Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldزحمت سخن

زحمت سخن

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

تقدیس نقوی

اردو مشاعروں ، ادبی نشستوں، مذاکروں، ادبی محفلوں، سیمیناروں اور دیگر ادبی تقریبات میںشاعروں،، ادیبوں، نقادوں،قصہ گویوں اور دیگر ادبی فنکاروں کی الحمدللّٰہ نہ کبھی کمی رہی ہے اور نہ حالیہ شرح پیداوار کے پیش نظرانشاللہ آئندہ بھی رہے گی. بلکہ اگریوں کہا جائے کہ ان موقر حضرات کی رسد اور طلب کا تناسب رسد کی جانب زیاد ہ جھک رہا ہےتو بے جا نہ ہوگا .مگر ان تمام ادبی تقریبات کا دولھا جسے ’ناظم‘ کہا جاتا ہے وہ آج کل تقریبا” ناپیدسا ہوتا جارہا ہے. اس فقدان کی بنیادی وجہ کچھ اہل علم و دانش یہ بتاتے ہیں کہ عصر حاضر میں نامعلوم اسباب کی بناء پرکیونکہ ادبی حضرات کی اکثریت ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوتی جارہی ہے اس لئے آج کل کوئی بھی ایسا لائق شخص اپنی شیریں نوآئی کے باوجود دوران محفل اپنی اشد ضرورت کی خاطربغیرپیہم وقفہ لئے ہوئے نظامت کی اس مسلسل اور متواتر ذمہ داری کوہمہ وقت نبھانےکا متحمل نہیں ہوسکتا.
اس فقدان کی دوسری دل کو لگتی ایک اہم وجہ ارباب علم و ہنر یہ بھی بتاتے ہیں کہ آج کل چونکہ ہر ادبی محفل خصوصا” مشاعروں میں ادبی حضرات سے زیادہ سیاسی سماجی مذہبی حکومتی اور شو بز سے متعلق شخصیات کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے جن میں سے ہر ایک کویکے بعد دیگرےمائیک پر انے کی زحمت دی جاتی ہے جس کا سلسلہ اتنا طولانی ہوجاتا ہے کہ بے چارے ناظم کو مائیک پر آنے کا موقعہ کم ہی میسر آتا ہے. اس لئے بعض مشھورومعروف ناظم حضرات اپنا نام اور تصویراس تقریب کے پوسٹر میں دئے جانے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں اوراس ادبی تقریب کی مکمل کاروائی اپنے گھر صوفے پر بیٹھ کر دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں.
ماضی میں تو یہ ادبی محفلیں چند گھنٹوں میں اختتام پذیر ہوجایا کرتی تھیں اور اس وقت حاضرین محفل کی نگاہیں ناظم محفل کی حرکات وسکنات کا صحیح جائزہ لینے اور اسکے اسباب جاننے کے بجائے ان ادبی شخصیتوں کی جانب مرکوز ہوا کر تی تھیں جنھیں وہاں مدعو کیا جاتا تھا اورحاضرین انھیں دیکھنا اورسننا پسند کرتے تھے.مگر جب سے شعرا اور ادباء کی تعداد میں اضافہ خطرے کے نشان سے تجاوز کرنے لگا ہے ان محفلوں کا دورانیہ غروب شمس سے شروع ہوکر اگلے دن طلوع شمس تک بڑھتا جارہا ہے. کبھی کبھی تو یہ سلسلہ ظہرانے پر جاکر اختتام پذیر ہوتا ہے.بعض شائقین ادب تو ایسے مشاعروں کے اگلے دن بھی جاری و ساری رہنے کی صورت میں دوران مشاعرہ ہے کچھ دیر کےلئے اپنے آفس میں حاضری لگا کرواپس مشاعرہ گاہ پہنچ جاتے ہیں .
کوئی لاچاراہل ادب اپنی دوستانہ پیشہ ورانہ یا معاشی ذمہ داریوں کے زیر اثراس بار گراں کو اٹھانے کے لئے جبرا” تیار ہو بھی جاتا ہے تو وہبار بار وقفہ لینے کی اضطراری کیفیت میںیا تو کسی اچھے ادبی فنکار کی دوستی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یارواداری میں وقفہ نہ لینے کی صورت میںبھرے مجمع میں اپنی عزت سے اور پھر نتیجتا” اپنی اجرت سے بھی.
آجکل محفلوں کی روئیداد کو قید کرنے کی لئے وہاں کیمرے بھی ایستادہ کئے جاتے ہیں اور جن سے لائیو ٹیلیکاسٹ پوری دنیا میں دکھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے .تواب ایسی کیفیت میں کسی ناظم محفل کا کسی بھی مجبوری کے تحت صدر محفل سے اچانک اٹھ کر کسی ایسی جانب کوچ کرنا کہ جس جگہہ کا سر محفل اعلان کرنا سوء ادب تصور کیا جاسکتا ہے کس طرح ناظرین سے مخفی رکھا جاسکتا ہے. خصوصا” اس وقت کہ جبوہاں ایستادہ کیمرے ناظم صاحب کی نشستو برخاستتک کوریکارڈ کرنے کے لئے انکے آگے پیچھے چل رہے ہوں.
ایسی کیفیت میں کوئ بھی تجربہ کارناظم مشاعرہ انتہائی ضبط و تحمل کی خصوصیات رکھتے ہوئے بھی کسی مزاحیہ شاعر کو یا کسی کہنہ مشق استادشاعر کی طولانی نظم سنوانے کے لئے دعوت کلام دینے کا خطرہ مول نہیں لےسکتا. یوں تو آج کل ایسی محفلوں میں بے ساختہ قہقہے لگانے کے لئے کسی مزاحیہ شاعر کی شاعری سننا ضروری نہیں ہوتا ہے کیونکہ آج کل تو بہت سے سنجیدہ شاعری کرنے کا دعوہ کرنے والے شعرا کے کلام پر بھی ساری محفل لوٹ پوٹ ہوتی ہوئی دیکھی جاتی ہے جس میں حضرت ناظم مشاعرہ بھی بھی پورے جوش وخروش کے ساتھ شامل رہتے ہیں.
پھر بھی اگر کبھی کوئی شاعرناظم صاحب کو ہی خصوصی طور سے مخاطب کرتے ہوئے اپنا کوئی قہقہ آمیز شعر سنانے کے لئے بضد ہو جائےتو ایسی کیفیت میں بے چارے ناظم کا اپنے قہقہوں کو ضبط کرنے کے نتیجے میں شرم سے پانی پانی ہوجانا بالکل فطری ہے.
اس خطرناک صورت حال کے پیش نظر ہی ان ادبی محفلوں کے منتظمین کو اکثر محفل کے شروع ہونے کے طے شدہ وقت تک تلاش ناظم میں سرگرداں اور پریشاں حال دیکھا گیا ہے. اور انکی اس بے بسی اور بے چارگی کا بروقت فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی ہمارے میر صاحب ہمیشہ ایسے ہی کسی موقعہ کی تاک میں لگے رہتے ہیں. کبھی کہیں کوئی ایسا سنہرا موقعہ ہاتھ لگا کہ جہاں متوقع ناظم صاحب نے اچانک آنکھیں پھیرلی ہوں وہاں میر صاحب جھٹ سے نظامت کے لئے اپنی خدمات پیش کردیتے ہیں.میر صاحب ایسے کسی سنہرے موقعے کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دینے کی تیاری میں ہمیشہ اپنی بغل میں ایک بستہ دبائے رکھتے ہیں جس میں دنیا جہان کے شاعروں اور ادباء کے اسمائے گرامی بترتیب حروف تحجی لکھے ہوتے ہیں. وہ اس بستے میں ایک ضخیم سی نوٹ بک بھی ساتھ رکھتے ہیں جسمیں ہزاروں مشھور اشعار لکھے ہوتے ہیں کہ جنکا استعمال وہ اپنی نظامت کے دوران اپنی اردو ادب فہمی کی سند کے طور پر کیا کرتے ہیں.
یہ حقیقت کسی سے بھی پوشیدہ نہ تھی کہ اس عظیم ادبی ذمہ داری کو نبھانے کے لئے جس علمی قابلیت زبان و بیان کی اعلئ صلاحیت اور برجستگی کی ضرورت ہوتی ہے اس سے میر صاحب کا دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا.
مگر ہمارے نیک اور مخلصانہ مشوروں کے باوجودکہ وہ اس مشکل میدان میں ادبی شائقین کو اپنی مشق ستم کا نشانہ نہ بنائیں وہ اپنی ضد پر اڑے رہے اور یوں دبستان اردو ادب میں آج بھی مشاعروں اور ادبی محفلوں میں بے ادبی کرتے پھر رہے ہیں.
ہماری اس مسلسل تنبیہ پرکہ ادبی محافل کی نظامت کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہےوہ الٹا ہم سے ہی سوال کرتے ہیں کہ آخر وہ کون سی صلاحیت ہے کہ جو اس کام کے لئے درکار ہے اور ان میں نہیں ہے.
” علمی صلاحیت” ہمارا جواب تھا.
“یہ آپکی لاعلمی ہے . نظامت کے لئے علم کی نہیں بلکہ صرف اور صرف ایک فنی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے” میر صاحب نے بڑے مفکرانہ انداز میں ہمیں سمجھانے کی کوشش کی.
” وہ کون سی فنی صلاحیت ہے آخر ہم بھی سنیں” ہم نے بھی بڑے تجسس سے ان سے پوچھا.
” سفید جھوٹ بولنے کی” میر صاحب نے بڑے فاخرانہ انداز سے اس طرح کہا کہ گویا کہہ رہے ہوں سچ بولنے کی.
“مگر نظامت کا جھوٹ بولنے سے کیا واسطہ؟” ہم نے بھی اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے میر صاحب کو گھیرنے کی کوشش کی.
” ارے جناب مشاعرہ کی نظامت پر ہی زراغور فرمائیے. کیا اپ نے نہیں دیکھا کہ محترم ناظم مشاعرہ چندمشھوراوراستاد شعراء کو چھوڑکر اکثر شعراء کو دعوت کلام دینے سے پہلے جو طولانی تعارفی کلمات ادا کرتے ہیں وہ کیا حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں ؟ ان کلمات میں ممدوح شاعر کی شاعرانہ صلاحیتوں اور ادبی خدمات کا جن الفاظ اور انداز میں زکر کیا جاتا ہے انھیں سن کر تو خود وہ شاعر حیرت میں پڑجاتا ہے اور برابر بیٹھے ہوئے دوسرے شاعر سے پوچھتا ہے کہ جناب یہ شاعرصاحب جن کو زحمت کلام دی جارہی ہے کہاں سے تشریف لائے ہیں اور اب تک کہاں پوشیدہ تھے. کچھ دیر بعد انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جس ممدوح کی مدح میں ناظم صاحب قصیدہ خوانی فرمارہے تھے وہ انھیں کی ذات والا صفات ہے”
دراصل مشاعروں میں اکثر ناظم کی پوزیشن اس شخص جیسی ہوتی ہے کہ جو کسی شادی کے متمنی نوجوان کو اسکا رشتہ کرانے کی نیت سے کسی لڑکی والے کے یہاں لیکر جاتا ہے اور اسکا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے ” جناب برخوردار نے سماجیات میں ایم اے اس وقت کرلیا تھا کہ جب خود سماج میں سماجیات کا سمجھنے والاکوئی نہ تھا ( جبکہ موصوف آٹھویں فیل ہونے پر فخر کرتے تھے) ماشااللّہ پابند صوم وصلواتہ بھی ہیں ( جبکہ انھیں پچھلی عید پرعیدگاہ جانا بھی یاد نہ تھا) تنخواہ کے بارے میں بتانا گویا چھوٹا منہ اور بڑی بات ہوجائیگی ماشااللّہ اتنا کما لیتے ہیں کہ بنکوں میں پیسہ رکھنے کی جگہہ نہ ہونے کے باعث ساری کمائی فورا” خرچ کردینے میں یقین رکھتے ہیں اسلئے اپکی بیٹی ہمیشہ خوش رہیگی” وغیرہ وغیرہ.
“تو کیا یہ سب قصیدہ خوانی جھوٹ بولنے کی اعلی ترین صلاحیتوں کے بغیر ممکن ہے؟” میر صاحب بہت سنجیدگی کے ساتھ اپنے نقطہ نظر کا دفاع کررہے تھے.
“مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کذب وغلو میں خود بے چارے ناظم کا کچھ عمل دخل نہیں ہوتا یہ تو بس منتظمین کی خوشنودی مشاعرے کو کامیاب کرانے اور سامعین کو جگائے رہنے کے لئے کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے. اور یہی سب سے بڑا فن نظامت مانا جاتا ہے. استاد اور عالمی شہرت یافتہ شعرا کو تو دعوت کلام دینے کے لئے بغیر کچھ محنت کئے ہوئے صرف چند رسمی کلمات ادا کرکے ہی نپٹا دیا جاتا ہے. نظامت اور مشاعرے کی کامیابی کا انحصار ہی ان لن ترانیوں پر ہوتا ہے کہ جو ناظم مشاعرہ ہر اس شاعر کی شان میں کرتا ہے کہ جس سے مشاعرے سے قبل کوئی واقف نہیں ہوتا. جتنا غیر معروف شاعر اتنا ہی طویل اور مرصع و مقفع اسکا تعارف کرایا جاتا ہے. موصوف کی شان میں ایسے اشعار پڑھے جاتے ہیں کہ اگر وہ کسی مردے پر پڑھ دئے جائیں تو وہ گھبراکر زندہ ہوکر کھڑاہوجائے.بس یہئ وہ فن ہے جو ناظم مشاعرہ سے مخصوص ہے. اسی لئے یہ خاکسار اس منصب نظامت کے لئے نہایت موزوں اور مستحق تصور کیا جاتا ہے.” میر صاحب نے گویا اپنی کمر خود ہی تھپتپائ.
“چلئے عام مشاعروں کی حد تک تو اپکی بات مان لیتے ہیں مگر زرا کچھ سنجیدہ قسم کی ادبی تقریبات جیسے ادبی کتب کا اجراء وغیرہ پرتوآپکی یہ بات صادق نہیں آتی.” ہم نے بھی میر صاحب کا پیچھا آسانی سے نہیں چھوڑا.
” اجی جناب کتابوں کے اجرا کی تقریبات کا حال تو مشاعروں سے بھی بدتر ہے” میر صاحب میدان نظامت کے پرانے کھلاڑی تھے اتنی آسانی سےہتھیار ڈالنے والے کہاں تھے.
” اب پچھلے ہفتے ہی کی بات لے لیجئے. ایک شعری مجموعے کے اجراء کی تقریب شھر کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقد کی گئی کہ جہاں شھر کی بہت معززاورمشھور ہستیوں کو مدعو کیا گیا تھا. ان مدعوعین میں بڑے بڑے سیاستداں بزنس مین حکومتی اہلکار این جی اوز کے اعلی عہدیداروں کے علاوہ کچھ گنتی کیادبی شخصیات اور شعرا حضرات کو بھی بحالت مجبوری شامل کرلیا گیا تھا. ادبی سامعین سے زیادہ اخبارات کے رپورٹرس اور کیمرہ مین تھے. بہت دیر تلاش کرنے پر صاحب شعری مجموعہ شاعر صاحب کو کسی نے ایک سیاستداں صاحب کے پیچھے کسی کونے میں کھڑے ہوئے پایا. جب وہاں بھیڑ بھاڑ زیادہ بڑھی تو کسی نے ناظم پروگرام سے پروگرام جلد شروع کرنے کی درخواست کیونکہ سیاستدان صاحب کو کسی اگلے فنکشن میں پہنچنا تھا. اب اسے وقت کی تنگی کہنے یا منتظمین کی جانب سے عجلت کا دباو ناظم صاحب نے پندرہ منٹ تک جس کتاب کا تعارف کرایا وہ کسی ادیب کےافسانوں کا مجموعہ تھا کہ جس کا اجراء چند روز پہلے ہی انھیں ناظم صاحب کی نظامت میں منعقد ہوا تھا اور انھوں نے گھبراہٹ میں اپنی جیب سے اس تقریب اجراء کے لئے تیار کئے گئے اپنے تعارفی نوٹ سے سامعین کرام کو محظوظ فرمایا. مسلسل تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں کسی کو نثر اور نظم میں تفریق کرنے کا ہوش ہی نہ تھا.سیاسی مقررین نے بھی ناظم صاحب کے زریعے کہے گئے تعارفی کلمات کو ہی بنیاد بناتے ہوئے اسی افسانوی مجموعے کی تعریف میں اپنے خیالات کا اضافہ فرمادیا. اکثر ایسے موقع پر یہی دیکھا گیا ہے کہ ناظم صاحب مائیک کو اتنا منہ لگا لیتے ہیں کہ وہ آگے بھی انکی منہ بولی بولتا رہتا ہے.آخر میں تمام معزز مخصوص مہمانوں کے چلے جانے کے بعد ناظم صاحب نے مائیک پرایک استاد شاعر صاحب کو انے کی دعوت دی تو انھوں نے احتجاجا” میر وغالب کی شاعری کے کچھ فنی نکات پرتو سامعین کی توجہ دلائمگر اجراء شدہ مجموعہ کلام کو ایسے نظر انداز کردیا جیسے ناظم صاحب نے انھیں وقت اجراء کیا تھا.”
میر صاحب اپنی بات ثابت کرنے میں کوئی کسر اٹھاکر نہیں رکھنا چاہتے تھے.
” اگر ایسی بگڑتی صورت حال ہے تو پھر شمع محفل روشن کرنے والی رسم ہی پھر سے متعارف کرادینی چاہئے جوآج کل زیادہ موثر ثابت ہوسکتی ہے” ہم نے بھی میر صاحب کو چھیڑتے ہوئے انکی چٹکی لی.
” جناب وہ دن ہوا ہوئے کہ جب ہمارے جیسے ناظموں کے پیٹ پر لات مارکر شمع روشن کرائی جاتی تھی. یوں بھی ہمارے حقوق کے تحفظ کے لڑنے کے لئے اب ہماری باقاعدہ یونین بن چکی ہے “انجمن ناظمین مشاعرہ رجسٹرڈ”یہ کہہ کر میر صاحب اپنا بستئہ نظامت لیکر کسی مشاعرہ کی تلاش میں نکل گئے.

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular