Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldدکنی مرثیہ

دکنی مرثیہ

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

پرویز شکوہ
مرثیہ عربی لفظ ’’رثا‘‘ سے لیا گیاہے۔ اس کے معانی ہیں’’مرنے والے کا بیان‘‘۔ عرب کے شعراء کا یہ دستور تھا کہ وہ اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کی موت پر ان کے بارے میں اپنے جذبات اور احساسات نظم کیا کرتے تھے۔ اہل ایران نے اس میں ترمیم کی اور اسے واقعۂ کربلا کے بیان تک محدود کر دیا اور اس بیان کے لئے قصیدہ کے سانچہ کا استعمال کیا گیا۔ آگے چل کر قصیدہ اور مرثیہ دو الگ الگ اصناف قرار پائے اور دونوں کے اجزائے ترکیبی میں اختلاف ہوتاگیا۔ الغرض ایران میں حضرت امام حسینؑ اور ان کے رفقاء کی شہادت کے بیان کے لئے مرثیہ کی تخصیص ہوئی۔
شیخ آزری کو فارسی کا پہلا مرثیہ گو کہا جا سکتاہے۔پروفیسر سید مسعود حسین رضوی ادیب نے شیخ آزری کو فارسی کا پہلا باقاعدہ مرثیہ گو تسلیم کیا۔ (ایران میں مرثیہ گوئی کی ابتدا اور چند مرثیہ گو)
فردوسی،فرخی،شیخ سعدی اور امیر خسرو کے مرثئے بھی اسی دور سے متعلق ہیں۔ جنوبی ہند میں ایرانی علماء و شعراء اپنی ایرانی تہذیب و تمدن کی روایتیں اپنے ساتھ لائے۔ ان کے اعتقادات و احساسات وغیرہ کا اثر دکن کی زندگی پر فطری طور پر پڑا۔اور یہاں عزا داری کا آغاز ہوا۔
 جنوبی ہند میں مرثیہ گوئی کا آغاز بہمنی دور میں ہوا تھا۔ بہمنیوں کے آخری زمانے میں ایرانیوں کی کثیر تعداد  دکن میںمقیم ہو چکی تھی اور وہ اہم عہدوں پر فائز تھے۔جس سے حکمرانوں کا رجحان شیعیت کی طرف بڑھ گیاتھا۔ (نصیر الدین ہاشمی:دکن میں اردو،ص185-184)
دکن کے اولین دور کے مراثی میں محمد قلی قطب شاہ اور وجہی کے مرثیے خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ وجہیؔ ابراہیم قلی قطب شاہ کے زمانے میں موجود تھے۔ ان کے مرثیے اولین دور کی خصوصیات کے حامل ہیں۔ نمونۂ کلام ہدیۂ قارئین ہے:
حسین کا غم کرو عزیزاں
انجھونین سوں جھڑو عزیزاں
محب دلاں کوں اجل کا ساقی
پیالے غم کے سو بھر پلایا
حسین یو یاراں درود بھیجو
کہ دیں کا یو دیوا جلایا
وجہیؔ یہاں حضرت امام حسین کی شہادت کا ذکر کرتے ہیں اور اس ذکر پر رونے کی تلقین کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا وجہیؔ کا مرثیہ قصیدے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس سے ہمیں مرثیے کی ابتدائی ہیٔت کا پتہ چلتاہے۔
محمد قلی قطب شاہ نے بھی متعدد مرثیے لکھے تھے۔ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد پانچ ریاستیں وجود میں آئیں جن میں تین ریاستیں گولکنڈہ، احمد نگر اور بیجا پور خاص طور سے قابل ذکر ہیں یہ ریاستیں ایرانیوں کے زیر اثر تھیں۔ اس لئے ان ریاستوں میں حضرت امام حسینؑ کی عزاداری وسیع پیمانے پر ہونے لگی تھی اور دکن میں تمام مسلمانوں اور غیر مسلموں تک نے عزا داری میں بڑی عقیدت اور انہماک سے حصہ لیا کیونکہ حضرت امام حسینؑ کی حقانیت کے بارے میں تو کسی بھی فرقہ کا اختلاف نہیں ہے۔
بیجا پور ریاست کی عادل شاہی حکومت کے بانی یوسف عادل شاہ تھے۔ یہ شیعہ مسلک کے تھے۔ ایک جگہ محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں:’’یوسف عادل شاہ‘‘ عادل شاہی خاندان کا پہلا حکمراں تھا جو سلطنت بہمینہ کے زوال کے بعد بیجا پور میں عادل شاہ کا لقب اختیار کرکے وہاں کا مستقل بادشاہ بن گیا۔ یہ شیعہ مسلک کا تھا۔809ھ؁ میں اس نے بیجا پور میں بارہ اماموں کے نام کا خطبہ پڑھا۔ہندوستان میں یہ پہلا بادشاہ تھا جس نے اپنے ملک میں ائمہ اثنائے عشری کے نام کا خطبہ پڑھا اور اس مذہب کی ترویج کی۔‘‘ (فہقائے ہند ،ص:71)
قطب شاہی سلطنت نے بھی اس کا اثر قبول کیا اور اس روایت کی پیروی کی۔ محمد قلی قطب شاہ ہر سال ماہِ محرم میں مرثیے لکھتے تھے۔ لیکن ان کے چند مرثیے ہی دستیاب ہیں جن میں کچھ نا مکمل مرثیے ہیں۔ان کے مرثیے غزل کی ہیٔت میں ہیں۔
محمد قلی قطب شاہ کے مرثیے میں دخترِ رسولؐ بی بی فاطمہ زہراؐ کو اپنے فرزند حضرت امام حسینؑ کے لئے خون کے آنسو رونے کا بیان نذر قارئین ہے۔  ؎
لہو روتی ہیں بی بی فاطمہ اپنے حسیناں تیٔں
اولہو لالی کا رنگ ساتویں لگن اپرال چھایا ہے
کلیات عبد اللہ قطب شاہ سے ایک مرثیہ کے چند اشعار پیش ہیں۔ جن میں پرُ درد انداز میں حضرت امام حسینؑ کی رخصت اور شہادت کا بیان ہے اور اس بے کسی پر رونے کی تلقین کی گئی ہے۔
حسین کا وقت جب ڈاٹیا، شمر نے آگلا کاٹیا
حرم کا دیکھ سینا پھاٹیا دُنیا رو رو پکاری بھی
کرو اے دوستاں ماتم ، ثواب ہے بھوت کر ناغم
مدد ہوئیں گے امام ہر دم ، کی ہے امیدواری بھی
جس طرح اردو کی شعری روایات کا آغاز جنوبی ہند سے ہوا اسی طرح مرثیہ نگاری کی ابتداء بھی دکن ہی میں ہوئی۔ ان کے یہاں ابتدا سے ہی مختلف روایات کو مرثیہ میں نظم کرنے کے رجحانات ہمیں ملتے ہیں۔
محمد قلی قطب شاہ نے اپنے ایک مرثیے میں یہ روایت نظم کی ہے کہ کر بلا میں حضرت امام حسینؑ کی مدد کرنے کے لئے ملک آئے لیکن امام نے ان کی پیشکش کو قبول نہیں فرمایا۔
محمد قلی کے مرثیے کا شعر ہدیہ قارئین ہے:
مدد کرنے ملک آئے قبولے نہیں امام ان کو
کہ حیدر ہات تھے چہار وندیاں سرگرایا ہے
دکن کے غواصیؔ کے مطبوعہ کلیات میں ان کے دو مرثیے شامل ہیں۔ غواصیؔ عبد اللہ قطب شاہ کے درباری شاعر تھے وہ ملک الشعراء تھے۔
دکن کے اِس عظیم شاعر غواصیؔ کے مرثیوں کے مطالعے سے یہ اندازہ ہو جاتاہے کہ غواصیؔ نے مثنویوں، قصیدوں، غزلوں اور رباعیوں کے علاوہ اس صنف میں بھی طبع آزمائی بحسن و خوبی کی ہے۔
غواصیؔ کے مرثیہ کے چند شعر نذر قارئین ہیں جن میں مختلف صنعتوں کا فنکارانہ استعمال ملتاہے:
چندانہ سکھ سوںسوتا اس دکھ سوں عمر کھوتا
تاریاں سوں روز ہوتا، قربان کربلا کا
جلتا ہے سور جوتی، دُنیا کھڑی ہے روتی
کاں تے ہوا یو کوئی، مہمان کربلاکا
رفتہ رفتہ دکنی مرثیہ میں ہیٔت اور عروضی ترکیب میں تبدیلی سے کام لیا جانے لگا۔ مربع مخمس اور مسمط کی شکل میں مرثیے تحریر کیے جانے لگے۔ یہ گولکنڈہ کی سلطنت کا عہد ابواالحسن تانا شاہ کا تھا۔ اس عہد میں دکن میں مرثیہ نگاری پروان چڑھی اس دور کے مرثیہ نگاروں میں فائز، سیوک، لطیف، افضل، نوری کاظم اور شاہی کے نام خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔
بیجا پور کی شاہی سلطنت کا دور اردو مرثیہ کی ترقی کا دور تھا اور علی عادل شاہ شاہی کے عہد میں شاہی ، نصر تی اور مرزا نے اردو مرثیہ میں اپنی مہارت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ اس صنف کے وقار میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا۔
سترہویں صدی میں علی عادل شاہ ثانی کے بادشاہ ہوتے ہوتے نصرتی ادب کی مملکت پر حکمراں ہو چکا تھا۔ علی عادل شاہ نے اپنے بچپن کے ساتھی نصرتی کو اپنے دربار کا ملک الشعراء بنا کر اسے اپنایا۔ ’’کلیات شاہی‘‘ کے مرتب مبارزالدین رفعت کے مطابق ’’کلیات شاہی‘‘ کے قلمی نسخے میں ایک سے زیادہ مرثیے تھے۔ لیکن اس صفحہ کی آب زدگی سے ناقابل قرات بنا گئی ہے۔ چند الفاظ بمشکل پڑھے جا سکے ہیں۔ اس صفحہ پر جو مرثیہ درج تھا، ا س کا قافیہ اور ردیف ’’بھایاہے‘‘ اور ’’سایہ ہے ‘‘پڑھے جا سکے۔(کلیات شاہی،ص:67)
لہٰذا مکمل مرثیہ دستیاب نہیں ہو سکا۔
شاہی کے مرثیہ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں شہادت امام حسینؔ کا ذکر ہے۔
شہادت کا ذکر کاری فلک ایسا دکھایا ہے
نبی کے خاندان کے جو دیوے تھے سب بوجایا ہے
سنیاسی ہو گگن پھرتا ، پر اوا نیل کا لیکن
چندر سورج کی موری دھر کھپر دکھ کا بھرایا ہے
زمین زاری کرے ساری ندیاں آنسو چلے کاری
فراقی ہو نرا دھاری نین آنسو چلے کاری
فراقی ہو نرا دھاری نین بادل رولایا ہے
(کلیات شاہی ، مبارز الدین رفعت، ص:17)
مرزا بیجا پوری نے بھی شہدائے کربلا کے مرثیے تحریر کئے۔ اور انہیں دکن کی مرثیہ نگاری میں ممتاز مرثیہ گو کی حیثیت حاصل ہے۔ مرزاؔ کے مرثیہ کے چند اشعار ہدیۂ قارئین ہیں جن میں انہوں نے حضرت قاسمؑ کے کنگن وغیرہ اور ان کی رخصت کا بیان کیاہے۔
قاسم کہے دکھائو شتابی لگن مرا
مجھ ہاتھ میں لے آکے بندھائو کنگن مرا
آئی قضا مقابل دلائی لگن مرا
اس وقت کا ہے باب سروپر چمن مرا
جلوہ میں اٹھ کے رن کو چلا تب کہی دلہن
دامن پکڑ کے لاج سے انجواں بھرے نین
مت چھوڑ کر سدھارو تم اس حال میں ہمن
تم بن رہے گا ہائے یہ سونا بھون مرا
مرزابیجاپوری نے صرف حمد ، نعت، منقبت اور مرثیے ہی لکھے ہیں اور دیگر صنف سخن میں طبع آزمائی نہیں کی ہے۔
مختصر یہ کہ قطب شاہوں کے مقام دکن کی فضائیں مرثیے کی ابتداء اور اس کی مسلسل ترقی سے ہمیشہ مانوس رہی ہیں اور کربلا کے اس غم سے ربط کو اہل فکر و نظر کے درمیان حق و صداقت سے وابستگی سمجھی جاتی رہی ہے۔
44،مقبرۂ جناب عالیہ ، گولہ گنج ،لکھنؤ
رابطہ :7505299219
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular