Tuesday, April 30, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldشارب ردولوی کا تنقیدی امتیاز

شارب ردولوی کا تنقیدی امتیاز

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

ڈاکٹر ریشماں پروین

اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک ایک انقلابی تحریک تھی جس نے قدیم کلاسیکی روایات سے بغاوت کی اور اردو زبان کا رشتہ زندگی اور سماج سے جوڑا۔ اب تک ادب مسرت آفرینی اور دل داری کا ذریعہ تھا۔ زندگی سے تعلق کا ذکر یا حالات کا تذکرہ غیرشعوری طور پر اشعار میں آجائے تو آجائے ورنہ ایسے تذکروں کو لوگ شاعری میں نظرانداز ہی کردیتے تھے۔ ترقی پسند تحریک نے پہلی بار شعوری طور پر سماجی حقیقت نگاری پر زور دیا اور صرف زور ہی نہیں دیا بلکہ ادب کو سماجی تبدیلی کے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔
ترقی پسند تحریک نے شعر وادب میں ایسی تمام چیزوں کو رد کردیا جن کا تعلق خیال آرائی اور تصنع سے تھا۔ یہاں تک کہ ایک زمانے میں غزل کی شدید مخالفت کی گئی جو مناسب بات نہیں تھی اور بعض ترقی پسند ناقدین نے اسے ناپسند بھی قرار دیا لیکن اس سے ایک فائدہ ہوا کہ نظم گوئی کو فروغ ہوا اور نظم میں موضوع اور ہیئت کے تجربوں کے دروازے کھل گئے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ایک طرف ترقی پسند تحریک قدامت پرستی، غزل اور قدیم روایات کو رد کر رہی تھی اور دوسری طرف ترقی پسند نقاد کلاسیکی شاعروں (میر اور سوداؔ) وغیرہ کی ازسرِنو بازیافت کر رہے تھے۔ ترقی پسند ناقدین نے اردو شاعری کو ایک نئے سیاق میں سمجھنے کی کوشش کی۔ مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین، علی سردار جعفری، محمد حسن اور دوسرے ترقی پسند نقادوں نے شعراء کو سماجیاتی مطالعے اور ان کے عہد کے سیاسی اور سماجی پس منظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی سعی کی۔
مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین اور علی سردار جعفری کے بعد موجودہ عہد کے ترقی پسند ناقدین میں پروفیسر شارب ردولوی کا نام خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ادب کے مار کسی اور سماجی محرکات پر ان کی گہری نظر ہے۔ پروفیسر شارب ردولوی کا شمار ان ناقدین میں ہوتا ہے جنھوں نے ترقی پسند تحریک اور مار کسی فلسفے کی سماجی تشریحات پر اپنے ادبی مطالعے کی بنیاد رکھی۔ کسی بھی تحریر کا وجود الفاظ سے ہوتا ہے لفظوں کا مناسب انتخاب تحریر میں دل کشی وجاذبیت پیدا کردیتا ہے، شارب ردولوی لفظ کی خوبی انتخاب کے قائل ضرور ہیں مگر وہ لفظ اور علامت کو اس کے سماجی تناظر میں دیکھتے ہیں ان کے نزدیک لفظ اور علامت کسی نہ کسی تہذیبی وتمدنی ورثے سے ضرور جڑے ہوتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’لفظ کا ایک Social Contact ہے یعنی جو کچھ کہا جائے گا سننے والا اس سے وہی مراد لے گا۔ اسی طرح علامت بھی سماجی اعتبار Social Sanction کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی اور اسے اس اعتبار کے حاصل کرنے کے لیے ایک مدت درکار ہوتی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سمبل یا علامت ایجاد نہیں کی جاتی بلکہ تمدنی ورثے سے وجود میں آتی ہے کسی لفظ کے ساتھ رفتہ رفتہ کچھ قدریں اور تصورات وابستہ ہوجاتے ہیں۔ یہ تصورات علاقے، تہذیب، عقائد، معاشرت، تاریخ وغیرہ سے ایک تعلق رکھتے ہیں اور یہی تصورات لفظ کو علامتی اقدار دیتے ہیں جو اسے موقع ومحل کے مطابق معنیٰ کی نئی جہتوں سے روشناس کراتے ہیں۔‘‘ (۱)
شارب ردولوی نے لفظ اور علامتوں کے سماجی پس منظر کی طرف واضح انداز میں اشارہ کیا ہے ان کی یہ رائے اپنے اندر خاصا وزن رکھتی ہے کہ لفظ اور علامت بغیر Social Sanction کے اپنے حقیقی مفہوم سے دور ہوجائیں گے۔ شاعر جس زمانے میں موجود ہوگا اس دور کی قدریں، تصورات، حالات یقینا اس پر اثرانداز ہوں گے اور اسی وجہ سے اس کی شاعری کو اُس کے عہد کے پس منظر میں زیادہ آسانی سے سمجھا جاسکے گا اس سلسلے میں شارب ردولوی نے مزید لکھا ہے کہ علامت کے لیے ایک تہذیبی پس منظر ضروری ہے، اور علامت کی تہہ داری سے اس کے پس منظر کی واقفیت کے بغیر لطف انداز نہیں ہوا جاسکتا جیسے آدم حوا یا ابھیمنیو کی علامتیں اسی معاشرے میں سمجھی جاسکتی ہیں، جہاں ان کی مذہبی یا تہذیبی اہمیت ہے کوئی انگریز شاعر ان کے مفہوم کو تہذیبی پس منظر کے بغیر استعمال کرے گا تو یہ علامتیں مبہم ہوجائیں گی صرف متنیت Textuality سے ان علامتوں کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ ان کے خیال میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ علامت کی معنویت اپنے تہذیبی، سماجی اور سیاسی پس منظر کی محتاج ہوتی ہے۔ یقینا کلاسکلی شعراء سے لے کر آج تک کوئی شاعر ایسا نہیں گزرا جسے اس کے عہدے سے ماورا سمجھا جائے اگر میراؔ اور سوداؔ کو ہی لیں تو ان کے کلام میں بھی نہ جانے کتنے ایسے اشعار مل جائیں گے جنھیں ان کے عہد کے مطالعے کے بغیر سمجھنا مشکل ہوگا، سوداؔ کے کلام پر اظہارِخیال کرتے ہوئے شارب ردولوی نے بڑی معنی خیز بات کہی ہے کہ سوداؔ کے کلام نے اس زمانہ کی تاریخ کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔
’’سوداؔ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کا کلام ان کے زمانہ کی سیاسی، سماجی، معاشرتی، تاریخ ہے وہ ایسے زمانے میں ہوئے جو صحیح معنوں میں ایک بحرانی دور تھا۔ ہرطرف افراتفری تھی، شرفاء کو اپنی پگڑی سنبھالنی دشوار تھی، وہ لوگ جو صاحبِ عزت وثروت تھے روٹیوں کو محتاج ہوگئے تھے، سوداؔ کی شاعری میں ان حالات کے بڑے گہرے نقش ملتے ہیں۔ اسی لیے سوداؔ کے کلام کی اہمیت اور سوداؔ کی عظمت کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے ان کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات کا مطالعہ کیا جائے جس میں سوداؔ کی شاعری پروان چڑھی۔‘‘
اس مختصر سے اقتباس میں شارب ردولوی نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ سوداؔ کی شاعری اپنے عہد کے واقعات وحادثات، سیاسی عمل وردّعمل اور پریشانیوں کی صرف روداد نہیں ہے بلکہ وہ ان کے عہد کی منہ بولتی تصویر ہے۔ شارب ردولوی نے سوداؔ کی غزلوں سے ایسے اشعار بھی منتخب کیے ہیں جن میں سوداؔ اپنے زمانے کی دہلی کی بربادی پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں۔ وہ دلّی جو سوداؔ کی امید کے برخلاف ان کی زندگی میں آباد نہ ہوسکی اور جس کے دردناک مناظر نے ان کو زندگی بھر مضطرب وبے چین رکھا ان کے خیال میں صرف میرو،ؔ سوداؔ ہی نہیں بلکہ بعد میں جدید شعراء جیسے فیض احمد فیض، مجروح سلطان پوری، مخدوم محی الدین، وامق جونپوری، فراق گورکھپوری، غلام ربانی تاباں، وحید اختر عدنان صدیقی وغیرہ نے بھی جدید زمانے کے مسائل کو نظم کرکے اپنے عہد اور زمانے کی تصویر کشی کی ہے، فیضؔ کی شاعری کی مخصوص شعری تہذیب کا ذکر کرتے ہوئے شارب ردولوی نے لکھا ہے کہ ہر بڑے عہد ساز شاعر مثلاً میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کی طرح فیضؔ کی عظمت کا راز بھی ان کی شعری تہذیب میں پوشیدہ ہے، فیضؔ کی مشہور نظمؔ ’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گذیدہ سحر‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فیض کی مشہور نظم ’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گذیدہ سحر‘‘ کے سیاسی پس منظر سے سب ہی واقف ہیں جسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ نظم فیضؔ کی حسن کاری اور اظہار پر قدرت کی بہت اچھی مثال ہے جس میں ایک وقتی اور ہنگامی موضوع، تاثر یا جذبے کو اس طرح کے الفاظ اور استعارات میں پیش کیا گیا ہے کہ وہ وقت اور زمانے کی قید سے آزاد ہوکر لازوال ہوگیا ہے، ۳۸؍سال بعد بھی یہ نظم اتنی ہی Relevant اتنی ہی پُرتاثیر اور اتنی ہی خوبصورت ہے جتنی ان حالات میں تھی۔‘‘ (۲)
گل صدرنگ (1960) سے لے کر مجازؔ (2009) تک شارب ردولوی کا ادبی سفر تقریباً پچاس سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے اس طویل مدت میں انھوں نے میرؔ وسوداؔ جیسے کلاسیکی شعراء کے علاوہ غالبؔ، چکبستؔ، جگرؔ، فیضؔ، کیفی اعظمیؔ، مخدوم محی الدین، عرفان صدیقی۔ تقریباً ہر دور کے شاعر کا تنقیدی جائزہ لیا ہے، ہر عہد اور ادبی دبستان پر ان کی گہری نظر ہے، ان کی کتاب ’’جگر فن اور شخصیت‘‘ کے تعارف میں اعجاز حسین نے لکھا ہے:
’’کسی ادیب کو سمجھنے کے لیے نفسیات اور اس سے زیادہ ماحول کا مطالعہ بیحد ضروری ہے، شارب صاحب نے جگر صاحب کا ذہنی تجزیہ کرتے وقت اس نکتہ کو اچھی طرح مدّنظر رکھا ہے۔ اسی لیے اس پر کافی زور دے کر سمجھایا ہے کہ جگر زمانے کے بدلتے ہوئے حالات سے پوری طرح باخبر تھے۔ (۳)
خود شارب ردولوی نے بھی لکھا ہے کہ جگر کی شاعری کے باقاعدہ مطالعے کے لیے انھوں نے انیسویں اور بیسویں صدی کے سیاسی، تاریخی اور تہذیبی حالات کا مکمل جائزہ اسی لیے پیش کیا ہے تاکہ اس کی روشنی میں ان کے ذہنی ارتقا کا مطالعہ ہوسکے اور جگر کے شاعرانہ مقام کا تعین کیا جاسکے۔ چکبست کے کلام پر اظہارِخیال کرتے ہوئے شارب ردولوی لکھتے ہیں کہ وہ اردو کے ان چند بڑے شعراء میں ہیں جن کی شاعری زندگی اور ادب کے رشتے سے ہی وجود میں آئی ہے۔ انھوں نے ادب کو سماجی، تہذیبی اور سیاسی آلۂ کار کی شکل میں اختیار کیا۔
اپنی کتاب ’’گلِ صدرنگ‘‘ کے مقدمے میں شارب ردولوی نے میرؔ کی شاعری پر کئی جگہ اظہارِ خیال کیا ہے حالاں کہ انھوں نے بہت تفصیل سے میرؔ کے بارے میں نہیں لکھا ہے لیکن میرے کے حالات اور ان کی شاعری کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ ہمیں میرؔ کو بہتر طریقے پر سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ میرؔ ان کے لیے ناکامیوں اور نامرادیوں کے شاعر نہیں بلکہ زندگی کی تڑپ رکھنے والے شاعر ہیں۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’میر کی غزلوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ باوجود ان کی پریشانیوں، ناکامیوں اور نامرادیوں کے ان کے یہاں موت کا نغمہ، یا مرگ کی تاریکی نہیں ہے۔ ان کی غزلوں میں زندگی کی تڑپ اور لگن ہے وہ دل پُرخوں کی اس گلابی سے بھی مزہ لیتے ہیں۔ وہ بالکل مایوس ہوکر ’’جیتے جی میت‘‘ بن کر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ وہ اس میں بھی سرمستی اور کیف کا ایک گوشہ تلاش کرلیتے ہیں اس لیے ان کی حرماں نصیبی اور یاسیت کے باوجود میں انھیں قنوطی نہیں سمجھتا۔‘‘ (۱)
یہاں ہم اس میرؔ سے واقف ہوتے ہیں جس کی طرف پہلا اشارہ مجنوں گھورکھپوری اور احتشام حسین نے کیا تھا یعنی زندگی سے محبت کرنے والا میرؔ جو بقول شارب ردولوی اپنے دل پُرخوں کی گلابی سے ہمیت وحوصلہ دیتا ہے وہ فانی کی طرح جیتے جی موت کا دامن نہیں تھامتا بلکہ اپنی محرومیوں میں مسرتوں کا پہلو تلاش کرلیتا ہے۔ صرف میرؔ کی ہی نہیں فیضؔ احمد فیضؔ کی شاعری میں بھی شارب ردولوی انسانی زندگی کو پرمسرت بنانے کی خواہش دیکھتے ہیں ان کے خیال میں فیضؔ کے یہاں یہ خواہش تمام جذبوں پر حاوی ہے، انسان سے محبت ہی فیضؔ کا حقیقی عشق ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں اور غزلوں میں انسان دوستی کا عنصر ہرجگہ کارفرما نظر آتا ہے۔
یہاں ایک اہم نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ بھلے ہی شارب ردولوی کا شمار ترقی پسند ناقدین میں ہوتا ہے اور عہد حاضر میں وہ نمائندہ ترقی پسند ناقد ہیں اس کے باوجود ان کے یہاں دوسرے ترقی پسند ناقدین کے مقابلے میں انتہا پسندی کی جگہ اعتدال وتوازن نظر آتا ہے، وہ فنکار کے عہد، حالات اور واقعات پر توجہ ضرور دیتے ہیں مگر فن پارہ کی فنی خوبیوں کو نظرانداز نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں ہرتخلیق کو شعر وادب قرار نہیں دیا جاسکتا، اسی فن پارے کو ہم شاعری کے زمرے میں لاسکتے ہیں جس میں شاعرانہ فضا برقرار رہے، فن پارے کی تفہیم وتحسین میں جہاں شاعر کے عہد کا مطالعہ ضروری ہے وہیں فنکار کی نفسیاتی الجھنوں، فن کے جمالیاتی پہلوؤں اور فنی تقاضوں کا خیال ناگزیر ہے کیوں کہ کسی بھی تخلیق کو ہم اس صورت میں مکمل قرار دے سکتے ہیں جب اس میں شاعر یا ادیب کے عصری تقاضوں، سماجی، تہذیبی قدروں کے ساتھ جمالیات، روایات اور فنی قدریں بھی موجود ہوں۔ نقاد ان کے نزدیک قاری اور فنی تخلیق کے درمیان کی کڑی ہے جو کسی تخلیق کی سماجی اہمیت اس کے فنی اقدار، معیار حسن مواد، ہیئت اور اسلوب بیان کے تضاد کا بیان کرکے اس تخلیق کے سمجھنے میں قاری کی مدد کرتا ہے ایسے میں نقاد کا کام اور اہمیت بڑھ جاتی ہے لکھتے ہیں:
’’تنقیدکا کام نئی قدروں کا تعین کرنا، ادب کا، زندگی، سماج، نفسیات اور شخصیت کے تعلق کی روشنی میں جائزہ لینا اور فن پارے کی ادبی، فنی جمالیات اور سماجی اہمیت کو ظاہر کرنا ہے لیکن جدیدیت پرست نقاد فنی تخلیق کے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کرتا ہے، تخلیق کا جائزہ لیتے وقت اس کا سارا زور بیان یا تو اسلوب اور علامت کی مدح سرائی اور تفسیر پر صرف ہوتا ہے یا نظریے، فنی اقدار اور ادب کے تعلق پر رائے زنی کرنے پر۔‘‘
شارب ردولوی کے نزدیک معیاری تنقید کی اہم خصوصیت یہ نہیں ہے کہ وہ کسی مخصوص مکتبۂ فکر کی نمائندگی اس طرح کرے کہ تنقید کا حقیقی مقصد ہی ختم ہوجائے۔ تنقید کا صحیح مفہوم ومقصد ان کے نزدیک یہی ہے کہ وہ فن پارہ کی قدروقیمت کا تعین، سماجی، نفسیاتی، فنی وجمالیاتی تمام اعتبار سے کرے، کیوں کہ کوئی بھی فن پارہ صرف سماج اور نفسیات کی کسوٹی پر رکھ کر اعلیٰ درجہ کا قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک وہ فنی وجمالیاتی نقطۂ نظر سے بھی اعلیٰ واقع نہ ہو۔ لہٰذا کسی ایک نقطۂ نظر سے فن پارہ کی عظمت کا تعین کرنا ٹھیک نہیں۔ جدید ناقدین کی اسی شدت پر شارب ردولوی معترض نظر آتے ہیں اور ادب کو سماجی، نفسیاتی اور فنی ہراعتبار سے بہتر سے بہتر بنانے پر زور دیتے ہیں۔ وہ خود بھی اپنی تحریروں میں اسی اعتدال اور توازن سے کام لیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ میرؔ، سوداؔ، چکبستؔ، حسرتؔ، علی سردار جعفری، فیضؔ احمد فیضؔ، مخدوم محی الدین، مجاز، عرفان صدیقی اور دوسرے شعراء کے یہاں اجتماعیت کے ساتھ ان کی انفرادی خوبیوں کی بھی تلاش کرتے ہیں وہ فن پارہ کے ہرپہلو کا تجزیہ اس انداز میں کرتے ہیں کہ تاریخی حقیقت، احساس فن اور تصورِ زندگی سب مل کر ایک ہوجاتے ہیں اور یہی ان کا تنقیدی امتیاز ہے۔
��

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular