Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeArticleدیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا

دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

ڈاکٹر زیبا محمود

شاعر وہی ہے جو ذرات کے دلوں کی دھڑکنوں کو سنتا اور سمجھتاہو۔۔۔شاعروہی ہے جو شبنم کے قطرات میںبحر بیکراں کی گہرائی اور گیرائی، تہہ و بالا ارتعاش، امواج طوفان جزرومد دیکھتا ہے۔۔۔شاعر وہی ہے جسے ہر شے میں حسن فطرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔
اجملؔ سلطانپوری
بیسویں صدی کے اوائل نے ہندوستان میں فکرو خیال کے بہت سے دھندلے گوشے اجاگر کئے۔شعروادب کی دنیا میں بھی نئے نئے رجحانات اور میلانات پیدا ہوئے۔جس میں فکر وفن کے آہنگ کا مسئلہ خصوصیت کے ساتھ اہم تھا۔روایتی تصورات نے فنی التزامات کو بنیادی اہمیت دے رکھی تھی۔غزل کی روایت فکر وخیال کا متعین محور بن چکی تھی ۔اس کو بڑی حد تک تہذیبی محور کی حیثیت حاصل تھی لیکن غزل کے فکری اور جذباتی تارو پو دمیں اب وہ تازگی نہیں تھی۔اسے نئے رنگ و آہنگ کی ضرورت تھی۔ایسی حالت میں شعرا کے لئے فنی تربیت ہی جانِ شاعری بن کر گئی تھی ۔دوسری طرف وہ طبقہ تھا جو نئے فکرو احساس کو سمونے کے لئے فنی تبدیلیوں کو نظر انداز کر دینے کا حامی تھا۔ادب کے اس بحرانی دور میں ریاست اتر پردیش کے مشرقی افق پر سلطانپور سے(۱۹۲۶ء) ایک ایسا ستارہ طلوع ہوا جس نے آگے چل کر اپنی نعتوں،غزلوں اور خوبصورت پابند نظموں سے نہ صرف اپنے قصبے کو پر نور کیا بلکہ اس صوبے کی عظمت کو بھی چار چاند لگائے۔یہ اختر تابندہ کوئی اور نہیں بلکہ مرزامحمد اجمل بیگ اجملؔ سلطانپوری ہے۔ اردو زبان و ادب کا مؤرخ نظر انداز نہیں کر سکتا نہ ہی اس سر زمین کو جسے اجمل سلطاپنوری کی ’’جنم بھومی‘‘ ہونے کا شرف حاصل ہے اجمل نے اس دانش کدے کی ادبی فضا کو اپنی نعتوں،غزلوں اور خوبصورت پابند نظموں سے مزین و سرفراز کیا۔ اجمل سلطانپوری کا تعلق اس مکتبہ فکر سے ہے کہ وہ نہ تو نئے اسالیب فکرو خیال سے گریز کرتے ہیں اور نہ فنی رچاؤ سے بے پروا نظر آتے ہیں۔ان کی داخلیت نہ تو ماحول سے بے نیاز رہتی ہے اور نہ ماحول کا احساس داخلیت سے بے نیاز ہو نے پاتا ہے۔اجمل سلطانپوری زمانے کے ساتھ چلتے ہیں لیکن مشعل راہ خود ان کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے۔
ٍطبیعت کے لحاظ سے وہ باغ وبہار شخصیت کے حامل ہیں۔جن کے مزاج کی شگفتگی اور خوش گفتاری موقع و محل کے اعتبار سے لطیف طنز و مزاح کا ہلکا سرور بخشتی ہے۔کبھی کبھی لہجہ کی یہ سرور آفرینی حالات کی بنیاد پر صہبائے تند کی تلخیوں میں بھی بدل جاتی ہے لیکن یہ تلخیاں ناگوار سہی دیر پا نہیں ہوتیں۔احساسات کی مہمیز سے پیدا ہوا یہ عارضی تغیر ایک فطری عمل ہے۔لیکن مجموعی طور پروہ ایک خوش فکر مفکر ہیں۔ان کی رنگا رنگ شخصیت اپنا ایک مخصوص اور قابل رشک مقام رکھتی ہے۔
اجمل سلطانپوری کی شاعری کے متعلق واقف کاروں کا حلقہ وسیع تر ہے۔شاعری کے مستحکم اور تناور درخت پر تخلیق کے جوگلہائے خوش رنگ کھلے ہیں وہ بنیادی طور پر اسی فکرو فن کا شعری عکس ہیں ۔ان کی تخلیقیت نہ تو مبلغانہ ہے اور نہ انتہا پسندانہ ، نہ تو فنی میکانیت کا غلو ہے اور نہ خواب و خیال کو مدہوش کر دینے والی رومانیت ۔اس کے بر عکس ان کے یہاں وہ سادہ ذہن ملتا ہے جو گرد وپیش کا مطالعہ کرتا ہے اور اس کے مختلف تارو پو کا تجزیہ پیش کرتا ہے اور انھی میں سے مناسب اجزا کا انتخاب کرتا ہے۔انھی کی ترکیب سے اپنے تصور کی دنیا تعمیر کرتاہے جس کی انفرادیت میں عام انسانی احساسات کا زیر وبم ہے۔ان کے یہاں نہ فرارسے گریز ہے نہ سپردگی اور بے بسی، نہ اختلافات کی بے ذوق تبلیغ اور نہ محض نفسیاتی الجھنوں کی تسکین بلکہ اجمل سطانپوری کی دنیائے شاعری کے کردار انسان ہیں جن کی تخلیق احساسات کی متضاد لہروںپر مبنی ہونے کے باوجود ایک ایسے حسن امتزاج پر قائم ہے جن سے جینے کی آرزو ابھرتی ہے۔وہ نامیدی میں بھی امید اور رجا کی کرنیں تلاش کر لیتے ہیں۔انھیں یقین ہے کہ تیرگی کا دور دائمی نہیں ہے بلکہ یہ ا پنی آخری منزل میں ہے اور اب اس کا اختتام ہوا چاہتا ہے:۔ْ
جہاں سے دور اب ظلمت کا ڈیرا ہونے ولالا ہے
اجالا جلد پھیلے گا سویرا ہونے والا ہے
سحر ہو جائے تو جانا ابھی تو رات ہے راہی
ابھی تو رات ہے ۔۔۔
سکوت شب کے دریا میں بھی اک طوفان ہوتاہے
بندھی ہے ناؤ بھی اس پار اور مانجھی بھی سوتا ہے
سفینہ آئے تو جانا ابھی تو رات ہے راہی
ابھی تو رات ہے۔۔۔
اجمل سلطانپوری کی شاعری دل کی آواز بھی ہے اور دماغ کی تندی بھی۔ ان کی نظمیں خرمن میں حسن ستم کیش کی بجلیاں ہیں اور عشق وارفتہ مزاج کی والہانہ شگفتگی بھی۔جنوں کی پاکدامنی بھی ہے ۔ مناظر فطرت کی مصوری بھی ہے اور داخلی جذبات کی عکاس بھی۔عظمت انسان کی قصیدہ گوئی بھی اور اس کی پستی پر نوحہ گری بھی۔مذہب کا جوش و خروش بھی ہے اور حب وطن کا بیدار اساسی شعور بھی۔ماضی کی روایت سے وابستگی بھی اور نظام نو کا سنہرا خواب بھی۔غرض سب کچھ ہے جو زندہ اور پائندہ ادب کی جان ہے۔
تیری سیماؤں پہ ہم آنچ نہ آنے دیں گے
اپنی جنت کو جہنم نہ بنانے دیں گے
تری مٹی ہے شیدان محبت کا کفن
اے مرے پیارے وطن
مغرب کی سمت سے سوئے مشرق بوقت شام
اک بنت بحر موج طرب میں سبک خرام
ساحل پہ غوطہ خور حسینوں کا اژدہام
سیتائیں ڈبکی مار کے کہتی ہیں رام رام
ٹیلوں پہ کتنے کرشن ہیں ہنسی لئے مگن
کتنے پجاری حسن کے گانے لگے بھجن
یہ نیلی پیلی سرخ سی ہے اجلی بجلیاں
صد رشک لالہ زار یہ جاذب نظر سماں
مغرب میں آسمان کا مطلع شفق نشاں
چھایا ہوا سا آموں کے باغوں پہ وہ دھواں
جڑہن لگا دیا ہے کسانوں نے جھیل میں
لہرا رہے ہیں سبزے قریب ایک میل میں
اجمل سلطانپوری نے اپنی نظموں میںکوئی انوکھی یا چونکا دینے والی بات نہیں کہی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بات کرنے کا سلیقہ کیسا ہے۔تہذیب حاضر کے نظام بد نہاد او سرمایہ داری کی نگاہ زہر ناک کو آتش سیال پی پی کر زبان کے قالب میں ڈھالنا ان کا ہنر ہے۔جس سے لب و لہجہ میں وقار ہے تمکنت ہے تعمیری جذبہ ہے خلوص ہے ہمدردی ہے اور یہی انداز فکر ایک کامیاب نظم کو آفاقیت کے دوش بدش کر دیتا ہے اور یہاں شاعر محض کھوکھلی نعرہ بازی سے کام نہیں لیتا ۔
مائلِ جنبشِ لب ہند کے مزدور ہوئے
اور یہ کہنے پہ لاچار اور مجبور ہوئے
لڑ کھڑا کر نشہ بادہ ٔآزادی میں
گامزن کون ہواجادہ ٔآزادی میں
عزم نو کس کی تھکن کی ہر اک انگڑائی تھی
کس نے منزل پہ پہونچنے کی قسم کھائی تھی
ہند پر حق ہے ہمارا بھی تمہار اہی نہیں
نقش ہے تیشۂ فرہاد سے نامِ شیریں
یلغار کی آوازِ نو میرے لئے ہے
تلوار کی جھنکار ادا میرے لئے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
شمع، خورشید، قمر، برق، شرر، سیارے
ہے ترے ہی رخِانور کی ان سب میں چمک
لعل، یاقوت، شفق، پھول، حنا، انگارے
ہے ترے ہی لب و رخسار کی ان سب میں چمک
وہی اڑتے ہیں ہوئے چھینٹے ہیں یہ جگنو سارے
تیرے ساغر سے ازل ہی میں گئے تھے جو چھلک
بادۂ حسن مرے جام شفق رنگ میں ڈھل
۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جس کو تم نے پکارا تھا میں وہی تو نہیں
معاًہی ذہن میںیہ خیال آتا ہے
کہ میں وہی ہوں مجھے اعتبار بھی تو نہیں
وہ میں نہیں کوئی اور تھا یقیں جانو
وہ اور ہی کوئی صورت تھی شکل پہچانو
’’صہبائے غزل‘‘ میں وہ غزل سے یوں مخاطب ہیں:۔
میر،غالب، ظفر و ذوق کا انداز کلام
جوش کی نظم مسلسل فکری کے قطعات
داغ کی سادہ زباں نوح کا طوفان خرام
تیرے اوصاف کے پہلو ہیں جگر کے حالات
تو میری جان رباعی ہے میں تیرا خیام
میں ترا حافظ شیراز تو صہبائے غزل
نظم کے باب میں روایت کا فقدان نئے تجربے کے لئے خوش آٗئند ہے۔اردو میں جتنے اچھے نظم نگار شعرا ہیں ان کی تخلیقات کا اگر تجزیہ کیاجائے تو انھیں کے نام سر فہرست آئیں گے، جنھوں نے غزل کے سنگیت پر نظم کا ساز چھیڑا ہے۔اقبال ،جوش، فیض اور بہت سے دوسرے قابل ذکر شعرا نے ہمارے تہذیبی مزاج کا راز سمجھا ہے اور آہنگ و علامات کے اعتبار سے غزل کے دامن سے وابستگی قائم رکھی ہے۔اور اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی اجمل سلطانپوری کو قرار دیا جا سکتا ہے۔اجمل میں بھی غزل کے تہذیبی اثر نمایاں ہے :۔
وہ لب کہاں جو کسی کے لبوں سے مس ہو کر
مشاعروں میں مدھر گیت گنگناتے تھے
وہ نغمگیٔ غزل اب کہاں جسے سن کر
گذرتے وقت کے لمحے سکون پاتے تھے
چل تجھے لے چلوں اس جگہ اے صنم
لوگ جا کر جہاں بھول جاتے ہیں غم
آ مرا ساتھ دے ہاتھ میں ہاتھ دے
ڈگمگا جائیں گے ورنہ میرے قدم
۔۔۔۔۔۔۔۔
سکون قلب قرار جگر بہار حیات
ترے ہی دم سے ہے شاداب سبزہ زار حیات
شریک زیست اگر تو نہیں تو کچھ بھی نہیں
کہ جیسے پھول میں خوشبو نہیں تو کچھ بھی نہیں
کہتے ہیںشاعری عروضی مشق کے سہارے بھی کی جاتی ہے اور سیاسی و سماجی مصلحتوں کی بنیادوں پر بھی ۔مگرایسی تخلیقات دیر پا ثابت نہیں ہوتیں اس کے بر عکس اجمل کی شاعری اور ان کی شخصیت دونو ں ایک دوسرے کی ترجمان ہیں۔اخلاقی ،صحت مند سماج اور ایسی دنیا کی تعمیر جس میں خلق مروت انسانیت اور مختلف قدریں ہوں ۔اجمل کا شاعرانہ آئیڈیل ایک بہترین دنیا میں ایک بہترین انسان کی تخلیق ہے۔ان آرزووں اور تمناؤں کا ذکر ہے جو شاعر کے دل میں دائمی غم بن کر رہتی ہیں۔اجمل سلطانپوری کا ذوق جمالیات محض منتخب موضوعات ہی تک محدود نہیں ۔ان کی کائنات وسیع ہے ان کا جذبہ تحسین کچھ اور بھی گوشے ڈھونڈھ لیتا ہے جن کے آغوش میںتحسین نظر کا کافی سامان ہے لیکن ان کوششوں تک پہنچنے کے بعد یہ داستان اجمل اپنا رخ بدل دیتی ہے۔انداز بدل جاتا ہے راہ بدل جاتی ہے منزل بدل جاتی ہے اور پھر مرکزی خیال بھی بدل جاتا ہے اور یہی زندہ اور توانا ادب کی پہچان ہے جو جنوں کو بالیدگی بخشتا ہے اور دعوت فکرو عمل بھی دیتا ہے۔نظم نعرۂ انقلاب میںعہد حاضرکی تصویر کشی کس انداز میں کرتے ہیں ۔ہر بند کے بعد ان کا ٹیپ کا مصرع ’’اس دور میں خامی ہے ۔یہ دور بدل دیں گے‘‘ نظم کے تاثر کو پوری طرح سے نہ صرف ابھارتا ہے بلکہ اندھیرے کو اجالے سے بدلنے کی ترغیب اور حوصلہ بھی عطا کرتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:۔
چنگیز کے ہونٹوں پر جمہور کا نعرہ ہے
سیٹھوں کی زبانوں پر مزدور کا نعرہ ہے
پابند ِرسن لیکن منصور کا نعرہ ہے
اس دور میں خامی ہے
یہ دور بدل دیں گے
یہ قحط زدہ فاقے یہ غربت و ناداری
یہ دور یہ بیکاری یہ بھوک یہ بیماری
آنسو ہے کہ انگارا،شبنم ہے کہ چنگاری
اس دور میں خامی ہے
یہ دور بدل دیں گے
انسان کے احساسات کا عشق کے ساتھ ذاتی اور براہ راست تعلق ہے وہ اس کی کسک کو محسوس کرتا ہے اس لئے ہر انسانی جذبات عشق کے کیف سے سرشار ہو کر شاعر کے احساسات میں مدغم ہو جاتا ہے اور اس کی آرزوئے نفسی کیفیت بن کر شاعر کا میلان ِطبع بن جاتی ہے تو وہ نغمہ پیدا ہوا جو خالصتا ًانسانی ہے اور اس طرح اجمل کی عشقیہ شاعری حاسیہ سے ابھر کر ذہن و وجدان کی دنیا پر چھا جاتی ہے الغرض ان کا تصورِ عشق محدود نہیں آفاقی ہے جو ذہن کو فرحت نہیں بلکہ سکون و تشفی کا باعث ہے۔
چراغ ہائے تمنائے دل جلائے ہوئے
تجھی سے تیری محبت کی لو لگائے ہوئے
تخیلات کی دنیا نئی بسائے ہوئے
تصورات کے عالم میں سر جھکائے ہوئے
چراغ صبح کے سر پر ہے مثل ِزلف دھواں
سواد شام ہے نور سحر پہ بارِ گراں
خیال زلف پہ ابر سیاہ کا ہے گماں
تصور رخ روشن ہے یا مہ تاباں
گذر رہی ہے حسیں شام رات آتی ہے
اب آ بھی جا ترے وعدوں کی بات جاتی ہے
محض عیش کوشی شاعر کا اسلوب نہیں۔قلب مطمئن کی حاجت نہیں۔بے کیف تسلسل کا خریدار نہیں اسے تو عزم چاہئے کاہش فرہاد چاہئے دل ناشادگی کی کسک چاہئے،شاعر خطروں میں پڑنے کا عادی اور جہد مسلسل کا مدعی نظر آتا ہے اور جب وہ ان منزلوں سے گذرتا ہے تو اس کی شاعری معجزہ نہیں بلکہ وہ آئینہ ثابت ہوتا ہے جس میں اس کی زندگی کی اہم نکات چھلک جاتے ہیں۔ان کی بعض نظموں کے مطالعے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی ذہنی تربیت میںمذہب کا ایک نمایاں حصہ رہا ہے ان کی ایک نظم کا عنوان ہی مسلمان ہے۔جس میں وہ مسلمان کی شناخت اور علامتیں بتاتے ہوئے بالواسطہ ذوق عمل کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔کچھ مصرعے ملاحظہ ہوں:۔
مسواک اٹھا لیتا ہے جب صاحب ایمان
بے تیغ بھی ہو جاتا ہے سر جنگ کا میدان
دلدل پہ بھی تیرائے ہیں مومن نے سفینے
شاہان زمانہ کوکیا تابع فرمان
چھاتی پہ سمندر کے بھی رکھ دیتے ہیں گھٹنے
مومن کو کٹورے کا بھی ہوا نہیں نقصان
بن جاتے ہیں طارق تو جلا دیتے ہیں کشتی
زیر قدم آ جاتا ہے تاج سر سلطان
یا ایک اور نظم ’آگ لگی ہے ‘‘میں حالات حاضرہ سے مسلماں کو آگاہ کرتے ہوئے اسے خواب غفلت سے بیدار ہونے کی دعوت دیتے ہیں:۔
آہ مساجد اب ویران ہیں
آہ مقابر نوحہ کناں ہیں
علم و عمل سے دور ہیں مسلم
درس گہیں بے نام و نشان ہیں
آگ لگی ہے آگ مسلماں
جاگ مسلماں جاگ مسلماں
تو کہ چراغ مصطفوی ہے
تو کہ گل گلزار علی ہے
پروانہ صدیق و عمر کا
شیدائے عثمان غنی ہے
آگ لگی ہے آگ مسلماں
جاگ مسلماں جاگ مسلماں
تیری اذاں تاثیر سے خالی
تجھ میں نہیں وہ روح بلالی
تو نے نمازوں سے رخ پھیرا
تجھ میں نہیں اب پختہ خیالی
آگ لگی ہے آگ مسلماں
جاگ مسلماں جاگ مسلماں
اگرچہ اس نظم کا تعلق ایک خاص موضوع اور ایک خاص صورت حال سے ہے لیکن اس کا لہجہ اب بھی بادۂ شبانہ کی سرمستیوں اور لذت خواب سحر کی آغوش سے نکل کر اپنے وجود اور سالمیت کے لئے زندگی کی رزم گاہ میں بے خطر کود پڑنے کی دعوت دیتا ہے۔جمالیات کا دلدادہ شاعر اپنے وطن کی آبرو بچانے کے لئے ’’ہل من مبارز‘‘کا نعرہ جہاد بھی بلند کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔اسے اپنے وطن سے محبت ہے ایسی محبت ارتقائی منزلیں طے کر لیتی ہے تو اپنے دامن میں سارے ملک کو سمیٹ لیتی ہے اور جب وقت پڑتا ہے تو یہی جذبہ جوش و خروش سے ابل پڑتا ہے ۔اور شاعر بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے:۔
میں ہوں روح اس کی یہ میرا بدن ہے
میں اس کی جان اور یہ میرا تن ہے
وطن میری عزت وطن میری عظمت
وطن میرا تن میرا من میرا دھن ہے
میں جاگیر کے ٹکڑیہونے نہ دوں گا
میں کشمیر کے ٹکڑے ہونے نہ دون گا
ہے کشمیر تقدیر میرے وطن کی
میں تقدیر کے ٹکڑے ہونے نہ دوں گا
میں اپنے وطن کے مقدر کا سورج
وطن کو بدلتا ہوا کیسے دیکھوں
چمن کو میں جلتا ہوا کیسے دیکھوں
ان آنکھوں سے ڈھلتاہوا کیسے دیکھوں
یہ میرا وطن ہے یہ میرا وطن ہے
میں بلبل ہوں اس کا یہ میرا چمن ہے
شاعر شعوری طور پر آزادی ہند کے بعد نئے نئے تقاضے کا خوش آئند خواب دیکھنے کا مظہر ہے۔حزن و ملال شاعر کے نکتہ نظر میں گھل مل جاتے ہیں جس میں ارکان و الفاظ کے آہنگ سے جو ش و شدت پیدا کی گئی ہے۔اجمل صاحب کی منظریہ نظمیں ،ان کے مشاہدات ،لطیف احساسات ،بر محل تشبیہات و استعارات سے لفظ و بیان سے مزین ہے۔اجمل سلطانپوری کی شاعری میں حسن کا سرچشمہ ذات باری تعالی ہے۔وہی محسن کل ہے اور وہی خالق حسن بھی۔کائنات میں ہر طرف اس کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں لیکن انفس و آفاق میں حسن کے جلوے جن کی نمود گوناگوں اور بو قلموں عنوانات کے تحت جس فنی چابک دستی کے ساتھ پیش کئے انفرادیت کے حامل ہیں۔اور ان جلووں کے اظہار کے سلیقے اپنے آپ میں بے نظیر اہمیت کے بھی حامل ہیں۔
شاعری اجمل کے لئے ’’یہی آخر کو ٹھہرا حسن ہمارا‘‘کے مصداق ہے ۔ شاعر نشتر انجام کی خلش پر بات کو ختم نہیں کرتا وہ تہ جام کی جمہوری کیفیت سے نہیں اکتاتا۔ان کا انداز فکر متحرک ہے اس شعلہ زود گذر کے شعری فن پاروں میں ایک دوسری ہی تصویر نظر آ جاتی ہے جو کلام اجمل کو شادابیت سے منور کرتی ہے۔ ان کے کلام کا ارتقائی سلسلہ فکرو نظر کے اعتبار سے پختہ ہے۔ان کی غزلوں میں روایت کا حسن ان کی انفرادیت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ان کی نظموں میں اگرچہ ساخت اور ہیئت کا کوئی تجربہ نہیں ملتا تاہم ان کے بیان میں روانی اور زبان کی شیرینی کا جو لطف ہے وہ قاری اور سامع کو مسحور کر دیتا ہے ۔ ان کی تمامتر شہرتوں کا انحصاران کی نعتیہ شاعری ان کی غزل گوئی اور ان کی شاندار نظمیں ہیں ،جن میںقنوطیت کے بجائے مستقبل کے روشن امکانات ہیں۔ان کی آواز آوازۂ عام ہے جس میں ایک قسم کی انفرادیت اورکشش ہے،زندہ احساس ہے فکرو فن کے اعتبار سے ان کی تخلیقات کا زمانی تجربہ ہماری امیدوں اور اعتماد میں یقین بھر دیتا ہے۔
اجمل سلطانپوری کے متعلق یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انھیں کس دبستان شاعری کا پیرو قرار دیا جائے ۔میر مو من کے ،غالب و اقبال کے ،مجاز و فیض کے اشعار کے درو بست افکار کی تہوں اور تکنیک کی مزاج کا تجزیہ کا جائے تو آپ کی نظموں اور غزلوں میں مختلف دبستانوں اور مشاہیر کے اثرات ملیں گے۔جا بجا ایسی چنگاریاں دبی ہوئی محسوس ہوتی ہیں جن کے شعلے کہیں اور نظر آئیں گے لیکن ان سارے اثرات کا امتزاج اجمل سلطانپوری کی افتاد طبع میں کچھ اس طرح پنہاں ہے کہ انھیں نہ تو کسی مخصوص دبستان کا پیرو قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ مشاہیر میں سے کسی کا شمع بردار۔انھوں نے ہر شاخ سے خوشہ چینی کی ہے لیکن کسی شاخ کو اپنا شاخ نشیمن نہیں بنایا ۔ان کی نظموں میں تازگی ہے، جوش ہے، زود حسی ہے لیکن رفتہ رفتہ جوش سنجیدگی سے تازگی، پائندگی سے غور و فکر کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور خود اعتمادی گہری ہوتی گئی۔
مجھے احساس ہے کہ متذکرہ بالا سطور میں اجمل شناسی کا حق پوری طرح ادا نہیں ہو سکا ہے لیکن اجمل کیا ہیں اور کیا نہیں اس بحث کی گنجائش کے فاصلے کم ضرور ہوئے ہیں۔اجمل کی خدمات اور کارنامے نا قابل فراموش ہیں۔ادو ادب کی تاریخ ان سے آنکھ بچا کر نہیں نکل سکتی۔’’قفس تا قفس‘‘نہ مردہ پرستی کے خلاف علم جہاد ہے اور نہ زندہ پرستی کی روایت کا سنگ میل۔محض ایک بڑے فنکار کے مرتبے سے آگہی کی کوشش ہے اور اس کی ادبی خدمات کا اعتراف اور بس!
نا سپاسی ہو گی اگراجمل شناسی کے باب میں حبیب اجملی (الفاظ کے غبار میں) ڈاکٹر ڈی پی سنگھ(سابق صدر شعبہ اردو ،انگریزی،گنپت سہائے پی جی کالج)اور کمل نین پانڈے حضرات کا نام نہ لیا جائے جنھوں نے مواد کی فراہمی میں جو تعاون کیا اس کے لئے لفظ شکریہ بہت کم ہے تاہم اس سے گریز اخلاقی جرم ہے۔ آپ حضرات کی بے لوث خدمتیں اہل سلطانپور کے لئے باعث افتخار ہیں۔
صدر شعبہ اردو
گنپت سہائے پی۔جی۔کالج۔سلطانپور
ضضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular