Thursday, May 9, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldسزائے موت اچھا قدم لیکن سماج بھی نبھائے ذمہ داری

سزائے موت اچھا قدم لیکن سماج بھی نبھائے ذمہ داری

(کاظم رضا شکیل)

کٹھوعہ ریپ کیس کے بعد ملک سمیت پوری دنیا میں شرمندگی کا سامنا کررہی مرکز میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت نے آج بھلے ہی کابینہ میں 12 سال سے کم عمر کی بچیوں سے عصمت دری کے قصور واروں کو عدالتوں سے سزائے موت دینے سے متعلق ایک آرڈی نینس کی آج منظوری دے دی ہے سبھی ریپ کیسوں کی جانچ دو مہینے کے اندر لازمی طور پر پوری کرنی ہوگی۔ یہ اچھا قدم مانا جاسکتا ہے لیکن اس میں سماجی ذمہ داری ایک بڑا روڑا ہے۔ اترپردیش کی یوگی حکومت نے اس قانون کی مانگ پہلے کی تھی اس میں سزائے موت کا نظم کیا جائے۔ صرف بارہ سال سے کم کی بچیوں کے ساتھ عصمت دری پر ہی نہیں بلکہ کسی بھی عمر کی خواتین کے ساتھ عصمت دری ہو اس کے قصوروار کو سزائے موت ہی ہونا چاہئے۔ مذہب اسلام میں عصمت دری کرنے والے کی سزا موت ہی ہے چاہے وہ کوئی ہو سزاموت کی ہی ملے گی کئی مسلم ممالک میں ہی نہیں بلکہ چین، شمالی کوریا، اقوام متحدہ، عرب سمیت کئی ایسے ممالک ہیں جہاں پر ریپ کے کیس سزائے موت کے معاملے میں دیر نہیں کی جاتی جتنی جلدی ہوسکے کیس پر کارروائی کردی جاتی ہے۔ ضروری ہے ہمارے یہاں بھی آبروریزی معاملے پر فیصلہ جلد سے جلد ہو تاکہ قصوروار کو ملی سزا لوگ یاد رکھ سکیں۔ اس سے ڈریں لیکن اس کے ساتھ ہی ضروری ہے غیرجانبدارانہ جانچ ہونا۔ بات یہ ہے کہ موت کی سزا کا قانون دفعہ 302 میں پہلے سے ہی موجود ہے لیکن کیا قتل معاملے ملک میں ختم ہوگئے ، نہیں۔ اس کی صاف وجہ ہے اونچی پہونچ، دوسری رشوت خوری اور تیسری سماج کی غیرذمہ داری۔ اب یہی کچھ آج کے آرڈی نینس پر بھی نظر آتا ہے۔ کیا موت کی سزا کے انتظامات سے اب بارہ سال سے کم کی بچیوں کے ساتھ عصمت دری نہیں ہوگی یہ ایک سوال ہے۔ میڈیا میں آرہی خبروں کے مطابق کٹھوعہ معاملے میں روزانہ کوئی نہ کوئی نیا موڑ بھی آتا نظر آرہا ہے جہاں یہ رپورٹ آئی کہ آصفہ کے ساتھ عصمت دری کی تصدیق نہیں ہوئی وہیں آج دہلی کی فارنسک لیب کی رپورٹ بھی بحث میں آگئی کہ مندر میں خون کے جو دھبے ملے ہیں وہ متاثرہ کے ہی ہیں اب تو صاف ہوگیا کہ مندر میںبچی کے ساتھ عصمت دری ہوئی۔ کون ہے جو بار بار خبر کا رُخ موڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی کبھی اس کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے کہیں ہندو مسلم ہونے لگتا ہے تو کہیں پارٹی بندی۔
اُنائو میں تو دونوں فریق ہندو ہی ہیں۔ کہیں پر آج تک مسلمانوں نے نہیں کہا کہ مندر میںریپ ہوا تو مندر میںکوئی توڑپھوڑ ہو کہیں اس پر مذہبی تفریق کا اظہار نہیں کیا گیا جس طرح اس میں سماجی ذمہ داری نبھائی گئی ویسے ہی ضروری ہے سزا دلانے میں سبھی ایک ساتھ ہوکر سماجی ذمہ داری نبھائیں تب تو آرڈی نینس کا کوئی مقصد ہے ورنہ سب ایک رسمی ادائیگی ہی ثابت ہوگی۔ سماج کو خود اس معاملے میں آگے آنا ہوگا۔ کٹھوعہ کیس نے سماج کے شہریوں کی آنکھیں کھولنے کا کام کیا لیکن میںکہوں گا سب کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ اگر کھلی ہوتیں تو جموں و کشمیر میں بی جے پی کے وزیر استعفیٰ نہ دیتے بلکہ حکومت برخاست ہوتی۔ ملزمین کی حمایت میں مظاہرہ، پولیس پر دبائو، رپورٹ میں تبدیلی پھر بھی سماج اپنی ذمہ داری سے بھاگتا رہا۔ انتظار اس بات کا ہوتا ہے کہ کوئی آگے بڑھے۔ کچھ تو یہ سمجھتے ہیں کہ کون پولیس اور عدالت کے چکر میں پڑے۔ پولیس، ڈاکٹر، افسر اور جج و لیڈر بھی سماج کا ہی حصہ ہیں۔ اگر عدالت یہ پوچھے کہ اس کیس سے آپ کا کیا تعلق ہے تو کون عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ اگر وزیر کہے یہ ہماری پارٹی کا حامی ہے اور پولیس ملزم کو عزت بخشے تو فریاد کس سے کی جائے۔ ڈاکٹر کہے کہ پیٹ کے درد کی شکایت پر علاج کیلئے داخل کرایا گیا تھا اور موت ہوگئی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں نکلے کہ مار کھانے کی وجہ سے آنتیں پھٹ گئیں تو ناخدا کہے جانے والے ڈاکٹر پر یقین کیسے کریں۔ ضروری ہے سخت قانون کے ساتھ سماج کے لوگوں کی ذمہ داری کی ملزمین کی حمایت کرنے والوں کے خلاف بھی سخت سزا کا انتظام ہونا چاہئے۔ تعجب ہے کہ اقوام متحدہ تک میں ہمارے ملک میں ہورہی عصمت دری کی آواز اٹھتی ہے اور ہمارا وزیراعظم کا ایک بیان تک نہیں آتا۔ کیا سماج کے تئیں ان کی آئینی اور سماجی ذمہ داری نہیں ہے۔ کسی قانون کے سختی سے نافذ ہونے کے لئے سماج کے لوگ اپنی ذمہ داری نبھائیں۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular