Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldردولی کی عزاداری کی ایک جھلک

ردولی کی عزاداری کی ایک جھلک

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

پروفیسر شارب ردولوی

ردولی کی تہذیبی زندگی میں مخدوم صاحب کے عرس اور محرم کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ یہ دو موقعے ایسے ہیں کہ تمام اہل ردولی جمع ہوجاتے ہیں اور ان کی خصوصیت یہ ہے کہ بلاتفریق ہر شخص وہ خواہ شیعہ ہو یاسنی ، ہندو ہویامسلمان ان میں شریک ہوتا ہے۔ چودھری سید ارشاد حسین(1954انتقال) مرحوم کاامام باڑہ اور مسجد اپنی خوب صورتی اور آراستگی میں بے مثال ہے ۔ردولی جیسے قصبے میں جہاں اس زمانے میں سڑکیں بھی نہیں درست تھیں ایسی عالی شان عمارتیں بنوانا بہت بڑا کارنامہ ہے چودھری صاحب کی جمالیاتی حس کااندازہ ان عمارتوں اور ان پر تغریٰ نویسی سے ہوتا ہے۔ یہاں کے 2محرم اور 10محرم کے جلوس بہت مشہور ہیںجو بڑی شان و شوکت سے ماہی و مراتب کے ساتھ نکلتے ہیں آزادی کے بعد تلواریں لے کر نکلنا بند ہوگیا ورنہ تعزیہ کے ساتھ ایک بڑی تعداد تلواروں سے کمر بستہ نوجوانوں کی ہوتی تھی۔ جان جلوس میںشرکت کے لئے قرب و جوار کے ہزاروں لوگ بلا تفریق مذہب و ملت آتے ہیں اس امام باڑے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں 53سال مسلسل خطیب بے بدل مولانا ابن حسن نونہروی نے عشرہ پڑھا ہے اور ان کے بعد اردو کے مشہور ناقد پروفیسر شبیہ الحسن عشرہ پڑھتے رہے ہیںاور اب جناب مولانا حجت صاحب عشرہ پڑھتے ہیں یہ امام باڑہ ہمیشہ مشہور ذاکر ین کا منبر رہا ہے۔
4محرم کو چودھری عیوض علی کے امام باڑے سے تعزیے کا جلوس اٹھتا ہے۔ چودھری عیوض علی کے پوتے اودھ کے مشہور شاعر اور مرثیہ گومولوی جعفر مہدی رزم ردولوی تھے اب اسکا انتظام و انصرام مولوی جعفر مہدی رزم کے بیٹے اکبر مہدی عون کے سپرد ہے اور اسی شان و شوکت کے ساتھ اب بھی 4محرم کا جلوس نکلتا ہے۔اور عشرے بھر مجالس کا اہتمام رہتا ہے یہاںبعض تاریخوں میں مرثیہ خوانی کی مجالس بھی ہوتی ہیں جن کے پڑھنے کے لئے دور دور سے شعرائے کرام آتے ہیں میں نے جونپور کے جناب یہاں محسن نواب صاحب اورراجہ صاحب محمود آباد کومرثیہ پڑھتے دیکھا ہے۔
7محرم کو ’بڑے امام باڑے ‘سے جو مہندی کا جلوس نکلتا ہے اور درگاہ حضرت عباس جاتا ہے۔ اس کا انتظام ایک زمانے تک چودھری محمد علی کرتے تھے یہ درگا ہ 1840میں میر سرفراز علی نے بنوئی تھی (بحوالہ چودھری علی محمد زیدی) جہاں لوہے کا ایک ایسا علم نصب ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک کنویں کی تعمیر کے وقت کنویں سے برآمد ہوا اس لئے میر سرفراز علی نے وہاں اس علم کو نصب کرکے درگاہ بنوا دی بعد میں اس درگاہ کا محرم چودھری محمد علی کی طرف سے ہوتا تھا۔ چودھری محمد علی ایک زمانے تک بہت زبردست محرم کرتے تھے۔ چالیس دن درگاہ حضرت عباس میںمجلسیں ہوتی تھیں۔ ان کے یہاں ایک بہت خوبصورت مومی تعزیہ رکھا جاتا تھا۔دس محرم کو دو دھا دھاری ہیںدفن کرنے کے لئے جاتے تھے اور وہیں اعمال عاشورہ بجا لاتے تھے۔ جہاں حکیم مولوی حسن عباس اعمال کراتے تھے۔
8محرم کو علم کا ایک بہت بڑا جلوس محلہ بنگلہا سے اٹھتا ہے جس کے دیکھنے کے لئے دیہاتی عورتیں سرشام سے سڑکوں کے کنارے بیٹھ جاتی تھیں اور ساری رات، دہے روتی رہتی تھیں ۔ یہ عورتیں غیر مسلم ہوتی تھیں۔ یہ علم قصبے کے اہل تسنن اٹھاتے ہیں لیکن اس میں سنی نوجوان نوحہ خوانوں کے ساتھ شیعہ نوحہ خوان بھی شریک ہوتے ہیں اس کی دو خصوصیتیں اورہیں کہ اس میں بہت بلند علم نکلتے ہیں اور انہیںاٹھانے کا مقابلہ ہوتاہے دوسرے اس میں غیر مسلم طبقے کے نوجوان زنجیری ماتم اور بلیڈ سے ماتم کرتے تھے یہ علم ردولی کی سیکولرزندگی اور جذباتی و تہذیبی یکجہتی کی بہت بڑی مثال ہے اس علم میں شرکت سبھی لوگ بہت ضروری سمجھتے ہیں۔اوریہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
9محرم کو دن میں بعد نماز ظہر بڑے امام باڑے سے بعد مجلس جلوس علم نکلتا ہے پہلے یہ مجلس صادق الشبر جامی پڑھتے تھے ان کے لندن چلے جانے کے بعد اویس قرنی صاحب پرھنے لگے ان کے انتقال کے بعد ماسٹر مجن پڑھتے ہیں۔ یہ علم محلہ صوفیانہ اور ملحق محلوں اور گھروں میں مجالس قائم کرتا ہوا حسینیہ ارشاد حسین پہنچتا ہے جہاں عشرے کی آخری مجلس ہوتی ہے جسے مولاناحجت صاحب خطاب کرتے ہیں۔یہ علم گشت کرتا ہوا بعد عشاء واپس بڑے امام باڑے پہنچتا ہے یہ ردولی کے عشرئہ محرم کا بہت اہم جلوس ہوتاہے۔
9محرم کو تمام امام باڑوں میں روشنی ہوتی ہے، امام باڑوںاور گھروں میں اندر رکھے ہوئے تعزیے باہر نکال کر رکھے جاتے ہیںاور ساری رات مرد اور عورتیں تعزیوں کی زیارت کے لئے آتے رہتے ہیں جن کے لئے امام باڑوںیا گھر والوں کی طرف چائے کا انتظام رہتا ہے بعض جگہوں پر لوگ کھچڑا پکا کر تقسیم کرتے۔ امام باڑوں کی روشنی خاص طور پر حسینیہ ارشادیہ کا اہتمام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
9محرم کی شب میں چھوٹے چھوٹے چھوٹے لڑکے مخصوص طرح کے سفید کپڑے پہنے اور سفید پگڑیاں باندھے امام باڑوں کا گشت کرتے رہتے ہیں یہ پائیک کہلاتے ہیں جو جناب صغریٰ کے پیغامبر سمجھے جاتے ہیں۔ یہ اس وقت تک نہ بیٹھتے ہیں اور نہ آرام کرتے ہیں جب تک دوسرے دن تعزے دفن نہ ہوجائیںسبزو سیاہ کپڑوں میں ملبوس مردوں اور عورتوں سے سڑکیں بھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ 10محرم کو مسلمانوں کے ساتھ ہندوئوں کے تعزیے بھی جلوس کے ساتھ دو دھادھاری اور امام باغ میں دفن ہوتے ہیں۔
دودھادھاری کا نام آیاتو اس کا تھوڑا سا ذکر بھی کردوں۔ یوں تو موضع وزیر گنج کے پاس یہ ایک غیر آبادجگہ تھی ایک بہت بڑے علاقے میں دو مٹی کے کافی اونچے اور دور تک پھیلے ہوئے پہاڑیاں نماٹیلے تھے ان کے بیچ میں بہت بڑا تالاب تھا ٹیلوں کی پاس کی زمین پر تعزیے دفن ہوتے ہیں۔ لیکن اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ایک بہت وسیع وعریض عمارت ہے جس میں تین مسجدیں چار امام باڑے ایک پری خانہ، ایک جنات خانہ اور کئی صحنچیاںہیں اور ان میں جانے کے لیے تقریباََ دس زینے چڑھنے پڑتے ہیں۔ یہ عمارت وزیر گنج کے کاشی رام کلوار نے بنوائی تھی۔ جس کی قبر اسی عمارت میں موجود ہے کہتے ہیں کہ اس نے ایک رات خواب دیکھا جس میں جنوں نے اسے حکم دیا کہ تم اِس اِس طرح کی ایک عمارت بنوائو اس حکم کے ساتھ اسے یہ بھی بتایا کہ فلاں فلاں جگہ پر روپیہ ہے ۔تم عمارت کے خراجات کے لیے وہاں زمین کھود کر روپیہ نکال لو۔ اس نے اس جگہ کو کھودا اور وہاں سے جو روپیہ ملا اس سے اس عمارت کی تعمیر ہوئی۔ اس کے نام کے سلسلے میں ایک عجیب قصہ مشہور ہے کہتے ہیں کہ وزیر گنج سے روزانہ ایک نوجوان عورت دودھ بیچنے قصبے میں آتی تھی اور دودھ بیچ کر واپس چلی جاتی تھی۔ ایک دن موجودہ دودھادھاری کی جگہ پر ایک بزرگ نظر آئے۔ انہوں نے اس عورت کو بلا کر دودھ مانگا اس نے دودھ دے دیا تو بزرگ نے دعادی کہ جا تیرا دودھ کبھی ختم نہ ہو۔ وہ عورت حسب معمول دودھ بیچنے قصبے میں آئی۔ سارا دن دودھ بیچتی رہی، لیکن دودھ ختم نہ ہوا۔ شام ہونے لگی تو واپس گھر کی طرف چل پڑی۔اسی جگہ پر پہنچ کر اسے فکر ہوئی کہ وہ گھروالوں کو کیا جواب دے گی کہ اتنی رقم اس کے پاس کہاں سے آئی جب کہ دودھ ایسی طرح موجودہے۔ مارے ڈر کے اس نے دودھ کی مٹکی زمین پر الٹ دی۔ اس میں سے دودھ کی ایس دھار بہہ نکلی کہ چاروں طرف دودھ ہی دودھ نظر آنے لگا۔ اس دن سے یہ جگہ دودھادھاری کے نام سے مشہور ہو گئی۔ یہ عمارت اب بہت شکستہ ہے لیکن دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ معلوم نہیں، اب بھی وہاں پریاں اور جن رہتے ہیں یا نہیں اور رہتے ہیں تو اسی طرح کسی کوروپیوں کی جگہ بتاکر اس کی مرمت کیوں نہیں کراتے۔
شیخانہ اور نواب بازار کے اہل تسنن کے تعزیے دو دھادھاری کے برابر دفن ہوتے ہیں مولوی جعفرمہدی صاحب رزم کا تعزیہ بھی اس کے پاس دفن ہوتا ہے میں نے اپنے بچپن میں یہاں پر لوگوں کو اعمال عاشورہ کرتے بھی دیکھا ہے۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular