Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldدوہرا معیار

دوہرا معیار

عارف نقوی
بھابی جی  آج  بہت جوش میں ہیں۔ غصّے سے کھول رہی ہیں۔ لگتا ہے جسم کا سارا خون  چہرے پر اوند آیا ہے۔جسم تھرا رہا ہے ۔ کبھی جھاڑن ہاتھ سے چھوٹ کرگر جاتا ہے،  کبھی چائے کی پیالی ٹوٹ جاتی ہے:
ـ’’میں کہتی ہوں اس گدھے کو اتنی لفٹ ہی کیوں دی۔ اتنا قریب آنے ہی کیوں دیا۔ اس کو جم دیاں ہی کیڑے کیوں نہیںپئے ، کیڑے پڑیں اس کی جوانی میں۔ پتہ نہیں کس لفنگے کا بیٹا ہے۔تجھے کسی ایسے ویسے کی لڑکی سمجھا ہے کیا  ،اس بدمعاش نے۔ ناکھِد، نکما۔ رَب دی  مار پڑے ۔‘‘
سریندر ایک کونے میں سوفے پر بیٹھی  ماں کو ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی اور ان کے تیور پر دل ہی دل میں محظوظ ہو رہی تھی۔’’اری ماں، اس نے صرف ہاتھ چھوا تھا ۔ میں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔  پھر میری سہیلیوں  نے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ بس اتنی سی ہی تو بات ہوئی تھی۔‘‘  سریندر نے ماں کے غصّے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
’’ ہَٹ وے ، چل ہٹ،  باتیں نہ بنا ۔  تو نے ہی تو کہا تھا کہ تیرے کلاس فیلو نے چھیڑا ہے تجھے ۔۔۔ اری اب  اگر الٹے سیدھے سَمے پیر گھر سے باہر نکالا  تو بند کردوں گی تیری آزادی۔ کیا ضرورت تھی کلاس  میں اس چھوکرے کے  قریب بیٹھنے کی۔اور کوئی جگہ نہیں ملی تھی تجھے۔ اری کچھ تو اپنے پریوارکی پریسٹیج کا خیال کیا ہوتا۔ تیرے پتا ڈاکٹر ہیں کوئی چپراسی یا مالی نہیں۔ تیرا تو لگتا ہے جیسے دھرم ہی نشٹ ہو گیا ہے۔ بس انگریزی میں گٹ پٹ کرتی رہتی ہے اور فیملی کا نام بدنام کرتی ہے۔ جانتی ہے آج تک کسی نے ہمارے پریوار کی لڑکی کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ ‘‘  بھابی کے ہاتھ سےجھاڑن ایک بار پھر زمین پر گر پڑا۔ سندر بھیّا نے  اپنی بیٹی کی جان چھڑانے کی کوشش کی:
’’ارے تو اس میں بیٹی کا کیا دوش ہے۔ آجکل کے لڑکے ہی شرارتیں کرتے ہیں۔ لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں۔
بس کہیں کوئی خوبصورت لڑکی  نظر آجائے۔  یہ سب تو  ہمارے ایجوکیشن سسٹم کی خرابی ہے۔ہماری شکھشا ویاوستھا کا دوش  ہے۔‘‘
انھوں نے ’’ شکھشا ویاوستھا‘‘ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’ بس،بس، چھوڑو ایسے ایجوکیشن  سسٹم اور اپنی شکھشا کو۔‘‘  بھابی نے ایک بار پھر وار کیا۔اور اپنی بیٹی کی طرف گھور کر دیکھا۔
سریندر نے اب ایک کتاب اپنے ہاتھوں میں اٹھا لی تھی اور خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔  میں بھی ایک  طرف اپنے سوفے میں دھنسا  ڈائلاگ سن رہا تھا۔ ڈرتا تھا کہ اگر میں نے کچھ کہا تو بھابھی کا جوش اور بڑھ جائے گا۔
میں جرمنی سے چھٹیوں میں ہولی منانے کے لئے دہلی آیا  تھا اور فرینڈس کالونی  میں  اپنے  بھائی اور اس کے گھر والوں کے ساتھ ٹھیرا  تھا۔ میرا بڑا بھائی سندر سنگھ اور بھابی منجیت کور میرے آرام کا پورا خیال رکھتے تھے ۔ دونوں مجھ پر دل وجان سے  مہربان تھے، اس لئے میں بھی کبھی ان سے بحث میں نہیں الجھتاتھا۔ اگر کو ئی بات نا پسند ہوتی تو خاموش رہتا  ورنہ اچھی بات پر تعریف کر دیتا تھا۔ اس لئے اس وقت بھی  چُپ  رہنا ہی مناسب تھا۔
’’ ارے رجوندر،تو تو کچھ  بولتاہی نہیں۔ بس اپنی بھتیجی کے نخرے اٹھاتا ہے۔  منجیت بھابھی نے اچانک  مجھے بحث میں گھسیٹنا چاہا۔  میں ابھی بھی خاموش بیٹھا رہا۔ جی چاہا کہ کہوں:   تو اس میں ایجوکیشن سسٹم کا کیا دوش ہے۔ تم  لوگ اسے کیوں کوس رہے ہو؟  اسی ایجوکیشن  کی  بدولت  توتمھارے میاں  ڈاکٹر بن گئے ہیں  اور اسپتال میں سروِس کرتے ہیں۔تم بھی اسکول میں پڑھانے لگی ہو۔ فیشن کرتی ہو ۔ نئے نئے گہنے پہنتی ہو۔ مگر میں بھابی کی عزت  کرتا تھا ۔ بڑے بھائی کی موجودگی میں ویسے ہی زبان بند رکھنا مناسب سمجھا جاتا ہے  اس لئے  خاموش رہا۔
انھوں نے اب اپنے پتی کو گھورتے ہوئے کہا:
’’یہ سب سرکار کا دوش ہے۔  ایسے لڑکوں کو سزا دینے کے لئے کچھ نہیں کرتی۔  دیکھا نہیں ابھی کچھ دن
ہوئے بس میں ایک لڑکی کو  ریپ کر دیا گیا۔ ‘‘  بھابھی کی آواز دردناک ہو گئی۔
’’ کتنی معصوم تھی وہ بیچاری۔ اپنے دوست کے ساتھ بس میں چلی جا رہی تھی۔ غنڈوں نے اسے پکڑ کر بلاتکا ر کردیا۔
مارڈالا ان ظالموں نے اس بیچاری کو۔ اور بس والا صرف دیکھتا رہا۔  سرکار دیکھتی رہی،  پولیس دیکھتی رہی۔ میںتو کہوں گی  ان غنڈوں کو،  بس والے کو،  سڑکوں پر پہرہ دینے والوں کو،  پوری سرکار کو،  سب کو پھانسی پر لٹکا دینا چاہئیے۔‘‘
’اور نیتائوں کو؟‘‘  بھائی صاحب نے  اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے چٹکی لی۔
’’ سب کو۔ جتنے نیتا ہیں، نوجوانوں کے گیت گاتے ہیں۔۔۔سب کو۔‘‘
’’ تو بچے گا کون؟‘‘ اس بار مجھ سے چپ نہ رہا گیا۔ بول ہی پڑا۔
’’ بچے نہ بچے،  لاج تو بچ جائے گی۔ ارے توبھی کیسی بات کرتا ہے رجوندر۔  تو تویورپ میں رہتا ہےتو کیا جانے یہاں کے حال۔  آج کل یہاں دن رات یہی سب ہو رہا ہے کبھی ممبئی میں، کبھی گو آ میں کبھی۔۔۔ کلجگ  ہے کلجگ۔‘‘
میں اچانک خیالات میں گم ہو گیا ۔  پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ۱۹۴۷ء کا ایک مبارک دن تھا۔ ہندوستان  کی آزادی کا اور پاکستان کے قیام کا اعلان کردیا گیا تھا۔ دو سو سال کی انگریزی غلامی سے  چھٹکارا مل گیا تھا۔ چاروں طرفجشن کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ میں اس سب سے بے خبر مغربی پنجاب کے شہرسیالکوٹ  کے قریب ایک قصبے میں نارنگیوںکے باغ میں  اپنی سرجیت کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا اور پیڑوں پر لٹکتی ہوئی نارنگیوں کی خوشبوسے مست تھا۔برسات کی سہانی رات تھی۔پونم کا چاند بادلوں سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ ستارے کبھی جگمگاتے ، کبھی بادلوں کی اوٹ میں منہ چھپاتے، کویل کی سریلی کوک اور چڑیوں کی چہچہاہٹیں سندر راگ سناتیں ۔کبھی جگنو ئوںکے رقص نظر آتے اور کبھی پیڑوں سے ٹپکتی ہوئی نارنگیوںکی مدھرآوازیں کانوںمیں رس گھول دیتیں اور میں اپنی سرجیت کو اور زور سے سینے سے لگا لیتا اور وعدہ کرتا کہ اس سے کبھی  بے وفائی  نہ کروںگا۔ اسے کبھی دکھ نہ اٹھانے دوںگا۔اور پھر گانے لگتا :  ’’ اے میری  ہمدم۔۔۔گیتوں کے سرگم۔۔۔پایل کی چھم چھم  بے تاب عالم  ۔۔۔‘‘
اچانک پیڑوں کے پیچھے سے سرخی  ابھرتی ہوئی نظر آئی اور بڑھتی چلی گئی۔ اور ایسا لگا جیسے سارا آسمان لال ہو گیاہے۔پھر دور سے شور اٹھا اور قریب آتا  گیا اور بھیانک ہوتا گیا۔ اس نے سارے باغ کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔
 آزادی کا جشن منایا جا رہا  ہے  میں نے سوچا۔ پٹاخے داغے جارہے ہیں، شاید آتش بازیاں چھوڑی جا رہی ہیں۔آزادی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔لیکن ستارے آسمان پر پھیلتی ہوئی سرخی میں غائب ہو گئے۔ کویل کی کوک، پپیہے کی پی کہاں، جگنوئوں کے رقص بڑھتے ہوئے شور اور گھٹن میں ڈوب  گئے ۔ میرے سرپر لاٹھی پڑی اور سرجیت مجھ سے چھین لی گئی۔
سیکڑوں لوگوں کے مجمع میں غائب ہو گئی۔ کچھ دیر اس کی چیخیںسنائی دیں۔ پھر وہ بھی شور میں گم ہو گئیں۔ میں نارنگی کے پیڑ کے نیچے خون میں لتھ پتھ دیر تک پڑا  روتا رہا۔  اس دن میرے قصبے کے کئی محلّے جلادئے گئے۔ سیکڑوں لوگوں کو قتل کر دیا  گیا۔  بچے بوڑھے مذہب کے نام پر اَناتھ اور بے سہارا کر دئے گئے۔  عورتوں کے سہاگ اور  لاجیںلوٹ لی گئیں ۔
کچھ عرصے تک میرے اوپر خوف اور انتقام کا جنون طاری رہا۔کبھی کبھی سوتے میں ایسا لگتا جیسے  سیکڑوں، ہزاروں، لاکھوںلوگ  ہاتھوں میں تلواریں اور بلم لئے ،  شور مچاتے میری طرف آرہے ہیں،  میری موت کے نعرے لگارہے ہیںاور میں ان پرٹوٹ پڑتا ہوں۔ تلوار سے ان کے اور ان کے بیوی بچوں کے ٹکڑے کرنے لگتا ہوں۔پھر جب میں مغربی پنجاب کو چھوڑ کر رفیوجی کی حیثیت سے مشرقی پنجاب میں آیا  تو وہاں بھی  مجھے ایسے ہی  ہولناک مناظرنظر آئے۔کتنے ہی گھر وں کو مسمار کردیا گیا تھا۔  بوڑھے بچوں کو خون میں نہلا یا جا رہا تھا۔عورتوں کی لاجیں لوٹی جا رہی تھیں کیوں کہ ان کے ناموں کے ساتھ بیگم اور سلطانہ جیسے ٹائٹل لگے ہوئے تھے۔ یہ سب دھرم کے  نام پر ہو رہا تھا۔ اس وقت نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو  اپرادھی سمجھ رہا تھا ۔ نہ کوئی ماں اپنی اولاد کو نہ کوئی بہن اپنے بھائی کو۔کسی کی زبان سے یہ نہیں نکلتا تھا کہ تو گناہگار ہے، کلنکی ہے، مجرم ہے ۔ تو نے شادی شدہ ہوتے ہوئے کسی عورت سے  بلاتکار کیا ہے۔ تو اپرادھی ہے۔تونے دوسرے کی بہن کی عزت لوٹی ہے ۔ کسی ماں کی بیٹی چھینی ہے۔ کسی بچے کو یتیم بنایا ہے۔
مذہب، دھرم، اللہ ،  بھگوان اور گورو کے نام پر۔ تو دھرم کا بھی دوشی ہے،  تو بھگوان اور خدا کا بھی دوشی ہے ، گنہگار ہے۔ کلنکی ہے۔  تو اس قابل نہیں کہ مجھے ماں کہکر پکار سکے ، مجھے بہن کہکر گلے لگا سکے، مجھے باپ کہکر میرے سینے سے لگ سکے۔  انسانیت، بھائی چارا،  امن  اور  آشتی جیسے اُپدیش  جو میںبچپن سے سنتا آیا تھا ، بے معنی ہوگئے۔  لیکن اسی  زمانے میں مہاتما گاندھی کی ہتیا کی خبر آئی۔ انھیں کے ایک ہم مذہب  نے انھیں ہلاک کیا تھا۔ اس جرم میں کہ انھوں نے  انسانیت ، اور قومی ایکتا کے حق میں باتیں کی تھیں۔ سارا  دیش ان کے سوگ میں ڈوب گیا تھا۔ہر طرف ان کی انسانی خدمات ،  قومی آزادی اور قومی ایکتا کے لئے قربانیوں کو یاد کیا جا رہاتھا،  بھجن گائے جا رہے تھے  ۔  میں نے ان کے اُپدیش پڑھے، کرشن چندر  اور دوسرے اردو اور پنجابی ادیبوںکی فرقہ وارانہ فسادت کے خلاف کہانیاں پڑھیں  اور میرا وشواس پھر سے واپس آگیااور میری سمجھ میں آیا کہ مذہبی جنون مذہبی نہیں مذہب کے نام پر انسانی پاگلپن ہے۔
 مشرقی پنجاب آنے کے بعد میں امرتسر کے قریب ایک گائوں میں کھیتی کرنے لگا۔ بھائی صاحب کو شہر کے  ایک اسپتال میں نوکری مل گئی۔ انھوں نے مجھے بھی وہاں بلا کر ایک اسکول میں داخل کردیا  اور میں  انٹر کرنے  کے بعد کسی طرح جرمنی چلا گیا اور ایک ریستوراں میں کام کرنے لگا۔اکثر اپنے دیش کے بارے میں خبریں پڑھتا ۔
 پرانے دوستوں اور رشتے داروں کو یاد کرتا ۔ اپنے البم کو کھول کر سرجیت کی تصویریں دیکھتا ۔اس کی یاد میں تڑپتا لیکن اس کی کوئی خبر نہیں ملی۔  جرمنی میں کئی لڑکیوں سے دوستی کرکے سرجیت کو بھلانے کی کوششیں کیں ۔لیکن اس کا  خوبصورت گلاب سا چہرہ،  شربتی آنکھیں،  مدھر آواز،  اورپیار بھری باتیں اور اس کی کربناک چیخیں نہیں بھلا سکا۔ کبھی کبھی جب جرمن اخبارات میں پڑھتا تھا کہ ہندوستان میں کسی نیچی ذات کی عورت کے ساتھ بلاتکار کیا گیا، کسی  دوسرے دھرم کی عورت کی عزت لوٹی گئی  ہے یا کسی ٹورسٹ عورت کی آبرو کو لوٹا گیا ہے اور ایسے کیس پولیس کے رجسٹر میں  درج کئے گئے ہیں لیکن کوئی کاروائی نہیںہوئی ہے ، کسی خاندان نے ایسے مجرم کو خاندان سے باہرنہیں کیا ہے، کسی برادری  نے اسے خارج نہیں کیا ہے ۔یا جب جرمن ٹی وی پر دیکھتا کہ پاکستان میں کسی لڑکی کو اس کے والدین اور رشتے داروں  نے اس لئے قتل کر دیا ہے کہ وہ ان کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی اور اپنے عشق میں دیوانی ہو رہی تھی یا  برادری والوں نے کسی عورت کی عزت اس لئے لوٹ لی ہے کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی تھی اورعدالت ان مجرموں کے خلاف کاروائی نہ کرنے کے لئے مجبور ہے،  تو مجھے ۱۹۴۷ء کی وہ ہولناک رات یاد آجاتی تھی،  جب میری سرجیت کو مجھ سے چھین لیا گیا تھا اور ساتھ ہی  میرے ذہن میں پنجاب کے وہ  مناظرگھومنے لگتے تھے،  جب سرجیت جیسی کتنی ہی  نِردوش زلیخائوںکو لوٹا گیا تھا۔  اس وقت بھی میں ان  یادوںمیں ایک بار پھر ڈوب گیا تھا۔اور وہ  بھیانک سین کسی فلم کی طرح میری نظروںکے سامنے گھوم رہے تھے۔
بھابی نے میرے خیالات کا سلسلہ توڑتے ہو ئے کہا:
’’ ارے رجوندر بھیّا  تجھے کیا خبر ہمارے دیش میں کیا ہو رہا ہے۔ تو تو جرمنی میں رہتاہے سمجھتا ہے  یہاںسورگ ہے۔  میں تو کہتی ہوں کلجگ آگیا ہے۔‘‘  پھر وہ اپنی بیٹی کی طرف ایک بار پھر مڑیں :
’’ تجھے تو تیرے ڈیڈی نے لاڈ پیا رسے ڈھیٹ بنا دیا ہے۔ کچھ آگے پیچھے کی سوچتی ہی نہیں۔آجانے دے  اپنےمنوہربھیّا کو  تیری تیزی نکلوادوں گی اس سے اور تیرے کالج کے ساتھیوں کی کھالیں کھنچوا لوں گی۔۔۔ان کی  ہمت کیسے پڑی کہ تجھے چھیڑا۔‘‘
منوہر میرا  بھتیجا تھا۔ جب میں جرمنی گیا تھا تووہ  پندرہ سال کا تھا اور ایک اسکول میں پڑھتا تھا۔ اب دس سال کے بعد آیا ہوں تو کافی سیانا ہو گیا ہے اور بی اے کر چکا ہے۔مگر بے کار ہے۔ نوکری کی تلاش میں بھٹکتا رہتا ہے۔ شادی اس لئے نہیں کی ہے کہ  ماتا پِتا کو زیادہ  جہیز دینے والے سمدھی نہیں ملے اور اگر ملتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ لڑکا کہاں کام کرتا ہے ؟  اس کی کتنی آمدنی ہے ؟  منوہر  مجھ سے کئی بار کہہ چکا ہے کہ میں اسے جرمنی میں بلا لوں۔ لیکن اب جرمنی میں کسی کو  بلانا آسان نہیں ہے۔ ’’ ہاں منوہر کہاں ہے؟  میں نے پوچھا۔
’’ ارے اس کا کیا،  ہوگا کسی ریستوراں میں ،  دوستوں کے ساتھ۔بڑا ہو گیا ہے ۔ بی اے کر چکا ہے، مگرکہیں نوکری نہیں کرتا۔ بس گھومتا رہتا ہے  لڑکوںکے ساتھ ادھر ادھر۔۔۔‘‘ بھائی صاحب نے کہا۔ پھر انھوںنے نوکر کو  زور سے آواز دی:
’’ چھوٹو،  منوہر بابو کہاں ہیں؟ دیکھ  اپنے کمرے میں آیا  یا نہیں؟‘‘
چھوٹو نے کو ئی جواب نہیں دیا۔خاموش ایک طرف سر جھکائے بیٹھا رہا۔
’’ ابے جا کر دیکھتا کیوں نہیں۔‘‘ بھائی صاحب کو واقعی غصّہ آگیا۔ ’’ کھانے کا وقت ہورہا ہے، ابھی تک خبر نہیں لی۔‘‘
چھوٹونے اپنی جگہ سے ہلے بغیر بے بسی سے سر اٹھایا:’’وہ نہیں آئیں گے،  مالک۔  وہ کہیں چلے گئے ہیں۔‘‘’’ کیسے چلا گیا۔ اسے نہیں معلوم کہ اس کی بہن کو چھیڑا گیا ہے  اور اس کے چاچاجی بھی انتظار کر رہے ہیں۔
جا ابھی بلا کر لا۔‘‘
’’ نہیں مالک، انھیں کو ئی نہیں لا سکتا۔ آپ کے ماڈرائیور نے۔۔۔‘‘    چھوٹو نے دبی زبان سے کہا:
’’وہ آپ کا جو  ڈرائیور ہے سمپت ۔۔۔اس نے پولیس میں رپٹ کی ہے۔ یہ سنتے ہی چھوٹے سرکار کہیں دور چلے گئے ہیں۔‘‘
’’ کیا بکتا ہے۔ پاگل ہوا ہے۔ وہ گدھا ، باسٹر۔ میرے ٹکڑوں پر پلتا ہے۔ رپورٹ کیوں کرے گا۔ اس کی اتنی ہمت کیسے ہو سکتی ہے۔‘‘
’’یہ سچ ہے مالک۔۔۔‘‘   چھوٹو نے جھاڑن سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا:
’اس کا کہنا ہے چھوٹے سرکار نے  اس کی بیٹی کے ساتھ۔۔۔وہ اسپتال میں ہے مالک۔۔۔‘‘
سندر بھیّا کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ آواز میں شیر کی گرج پیدا ہو گئی۔ میں نے زندگی میں پہلی بار انھیں کسی کے منہپر طمانچہ مارتے ہوئے دیکھا۔وہ غصّے میں دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ منجیت بھابی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ سریندرکی آنکھیںبھی نم ہو گئیں۔ اس کی آنکھوں کا جل بہہ کر گالوں پر پھیل گیا۔ کمرے میں گھٹن بڑھ گئی۔
اس گھٹنا کو کئی دن ہو گئے ہیں۔ گھر میں اداسی چھائی ہوئی ہے۔ سندر بھیّا زیادہ تر اسپتال میں رہتے ہیں، بہت کم گھر آتے ہیں۔  ان کے ڈرائیور نے نوکری چھوڑ دی ہے ۔ کہتا ہے منوہر نے اس کی بیٹی کو بہلا پھسلا کر اس کے ساتھ بلاتکار کیا ہے ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اسپتال جا کر  اس کو دیکھوں اور حقیقت معلوم کروں۔ لیکن پھر خاندان کی عزت کا خیال آجاتا ہے۔بھابی کی آنکھیں روتے روتے سوجھ گئی ہیں ۔ کپڑے بھی نہیں بدلے بس خاموش ایک کونے میں کوچ پر بیٹھی رہتی ہیں  اور نہ جانے کیا  ُبدبُدایا کرتی ہیں۔ نہ کچھ کھاتی ہیں نہ پیتی ہیں۔ سریندر کا چہرہ بھی سوکھ گیا ہے۔ آنکھوں میں اُداسی جھلکتی رہتی ہے۔کئی دنوںسے کالج بھی نہیں گئی ہے۔  میری واپسی کے دن بھی قریب آرہے ہیں۔ ایک ہفتے بعد مجھے  جرمنی واپس جانا ہوگا  سندر بھیّا، منجیت بھابی اور سریندر کو اسی حالت میں چھوڑ کر۔ عجیب بے بسی کا احساس ہو رہا ہے۔منوہر کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ نہ جانے کس حال میں ہے۔
شام کا دھندھلکا  بڑھنے لگا تھا۔ چھوٹو کھانے کے کمرے میں بتیاں جلا کر اور میز پر کھانا سجا کر ایک طرف اُکڑوں بیٹھ گیا تھا۔ اس میں کسی سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی  اور میں کوشش کر رہا تھا کہ منجیت بھابی اورسریندر کو کچھ کھانے پر آمادہ  کر لوں۔ اچانک سریندر کے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلی اور پھر منجیت بھابی چیخیں۔
دروازے پر منوہر کھڑا تھا۔  اداس ، پریشان  حال اور نروس ۔
منجیت بھابی دروازے کی طرف بھاگیں:
’ ہائے  میرا بیٹا، میرا  کلیجہ‘‘۔  سریندر نے بھی دوڑ کر بھائی کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔
منجیت بھابی نے بیٹے کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا:  ’’ ہائے میرا کلیجہ ،  میرا بیٹا، میرالعل۔  تو نے کچھ کھایا بھی نہیں۔‘‘
اور پھر اس کو چھاتی سے لگا کر بے تحاشہ گالوں کو چومنے لگی۔
مجھے ایسا لگا جیسے دور کہیں کو ئی جوان لڑکی اپنا پیٹ پکڑے ہوئے درد سے تڑپ رہی ہے اور اس کی کربناک آوازیں میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔پھر وہ آوازیں قریب آتی گئیں اورمیری سرجیت کی آوازوں میں بدل گئیں اور سیکڑوں، ہزاروں،  لاکھوں چیخیں کانوں میں گونجنے لگیں۔
Rudolf-Seiffert-Str.58
           10369 Berlin, Germany
            Phone: 0049-30-9725036
           E-mail: naqviarif at yahoo.com
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular