Friday, May 10, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldشارب ردولوی کی ادبی خدمات کا محاکمہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور...

شارب ردولوی کی ادبی خدمات کا محاکمہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے:ڈاکٹر عمار رضوی

دوسروں کے لئے کچھ کر جانا ہی ہماری بقا کا ضامن ہے:پروفیسر شارب ردولووی

دنیائے ادب میں سہ روزہ جشن شارب بے مثال تقریب :ڈاکٹر انیس انصاری اریخ سازسہ روزہ’ جشن شارب‘ تمامتر کامیابیوں کے ساتھ اختتام پذیر

ڈاکٹر ہارون رشید

لکھنؤ۔۴؍دسمبر۔پروفیسر شارب ردولوی نے ادب کی جو خدمات انجام دی ہیں ان کا محاکمہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔تین دن تک شاگردان شارب،عاشقان شارب اور محبان شعر وادب نے جو مقالات یہاں پیش کئے ہیں انھیں کتابی صورت میں آنا چاہئے نہ صرف اردو میں بلکہ اس کا ہندی ایڈیشن بھی شائع کیا جانا چاہئے تاکہ ہندی والے بھی اس سے روشناس ہو سکیں۔ن خیالات کا اظہار پروفیسر شارب ردولوی کی خدمات کے اعتراف میںہونے والے سہ روزہ ’جشن شارب‘‘کے وداعی سیشن میں بحیثیت صدر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عمار رضوی نے کیا۔انھوں نے کہا کہ بے شک کسی کی زندگی میں اتنے شاندار پروگرام کا انعقاد ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر انیس انصاری نے کہا کہ دنیائے ادب میں سہ روزہ جشن شارب ایک بے مثال تقریب ہے۔ہم اپنے آپ کوخوش نصیب پاتے ہیں کہ ہم اس دور میں ہیں جہاں پروفیسر شارب ردولوی اپنی تمامتر توانائیوں کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ان کے اعزاز میں ہونے والی یہ تقریب بے مثال ہے۔پروفیسر ماہ رخ مرزا نے شارب ردولوی کو زندگی کے موضوع پر ایک مکمل کتاب سے تعبیر کیا۔اتر پردیش اردو اکادمی کی چیئرپرسن پروفسیر آصفہ زمانی نے کہا کہ پروفیسر شارب ردولوی سائنٹفک ناقدین میں سر فہرست ہیں۔پروفیسر مظفر علی شہ میری نے کہا کہ اس جم غفیر کو دیکھ کر یقین ہو گیا کہ استاد کو پہلے استاد ہونا چاہئے ۔بعد میں صدرشعبہ ،ڈین فیکلٹی اور وی سی۔پروفیسرشارب ردولوی اس کی ز ندہ مثال ہیں۔پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے تاثرات میںا پنے شاگردوں،پروگرام میں معاون تنظیموں اور تین روز تک پروگرام میں شرکت کرنے والے اپنے تمام محبین کے تئیںاظہارتشکر کرتے ہوئے کہا کہ دوسروں کے لئے کچھ کرجانا ہی ہماری بقا کا ضامن ہے۔انھوں نے میر کے اس شعر سے اپنا پیغام دیا کہ:۔
بارے دنیا میں رہو غمزدہ، یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

انھوں نے اپنے والد کی وہ نصیحت بھی یاد کی کہ پڑیا کا کاغذ بھی پھینکنے سے پہلے اسے پڑھ لیا کرو بہت سی بیکار چیزوں میں بھی کارآمد چیزیں مل جاتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ کسی بھی کتاب کی رونمائی کے جلسہ میں میں نے کبھی شخصیت پر گفتگو نہیں کی بلکہ اس کتاب پر گفتگو کی ۔ظاہر ہے کہ کتاب پڑھے بغیرگفتگو نہیں ہو سکتی۔جب تک آپ اچھے ریڈر نہیں ہیں آپ اچھے ناقد نہیں ہو سکتے۔انھوں نے اپنے شاگردوں اور طلبہ سے خاص طور سے کہاکہ آپ مجھ سے آگے نہیں بڑھ سکتے تو کم از کم اپنے قد کو میرے برابر ضرور لائیے۔
قابل ذکر ہے کہ شہر نگاراں میں ہونے والے بے مثال’’ جشن شارب‘‘ کے تیسرے دن آؒ ل انڈیا کیفی اعظمی میں پہلا سیشن معروف صحافی احمد ابراہیم علوی کی صدارت اور ڈاکٹر خان فاروق کی نظامت میںڈاکٹر مجاہدالاسلام کے ‘‘اردو تنقید میں شارب ردولوی کے اختصاصات‘‘مقالہ سے شروع ہوا۔ڈاکٹر مجاہد نے شارب ردولوی کی تنقید نگاری کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترقی پسند ادب عموما سپاٹ اور سیدھا ہوتا ہے اور شارب ردولوی معترض ہونے کے بجائے اس میں بھی جمالیاتی پہلو تلاش کر لیتے ہیں ۔ڈاکٹر عشرت ناہید نے ’’جگر اور ناقد اول شارب ردولوی‘‘کے عنوان سے اپنے مقالہ میںکہا کہ جگر مرادآبادی پر شارب ردولوی کی کتاب پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ جگر کی شاعرانہ عظمت اس سے کچھ زیادہ کا تقاضا کرتی ہے لیکن بعد میں جگر پر دوسری تنقیدوں کو دیکھنے کے بعد یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ فاضل مصنف کوزے میں سمندر سمیٹنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ ڈاکٹر شبنم رضوی نے ’اسرارالحق مجاز پر ایک نظر ‘‘کے حوالے سے شارب ردولوی کی تنقید نگاری کا محاکمہ کرنے کی سعی کی۔ڈاکٹر ریحان حسن نے ’’مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر‘‘اردو مرثیہ کی تنقید میں ایک اہم اضافہ قرار دیا۔پروفیسر رضی الرحمن نے پروفیسر شارب ردولوی کو ہند اسلامی تہذیب اور اردو تہذیب کا نمائندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترقی پسندی کا زوال نہیں ہوا بلکہ ترقی پسند ی میں جو اضافی رنگ شامل ہو گئے تھے ان کا زوال ضرور ہو گیا ہے۔ترقی پسندی اپنی بنیادوں کے ساتھ شارب ردولوی کی شکل میں زندہ ہے۔ڈاکٹر مالویکا ہری اوم نے اپنا خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شارب ردولوی کی غزلوں کو خوبصورت آواز اور انداز میں پیش کر سامعین کی بھر پور داد و تحسین وصول کی۔عبدالسمیع نے اپنے استاد کو ایک انمول ہیرا بتا کر خراج تحسین پیش کیااور کہا کہ شعاع فاطمہ گرلس انٹر کالج کی شاخیں شہرکے دوسرے علاقوں میں بھی قائم کی جانا چاہئیں۔احمد ابراہیم علوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ لکھنؤ نے یگانہ کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اس کی تلافی ممکن نہیں ہے اور دنیائے ادب اس کے لئے لکھنؤ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔لیکن لکھنؤ میں ’’ جشن شارب‘‘کا انعقاد کر کے اسکا کفارہ ضرور ادا کیا ہے۔انھوں نے اس جشن کوبے نظیر بتایا۔
دوسرے سیشن کی صدارت پروفیسر سید مجاور حسین نے کی اور نظامت کا بارڈاکٹر ریشماں پروین نے اپنے شانوں پر اٹھایا۔ڈاکٹر عمیر منظرنے شارب ردولوی کی حالیہ کتاب’’ ترقی پسندشعری فکراور اردو شعرا‘‘کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کے مطالعے سے غزل فہمی کی پوری روایت سامنے آ جاتی ہے۔کیونکہ ترقہی پسند تحریک کے بعد کے رجحانات کی اہم قدروں اوران کے اظہار کے وسیع امکانات کو بھی شارب ردولوی نے اپنے خاص زاویۂ نظرسے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ڈاکٹرپروین شجاعت نے مجاز پر شارب ردولی کے مونو گراف کے حوالے سے کہا کہ جو تشنگی مجاز پردوسری کتابوں کو پڑھ کر محسوس ہوتی ہے وہ شارب ردولوی کے اس مونو گراف میں نہیں ہوتی۔شاہ نواز قریشی نے شارب ردولوی کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہ وہ کسی سے اختلاف رائے بھی کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اتفاق رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ڈاکٹر شمس الھدیٰ نے شارب ردولوی کی ولی فہمی کے حوالے سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب ولی فہمی کے دریچوں کو روشن کرتی ہے۔سلمہ حجاب نے نظم پڑھ کر اپنی موجودگی درج کرائی۔ڈاکٹر شفیق حسین شفق نے شارب ردولوی کی رثائی تنقید کواپنے مقالے کا موضوع بناتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ آج مرثیہ کو مذہبی صنف کہکر اسے نصاب سے خارج کرنے کی آواز اٹھا رہے ہیں لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے مرثیہ کا گہرائی سے مطالعہ نہیں کیا۔پروفیسر صابرہ حبیب نے کہا کہ شارب ردولوی کو دیکھ کر رشک آتا ہے واقعی نرگس ہزاروں سال روئی ہوگی تب شارب صاحب پیدا ہوئے ہوں گے۔سابق آئی اے ایس ڈاکٹر پی سی شرما نے کہا کہ تنقید کی ایک ہی لاٹھی سے سب کو نہیں ہانکا جاسکتا اچھے ادب اور بہت اچھے ادب کے کچھ پیمانے تو ضرور ہوں گے۔انھوںنے کہا کہ شارب ردولی تخلیق کو گہرائی سے پڑھ کر ہی اپنی رائے قائم کرتے ہیں یہی ان کا امتیاز ہے۔سیشن کی صدارت کر رہے پروفیسر مجاور حسین رضوی نے کہا کہ جوایک بہت خوبصورت ادبی وراثت کے ذخیرہ سونپا ہے اسے سنبھالنا اور آگے برھانا نئی نسل کی ذمہ داری ہے۔اس قافلہ کو چلتے رہنا ہے اور آگے بڑھتے رہنا چاہئے ۔آخر میں آرگنائزنگ کمیٹی کے وقار رضوی نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے جشن شارب کے محرکات کی تفصیل بتائی ۔اور شارب صاحب کے روزو شب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ آج بھی صبح ساڑھے سات بجے خود گاڑی ڈرایئو کر کے کالج جاتے ہیں۔ انھوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ جن لوگوں کے بلانے پر شارب صاحب ان کے جلسوں میں بلا تردد چلے جاتے ہیں اور جن لوگوں کی فرمائش پر ان کی کتاب پر لکھتے رہے ہیں آج ان میں سے زیادہ تر لوگ موجود نہیں ہیں یہ افسوس کی بات ہے۔لیکن یہ خوش آئند ہے کہ صبح ساڑھے دس بجے سے شام چار بجے تک طویل سیشن کے باوجود ہال کا بھرا ہونا اور ہال کے باہر بھی لوگوںکا موجودہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اردو اور شارب صاحب سے سچی محبت کرنے والے لوگ یہی ہیں۔
اس موقع پر پروفیسرروپ ریکھا ورما،عارف نقوی (جرمنی)پروفیسر نصرت جمال،پروفیسر مرزا خلیل بیگ،محترمہ دردانہ،پروفیسر قمر جہاں،پروفیسر عارف ایوبی،ڈاکٹر ارشاد نیازی،ڈاکٹر کہکشاںلطیف،احمد عرفان علیگ،ڈاکٹر نور فاطمہ،ڈاکٹر عمر غزالی،ڈاکٹرمحمد ارشد،ڈاکٹر رخسانہ لاری،ڈاکٹر پرویز احمد،ڈاکٹرعرشیہ جبیں،ڈاکٹر جہاں آرا سلیم،ڈاکٹریاسر جمال،ڈاکٹرحیدر حسین،ڈاکٹرسلطان شاکر ہاشمی،سلام صدیقی،عائشہ صدیقی،پرویز ملک زادہ ،علی زیدی،غزالہ انور،سعید مہدی رضوی،شاہانہ سلمان عباسی،یامین علوی،محمدشکیل صدیقی،اجے کمار،کاشف رضا،مینا عرفان،شب نور،میرا ترپاٹھی،ماہن فاطمہ،سشیل سیتا پوری کے ساتھ ہال کے اندر اور باہر عاشقان شارب ردولوی کی بڑی تعداد کی موجودگی نے ’’جشن شارب‘‘کو مثالی اور یادگار بنانے میں اہم رول انجام دیا۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular