Tuesday, April 30, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldشارب ردولوی ایک نستعلیق شخصیت

شارب ردولوی ایک نستعلیق شخصیت

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

مجتبیٰ حسین

اب تو یہ معمول سا بن گیا ہے کہ برسوں پرانی عادت کے مطابق صبح کی اوّلین ساعتوں میں چہل قدمی کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو ماضی کے انگنت پیارے پیارے دوستوں کی دل نواز یادیں بھی ہاتھ میں ہاتھ میں ڈالے ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگتی ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ گھٹنوں کی سرجری کے ناکام ہوجانے کے باعث ہم اکیسویں صدی میں لنگڑاتے ہوئے ہی داخل ہوئے تھے اسی لیے ہماری شخصی رفتار تو خاصی سُست ہوگئی ہے لیکن ہمارے یارانِ دیرینہ کی یادیں دن بہ دن ہم سے زیادہ تیز رفتار ہوتی چلی جارہی ہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ ہمارے قابو میں بھی نہیں آتیں، جیسے کہنا چاہتی ہوں۔
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اس بے نام ونشاں اور بے منزل چہل قدمی میں ہم دوگام ہی چلتے ہیں تو بسااوقات عہد گذشتہ کے بیسیوں مہربان، شفیق، محبت آمیز اور دل رُبا چہرے آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپک پڑتے ہیں۔ کہاں گئے وہ لوگ جن کی رفاقتیں ہماری زندگی کو ایک عنوان عطا کرنے کے علاوہ ہمارے لمحوں کو ایک نئی معنویت سے معمور کردیتی تھیں۔ بعض یارانِ رفتہ نے تو اب اتنی دور بستیاں بسالی ہیں کہ جہاں سے اب وہ کبھی لوٹ کر نہیں آسکتے اور ہم وقت سے پہلے اُن کے پاس جا نہیں سکتے۔ کتنے ہی احباب ایسے ہیں جو براعظموں، ملکوں، شہروں اور قصبوں میں بکھرگئے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم حیدرآباد میں چہل قدمی کو نکلتے ہیں تو دہلی کے احباب کی یادیں ہمارے ساتھ ہوتی ہیں اور دہلی میں نکلتے ہیں تو حیدرآبادی احباب کی یادیں سایہ فگن ہوجاتی ہیں۔ پھر ملکوں اور براعظموں میں بکھرے ہوئے احباب کی باری بھی آتی رہتی ہے۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کون سا دوست کب ہماری یاد کے رنگ منچ پر نمودار ہوجائے۔
اُٹھاکر ہاتھ جو لے لے یہاں مینا اُسی کا ہے
معاف کیجیے! ہم اپنا کالم لکھنا شروع کرتے ہیں تو خواہ مخواہ ہی اپنے اوپر سنجیدگی اور بُردباری کی کیفیت طاری کرلیتے ہیں جو ہمارا میدان نہیں ہے۔ چنانچہ کچھ ہی دیر بعد جب ہماری خودساختہ علمیت، انشاء پردازی اور بُردباری کی ہوا نکل جاتی ہے تو اصلیت پر اُترآتے ہیں۔ ذرا دیکھئے صرف یہ بتانے کے لیے کہ آج صبح کی چہل قدمی کے دوران میں ہمارے پُرانے دوست شارب ردولوی کی یاد ہمیں آگئی تو اس کے اظہار کے لیے کتنے ہی غیرضروری احباب کو اس یاد میں سمیٹتے ہوئے ایک سنجیدہ سی تمہید لکھ دی۔ لیکن نہ جانے کیوں جی یہ چاہتا ہے کہ جاتے جاتے اپنے اُن احباب کو لفظوں کے پنجرے میں قید کرجائیں جن کے ساتھ ہم نے اپنی زندگی کی کئی خوش گوار ساعتیں گزاری ہیں۔
اب یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ ردولی اترپردیش کی وہ مردم خیز بستی ہے جسے بسایا ہی اس لیے گیا تھا کہ یہاں اہلِ علم اور اہلِ کمال آسانی سے پیدا ہوتے رہیں اور دنیا میں اس بستی کا نام بھی روشن کرتے رہیں۔ دیگر شعبوں اور میدانوں کے اہلِ کمال کی بات ہم نہیں کرتے ادب کی دنیا میں چودھری محمد علی ردولوی اور اسرارالحق مجازؔ کو کون نہیں جانتا۔ کم از کم تین عدد ردولوی تو ایسے بھی رہے ہیں جن سے ہمارے گہرے شخصی مراسم رہ چکے ہیں۔ ہماری مراد سرکش ادیب باقر مہدی مرحوم، منفرد اور مستند نقاد شارب ردولوی اور ممتاز صحافی پروانہ ردولوی مرحوم سے ہے۔ تینوں مختلف المزاج اور مختلف النوع۔ یہاں ہمارا مقصد ردولی کی تاریخ یا اہلِ ردولی کے علم وفضل کا حال بیان کرنا نہیں بلکہ ہمدم دیرینہ ڈاکٹر شارب ردولوی کے جغرافیہ پر تھوڑی بہت روشنی ڈالنا ہے۔ ۱۹۷۳ء؁ میں جب ہم نے دہلی کی ادبی محفلوں میں آنا جانا شروع کیا تو ترقی پسندوں کی ایک محفل میں ڈاکٹر شارب ردولوی کے دیدار ہوگئے۔ سب سے الگ تھلگ، سرخ وسپید رنگت، دراز قد وقامت اور تیکھے خدوخال والی ایسی قوی الجثہ وجیہہ وشکیل اور پُرکشش شخصیت کہ سیکڑوں شرکائے محفل میں بھی ممتاز اور منفرد دکھائی دے۔ کم آمیز، کم گو، بُردبار، مہذب، شائستہ، منظم، مربوط، سلیقہ مند، نرم رو، خوش پاشاک، معتدل اور متوازن مزاج انسانوں کو ہم بصد اشتیاق گھنٹوں دیکھ تو سکتے ہیں کیوں کہ یہاں معاملہ ’’ہے دیکھنے کی چیز اسے باربار دیکھ‘‘ والا ہوتا ہے لیکن ان سے ملتے ہوئے ہمیشہ ڈر ہوتا ہے۔ زندگی کو برتنے کے معاملہ میں جو لوگ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں اُن سے ہم ہمیشہ بیس قدم دور ضرور رہتے ہیں۔ ایسی نستعلیق، مقطع، چقطع، خودبین وخودآرا، اپنے آپ میں گم صم اور ہردم نپی تُلی بات کرنے والی شخصیت سے پہلے تو ہم نہیں ملتے اور اگر بحالت مجبوری ملنے کی نوبت آجائے تو جی یہ چاہتا ہے کہ پہلے وضو کرلیا جائے، سرپر ٹوپی اوڑھی جائے اور توفیق عطا ہوتو گلے میں رومال بھی ڈال لیا جائے، آنکھوں میں سُرمہ بھی لگ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لہٰذا چند دنوں تک ہم ادبی محفلوں میں دور ہی سے شارب ردولوی کا دیدار کرنے کے علاوہ اُن سانچوں کے بارے میں سوچ سوچ کر محظوظ ہوتے رہے جن سے ایسی شخصیتیں ڈھل کر ایک زمانے میں نمودار ہوا کرتی تھیں۔ انہیں جوں جوں دیکھتے تھے یہ احساس ہوتا تھا کہ بیچاری نرگس ہزاروں سال تک کیوں روتی ہے اور دیدہ ور کو پیدا ہونے میں اتنی مشکلیں کیوں پیش آتی ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارے نہایت بے تکلف بلکہ وضو شکن دوست شہاب جعفری نے ایک محفل میں اُن سے ہمارا تعارف کرادیا۔ اُن دنوں شارب ردولوی دیال سنگھ کالج میں اردو پڑھاتے تھے اور شہاب جعفری کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ خالصہ کالج میں اردو کے سوائے سب کچھ پڑھاتے ہیں۔ شہاب جعفری نے جب عالم سرخوشی میں ہمارے تعارف کی خاطر اپنے مخصوص بلند بانگ لہجہ میں ہماری تعریفوں کے پُل باندھنے کا سلسلہ جو شروع کیا تو شارب ردولوی نے نہایت دھیمے اور شائستہ لہجہ میں اُن کی تعریفوں کے پُلوں کو ڈھاتے ہوئے کہا ’’شہاب صاحب! آپ بلاوجہ اپنی طاقتِ لسانی کو ضائع کر رہے ہیں۔ مجتبیٰ حسین کو میں کم وبیش اُتنا ہی جانتا ہوں جتنا کہ آپ جانتے ہوں گے۔‘‘ شارب ردولوی ہم سے بغل گیر ہونے لگے تو شہاب جعفری اپنے دیدے پھاڑ کر ہم دونوں کو حیرت سے دیکھتے رہ گئے۔ یوں شارب ردولوی سے ہماری راہ ورسم بڑھی تو فاصلے قربتوں میں تبدیل ہوئے اور جگرمرآدآبادی کے شعر کی عملی تفسیر بنتے چلے گئے۔
تغافل، تجاہل، تبسم، تکلم
یہاں تک تو پہنچے وہ مجبور ہوکر
پھر ۱۹۷۵ء؁ میں جب شارب ردولوی بیوروفارپرموشن آف اردو میں پرنسپل پبلی کیشن آفیسر بن کر آگئے تو یوں سمجھئے کہ گھر آنگن والا معاملہ ہوگا۔ اس لیے کہ ۱۹۷۴ء؁ میں ہم این سی ای آرٹی سے وابستہ ہوئے اور ایک سال بعد شارب ردولوی بیوروفار پرموشن آف اردو میں آگئے۔ دونوں دفتروں کے درمیان بہ مشکل دو تین کیلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ پھر دلچسپ بات یہ کہ دہلی کے ہمارے اوّلین دوست راج نارائن رازؔ بھی شارب ردولوی کے دست راست بننے کی کوشش میں بیورو میں اسسٹنٹ ڈائرکٹر بن کر آگئے۔ دونوں ’’مقطگی‘‘، ’’چقطگی‘‘ اور ’’نستعلیقیت‘‘ میں یدِطولیٰ رکھنے والے بلکہ یوں کہئے کہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ یکتائے روزگار تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو بہت عزیز رکھتے تھے اور اپنی اپنی خموشیوں کو قوت گویائی عطا کرنے کی جستجو میں لگے رہتے تھے۔ شارب ردولوی تو ضرورتاً ہنس بھی لیتے ہیں بلکہ بُرا وقت آئے تو قہقہہ بھی لگاسکتے ہیں لیکن راج نارائن راز کے بارے میں مشہور تھا کہ لوگوں نے کبھی انہیں ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ ایک زمانہ میں دہلی کے ادبی حلقوں میں کمار پاشی کا یہ جملہ بہت مقبول ہوا تھا ’’راج ناران راز کو ہنسانے کے لیے بیچارے مجتبیٰ حسین کو حیدرآباد سے دہلی آنا پڑا ورنہ وہ اس نعمت سے محروم رہ جاتے۔ ’’راج نارائن ہمارے‘‘ منہ بولے شاعر‘‘ تھے اور ہم اُن کے ’’منہ بولے مداح‘‘ کے عہدے پر فائز تھے۔ اُن دنوں این سی آر ٹی اور بیوروفارپرموشن آف اردو کے درمیان اردو نصابی کتابوں کی اشاعت کا ایک مشترکہ پراجکٹ چل رہا تھا، جس کی عمل آوری کے لیے دونوں اداروں کے عہدیداروں کا آپس میں ملنا ضروری ہوتا تھا۔ چنانچہ ہم روز ہی عین دوپہر کے کھانے کے وقت شارب ردولوی کے دفتر پہنچ جاتے جہاں راج نارائن راز بھی پہلے ہی سے توشہ بدست موجود رہتے تھے۔ اپنی اپنی نستعلیقیت کے مطابق ابھی یہ دونوں ہی حضرات دفتری اُمور کے بارے میں ضروری باتیں کرتے ہوئے اپنے اپنے فرائض منصبی سے عہدہ بر آہونے کی جستجو میں لگے رہتے تھے کہ اتنی دیر میں ہم دونوں کے ٹفن باکس کو خالی کرکے اپنے نجی فرض منصبی سے فارغ ہوجایا کرتے تھے۔ چاہے کچھ بھی ہو این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابوں کی اشاعت کی پراجکٹ کو کامیاب بنانے میں شارب ردولوی اور شہباز حسین جیسے عہدیداروں کی رہنمائی نے بہت اہم رول ادا کیا۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ شارب ردولوی اعلیٰ پایہ کے نقاد ہی نہیں بلکہ اعلیٰ پایہ کے ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں۔ کیا کیا یاد کریں اور کن کن باتوں کو بھول جائیں۔ بسااوقات پُرانے دوستوں کی یادوں کو صحیح ڈھنگ سے سمیٹنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ غرض پانچ چھ برس وہ بیورو میں رہے اور کچھ عرصہ بعد جواہر لال نہرویونیورسٹی سے وابستہ ہوئے تو یہاں معاملہ گھر آنگن سے سمٹ کر دیوانِ خانہ اور باورچی خانہ کا سا ہوگیا کیوں کہ این سی ای آر ٹی اور جے این یو دونوں کے کیمپس ایک دوسرے سے ملحق اور متصل ہیں۔ غرض پینتس برس کے عرصہ میں ڈاکٹر شارب ردولوی کو قریب سے دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا۔ اُن کا روم روم لکھنؤ کی تہذیب کا ساختہ، پرداختہ اور پروردہ ہے۔ اُن کے شعور نے اُس لکھنؤ میں آنکھیں کھولیں جس میں اردو ادب اور تہذیب نے اپنی ترقی کی ساری منزلیں طے کرلی تھیں اور اپنے نقطۂ عروج کو پالیا تھا۔ کیسی کیسی نابغۂ روزگار ہستیاں یہاں آباد تھیں۔ لکھنؤ تو اب خود لکھنؤ میں بھی نظر نہیں آتا۔ اگر آپ واقعی گذشتہ لکھنؤ کو دیکھنا چاہتے ہیں تو شارب ردولوی کو دیکھ لیجئے۔ ڈاکٹر شارب ردولی کی تنقید کے ہم ادنیٰ سے معتقد ہیں۔ نہایت متوازن، معتدل، نرم مزاج، دیانت دار، غیرجانب دار اور انصاب پسند تنقید کا نمونہ آپ دیکھنا چاہیں تو شارب ردولوی کے تنقیدی مضامین پڑھئے۔ اُن کی متوازن، مدلل تنقید کو پڑھتے ہوئے ہمیں ہندو دیو مالا کی وہ گائے یاد آتی ہے جس کے ایک سینگ پر یہ دھرتی ٹکی ہوئی ہے۔ ذراسا توازن بگڑا یا بال برابر بھی فرق آیا تو یہ دھرتی پاش پاش ہوجائے گی۔ ہمیں شارب ردولوی کی تنقید میں ایسا ہی انتظام وانصرام اور اہتمام نظر آتا ہے بلکہ ہم تو مذاق مذاق میں خود شارب ردولوی کو بھی اللہ میاں کی گائے کہتے ہیں۔ ایک آدمی جب شرافت کی اعلیٰ ترین انسانی حدوں کو عبور کرجاتا ہے تو وہ اللہ میاں کی گائے کہلائے جانے کا مستحق بن جاتا ہے۔ پتہ نہیں لکھنؤ میں اللہ میاں کی گائے ہوتی ہے یا نہیں۔ ہمارے دکن میں تو خوب ہوتی ہے بلکہ اسی مناسبت سے دکن کے بعض نقاد ہمیں ’’اردو مزاح نگاری کا بیل‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اشارہ ہماری زودنویسی اور مزاح نگاری کے میدان میں ہماری محنت شاقہ کی طرف ہے۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ شارب ردولوی نے ہمیں ہمیشہ عزیز رکھا۔ خوب یاد آیا پندرہ سولہ برس پہلے اُنھوں نے اپنے بے حد ذہین شاگرد رشید، حسن مثنیٰ کو ہم پر ایم فل کا مقالہ لکھنے پر مامور کیا۔ حسن مثنیٰ نے جس طرح ہم پر کام کیا اور شارب ردولوی نے جس ڈھنگ سے حسن مثنیٰ سے ہم پر کام کروایا وہ بڑی تفصیل کا طلب گار ہے۔ اتنی محنت پر تو حسن مثنیٰ کو پی ایچ ڈی کی دو ڈگریاں بھی بڑی آسانی سے مل سکتی تھیں۔ حسن مثنیٰ ان دنوں رانچی یونیورسٹی میں اردو کے اُستاد ہیں اور ہمارے بارے میں اُن کی کتاب کو لوگ آج بھی حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
اب بہت سی باتیں یاد آنے لگی ہیں اور خاکہ رواں ہونے لگا ہے تو ہمارے کالم کی کوتاہ دامنی ہماری بسیار نویسی کو للکارنے لگی ہے۔ باقی خاکہ پھر کبھی سہی۔ بہت عرصہ پہلے ڈاکٹر شارب ردولوی نے ہمیں بتایا تھا کہ اُن کے جدامجد محمود ابن علی، سلطان محمد غوری کے عہد حکومت میں بارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں تارتار سے ہندوستان آئے تھے ہم نے اُن کے جدامجد کی پیش بینی اور دوررس نگاہی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ اتنی صعوبتیں اُٹھاکر ہندوستان نہ آتے تو ذرا سوچئے کہ شارب ردولوی ہندوستان میں کہاں ہوتے۔ تارتار میں ہی کہیں رہ جاتے اور ایسے میں اُن کے بغیر ہماری اردو تنقید کا یہاں کیا حشر ہوتا۔ اسے کون معتدل، متوازن، ہم آہنگ اور نرم مزاج بناتا۔ اسے کون اعتبار، مرتبہ اور وقار عطا کرتا۔ شارب ردولوی کے جداعلیٰ کی دور بینی بلکہ اندیشہ ہائے دور دراز کے بارے میں اُن کی پیش بینی ملاحظہ فرمائیے کہ لگ بھگ ہزار برس پہلے جب کہ ہندوستان میں خود اردو زبان کے پیدا ہونے کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے تو ایسے میں اُن کے جداعلیٰ نے بیسویں صدی کے اپنے شجرہ نسب میں ایک ایسے اردو نقاد اور عالم کو پیدا کرنے کا تہیہ کرلیا جو اردو تنقید کو گمراہی سے بچائے اور اُسے اعتدال کی راہ پر لے آئے۔ لہٰذا چپ چاپ ہندوستان چلے آئے اور کسی کو اپنے منصوبہ سے آگاہ نہ کیا۔ یہی تو ہیں ہمارے اسلاف کے کارنامے جو آج بھی ہمارے معاشرے میں بڑی خاموشی کے ساتھ جاری وساری ہیں۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular