Tuesday, May 7, 2024
spot_img
HomeArticleرضا لائبریری کی علمی وادبی خدمات

رضا لائبریری کی علمی وادبی خدمات

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

ذبیح اللہ ذبیح

اللہ کی تمام نعمتوں میں سے ایک خوبصورت نعمت علم ہے۔ اور انسان علم حاصل کرنے کے لئے اسکول اور مدرسوں سے دانشگاہ تک کا سفر کرتا ہے اور یہاں سے بھی اس کے علم کی تشنگی نہیں بجھتی تو کتبخانوں کا رخ کرتا ہے جہاں مختلف عنوانات اور موضوعات کے حوالے سے بے شمار کتابیں ہوتیں ہیں۔ ایسا ہی کتبخانہ دنیا کی عظیم الشان کتبخانوں میں سے ایک معروف و مقبول کتب خانہ رام پور رضا لائبریری بھی ہے۔ ہندوستان کے کتب خانوں کا گر مشاہدہ کیا جائے تو ہندوستان میںموجودہ جتنے بھی کتب خانے ہیں ان میں رضا لائبریری کی تاریخ بہت قدیم ہے ۔ یہ کتب خانہ کئی معنوں میں دیگر کتب خانوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔جیسے یہاں عربی ،فارسی،اردو ، ترکی ، پشتو ، سنسکرت اور ہندی کے مخطوطات کا بڑا وسیع سرمایہ موجود ہے ۔مخطوطات کے علاوہ مختلف زبانوں میں مطبوعات کا ذخیرہ بھی یہاں موجود ہے ۔مصنفین کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے نسخے بھی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس کے علاوہ یہاں سے غالبیات ، اقبالیات اور آزادیات پر بھی اشاریے مرتب کئے گئے ہیں ۔ یہ ہو گئیں رضا لائبریری کی مطلق باتیں ۔ ہم جب رضا لائبریری کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو اور بھی بہت سی اہم اہم باتیں سامنے آتی ہیں ۔رضا لائبریری کی بنیاد نواب فیض اللہ خاں کے ہاتھوں ۱۷۷۴ء میں پڑی۔ جو عوام کے لئے مثبت ثابت ہوا۔ نوابین رامپور نے بڑے بڑے علماء ، دانشور ، شعراء ، مصور اور خطاطوںکی سر پرستی کی۔ جس کے باعث رضا لائبریری کا دائرہ وسیع ہوتا گیا ۔ رضا لائبریری کی خدمات کو دیکھتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی نے اپنی ایک تحریر میں کیا خوب کہا ہے :
’’ میں اس کتب خانہ سے بارہا متمع ہوا ہوں ۔ ہندوستان کے کتب خانوں میں اس سے بہتر کیا اس کے برابر بھی کوئی کتب خانہ نہیں۔ میں نے روم و مصر کے کتب خانے بھی دیکھے ہیں ۔ لیکن کسی کتب خانہ کو مجموعی حیثیت سے میں نے اس سے افضل تر نہیں دیکھا ۔۔۔۔اہل کارانِ کتب خانہ کی محنت اور وسعت اطلاع کی داد دینی چاہئے ۔خصوصاً مہدی علی خان صاحب تو خود ایک زندہ کتب خانہ ہیں ۔‘‘ شبلی نعمانی۔
رضا لائبریری سے جو رسائل نکلتے ہیں ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔خاص نمبروں کی متعدد تعداد موجو ہیں ۔ان خاص نمبروں میں علم و حکمت ، شعر و ادب اور تاریخ ثقافت کے بیش بہا خزانے موجود ہیں ۔ اب تک یہاں سے جرنل کے ۳۲ شمارے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ جو مختلف اصناف و موضوعات کے حوالے سے ہیں۔ جو اپنے آپ میںموضوعات کے اعتبار سے نایاب ہیں ۔ رضا لائبریری میں ہندی کے
ُ بھی مخطوطات پائے جاتے ہیں۔لیکن یہ مخطوطات ایسے ہیں جن کا رسم الخط فارسی ہے ۔ رضا لائبریری میں قومی یکجہتی کی بھی اچھی مثالیں مل جاتی ہیں ۔ مثلاً رضا لائبریری نے مخطوطات جتنے بھی شائع کئے ہیں۔ ان میں چند ایسے مخطوطات بھی ہیں جن کا رسم الخط دیوناگری ہے۔ اس سلسلے کی سب سے پہلی کڑی رسیلن بلگرامی کی ’’ انگ درپن ‘‘ ہے۔ اپنی خوبصورت طباعت کے باعث اہل ذوق کو ہمیشہ یاد رہے گی۔ رضا لائبریری کی خدمات میں نوابین کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے ۔ میں اپنے مقالے میں نوابین کے خدمات کا ذکر نہ کروں تو شاید رضا لائبریری کی علمی و ادبی خدمات کی تاریخ نامکمل ہوگی ۔ رضا لائبریری کی تاریخی اعتبار سے نوابین میں نواب فیض اللہ خاں ، نواب کلب علی خاں ، نواب حامد علی خاں رشک اور نواب رضا علی خاں کا دور بہت اہم ہے ۔تاریخ گواہ رہی ہے کہ نواب فیض اللہ خاں نے روہیلوں سے جنگ جاری رکھ کر اور ان کو شکست دے کر رام پور کو آباد کیا تھا اور رام پور میں شاعری و موسیقی کی محفلیں سجائیں ۔ بہت سے شاعروں ، فنکاروں ، دانشوروں اور مصوروں کی سرپرستی کی ۔جن کے کلام اور تصاویر گلدستہ کے طور پر آج بھی رضا لائبریری میں موجود ہیں ۔ نواب فیض اللہ خاں کے بعد اور بھی بہت سے نوابین گزرے ہیں۔محمد علی خاں ، غلام محمد خاں ،احمدعلی خاں ، محمد سعیر خاں وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔ ان نوابین کے بعد نواب یوسف علی خاں ناظم کا بھی نام تاریخی اعتبار سے بہت اہم ہے ۔ آپ نے شاعری میں مومن کی شاگردی اختیار کی ۔ ابتدا میں یوسف تخلص رکھا اور جب غالب کی شاگردی میں آئے تب آپ غالب کی تجویز پر ناظم تخلص اختیار کیا ۔ یوسف نے جہاں مومن کے رنگ میں اپنے آپ کو ڈھالا وہیں غالب کے انداز سخن کو بھی اپنایا ۔ یہی سبب ہے کہ بعض ناقدین نے آپ کو شریک غالب سمجھ لیا ۔
نواب یوسف نے رام پور میں طرحی مشاعروں کا بھی آغاز کیا ۔ نواب یوسف کے کئی چچا زاد بھائی بھی مومن کے شاگرد تھے وہ بھی رام پور آ گئے ۔ ان میں عباس علی خاں بیتاب ، عنایت علی خاں عنایتؔ ، ہدایت علی خاں غربت ، عبدالوہاب خاں سروش وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیںاس طرح رام پور میں شعر و شاعری کا رنگ خوب چڑھا ۔ ۱۸۵۷ء کے بعد دلی اور لکھنئو کے درباروں کا خاتمہ ہوا ۔ اور وہاں کے شعراء بھی نواب یوسف کی سرپرستی میں آئے ۔ نواب یوسف کے بعد فرزند نواب کلب علی خاں نے بھی شعراء و ادبا ء کی خوب پذیرائی کی ۔اور یہ بات تاریخ ادب میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔
نواب کلب علی خاں کادور زریں دور کہلاتا ہے ۔ نواب کلب علی خاں نے کوٹھی باغ بے نظیر میں ایک میلہ ترتیب دیا تھا ۔ جو ہر سال مارچ کے آخری ہفتہ میں لگایا جاتا تھا اور مسلسل آٹھ روز جاری رہتا تھا ۔ اس میلے کا مقصدمقامی صنعت و تجارت کو فروغ دینا تھا ۔نواب کلب علی خاں کو شعر و ادب میں بھی کافی دلچسپی تھی ۔وہ اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے نثر نگار بھی تھے ۔ان کی ایک کتاب ’’قندیل حرم‘‘ ہے جو فارسی نستعلیق میں لکھی گئی ہے جس میں نواب کلب علی خاں کی نعت ، مناجات وغیرہ شامل ہیں۔یہ کتاب بھی رضا لائبریری میں موجود ہے۔اردو زبان میں بھی ان کے چار دیوان ہیں ۔(۱) نشید خسروانی (۲)دستنبو نے خاقانی (۳) توقیع سخن اور (۴) درۃ انتخاب وغیرہ۔نواب کلب علی خاںعالموں ، موسیقی کے فنکاروں ، شاعروں ، ادیبوں غرض کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ اور ہنرمندوں کے قدر دان تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ہر جگہ کے فنکار یہاں آ کر جمع ہو گئے تھے۔ نواب کلب علی خاں ہندو مسلم اتحاد کے بھی بہت بڑے حامی تھے ۔ انہوں نے اپنے دور میں ایک مندر کی بھی تعمیر کروائی تھی اور اپنی موجودگی میں ہی مورتی کی استھاپنا کرائی تھی۔نواب کلب علی خاں کے دور میں کئی علماء ، شعراء ، تاریخ نویس ، خطاط و تزئین کار اور داستان گو گزرے ہیں۔ شعراء میں امیر مینائی ، داغ دہلوی ، جلال لکھنوی ، منیر شکوہ آبادی ، منشی امیراللہ تسلیم وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ شعرائے تاریخ گو میں سید منصور علی رامپوری ، منشی صابر حسین اہمیت کے حامل ہیں ۔ خطاط و تزئین کار میں میر عوض علی اسیر حسینی صاحب ، میر ناظر علی وغیرہ قابل تعریف ہیں اور داستان گو میں منشی انبا پرشاد اور رسا لکھنوی معروف و مقبول اس دور کے داستان گو ہیں۔
نواب کلب علی خاں کے دور میں جتنے بھی علماء ، دانشور ، خطاط و تزئین کار ، داستان گو ، تاریخ نویس وغیرہ جو گزرے ہیںان سبھی نے اپنی علم و حکمت سے رضا لائبریری کو خوب مالامال کیا ہے ۔ رضا لائبریری کی تاریخ میں نواب کلب علی خاں کا دور بہت اہم ہے کیوں کہ ان کے دور میں جتنی شعراء و ادباء کی پذیرائی ہوئی اتنا کسی اور نواب کے دور میں نہ ہوا ۔ رضا لائبریری کی تاریخ میں نواب حامد علی خاں کے دور کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔آپ نے بھی اپنے اسلاف کی طرح شعراء و ادباء اور ماہرین موسیقی کے فنکاروں کی قدردانی فرمائی۔ شاعری کا ذوق ہوا تو رشکؔ تخلص اختیار کیا اور امیر مینائی کے فرزند محمد احمد صریر مینائی کی شاگردی اختیار کی ۔ مصطفی علی خاں شررنواب حامد علی خاں کے پرائیویٹ سکریٹری تھے۔ نواب حامد علی خاں کی سرپرستی میں ان کے زیر اہتمام ۱۹۰۵ء سے عظیم الشان مشاعروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ان مشاعروں کے گلدستے مطبوعات رضا لائبریری میں موجود ہیں ۔اس کے علاوہ رام پور کی تقریباً تمام عالیشان عمارتیں مثلاً قلعہ ، خاص باغ پیلس ، حامد منزل (موجودہ رضا لائبریری ) ، صدر کچہری ، شاہ آباد ، کیسل ، مچھلی بھون ، جامع مسجد وغیرہ نواب حامد علی خاں کی ہی دین ہے ۔ان کے ذوق تعمیر کو دیکھتے ہوئے انہیں شاہجہاں ثانی کہا جا سکتا ہے ۔عمارات کے علاوہ نواب حامد علی خاں نے فن موسیقی میں بھی اہم خدمات انجام دیے ہیں۔ نواب حامد علی خاں کا دربار اس لحاظ سے ہندوستانی ریاستوں میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ نواب حامد علی خاں کے بعد نواب رضا علی خاںکا بھی دور اہمیت رکھتا ہے۔ان کا عہد گذشتہ نوابین سے بہت مختلف تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا بھر میں سیاسی و اقتصادی حالات میں تبدیلی آ رہی تھی ۔ انہوں نے اپنی ریاست کے فلاح و بہبود کے لئے ہر وہ ممکن کوشش کی ۔ تعلیم کے میدان میں طلباء و طالبات کے لئے ابتدائی ، ثانوی اور اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کئے ۔یہی نہیں اس کے علاوہ صنعتی اعتبار سے اتنے کارخانے قائم کرائے کہ رام پور اتر پردیش میں کانپور کے بعد دوسرا صنعتی شہر بن گیا ۔ لیکن ملک کے سیاسی حالات میں تبدیلیاں آنے کی وجہ سے رام پور کا موجودہ وقت میں وہ مقام نہیں ہے ۔ان کے عہد میں اخبار ، رسالے اور تصنیف و تالیف میں بھی اضافہ ہوا۔
نواب رضا علی خاں ماہر موسیقی تھے ۔ انہوں نے بھی سابق حکمرانوں کی طرح ماہرین کی سرپرستی کی۔ انہوں نے اسکے علاوہ سالانہ آل انڈیا مشاعرہ ، میوزک کانفرنس اور صنعتی و زراعتی نمائش کا بھی انعقاد کیا ۔ دوسرے شہروں میں جیسے آل انڈیا ریڈیو کا اسٹیشن تھا اسی طرح سے یہاں بھی قائم کرایا اور انہوں نے سب سے بڑا خدمت انجام یہ دیا کہ رضا لائبریری کو عوامی بنا دیا ۔ رام پور ریاست نواب رضا علی خاں کے بعد یہ کتب خانہ ۶ اگست۱۹۵۱ء کو مینجمنٹ ٹرسٹ کے تحت آ گئی ۔اس کے بعد پروفیسر نورالحسن صاحب سابق وزیر تعلیم حکومت ہند کی کوششوں سے یکم جولائی ۱۹۷۵ء کو یہ لائبریری ایکٹ آف پارلیامنٹ کے تحت آ گئی ۔ جس کی وجہ سے آج یہ کتب خانہ حکومت ہند کے تحت ہے ۔ موجودہ وقت میں گر آپ رضا لائبریری کا مشاہدہ کریں تو ان کی اپنی پبلکشن ہے۔ ان کی اپنی شائع شدہ کتابوں کی تعداد تقریباً ۶۰۰۰۰ ہزار ہے جو ہندوستانی اور بیرونی زبانوں سے متعلق ہیں۔ اور اس لائبریری میں ۱۷۰۰۰ کے تقریباً مخطوطات ہیں۔ اور ان کی اپنی مطبوعہ کتابوں کی فہرست ۱۷۵ ہیں۔جن میں ۸۲ کتابیں اردو کی ہیں اور ان اردو کی کتابوں میں بہت سی ایسی کتابیں ہیں جن کا دوسرا ایڈیشن بھی آیا ہے ۔جن میں
اخبار الصناد ۔ نجم الغنی ,اوراق گل ۔ مرتب ضمیر احمد ہاشمی
دستورالفصاحت ۔ از سید احمد علی خاں یکتا بتصحیح
امتیاز علی خاں عرشی وغیرہ ۔ اس کے علاوہ جو رضا لائبریری کی بہت اہم مطبوعات کتابیں ہیں ۔ ان میں ادب گاہ رام پور از لہوش نعمانی،سلک گوہرازانشاء اللہ خاں انشا ؍امتیاز علی خاں عرشی ,مدرسہ عالیہ رام پور از مولانا محمد عبدالسلام خاں
یہ کتاب رام پور رضا لائبریری کی بہت تاریخی کتاب ہے ۔ یہ کتاب رام پور کے گیارہ نوابین پر مشتمل ہے ۔ اوراق گل مرتبہ ضمیر احمد ہاشمی ، رام پور کا دبستان شاعری از شبیر علی خاں شکیب ــ’’مسدس تہنیت جشن بے نظیر از میر یار علی خاں صاحب ریختی ’’ اردو زبان اور لسانیات ‘‘ گوپی چند نارنگ ، تاریخ کتاب خانۂ رضا از حافظ احمد علی شوق وغیرہ ۔ رضا لائبریری کا اپنا ایک گیسٹ ہائوس بھی ہے ویزیٹرس کے لئے ۔ اس کے علاوہ رضا لائبریری قومی و بین الاقوامی سیمنار کا انعقاد بھی کرتا ہے ۔طلباء و طالبات کے لئے تحریری و تقریری مقابلہ بھی کرواتا ہے ۔ کتب خانوں کے حوالے سے ورک شاپ بھی ہوتا رہتا ہے ۔ ابھی موجودہ وقت میں رضا لائبریری کے ڈائریکٹر پروفیسر سید حسن عباس صاحب ہیںجو اہم خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ان کی زیر نگرانی میں اردو کے مایہ ناز محقق و ناقد رشید حسن خاں کی شخصیت اور علمی کارنامو ں پر توسیعی خطبہ کا انعقاد بہ عنوان ’’ رشید حسن خاں محقق و مدون‘‘ ہوا تھا ۔اس کے علاوہ ۳۱۔ ۳۰ جولائی ۲۰۱۷ ء کو منشی پریم چند کے ۱۳۷ ویں یوم ولادت کی مناسبت سے دو روزہ قومی سیمینا ر ’’ منشی پریم چند حیات اور خدمات ‘‘کے موضوع پر منعقد کیا گیا تھا ۔ سیمناروں کے علاوہ سید حسن عباس صاحب نے مجاہدین آزادی کی یاد میں کتابوں کی نمائش کا بھی اہتمام کرایا تھا۔خطاطی کے نمونوں کی نمائش بھی دربار حال میں سجوائی تھی حسن عباس صاحب نے ۔ خطاطی کے بعد ہندی پکھواڑے کا بھی انعقاد کیا گیا تھا ۔ گاندھی جینتی ، سوچھ بھارت مشن ، سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یوم پیدائش پر راشٹری ایکتا دوس ، سر سید احمد خاں کی یوم پیدائش پر اخبار و رسائل اور سر سید پر لکھی گئی کتابوں کی نمائش ، امتیاز علی خاں عرشی کی یوم پیدائش تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا ۔
رام پور رضا لائبریری میں عام طور پر اسی نوعیت کے پروگرام کا انعقاد ہوتا رہتا ہے ۔ یہی وجوہات ہیں کہ دن بہ دن رضا لائبریری کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور ہوتا بھی رہے گا ۔
ریسرچ اسکالر ، شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی
[email protected]
حواشی:(۱) رام پور کا دبستان شاعری، مولف ۔ شبیر علی خاں شکیب،(۲)تاریخ کتابخانۂ رضا ,تالیف حافظ احمد علی خاں شوق رامپوری ,(۳) مسدس تہنیت جشن بے نظیر ,مصنفہ میر یار علی جان صاحب ریختی ,(۴) رضا لائبریری جرنل نمبر (۱),(۵) رضا لائبریری جرنل نمبر (۳۱),(۶) رضا لائبریری جرنل نمبر (۳۲)

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular