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا، ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی رہنا، کتاب الله کے احکام پر عمل کرنا، الله کے دین میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ گھبرانا”، یہ ہے حسین کی پرورش۔
ایک نظر یزید کی پرورش پر بھی ڈالیں:
یزید بن معاویہ نے عیش و تنعم کے گہوارے میں پرورش پائ، اس کی زندگی شاہ زادوں اور امیرزادوں کی تھی سیر و شکار کا بڑا شائق”( تاریخ اسلام، حصہ دوم، صفحہ:43، شاہ معین اُلدین احمد ندوی)۔ شام میں تخت نشین ہوتے ہی یزید بن معاویہ نے ولید بن عتبہ کو خط لکھا، یعنی واقعہ کربلا ہونے سے کافی پہلے، “حضرت حسین بن علی ، عبدالله بن عمر اور عبدالله ابن زبیر سے بیعت لینے میں سختی کرو اور جب تک بیعت نہ کر لیں انہیں زرا مہلت نہ دینا” ( تاریخ طبری، جلد 5، صفحہ:153)۔
متضاد شخصیتوں کی عکاسی میں مندرجہ ذیل شعر ملاحظہ ہو:
ایک مجسم مادیت، ایک مکمل دین حق
ایک مسلماں تھا یزید، ایک مسلماں ہیں حسین
حاکم شام کو کسی بھی قیمت پر بیعت لینا تھی جو امام حسین قبول نہیں کر سکتے تھے،حالات ایسے پیدہ کر دئے گئے کہ، امام حسین کو مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہونا پڑا سفر، کربلا پہنچ کر تمام ہوا، جہاں یزید کی بدنام زمانہ فوج نے، جگر گوشہ رسول حسین اہل خانہ اور ان کے ساتھیوں، جن کا قافلہ 72 افراد پر مشتمل تھا، محاصرہ کرکے پہلی محرم تا 10 محرم، ہر طرح کے بد ترین مظالم کئے، یہاں تک کہ 10 محرم کو امام حسین کو بھی شہید کر دیا گیا۔ظاہر ہے، کربلا میں جو کچھ پیش آیا اسے جنگ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ جنگ کے کچھ اصول و ظوابط ہوتے ہیں جو تہ و بالا کر دئے گئے تھے۔ ظلم اپنی آخری حد میں داخل ہوا، نواسہ رسول سیداشھدا حضرت امام حسین کو شہید کرکے سر تن سے جدا کر دیا گیا:
“قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے کربلا کے بعد”
بیعت قبول کرنے کی دیر، کہ امام حسین خود کو اپنے کنبہ اور ساتھیوں کو ہر طرح کے مظالم اور ہلاکت سے محفوظ رکھ سکتے تھے، بلکہ شائد انعام و اکرام سے نوازے بھی جاتے۔ کوئ دوسرا منسب حاصل کرکے، باقی زندگی آرام سے گزار سکتے تھے، مگر وہاں مشیعت الہٰی کے آگے سر تسلیم خم تھا، نہ کہ شکست اور جان بچانے کی غرظ سے یزید اور اس فوج کشی کے آگے، اسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیکر۔
“آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا کے بیٹے اور دنیا میں آپ کا پھولوں کا گلدستہ ہیں، نبی کریم ، حضرات حسنین کا اکرام فرماتے ان سے محبت اور شفقت کا اظہار کرتے” (تاریخ ابن کثیر)
امام احمد نے مختلف راویوں کے حوالئے بیان کیا ہے، “بارش کے فرشتے نے نبی کریم کے پاس آنے کی اجازت چاہی،
آپ نے حضرت ام سلمہ سے فرمایا کہ دروازے کی نگرانی کرنا کوئ ہمارے پاس نہ اے، حسین کود کر آئے، نبی کریم کے کندھے پر چڑھ گئے، فرشتے نے کہا کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا ہاں، اس نے کہا آپ کی امت اسے قتل کرے گی ، پھر اس نے ہاتھ مار کر سرخ مٹی دکھائ ، جہاں آپ کو قتل کیا جائگا” (البدایہ والنہایہ، تاریخ ابن کثیر، جلد ہشتم، صفحہ: 1102)۔
اسی سلسلے کی اور روایت ، “حضرت علی فرماتے ہیں ایک دن میں رسول اللہ کے پاس گیا آپ کی آنکھیں اشکبار دیکھیں، آپ نے فرمایا ابھی جبریل میرے پاس سے اٹھے ہیں انہوں نے مجھے بتایا، حسین، فرات کے کنارے پر قتل ہوں گے”۔
دوسرا واقعہ امام احمد، مختلف راویوں کے حوالے سے فرماتے ہیں “حضرت عباس نیند سے بیدار ہوے فرمایا میں نے رسول اللہ کو دیکھا آپ کے پاس خون کی ایک شیشی ہے، آپ نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے میرے بعد میری امت نے کیا، کیا ہے، انہوں نے حسین کو قتل کر دیا یہ خون، حسین اور اس کے اصحاب کا خون ہے،
“میں ان دونوں خونوں کو الله کے حضور پیش کروں گا”۔
ایک آخری روایت اس کے بعد بات اختتام پزیر ہوتی ہے: ‘امام احمد مختلف راویوں کے حوالے سے فرماتے ہیں: عبداللہ بن مہدی نے ہم سے بیان کیا کہ ابن مسلم نے بحوالہ عمار ہم سے بیان کیا کہ میں نے ام سلمہ سے سنا، آپ نے فرمایا میں نے جنات کو حسین پر روتے سنا نیز میں نے جنات کو حسین پر نوحہ کرتے سنا، اسے حسین بن ادریس عن ہاشم بن ہاشم عن ام سلمہ روایت کیا ہے: جنات کا نوحہ ” اے حسین کو جہالت سے قتل کرنے والو تمہیں عزاب و سزا کی بشارت ہو تمام اہل آسمان نبی، مرسل اور لوگ تمہارے خلاف بد دعا کر رہے ہیں، تم پر حضرت داؤد، حضرت موسیٰ اور صاحب انجیل علیہم السلام کی زبان سے لعنت کی گئ ہے” (البدایہ والنہایہ، تاریخ ابن کثیر، جلد ہشتم، صفحہ: 1106)۔
مستند تاریخی حوالے، گو کہ اختصار سے دے گئے ہیں، امام حسین کی شخصیت آپکی صفات عظمت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں اسی کے ساتھ مخالفین کے ظلم اور زیادتی کا بھی مختصر آئینہ دار ہے، ۱۰ محرم انتہائ شرمناک انجام تک پہونچا اور جو ان پر تاقیامت قاتلین حسین اور اصحاب حسین کے خون ناحق کی رسوائ کا سبب رہےگا۔
ہمارے آپ کے لئے، آنے والی نسلوں کے لئے کربلا کا سیدھا سبق: صبر و تحمل، ایثار و قربانی، حق کے لئےظالم کے خلاف سینہ سپر، مظلوم کے ساتھ حلم، دنیاوی بادشاہت کا انکار اور انسانی رشتوں میں، محبت اخلاق و احترام سے، اتحادد پیدہ کرنے کی ضرورت۔ الله ہم کو آپ کو ہم سب کو حق کے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭٭٭9956287442

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular