Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldراجیو پرکاش ساحر کی افسانہ نگاری پر ایک نظر

راجیو پرکاش ساحر کی افسانہ نگاری پر ایک نظر

(منظور پروانہ)

ایک زمانہ تھا جب ادب خواب دیکھتا تھا اور سائنس اس خواب کی تعبیر تلاش کرتی تھی۔ لیکن اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے ساری دنیا میں ادب کو پچھلی نشست پر بیٹھنے کو مجبور کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی اتنا آگے بڑھ چکی ہے کہ ادب کی آنکھوں کو خواب دیکھنے کا یارا نہیں رہا۔ خاص طور پر انفارمیشن ٹکنالوجی کی بے مثال ترقی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ادب اس کا ساتھ نہیں دے پا رہا ہے۔ ایسے حالات میں’’پیاسی سبیلیں‘‘ کے افسانے پڑھ کر حیرت انگریز مسرت ہوتی ہے کہ ان افسانوں کے تخلیق کار راجیو پرکاش ساحر نے اپنے افسانوں میں سائنسی تجربات پیش کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر جنون ہو تو کوئی کام مشکل نہیں۔ ایسا نہیں کہ راجیو پرکاش ساحر سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے تخلیق کاروں کی تعداد بہت کم رہی ہے۔ جنھوں نے سائنس کو اپنے افسانوں میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس کی اصل وجہ یہ رہی کہ سائنس فکشن سمجھنے والے باذوق قارئین کا فقدان ہمیشہ رہا ہے۔ دراصل یہ موضوع وسعتِ مطالعہ کے بغیر سمجھ میں آہی نہیں سکتا۔ اور عام قاری کی سائنس میں اتنی استعداد کم ہی ہوتی ہے۔ مگر راجیو پرکاش ساحر کا کارنامہ یہ ہے کہ ان کا بیک گراؤنڈ سائنس کا نہیں ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے افسانوں کے ذریعہ عام قاری کو سائنس فکشن میں غوطہ زنی کا موقع فراہم کیا۔
راجیو پرکاش ساحر کا اعتراف ہے کہ وہ جذباتی ہیں مگر میں راجیو پرکاش کو جنونی مانتا ہوں۔ وہ اس لئے کہ یہ ان کا جنون ہی تھا جس کی بدولت تمام تر کاروباری اور گھریلو ذمہ داریوں کے باوجود انھوں نے کم وقت میں لمبا سفر طے کیا۔ لکھنوی ہونے کے ناتے اردو کو اپنی مادری زبان مانتے ہوئے انھوں نے اردو لکھنا پڑھنا سیکھا اور راجیو پرکاش سے ساحر بن کر اردو شاعری کے میدان میں قدم رکھا۔ اور اپنی ایک پہچان بنائی میں انھیں ساحرؔ کی حیثیت سے جانتا تھا۔ مگر کچھ عرصے بعد انھوں نے نثر کے میدان میں اپنی آمد ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے درج کرائی۔ اس طرح شاعری اور افسانہ نگاری کی دو پٹریوں پر ان کی ادبی گاڑی آگے بڑھتی ہی نہیں رہی بلکہ برابر تیز رفتار ہوتی گئی جس کا نتیجہ بھی خوش آئند نکلا۔ ۲۰۱۴ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’تعارف‘‘ منظر عام پر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ۲۰۱۵ء میں پہلا افسانوی مجموعہ ’’ایک بھیگے لمحے کی لمبی سڑک‘‘ زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آگیا۔
جنون صادق ہوتو راہیں کھلتی ہیں ۔ راجیو پرکاش کے جنون نے ان سے ایک اور کام لیا یعنی لکھنؤ کے افسانہ نگاروں کے افسانوں کے انتخاب کا کام۔ یہ انتخاب ۲۰۱۶ء میں منظر عام پر آیا جس کا نام تھا ’’ایک جھروکا افسانوں سے‘‘ ابھی حال میں یعنی ۲۰۱۸ء کے اوائل میں راجیو پرکاش ساحر کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’پیاسی سبیلیں‘‘ منظر عام پر آیا ہے۔ اسی مجموعے میں کل گیارہ افسانے ہیں۔ مجموعے میں شامل ہر افسانہ ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔
افسانہ نگاری کا فن آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ مشکل اس کے لئے جس نے افسانہ نگاری کا آغاز توکیا مگر اس کے پاس نہ آنکھ ہے اور نہ دماغ۔ یعنی وہ مشاہدات و تجربات کے بغیر کہانی سنا رہا ہو۔ مگر جس تخلیق کار کو مشاہدات و تجربات کی روشنی میں کہانی سنانے کا سلیقہ آگیا تو اس کے لئے افسانہ نگاری آسان بن جاتی ہے کیونکہ افسانہ نگاری نام ہے تجربات و مشاہدات کو سلیقے سے پیش کرنے کا۔ راجیو پرکاش ساحر کا شمار ایسے ہی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہیں تجربات و مشاہدات کی روشنی میں کہانی سنانے کا سلیقہ آتا ہے اور ساتھ ہی اپنے افسانے کے موضوع کے حسن کو اجاگر کرنے کے لئے پیش منظر کو صحیح ترتیب دینے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔
’’پیاسی سبیلیں‘‘ میں شامل تمام سبیلوں کا گہرائی سے جائزہ لینے پر جو پیاس سامنے آتی ہے وہ ’’فلاح انسانیت‘‘ کی پیاس۔ ساحر نے اپنے افسانوں میں سائنس کے موضوعات کو ایک علامت کے طور پر استعمال کیا ہے اور یہ علامت ہے قدرتی نظام کی۔ جب جب اشرف المخلوقات یعنی انسان نے قدرتی وسائل سے کھلواڑ کیا تو قدرت کے نظام میں خلل ضرور پڑا ہے اور بنی نوع انسان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ راجیو پرکاش ساحر کی خواہش ہے کہ یہ دنیا امن و امان کا گہوارہ بنی رہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں کا موضوع سائنس کو بنایا ہے ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے سائنس کو مذہبی رنگ دے کر قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ یعنی ان کی تخلیقات میں مذاہب کی روشنی میں سائنس کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ سائنسی علامتوں کے ذریعے انسانی خامیوں کو سامنے لانے کے ساتھ اس بات کی تنبیہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر جلد ہی انسان قدرت کے نظام میں دخل اندازی سے باز نہ آیا اور اس نے اپنے گورکھ دھندے بند نہ کئے تو انجام خطرناک ہوگا۔
آئیے مندرجہ بالا باتوں کے حوالے سے چند افسانوں پر گفتگو ہو جائے۔ سب سے پہلے افسانہ ’’خلائی موسیقی‘‘ سے بات شروع کی جائے تو یہاں بھی ہمیں وہی پیغام ملتا ہے اس افسانے میں تخلیق کار نے سائنس اور مذہب کے فرق کو سمجھانے کی کوشش کے ساتھ انسان کی فطرت اور ہوس کو اجاگر کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ انسان کو ہر نئی چیز کو جاننے کی ہوس ہوتی ہے اور پھر جب وہ اس کے ہاتھ میں آجاتی ہے تو وہ اپنے مفاد کے لئے اس کا استعمال کرتا ہے۔ افسانہ نگار نے خلائی موسیقی کی نو دریافت سے غلط کام نہ لیا جائے اس لئے اس نے خلائی سائنس کی نو دریافت کو کمانڈر اور اس کے نوجوان خلا باز کے سینے میں محض اس لئے دفن کراکر ان کی قربانی دے دی تاکہ اس دنیا کے لوگ اپنی فطرت کے مطابق وہاں خون خرابہ نہ کر سکیں اور خلد میں رہ رہی روحوں کو نقصان نہ پہونچا سکیں۔
افسانہ ’’وزن‘‘ میں راون جو کہ برائیوں کی علامت کے طور پر ہے اور شریف انسانوں کے درمیان سائنسی تصادم کو موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے اس افسانے میں بھی انسانی کارستانیوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ انسان اپنی عیاشیوں اور آشائسوں میں اس قدرت غرق ہو جاتا ہے کہ اسے اس کا علم ہی نہیں ہو پاتا کہ کب اس نے قدرت کے بنائے نظام کو چاک کر ڈالا۔ انسانوں کو بونا کہہ کر افسانہ نگار نے اس پر طنز کیا ہے۔ ساتھ ہی مذہب کے نام پر انتشار پھیلانے والوں کی مذمت بھی کی ہے۔ اس افسانے میں بھی انسانوں کی لاپروائیوں کا تذکرہ ہے اور اس بات کی تاکید ہے کہ اگر انسان اپنی غلط روش پر قائم رہا تو اس کا انجام انسانیت کے خاتمے کی شکل میں ہو گا۔
’’میری رات کھو گئی تیرے جاگتے بدن میں‘‘ اس افسانے میں جنسی ناآسودگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جس کے لئے افسانہ نگار نے مذہب، سائنس اور سیکس کا خوبصورت مثلث تیار کر بڑی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اس افسانے کی دوسری خوبی منظر کشی ہے جو قاری کوا ٓخر تک باندھے رکھنے میں کامیاب ہے۔
’’زنانہ پارک‘‘ اس افسانے میں زنانہ پارک کو ہر طرح کی برائیوں کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جرائم کی دنیا میں طبقاتی درجہ بندی اور اپنے مفاد کے لئے خود آدمی کسی حد تک گر سکتا ہے کو بہت موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے نچلے طبقے کے گناہوں پر پکڑ اور ہائی فائی طبقے کے لوگوں کے گناہوں پر کس طرح پردے ڈالے جاتے ہیں اور کیسے ان کو اس کے مواقع مفاد پرست لوگ فراہم کراتے ہیں کا ذکر موثر طور پر تخلیق کارنے کیا ہے۔
’’دھرنا استھل‘‘ اس افسانے میں افسانہ نگار نے بہت اہم سوال اٹھایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انصاف بغیر دھرنا دئے نہیں مل سکتا۔ کیا انصاف کے لئے دھرنا ہی آخری راستہ ہے کیا ہمارے ملک میں قانون کے راج کے بجائے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج ہے اور کیا عام آدمی کی جان و مال عزت و آبرو کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ کیا ہمارے ملک کا یہی مقدر ہے۔
افسانہ ’’تشنہ لبی‘‘ یہ افسانہ نچلے طبقے کی بنیادی ضرورتوں اور بے روزگاری کے مسائل پر مبنی ہے۔ مگر اس افسانے میں تخلیق کار نے شہری آلودگی کو بھی موثر ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ لیکن اصل سوال جو افسانہ نگار نے اس میں اجاگر کیا ہے وہ سوال یہ ہے کہ جو آلودگی انسانی ذہنوں پر چھائی ہے وہ کیسے دور ہوگی کیونکہ یہ ذہنی آلودگی ہی ہر طرح کی برائیوں کی ذمہ دار ہے اس افسانے میں یہ پیغام دیاگیا ہے کہ ایسی کوششیں ہوں جس سے صحت مند معاشرے کی بنیاد پڑے اور تازگی کا احساس ہو۔
ان تمام افسانوں کو پڑھتے وقت اس بات کا احساس شدت سے ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے تمام موضوعات کو عصری حسیت سے جوڑ کر اس کے محاسن اور معائب کو اس طرح پیش کیا ہے کہ ان افسانوں کو پڑھ کر قاری دور حاضر میں سماج اور معاشرے کی جو صورت حال ہے اس سے بخوبی واقف ہو سکتا ہے۔ تخلیقی ہنر مندی اپنی جگہ، زبان و بیان پر قدرت کے ساتھ پیش کش کا انداز متاثر کن ہے۔ یہ بھی سچ مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ موضوعات میں یک رنگی کے بجائے تنوع ہے۔ غیر ضروری مکالموں سے گریز اور بیانیہ کے ذریعہ کہانی کو آگے بڑھانے کا ہنر اور منظر نگاری کے لئے خوبصورت لفظوں کا انتخاب سونے پر سہاگہ کا کام کرتے ہیں۔
ان افسانوں میں راجیو پرکاش ساحر نے انسان کے داخلی احساسات اور خارجی مشاہدات کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ان افسانوں کو پڑھتے وقت قاری کے اندر ایک بے چینی کی کیفیت ضرور پیدا ہوتی ہے۔ بے چینی کی وجہ یہ ہے کہ کہانی ختم ہوتے ہی قاری کے ذہن پر مرتب اثرات اس کو دوسری کہانی سنانے لگتے ہیں۔ اور یہی راجیو پرکاش ساحر کے افسانہ نگاری کی کامیابی کی دلیل ہے۔
چند اقتباسات بطور نمونہ پیش ہیں۔
٭شہر کے نالوں اور سیوروں کی غلاظت نے ندی کو منھ دکھانے کے قابل چھوڑا ہی نہیں۔ ندی کا پانی اب کسی کام کا نہیں رہ گیا ہے سوائے اس کے کہ اس کی حالت پر رحم کیا جائے یا پھر افسوس جتایا جائے۔ البتہ ندی حالات سے ہاری مایوس زندگیوں کے لئے خودکشی کے راستے ضرور ہموار کرا دیتی ہے۔
٭اس شہر میں سب کچھ ہے۔ نظریں صاف کرنے کے لئے چشمے ہیں، خونِ دل صاف رکھنے کے لئے پیس میکرس ہیں، صاف ہوا کے لئے ماسک ہیں اور پانی صاف کرنے کے لئے واٹرپیوریفائرس ہیں لیکن ذہنوں کو پاک صاف رکھنے کے لئے کوئی انتظام نہیں ہے۔
٭خدا ایک ہے یا انیک اس پر زمین پر بہت اختلاف تھا، بحث و مباحثے ، تنازعے یہاں تک کہ فسادات بھی ہوتے رہتے تھے، خلا نورد کو شور و غل، لڑائی جھگڑے سخت ناپسند تھے۔ وہ ایک خاموش طبیعت اپنے آپ میں رہنے والا شخص تھا۔
٭تو کیا وحشت دہشت اور جنگ آسمان کی عظمت اور امن کو بھی درہم برہم کر دے کی۔؟
سچا فوجی وہی ہے جو جنگ سے نفرت اور امن سے محبت کرے۔
٭وہ اپنی محبوبہ کے تصور میں ڈوبا چاندنی میں گھلی نغمگی اور موسیقی کی اور بڑھتا جا رہا تھا۔ ان لمحوں میں نوجوان خلا با زپر وہی کیفیت طاری تھی جو اپنے محبوب کی پناہوں میں مست ناچتے گاتے جھومتے کسی صوفی کی ہوتی ہے۔
٭پھر بھی وہ جولیا کو کس کرنا چاہتا تھا، اس کے لبوں کو چومنا چاہتا تھا۔ وہ جو لیا کے جسم کو چھونا چاہتا تھا، فیل کرنا چاہتا تھا۔ وہ جولیا سے لپٹ کر اس کے سینے کے ابھاروں کو اس کے جسم کو سہلانا چاہتا تھا۔ وہ جو لیا کو مسل کر رکھ دینا چاہتا تھا۔ جو لیا کی کشش اس کو پریشان کر دیتی تھی۔
٭فرشتے سر جھکائے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ سیکڑوں عذاب ، زلزلے، سنامیاں، سیلاب، ابلیس اپنے آقا کے اشارے پر تانڈو مچانے کے لئے مچل رہے تھے۔
کہیں خدا یہ تو نہیں سوچ رہا تھا۔
’’کیوں نہ میں یہ کھیل ہی ختم کر دوں‘‘
’’رفع دفع کردوں سب کو‘‘
’’قصہ ہی ختم کردوں۔‘‘
یا خدا رحم کر۔
٭مرکزی ، ساحلی اور پہاڑی بونے ایک دوسرے پر حملہ آور ہو گئے۔ مارکاٹ مچ گئی۔ اور خون کے فوارے پھوٹ پڑے۔ ہال دیکھتے ہی دیکھتے کرو چھیتر کے میدان میں تبدیل ہو گیا۔ ہر طرف لاشوں کا انبار لگ گیا۔ گرنے والی لاشوں میں بزرگ بونے کی لاش بھی تھی۔
٭اس کے جسم میں موجود جنسی پلیٹیں ہائپر ایکٹو ہو چلیں۔ اب وہ چاہتا تھا کہ جلد سے جلد سانولی سلونی کے پیراہن سے نکل کر ایک جیتا جاگتا برہنہ جوان بدن اس تک آجائے جس سے وہ اپنی جنسی آسودگی حاصل کرے۔ جانے اس کی یہ کیسی جنسی ہوس تھی جو صدیوں سے انگنت نسوانی جسموں کو روندنے کے بعد بھی نہیں بجھ پا رہی تھی۔ خدا نے جنت سے برخاست کرکے اسے بے شمار بھوکوں کا غلام بناکر زمینوں پر کیوں ڈھکیل دیا۔
٭آخرکار دھرنا استھل سے موت اسے اپنے ساتھ لے گئی تھی لیکن وہ اپنے آخری لمحوں میں کیا کہنے یا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ؟ اس کا دایاں ہاتھ سورج کی طرف کیوں اٹھ رہا تھا۔؟
کیا وہ خورشید کو الوداع کہنا چاہتی تھی؟ یا وہ شمس پر لعنت بھیج رہی تھی۔؟
یا پھر وہ سوریہ دیو کو انتم نمسکار کرنا چاہتی تھی؟ یا پھر آفتاب کو آخری سلام؟
بہر حال وہ کچھ بھی کرنا چاہ رہی ہو۔
کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔
٭’’رولیا کرو رونے سے جی ہلکا ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی عورت چاہے بازار و ہو یا گھریلو اس کی قسمت میں رونا دھونا تو لگا رہتا ہے۔‘‘
٭آنٹی کہتی ہیں کہ پیشے میں جذبات کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے۔ اور میں پہروں آبدیدہ رہتی ہوں۔ آنٹی کہتی ہیں کہ عورت اس سبیل کے موافق ہے جس کا فرض صرف مردوں کی پیاس بجھانا ہی ہوتا ہے۔ اس روز ساجن جی کا مجھ پر یوں مچل جانا، دیکھا جائے تو ، کوئی غیر فطری عمل بھی نہیں تھا۔ ویسے بھی میں ہی کون سی دودھ کی دھلی یا گنگا سی پوتر ہوں۔
٭مصور کی تصویر نمائش میں خوبصورت مصورہ نے پیش کی اور راتوں رات اسٹار بن گئی۔ شہرت دولت کی تمام منزلیں اس کی حد میں آگئیں۔ مصور کی تصویر کو کلا سیکی شاہکار مانا گیا۔ تصویر کو ایک کار پوریٹ ہاؤس نے اچھے داموں میں خرید بھی لیا۔ مصور کے حصے میں آئی ایک رقم اور ایک رنگین رات ۔ ایک ایسی مستانی رات جس میں وہ مصورہ کے دلفریب جسم کی رعنائیوں سے کھل کر کھیلا۔
٭لکڑ بگھے نے اپنے پینے نکیلے دانتوں اور پنجوں سے خون کے سمندر بہا دئے جن میں وہ لوگ آپس میں ٹکرا ٹکرا کرڈوبنے لگے۔ ان سب کے وجود میں سراخ ہی سراخ ہو گئے ان کی گریویشنل طاقتیں جوانہیں زمین سے جوڑے ہوئے تھیں وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں۔ا ن کا وزن اتنا کم ہوگیا کہ وہ گمنام، تاریکیوں میں تنکوں کی طرح اُڑ گئے۔
مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے تمام افسانے لائق مطالعہ ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ مستقبل میں بھی ان کا قلم مزید جادو جگاکر قارئین کو سیراب کرتا رہے۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular