Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldسوکھے پیڑ کی چھاؤں

سوکھے پیڑ کی چھاؤں

تقدیس نقوی

سردی اتنے کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے اور اوپر سے دھند اتنی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہاتھا. تھوڑے تھوڑے وقفے سے ہورہی بارش نے تو گویا رگوں میں دوڑتا خون تک منجمد کردیا تھا.
وہ اسی سوکھے پیڑ کی آڑ میں جہاں اس نے برسوں سے اپنا گھر بسایا ہوا تھا اپنے نیچےپھیلی دری کے اگلے کونوں کو سمیٹ کر گویا اپنے گھر کو مقفل کرکے سونے کی تیاری کا اعلان کررہا تھا.اسکا یہ بے سایہ گھر ایک پھٹی پرانی دری‘ ایک عدد پرانا کمبل اور ایک ایلومونیم کی تھالی پر مشتمل تھا. سردی اتنی شدید تھی کہ اسکی دری اور پھٹا ہوا کمبل اسکو پورا ڈھانکنے کے لئے ناکافی تھے. اس نے سردی سے خود کو بچا نے کے لئے کئی بار سکڑ سکڑ آکر گٹھری بن کراہنے کمبل میں پناہ لینے کی کوشش بھی کی مگر ناکام رہا.ٹانگیں سکیڑ کر سینے سے لگا لینے کے باوجود بھی کمبل سر تک لیجانے کی کوشش میں اسکی یخ پنڈلیاں ایسے کھلی نظر آرہی تھیں جیسے کسی مردے کے چہرے سے کفن سرک گیا ہو.اوپر سے ہلکی ہلکی ہورہی بارش اس کے کمبل سے ملتی تھوڑی بہت گرمی کے درپئے تھی. بارش سے بچانے کے لئے سر کے اوپر بے برگ وثمر پیڑ بھی بے سایہ اور بے بس تھا کیونکہ وہ بارش میں بھیگنے کے باوجود بھی سوکھا تھا. لے دیکے سر کے اوپر کارپوریشن کا ایک دھندلا لمپ ہی تھا کہ جس کو وہ ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا تو ایک موہوم سی گرمی اسکے چہرے پر منہ سے نکلی گرم بھاپ کے ساتھ پھیل گئی.
ابھی اس نے اپنا کمبل اپنے سر کو ڈھانپنے کے لئے ٹھٹرے ہاتھوں سےاوپر کھینچا ہی تھا کہ اس کواپنے کھلے پاؤں پر گرم گرم پانی کی دھار کا احساس ہوا. آٹھ کر دیکھا تو قریب ہی ایک شمپو سے دھلا دھلایا سفید پامیرین چھوٹا سا پپیجس کوکتا کہنا حیوانیت کے زمرے میں آسکتا ہےٹانگ آٹھاکر اپنے کام سے فارغ ہوکر اس کے کمبل کو سونگھ رہا تھا.
یوں تو اس موڑ پر کہ جو ایک بہت بڑے شاپنگ سنٹر اور اسکی پارکنگ کے درمیان واقعہ تھا اسکو اپنا یہ مختصر سا بے در و دیوار کا گھر بسائے ہوئے برسوں گزر چکے تھے اور اس گھر کے پڑوسیوں کی حیثیت سے کتنے ہی کتے اور بلیاں اسکے صبح و شام مہمان رہتے تھے مگر ایسے دھلے دھلائے سفید براق خوبصورت پامیرین جس کے گلے میں ایک بہت قیمتی پٹہ بھی پڑا ہوا تھاکہ جو اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ کسی کھاتے پیتے گھر کا چشم و چراغ ہے سے اتنے قریب سے ملاقات کرنے کا شاذو نادر ہی موقع ملتا تھا.
اکثر اسکی پھیلی ہوئی دری اور کمبل پر استراحت کرتے ہوئے کچھ مخصوص کتوں اور بلیوں کو دیکھ کر یہ گمان لگانا مشکل ہوتا تھا کہ وہ اس بوڑھے کے مہمان ہیں یا میزبان. ان کتوں اور بلیوں کے اس کے ساتھ اتنے قریبی گھریلو مراسم اور منہ کاٹی روٹی والےتعلقات اور بے تکلفی کی بنیادی وجہ اس سوکھے پیڑ کی پشت پرموجود چاو من بیچنے والے کا وہ کاوئنٹر تھا کہ جوان سب کے لئے خوراک کا مشترک مسلسل اور مفت سپلائر تھا.
اس چاو من کاؤنٹر کے ارد گرد ہمیشہ امیر زادوں اور زادیوں کی ہی بھیڑ جمع رہتی جس کے باعث قرب وجوار میں بڑی رونق رہتی تھی. وہ اپنے کمبل میں لپٹا اکثر ان جوڑوں کی باہمی گفتگو کو کسی دلچسپ ریڈیو پروگرام کی طرح کان لگا کر سنتا رہتا اور دل ہی دل میں اپنی جوانی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے انکی اس دل آویز گفتگو میں اپنی زیر لب ہوں ہاں سے شامل رہتا.
اکثر لوگ اپنی مہنگی گاڑیوں سے اتر کر اس کاوئنٹر کے اردگرد کھڑے ہوکر ہی اپنی چاو من کی بھوک مٹاتے کیونکہ وہاں بیٹھنے کا کوئ معقول انتظام نہیں تھا.
یوں بھی ہوتا کہ نوجوان جوڑے وہاں آکر چاو من کا آرڈر تو پورا دیتے مگر کھانے سے زیادہ وقت آپسی بات چیت میں یا بغیر بات چیت کے گزارتے تھے جس کے نتیجے میں پورا کا پورا آرڈر اس بوڑھے اور اسکے ساتھی ان کتے بلیوں کو ہی نپٹانا پڑتا. کچھ لوگ اپنے بچوں کو گھر پر چھوڑکراپنے ساتھ اپنے قیمتی پیٹ(PET)کتے بلیوں کو بھی اس سنٹر میں لیکر آتے تھے جس سے اس سنٹر کی اور ساتھ ہی اس چاو من کاؤنٹر کی بھی مقبولیت مزید بڑھ گئی تھی.
بڑھتی سردی اور مسلسل بارش کے سبب چاو من کاؤنٹر بھی آج قدرے پہلے ہی بند ہوچکا تھا جس کی جلتی انگیٹھیوں سے تھوڑی بہت ملتی گرمی کاؤنٹر والے کے ساتھ ہی رخصت ہوچکی تھی. کارپوریشن کے لمپ کی اوپر سے آتی دھندلائی ہوئ مدھم سی روشنی میں اسے اگر کچھ نظر آرہا تھا تو وہ سفید چمکتا ہوا بھولا بھالا سا پامیرین ہی تھا.
بوڑھے نے اسے چمکارا اور اسکو آپنے قریب کرنے کے لئے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن گھبراکر فورا” ہی واپس کھینچ لیا.اس نے ایک لمحے کے لئے اپنے میلے کچیلے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور پھر اس سفید براق پامیرین کی طرف نگاہ ڈالی.اسکو کچھ سوچ کر اک پھریری سی آگئی. اچانک اسکو ایسا لگا کہ جیسے وہ اپنے ان دونوں میلے ہاتھوں سے اس پامیرین کو چھونے نہیں بلکہ اس کا گلا گھونٹنے جارہا تھا. لیکن دوسرے لمحے ہی اپنی یہ ہچکچاہٹ دور کرتے ہوئے خود سے سوال کرنے لگا کہمانا کہ سیاہ اور سفید کا یہ فرق نسلوں پرانا ہے مگر سردی توسب ہی کو لگتی ہےچہ جائیکہ یہ بے زبان کتا کہ جو اس وقت کسی پناہ کی تلاش میں ادھر نکل آیا تھا.اور پھریہی سوچ کر اس نے بے اختیارانہ اس پامیرین کو اپنی گود میں لے لیا.سخت سردی کے سبب ہورہیاس کی کپکپاہٹ کو کم کرنے کی غرض سے جب اس نے اس کو اپنے سینے سے قریب کرکے بھیچنا چاہا تو اسکی سفید بے ہنگم داڑھی غیرارادیطور سے کتے کے ملائم فر پر برش سی کرنے لگی.ایک لمحے کے لئے اسے باوجود اپنی کم مائیگی کے ایک پاکیزہ انسانی مشفقانہ جذبے کی گرمی کا احساس ہوا.اس کو گود میں لیکر اب وہ یہ بھول چکا تھا کہ اسکے گود میں لے لینے کے باعث اگر کتے کا فر میلا ہوا تو اس کے پاس تو اسے شمپو کرانے کے لئے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے.قیمتی پٹے کو مس کرنے کی ہمت تو پہلے ہی ٹوٹ چکی تھی.
گود میں اسے لیکر اس نے محسوس کیا کہ کتے کا جسم پورا ٹھنڈا ہوچکا ہے اور وہ بے انتہا سردی کے سبب نڈھال سا ہو رہا تھا. پہلے بوڑھے نے اس کے بھیگے ہوئے جسم کو اپنے پاس پڑے ہوئے ایک انگوچھے سے خشک کرنے کی کوشش کی اور پھر اسے اپنے پھٹے ہوئے کمبل میں لپیٹ لیا. کمبل کی خستگی’ تنگ دامانی’ اور بارش کے سبب نمی نے اتنی گنجائش نہیں چھوڑی تھی کہ اس میں وہ خود اور اسکا بن بلایا مہمان دونوں ایک ساتھ بخوبی سما سکتے. کتا ابھی بھی کپکپا رہا تھا. بوڑھے کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اتنی رات گئے اور اس کڑاکے کی سردی میں وہ کس طرح اس بے چاری ننھی سی جان کو سردی سے بچاسکے گا.دور دور تک کوئ آتا جاتا بھی نظر نہیں آرہا تھا. سردی اور بارش کے سبب وہاں کا چوکیدار بھی غالبا” کسی جگہ پڑا ہوا سورہا ہوگا.
ابھی تک وہاں کوئ بھی اس پالتو پامیرین کو تلاش کرتا ہوا نہیں پہنچا تھا. غالبا” اس کے مالک اسے ہر جگہہ ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کے بعد تھک ہار کر اپنے گھر واپس جا چکے ہونگے. اب جو کچھ ہونا ہوگا صبح ہونے پرہی پتہ چل سکے گا. بوڑھا پریشانی کے عالم میں کچھ سوچنے لگا. پھر اچانک اپنے جسم پر پہنا ہوا کھدر کا موٹا کرتا اتارنے لگا کہ جس میں لمبی لمبی گہری سی دو جیبیں بھی لگی تھیں جو اسکی دراصل سیف باکس تھیں کہ جہاں وہ ہمیشہ اپنی جوڑی ہوئ رقم اور دیگرقیمتی چیزیں رکھتا تھا. کرتا اتار کر اسنے اس میں کتے کو بہت اچھی طرح سے لپیٹ دیا اور پھر اس کے اوپر کمبل کو بھی اس طرح ڈھانپ دیا کہ کتے کو کسی جانب سے بھی ہوا لگنے کا امکان نہ رہا.اس طرح گویا اس نے اپنی زندگی بھر کی کمائ اور بچی کچی پونجی اس کتے کی حفاظت پر نچھاور کردیاور اب وہ خود ننگ دھڑنگ سکڑا ہواکتے کو اپنے کرتے اور کمبل میں لپٹائے صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا.
صبح کو سورج کو نہ نکلنا تھا سو وہ نہ نکلا. مگر ننھے پامیرین نے بوڑھے کے کمبل سے سر ضرور نکالا اور اپنی مخصوص آواز میںغالبا” اپنے مالک کو بلانے لگا. کچھ ہی دیر میں بوڑھے کے چاروں طرف لوگوں کی ایک بھیڑ جمع ہوچکی تھی. ایک میڈم اپنے ہاتھ میں ایک باسکٹ اٹھائے روتی ہوئ اس بوڑھے کے کمبل میں لپٹے ہوئے کتے کی جانب دوڑیں اور چیخ چیخ کرکہنے لگیں:
“یہ بوڑھا چور ہے اسی نے میرے’جیکی’ کو چرایا تھا. میں کل رات سے اسے تلاش کررہی ہوں اور اس نے اسے یہاں اہنے کمبل میں چھپایا ہوا ہے تاکہ اسے بیچ کر ایک موٹی رقم حاصل کرلے.”
پریشان حال خاتون نے قریب کھڑے ہوئے کانسٹیبل کو بھی جھنجھوڑنے ہوئے کہا:
” اپ اس بوڑھے کو گرفتار کیوں نہیں کرتے. یہی وہ لوگ ہیں کہ جو آئے دن میرے ‘جیکی’ جیسے بھولے بھالوں کو چراکر بازار میں بیچ دیتے ہیں”
کانسٹیبل بھی حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے فورا” آگے بڑھا اور اس نے کمبل سے پرے ننگ دھڑنگ پڑے ہوئے اس بوڑھے کو اپنے بوٹ سے ٹھوکا دیا اور چیختا ہوا بولا:
” او بابا کھڑا ہواور صاف صاف بتا کہ یہ کتا تو نے ہی چرایا تھا ؟ ”
بوڑھے نے کوئ جواب نہیں دیا. کانسٹیبل کے ساتھ اور لوگ بھی چیخ چیخ کر اسکو جگانے لگے مگر وہ یوں ہی ساکت پڑا رہا اور کوئ جواب نہ دیا کیونکہ مردے کب کسی کو جواب دیتے ہیں.
ضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular