Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldدھنـــد میـــں چہــــرے

دھنـــد میـــں چہــــرے

ڈاکٹر ہارون رشید

پروفیسر شمیم نکہت اردو زبان و ادب بالخصوص اردو فکشن کی تاریخ میں اپنی تحریروں کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے۔جو بیک وقت افسانہ نگار،خاکہ نگار،مضمون نگار،ناقد اور شیریں بیان خطیب بھی تھیں۔ان کی پیدائش شہر نگاراں لکھنؤ ہی میں ماہ اکتوبر ۱۹۳۵ میں ہوئی ۔لکھنؤ کے مشہور کرامت حسین مسلم گرلس کالج میں ابتدا تا بی۔ اے۔ تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے اور پروفیسر احتشام حسین کی زیر نگرانی ’’پریم چند کے ناولوں میں نسوانی کردار‘‘موضوع پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیااور دہلی یونیورسٹی میں اردو کی لکچرر مقر ہوئیں اور وہیں سے بحیثیت پروفیسر ۲۰۰۰؁میں سبکدوش ہوئیں۔پروفیسر شمیم نکہت کی شخصیت ’’نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پروا‘‘کی مصداق تھی۔وہ ایسی خاتون تھیں جن میں حصول شہرت اور ناموری کا جذبہ بالکل نہیں تھا۔ان کی چار کتابیں ’’پریم چند کے ناولوں میں نسوانی کردار‘‘ دو آدھے افسانوی مجموعہ،تاثرات، تنقیدی مضامین کا مجموعہ اور’’ بچے کی پرورش‘‘ (ترجمہ) ان کی زندگی ہی میں شائع ہوئیں۔ بیٹی شعاع فاطمہ (۲۰؍برس)کے اتنقال کے بعد وہ اندر سے ٹوٹ گئیں تھیں لیکن انھوں نے اپنے شوہر پروفیسر شارب ردولوی کےساتھ شعاع فاطمہ کی یاد میں ۱۹۹۶؁میں اسکول قائم کیا جو آج ایک انٹر کالج کی صورت اختیارکر گیا ہے۔بیٹی کے انتقال کے بعد پروفیسر شمیم نکہت کی ادبی سرگرمیاں یکسرموقف سی ہو گئ تھیں۔لیکن انھوں نے مطالعہ آخر وقت تک جاری رکھا۔۲۹؍ستمبر ۲۰۱۶ ؁کو پروفیسر شمیم نکہت کا اس وقت انتقال ہو گیا جب وہ قدرے صحت مند لگ رہی تھیں۔

پروفیسر شمیم نکہت کے انتقال کے بعد ان کی وہ تحریریں جو اشاعت کی منزلوں تک نہیں پہونچ سکی تھیں انھیں شائع کرنے کا قابل مبارکباد قدم ڈاکٹر ریشماں پروین(ایسو سی ایٹ پروفیسر اردو کے۔ کے۔جی۔ پوسٹ گریجویٹ کالج،لکھنؤ) نے اٹھایا۔اور ان کی تمام تحریروں کو’’دھند میں چہرے‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔ ۲۷۲؍صفحات پرمشتمل کتاب میں۹؍افسانے،چھہ خاکے،اٹھائیس ریڈیو نشریے،سات مضامین اورآخر میں پانچ نظمیں شامل ہیں۔ پیش لفظ کی شکل میںڈاکٹر ریشماں پروین کے قلم سے نکلا ان کا مضمون ’’پروفیسر شمیم نکہت اپنے اوراق کے آئینے میں‘‘ شامل ہے جو شمیم نکہت کے فن اور شخصیت پر خاطر خواہ روشنی ڈالتا ہے ۔وہ لکھتی ہیں:۔
’’پروفیسر شمیم نکہت ایک کثیر الجہت ادیبہ تھیں ،ان کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا جس کی پہلی سامع(بقول شمیم نکہت) خود ان کی بہنیں ہوا کرتی تھیں۔آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بڑھتا گیا ۔رضیہ سجاد ظہیر اور شارب ردولوی کے ساتھ نے شمیم نکہت کے فن کو جلا بخشی۔شمیم نکہت اپنے آپ میں ایک دبستان اور تخلیقی ادب کے ایک عظیم الشان عہد کی نمائندہ تھیں۔حالانکہ انھوں نے کبھی خود کو عظیم ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘
ڈاکٹر ریشماںپروین نے شمیم نکہت کی خاکہ نگاری پر بھی اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’
شمیم نکہت نے افسانے اور تنقیدی مضامین کے علاوہ بہت سے خاکے بھی لکھے جن میں وہ ایک ایماندار خاکہ نگار نظر آتی ہیں۔شمیم نکہت کے اہم خاکوں میں رضیہ سجاد ظہیر،قمر صاحب ،عارف نقوی ،استانی جی اور نورالحسن ہاشمی کے خاکے شامل ہیں‘‘
ڈاکٹر ریشماں کے مطابق شمیم نکہت کثیر الجہت ادیبہ ہونے کے باوجود خود کو ایک افسانہ نگار کہنا زیادہ پسند کرتی تھیں۔وہ حوالہ جاتی اقتباس کے ساتھ لکھتی ہیں کہ:۔
’’حقیقت یہ ہے کہ صرف کہانیاں ہی ان(شمیم نکہت)کی تخلیقیت میں خصوصی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ بعض مضامین کی قرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر شمیم نکہت نے کہانیوں کے ساتھ تنقید پر بھی توجہ کی ہوتی تو یقیناً ان کا شمار فکشن کے اہم ناقدین میںہوتا‘‘
اس سلسلہ میں ریشماں پروین شمیم نکہت کے مضمون سے ایک اقتباس نقل کرتی ہیں :۔
’’آج اردو کہانی ماضی کی کہانی سے بالکل مختلف ہے،آج نہ وہ پریم چند کی حقیقت نگاری ہے نہ انقلاب کابیانیہ،نہ عہد علامت نگاری،نہ ابہام کی ایسی تصویر جس کے معنی کی تلاش میں قاری خود گم ہو جاتا تھا۔ایسا نہیں ہے کہ آج کی کہانی نے ماضی سے اپنے رشتے منقطع کر لئےہوں،(واقعہ یہ ہے کہ ) ہر نیا عہد اپنے ماضی کی بنیادوں پر ہی کھڑا ہوتا ہے اور اس پر اپنی نئی اور عظیم عمارتوں کی تشکیل کرتا ہے۔اردو کی نئی کہانی نے ان تجربوں کو اپنایا نہیں بلکہ ان کی خوبیوں اور کوتاہیوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی نئی راہوں کا تعین کیا ہے۔اس کہانی کو آپ جدید کہیں،ما بعد جدید کہیں یا نئی ترقی پسندی سے تعبیر کریں،میرا خیال ہے کہ ناموں اور اصطلاحوں سے کچھ نہیں ہوتااصل چیز تخلیق ہے۔اور تخلیق خود اپنے بارے میں بتا د یتی ہے۔آج کی کہانی جس سماجی اور تہذیبی سروکار کو ہیش کرتی ہے وہ بہت اہم ہے ۔میں یہاں پر کہانی کے فن اور اس میں آنے والی تبدیلیوں کی تفصیل میں جانے کے بجائے خود کہانیوں کے بارے میں گفتگو کرنا زیادہ پسند کروں گی۔اس لئے کہ ہمیں جو کچھ کہنا ہے وہ خود اگر کہانی بیان کرے تو زیادہ بہتر ہے۔‘‘
اس قتباس سے ریشماں پروین کا دعوی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوتا ہےکہ اگر شمیم نکہت تنقید پر بھی توجہ کرتیں تو فکشن کے اہم ناقدوں میں ان کا شمار ہوتا۔’’دھند میں چہرے‘‘میں مشہور افسانہ نگار رتن سنگھ کا ایک مضمون’’شمیم نکہت کی کہانی‘‘بھی شامل ہے جو شمیم نکہت کی حیات میں ہی لکھا گیا معلوم ہوتا ہے ۔لیکن شائد شائع نہیں ہو سکا اس لئے زیر تبصرہ کتاب میں شامل کیا گیا ہے ۔رتن سنگھ نے اپنے مضمون میں شمیم نکہت کی کہانی ’’دو آدھے ‘‘کا خوبصورت تجزیہ بھی کیا ہے اورپاکستان کے نقاد محمد علی صدیقی کا ایک اقتباس بھی نقل کیا ہے جس میں انھوں نے شمیم نکہت کی کہانیوں پر اپنا خیال یوں ظاہر کیا ہے:۔
’’۔۔۔یہ کہانیاں ریزہ ریزہ ہوتے دکھائی دینے والے کرداروں میں زندگی کےا ن حیات بخش آدرشوں کا پتہ دیتی ہیں جو کمال ایمانداری کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کو انسان دوستی کے لئےلازم و ملزوم خیال کرتے ہیں‘‘
رتن سنگھ بھی یہ محسوس کرتے تھے کہ شمیم نکہت میںوہ کہانی کار جسے کبھی رضیہ آپا(رضیہ سجاد ظہیر) نے جگایا تھا وہ اگر سویا نہیں توپس پشت ضرور چلا گیا تھا۔لیکن جیسا کہ ڈاکٹر ریشماں نے لکھا کہ وہ شعاع فاطمہ کے انتقال کے بعد پہلے جیسی متحرک نہیںرہ گئی تھین لیکن ان کے مطالعہ کا شوق زندہ تھا۔شمیم نکہت کے ا نتقال کے بعدجو کچھ افسانوں،مضامین،خاکوں،ریڈیو نشریوںاورنظموں کی شکل میںان کا غیر مطبوعہ اثاثہ موجود تھا جسے ان کے شوہر پروفیسر شارب ردلوی نے سہیج کر رکھا تھا،ان تمام تحریروں کو پوری ایمانداری سے ڈاکٹر ریشماںپروین نے دنیائے ادب کے سامنے پیش کر کے اپنا ادبی فریضہ انجام دیا جس کے لئے وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔
کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ کاغذ عمدہ اور طباعت دیدہ زیب ہے۔نہ صرف شمیم نکہت کے ہم عصروں ،ان کے چاہنے والوںبلکہ مستقبل کے طلبہ اور ہر باذوق قاری کے لئے کتاب افادیت کی حامل ہے۔جس کے مطالعہ سے شمیم نکہت کی شخصیت اور ان کے فن کے نہاں خانے ذہنوں پرمنکشف ہوتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ ارباب نقد ونظر تاثراتی نقطہ نظر سے ہٹ کر شمیم نکہت کی تخلیقات اور ان کی تنقیدی تحریروں کا غیر جانبدارانہ محاکمہ کر ادب میں ان کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کریں۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular