Tuesday, April 30, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldشارب ردولوی : ایک سراپا اُستاد

شارب ردولوی : ایک سراپا اُستاد

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

پروفیسر محمد ظفرالدین

اِس بین الاقوامی جشن کا انعقاد اُس عظیم شخصیت کی گرانمایہ خدمات کا اعتراف ہے جس نے سیکڑوں لائق و فائق شاگرد پیدا کیے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس کانفرنس کے انعقاد کا بیڑا اُن کے شاگردوں نے ہی اُٹھایا ہے۔ البتہ اِسے عملی جامہ پہنانے اور اِس میں چار چاند لگانے کے لیے اُن کے معتقدین اور مداحوں کی ایک بڑی تعداد سامنے آگئی۔ اُستاد کا شاگردوں پر اور شاگردوں کا اُستاد پر تو حق بنتا ہے‘ لیکن مداحوں میں جو جوش و خروش پایا جارہا ہے وہ اِس امر کا غماز ہے کہ محترم المقام پروفیسر شارب ردولوی نے صرف شاگرد وں کی جماعت کھڑی نہیں کی بلکہ پورے علمی و ادبی اور تہذیبی معاشرے کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ میرا واسطہ ایسے کئی لوگوں سے پڑاجنہوں نے خود کو پروفیسر شارب کے شاگرد کے طور پر متعارف کرایا جبکہ دیال سنگھ کالج ‘ دہلی یونیورسٹی اورجے این یو کی میزان پر وہ کہیں بھی کھرے نہیں اُترتے تھے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اُنہوں نے مذکورہ شخصیت سے چونکہ بہت کچھ سیکھا ہے اِس لیے وہ خود کو اُن کا اپنا شاگرد کہتے ہیں۔ ’’معنوی شاگرد‘‘ اور ’’مجازی شاگرد‘‘ کی اصطلاح ایسے ہی لوگوں پر صادق آتی ہے۔ آج کتنے ہی ایسے بدنصیب اساتذہ ہیں کہ اُن کے شاگرد اُنہیں اپنا استاد تسلیم کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں‘ بغلیں جھانکتے ہیں یا منھ چھپاتے ہیں۔ جبکہ پروفیسر شارب ردولوی اُن اساتذہ میں ہیں کہ جنہوں نے اُن کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیاوہ تو فخریہ شاگرد ہیں مگر ان کے علاوہ بھی لاتعداد لوگ اُن کی شاگردی کا ادعاکرتے ہیں۔ پروفیسرشارب ردولوی نے جس کالج یا یونیورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دیے وہاں کے سارے طلبہ اُن کے شاگرد۔ وہ جس جس محلے میں رہے وہاں کے سارے لوگ اُن کے شاگرد۔ اُنہوں نے جن اداروں کو اپنے خونِ جگر سے سینچا وہاں کا پورا عملہ اُن کا شاگرد۔ اُنہوں نے جن لوگوں سے بھی معاملہ کیا وہ لوگ اُن کے شاگرد۔ وہ جدھر سے گزر گئے وہ پوری کی پوری گلی اور پورا کا پورا علاقہ اُن کاشاگردہوگیا۔یعنی کچھ نہ کچھ کسب فیض کر ہی لیا !!!ایسی ہی ہمہ جہت اور ہمہ گیر شخصیت اور سراپااُستاد کو اِس ادنیٰ وحقیرشاگرد کی طرف سے جشن شارب کے انعقاد کی بہت بہت مبارکباد۔ اللہ اُنہیں تادیر سلامت رکھے۔ آمین۔یا رب العالمین۔
پروفیسر شارب ردولوی کی ادبی خدمات اظہرمن الشمس ہیں۔ اُردو ادب کا ہر طالب‘ ہر عالم اور ہر کامل اِن کی علمیت اور وسیع مطالعے کی داد دیتا ہے ۔اور ہراسکالرادب میں اُن کے غیرجانبدارانہ رویے کی گواہی دیتا ہے ۔۔۔ یہ جشن کل اور پرسوں دو دنوں تک جاری رہے گا اور اُن کی علمی فضیلت کے تعلق سے درجنوں مقالے پیش کیے جائیں گے۔ لہٰذا میں اِن کے اُس جہان سے سرسری گزروں گا۔ البتہ یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آخر یہ جشن کیونکر منایا جانا طے پایا۔ ۔۔۔ اس کے لیے ہمیں تھوڑا فلیش بیک میں جانا ہوگا۔
28 ستمبر 2016ء کی شام ہم لوگوں کے لیے انتہائی رنج و الم کا پیغام لے کر آئی تھی جب ہماری ہردلعزیز استاد پروفیسر شمیم نکہت اِس دارِ فانی سے کوچ کرگئی تھیں۔ اُس غم و اندوہ کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کے بیان کا یہاں موقع نہیں البتہ اُن کے شاگردوں اور مداحوں نے اُن کی یاد میں 16-17 ستمبر2017 ء کو اِسی شہر لکھنؤمیں دوروزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا جس میں شاگردوں کے ساتھ بڑی تعداد میں مداحوں ‘ قدردانوں اور معاصرین نے شرکت کی تھی۔ سمینار میں پروفیسر شمیم نکہت کے فکر و فن کے ساتھ اُن کی روشن شخصیت ‘ انسان دوستی اور دیگر سماجی خدمات پر مقالے پڑھے گئے تھے اور تفصیل سے گفتگو ہوئی تھی۔ اُسی موقع پر چند شاگردوں نے تجویز رکھی کہ کیوں نہ ہم لوگ اُستاد محترم شارب ردولوی صاحب پر ایک شایانِ شان جلسے کا انعقاد کریں۔ اس سلسلے میںکس نے پہل کی یا کس نے توثیق و تائید کی‘ اُس کا ذکر اِس لیے ضروری نہیں ہے کہ بہرحال جذبات سب کے یکساں تھے سبھوں نے نہ صرف اتفاق رائے کا اظہار کیا بلکہ اِس کی تیاری میں دامے درمے سخنے مصروف ہوگئے۔ انتظام و انصرام کی ساری ذمہ داریاں جناب وقار رضوی اور ڈاکٹر ریشماں پروین پر ڈال دی گئی اس لیے کہ یہ مقامی بھی ہیں اورانہیں استاد محترم کے انتہائی قریبی ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ ڈاکٹرکاظم‘ ڈاکٹر امتیاز ‘ ڈاکٹر فاروق اور محترم عبدالسمیع وغیرہ کوآرڈینیشن کا کام کرتے رہے۔ کارواں ‘ رواں دواں تھا کہ اس میںپروفیسر عباس رضا نیر بھی ساتھ ہو لیے۔۔۔۔ اتنا بڑا کام ہو رہا ہو اور درمیان میں کوئی خفگی اور ناراضگی پیدا نہ ہو‘ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ یہ بھی تو انسانی نفسیات کا لازمی جزو ہے۔لہٰذا یہ فریضہ ڈاکٹر کہکشاں انجام دیتی رہیں اور ڈاکٹر عطیہ کے ساتھ بعض دوسرے مصلحین گروپ اُنہیں سنبھالتے رہے۔۔۔ ایک خاص بات یہ رہی کہ پروگرام کی مرکزی شخصیت یعنی پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے آپ کو اِن تمام معاملات سے خود کو الگ تھلگ رکھا۔ اُنہوں نے کوئی رائے دی اور نہ ہی مداخلت کی۔ البتہ اُن کی موجودگی ہم سبھوں کو سرپرستی کا احساس دلاتی رہی اور ہم اِسی احساس سے روشنی اور توانائی حاصل کرکے رفتہ رفتہ منزل منزل آگے بڑھتے گئے۔ ابتدا میں ہمیں اندازہ نہ تھا کہ مجوزہ جلسہ بین الاقوامی سطح کے ایک جشن کی صورت اختیار کرلے گا لیکن نجانے کیسے کیسے مدد ملتی گئی اور ہمارے حوصلے بڑھتے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معاملہ یہاں تک آپہنچا۔ ہم اِس کے لیے آپ سب کے شکرگزار ہیں۔
پروفیسر شارب ردولوی اور پروفیسر شمیم نکہت دلّی کے ادبی حلقوں میں اور مجموعی طور پر پوری اُردو دُنیا میں ایک مثالی جوڑی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں جنہوں نے طلبہ کو صرف تعلیم ہی نہیں دی بلکہ اُن کی تربیت بھی کی اور اُن کی حسب ضرورت سرپرستی بھی کی۔وہ اپنے طلبہ و طالبات کی اپنے بچوں کی طرح نگہبانی اور پاسبانی کیا کرتے تھے۔ جذباتی و اخلاقی سہارا دیتے تھے۔ موقع بہ موقع مالی اعانت کرتے تھے۔مگر اُن کی ذاتی زندگی میں فلک نہ کچھ ایسے ستم ڈھائے کہ یہ لوگ ٹوٹ کررہ گئے۔ اِن دونوں نے اپنی بیٹی شعاع کی جواں مرگی کا غم اُٹھایا۔ لیکن انہوں نے اِس غم سے ایک مثبت راہ ڈھونڈ ھ نکالی اور زندگی بھر کی کمائی کوٹرسٹ کی شکل میں مجتمع کرکے قوم کے نام وقف کردیا اور دونوں ہی شبانہ روز غریب اور پسماندہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں لگ گئے۔ ہزاروں بچے اُن سے استفادہ کرکے اپنا مستقبل سنوار رہے تھے ۔سلسلہ جاری ہی تھا کہ استاد محترم کے سر پرایک اور آسماں گرپڑا۔خدا نے میڈم کو اپنے پاس بلا لیا۔ اُن کے چلے جانے کے بعد پروفیسر شارب ردولوی یکا و تنہا رہ گئے۔ اُنہوں نے اپنی تازہ کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ:
’’شمیم نکہت کے انتقال کے بعد محسوس ہوا کہ شمیم میرے لیے کیا تھیں۔ اور تنہائی کسے کہتے ہیں۔ اور تنہائی کا ایک دن بھی گزارنا کس قدر مشکل ہے۔ نوجوانی کی تنہائی میں رومانیت اور اُمید تھی اور اب اس عمر میں کسی سے کچھ نہ کہہ پانے کا کرب بڑا عجیب ہے جس نے میرے کام کو شدت سے متاثر کیا ہے۔‘‘ (ترقی پسند شعر ی فکر اور اُردو شعرا۔ص11)
اِس کرب کے باوجود ‘ چونکہ پروفیسر شارب ردولوی زندگی کو بامعنی بنانے کا ہنر جانتے ہیں‘ اُنہوں نے ایک بار پھر نئے سرے سے اپنے آپ کو قوم کی خدمت کے لیے پورے آب و تاب کے ساتھ وقف کردیا ہے۔دوسری طرف ادبی سرگرمیاں بھی جاری رکھی ہیں ۔ پیری کو منھ چڑھاتے ہوئے اور ضعف کو انگشت بدنداں کرتے ہوئے وہ اپنے مشن میں لگے ہوئے ہیں۔
میں اپنی بات اُن کی حالیہ کتاب ’’ترقی پسند شعری فکر اور اُردو شعرا‘‘ کے انتساب پر ختم کروں گا جواُن کے مشن اور اُن کے فکر کی عکاس ہے۔ اس میں اُن کے اپنے خیالات و جذبات بھی ہیں اور طلبہ اور نئی نسل کے لیے پیغام بھی۔ ملاحظہ کیجیے:
اپنے شاگردوں کے نام
جو مجھے اولاد کی طرح عزیز ہیں
یہ قلم
جو مجھے
میرے جدوآبا کی وراثت میں ملا تھا
یہ تمہیں سونپ رہا ہوں
یہ امانت ہے نئی نسلوں کی
اس میں ہر رنگ ہے‘ ہر طرح کی خوشبو ہے بسی
اس میں ان خوابوں کی تعبیر بھی ہے
جو کبھی دیکھے تھے‘ اُن نسلوں نے
اس میں وہ خواب بھی ہیں‘ میں نے جنہیں دیکھا تھا
امن کے‘ خوشیوں کے اور عشق کی
سرشاری کے
یہ امانت ہے نئی نسلوں کی
اس کی خوشبو کو اسی طرح سے باقی رکھنا
دیکھنا رنگ کوئی اس کا نہ اُڑنے پائے
اس کی خوشبو سے مہکتے رہیں سب کوہ و دمن
اور یہ لفظوں کے چمن
یہ قلم
٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular