Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeArticleسردیاں گلزار سی

سردیاں گلزار سی

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


حمیرا عالیہ

میں نے جونہی صفحہ قرطاس پہ تحریر کیا گلزار تو سارے موسم ایک ایک کرکے دل کے دروازوں پر دستک دینے لگے۔کہیں عشق کی رم جھم بارش برسنے لگی۔کہیں ہجر کی خزاں اترنے لگی تو کہیں سردیوں میں وصل کے الاؤ جلنے لگے۔ یہ گلزار ہی تو ہیں لفظوں سے زندہ مناظر تخلیق کرتے ہیں۔وہی گلزار جو تمام موسموں پر دسترس رکھتے ہیں۔چاہے دل کے موسم ہوں یا دنیا کے۔وہ ہر موسم میں اسی شدت کے ساتھ محسوس کئے جاسکتے ہیں۔چلئے پھر گلزار کے ساتھ سردیاں گزارتے ہیں۔
یخ بستہ جنوری میں گلزار گلابی دھوپ سے لگتے ہیں۔جب برفیلی بارش کی ٹھنڈک آپ کے رگ و پے میں اتررہی ہو تو گلزار کا ہاتھ تھام لیجئے۔ان کی لازوال اداسی کی دھیمی دھیمی آنچ آپ کے جسم و جاں کو پگھلا دے گی۔محبت تو مرہم ہوتی ہے۔لیکن دکھ ۔۔۔دکھ سلگتی آگ ہوتا ہے۔جلتے بجھتے شعلے کی تپش سے آپ کا روم روم سلگنے لگتا ہے۔
برف پگھلے گی جب پہاڑوں سے
اور وادی سے کہرہ سمٹے گا
بیج انگڑائی لے کے جاگیں گے
اپنی السائی آنکھیں کھولیں گے
سبزہ بہہ نکلے گا ڈھلانوں سے
غور سے دیکھنا بہاروں میں
پچھلے موسم کے بھی نشاں ہونگے
کونپلوں کی اداس آنکھوںمیں
آنسوؤں کی نمی بچی ہوگی
ہلکی سی کسک لئے ہوئے میٹھے زہر سا دکھ۔۔۔ گلزار جذبات کے شاعر ہیں۔تبھی تو ان کی لکھی نظمیں ہر شخص کو اپنی ترجمان لگتی ہیں۔وہ ماضی اور مستقبل کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔بیتا ہوا غم ہمیشہ ان کے ہمراہ دوست بن کر رہتا ہے۔سردیوں کی پرسکون لمبی راتیں وہ اس طرح گزارنا چاہتے ہیں۔
برفیلی سردیوں کی کسی رات میں کبھی
جاکر اسی پہاڑ کے کونے میں بیٹھ کر
وادی میں گونجتی ہوئی خاموشیاں سنیں
وہیں دسمبر جنوری کی چھوٹی چھوٹی دوپہریں انہیں تنہا اچھی نہیں لگتیں۔پھر وہ خواہش کرتے ہیں۔
جاڑوں کی نرم دھوپ اور آنگن میں لیٹ کر
آنکھوں پہ کھینچ کر ترے آنچل کے سائے کو
اوندھے پڑے رہیں کبھی کروٹ لئے ہوئے
یہ ہیں گلزار! جو گھنے کہرے میں دھوپ کا منظر تخلیق کرتے ہیں اورآپ اس کی حرارت سے بچنے کے لئے کسی کا آنچل اپنے چہرے پہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔یہ گلزار کی Power of Creationہے کہ وہ جو منظر تخلیق کرتے ہیں وہ مجسم ہوجاتا ہے۔گلزار اعلی درجے کے فنکار ہیں۔گلزار انوکھے کہانی کار ہیں۔
شاعری میں تخیل کو جو اولیت و اہمیت حاصل ہے اس سے ہر اہل علم واقف ہے۔تخیل شاعری کی بنیاد ہے۔تخیل کی پرواز بلند ہو تو اندھیرے کمرے میں بھی باغ ارم تخلیق کیا جاسکتا ہے۔گلزار جب تخیل کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں تو وہ جادوئی دنیاؤں کی سیر پر نکل پڑتے ہیں۔ایلس کے ونڈر لینڈ سے ہوتے ہوئے وہ کوئین ایلسا کے فروزن کنگڈم تک جاپہنچتے ہیں۔ان کا قلم ان کی جادوئی چھڑی بن جاتا ہے جو عام سی چیزوں کو بھی انتہائی دلکش اور خوبصورت بنا دیتا ہے۔ایلسا ہتھیلی سے اشارہ کرتی ہے تو برف اس کی مرضی کے مطابق شبیہیں اختیار کرنے لگتی ہے۔گلزار قلم چلاتے ہیں تو لفظ ان کے اشارے پر طلسم تیار کرنے لگتے ہیں۔پانی کے بلبلوں میں رنگین دنیائیں نظر آنے لگتی ہیں۔بادل میں پریوں کے محل کے برج اور گنبد دکھائی دینے لگتے ہیں۔وہ مصورانہ مہارت کے ساتھ الفاظ سے مناظر پینٹ کرتے جاتے ہیں۔ان کا جمالیاتی شعور انہیں معمولی مناظر میں بھی خوبصورتی کا احساس کرا دیتاہے۔سردیوں میں جب کہرا بھرا آسمان سیاہ ماتمی چادر جیسا لگنے لگتا ہے اس عالم میں بھی گلزار کا تخیل اور ان کی مصورانہ جبلت انہیں منفر د تصویریں بنانے پر اکساتی ہے۔
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے اونچے پہاڑوں پر
چاند نکل کر دیکھتا ہے اب کتنی برف گری ہے
موسم ٹھیک لگے تو ایک ایک کرکے تاروں کوبلواتا ہے
کچھ اون پہن کر آتے ہیں کچھ کچھ کانپتے کانپتے
اس کی آنکھ سے اوجھل ہو کر چھپ بھی جاتے ہیں
آدھی رات ہوتے ہوتے جب آسمان بھر جاتا ہے
’’ہش ہش‘‘ کی آوازیں آنے لگتی ہیں
اور گدڑیا ہانک کے لے جاتا ہے اپنے تاروں کو!
اس نظم کی علامتی تہوں میں اتر کر دیکھاجائے تو نجانے کتنے مفاہیم و مطالب سامنے آئیں گے لیکن اگر صرف جمالیاتی تسکین کے لئے بھی پڑھی جائے تو محض اپنے بولتے مناظر کے باعث یہ اپنا تاثر قائم کرنے میں مکمل طور سے کامیاب ہوتی ہے۔زرا اونی لبادوں میں کانپتے ٹھٹھرتے تاروں کا تصور کیجئے جو چاند کے ساتھ لکا چھپی کھیل رہے ہیں۔سردی کی رات کا اتنا خوبصورت منظر پہلے کہیں دیکھا ہے آپ نے؟گلزار کے تخیل کی یہ انفرادیت آپ کے اندر کے بچے کو بھی کھلکھلانے پر مجبور کردے گی۔کیونکہ گلزاراس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ
دل تو بچہ ہے جی
تھوڑا کچا ہے جی
پھر جب چاندتاروں کے ساتھ کھیل کر تھک جاتے ہیں تو سکون کی تلاش میں محبوب کے لمس کی تمنا کرتے ہیں۔آہ !! یہ آدم و حوا کا ازلی ابدی تعلق۔کہ دنیا کی کوئی آسائش وہ لطف اور سرشاری فراہم نہیں کرسکتی جو جنس مخالف کو ایک دوسرے کے لمس سے حاصل ہوتی ہے۔عشق ایک ماورائی حقیقت ہے اور لمس اس حقیقت کا استعارہ۔لمس میں شفا کی تاثیر ہوتی ہے۔لمس میں روح کی تسکین ہوتی ہے۔اور اس لمس کو جب گلزار محسوس کرتے ہیں تو پھر نظم تخلیق ہوتی ہے۔
اک رات چلو تعمیر کریں
خاموشی کے سنگ مرمر پر
ہم تان کے تاریکی سر پر
دو شمعیں جلائیں جسموں کی
جب اوس دبے پاؤں اترے
آہٹ بھی نہ پائے سانسوں کی
کہرے کی ریشمی خوشبو میں
خوشبو کی طرح ہی لپٹے رہیں
اور جسم کے سوندھے پردوںپر
روحوں کی طرح لہراتے رہیں
گلزار کی بارشیں بولتی ہیں۔چنچل بوندیں خواہشوں کے ساتھ مل کر خوب شور مچاتی ہیں۔ لیکن سردیاں خاموش ہیں۔مشرقی دلہن کی طرح دل میں ارمان چھپائے اوپر سے چپ کی چادر اوڑھے رہتی ہیں۔ان سردیوں میں قطرہ قطرہ جلتے موم جیسے خواب ہیں۔راکھ میں دبی چنگاری جیسے سلگتے دکھ ہیں۔پیشانی پہ بوسے کی مانند نرم سی دھوپ ہے اور جذبات کے جلتے الاؤ ہیں۔اتنا مکمل موسم لفظوں کے ذریعے طاری کرنے والا محض ایک فلم ڈائرکٹر کیسے ہوسکتا ہے۔ایمانداری سے کہیں تو گلزار جادوگر ہیں ۔۔۔ساحر ہیں۔ جو جادو کی چھڑی گھماتے ہیں اور موسم تبدیل ہوجاتے ہیں۔
ریسرچ اسکالر،لکھنؤ یونیورسٹی

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular