Tuesday, April 30, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldدانا پانی

دانا پانی

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

پروفیسر جمال نصرت

روٹی، کپڑا، مکان اور کام ، یہ چار وہ اہم چیزیں ہیں جو کسی کنبے کی ترقی کے لیے ضروری ہیں اور یہی چار چیزیں کسی ملک کے لیے بھی اہم ہیں ۔ اگر یہ سب ہیں تو عوام خوش ہیں اور ملک ترقی کرے گا۔ دوسری چیزیں بھی اہم ہیں جیسے تعلیم ، صحت، کاروبار، نقل و حمل ، نشوونما، تفریح و تماشا وغیرہ مگر ان کا نمبر ان چار کے بعد ہے ۔ اس کے علاوہ سماج اور دنیا میں ہمیشہ سے ہے ۔ حسد و جلن دوسرے کو نیچا دکھانا ، دوسرے کی ترقی میں رکاوٹیں ڈالنا، دوسرے کی ترقی کو کم کرنا جس سے ان کی اہمیت بڑھ جائے ۔ پہلے راجا اور بادشاہ ہوا کرتے تھے اب مگر وہ تو نہیں ہیں بلکہ بڑے بڑے گھرانے ہوتے ہیں جو ان اصولوں پر چلتے ہیں کہ کھانے پینے کی چیزیں جہاں کہیں بھی سستی ہوں اسے خرید لو اور جہاں کہیں بھی زیادہ دام پر فروخت ہوسکے ان کو بیچ لو۔ کھانے پینے کی اشیا سے سماج اور لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ مثلاً دہرہ دونی چاول اور دارجلنگ کی چائے وہاں نہیں ملتی جہاں یہ پیدا ہوتی ہیں ، مگر وہاں ملتی ہیں جہاں لوگ منہ مانگے دام دے سکتے ہیں ۔ یہ لندن اور نیویارک میں بڑے آرام سے مل جائیں گی ۔ روٹی، کپڑا ، مکان او ر کام میں بھی اہم ترین چیزروٹی ہے جو دانے سے آتی ہے اور دانہ پانی سے ہی پھوٹتا ہے ۔ وہاں دوسری چیز ، مٹی اور سورج بھی ضروری ہیں ۔ آج سائنس نے بہت ترقی کی ہے ۔ سب کچھ بنایا، نوٹ بک ، کیمرہ، البم ، ٹیلی فون ، روپیہ، پرس ، وغیرہ وغیرہ یعنی موبائل فون، اسی طرح خون کے سب اجزا جان لیے مگر وہ خون نہیں بنا سکے جو بیمار آدمی کو چڑھایا جاسکے ۔ اسی طرح ایسی کوئی چیزنہیں بناپائے جو پانی کے بغیر بیج کو انکرت((Germinateکرا سکے اور پودھا بنا سکے ۔
زیادہ تر ملکوں میں غلے کی کمی ہے ۔ وہ اسے خرید کر ، دوسری چیزوں کے بدلے یا پھر مجبوری میں مہنگے داموں میں فراہم کراتے ہیں ۔ اس کے علاوہ غریب ملکوں یا کسی آفت کے آنے پر امیر ملک مدد کے طور پر بھی دیتے ہیں ۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں اناج کی کمی ہے اور فکر کی بات ہے کہ دنیا کے اناج کا ذخیرہ دھیرے دھیرے گھٹ رہا ہے ۔ مثال کے طور پر جاپان ایک ایسا ملک ہے جو سب بنا لیتا ہے مگر اپنے لیے مناسب مقدار میں گیہوں اور آلو نہیں پیدا کرپاتا۔ وہ اس کو اپنی آبادی کے لیے اونچے داموں میں خرید لیتا ہے ۔ مگر افریقہ کے غریب ملک اسے کم سے کم داموں میں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر اسے تحفہ یا مدد کے طور پر ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اناج کی کمی کے مسئلے کو حل کرنا اقوام متحدہ کے کاموں میں بہت اہم ہے ۔
ہم لوگ بھی جب آزاد نہیں تھے تو صرف 50 ملین ٹن اناج ہی پیدا کر پاتے تھے لیکن پھر جب 1947 میں آزاد ہوئے تو اپنی پلاننگ، کسانوں کی محنت ، انجینئروں کی کوششوںسے نہروں اور ٹیوب ویلوں کی مدد سے کھیت کھیت پانی پہنچا کر پیدا وار بڑھائی گئی ۔ اب یہ پیدا وار260 ملین ٹن تک پہنچا نے میں کامیاب ہوچکے ہیں یعنی اس درمیان جہاں ہماری آبادی چار گنا سے کم بڑھی ہے وہاں پیدا وار پانچ گنا سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ خوشی کی بات ہے کہ اب ہم اناج باہر بھی بھیجنے کے لائق ہوچکے ہیں ۔ لیکن یہ سلسلہ اس طرح چلنے والا نہیں ہے ۔ آبادی بہت زیادہ بڑھتی جارہی ہے ، خالی زمینوں کا استعمال بڑی حدتک ہوچکا ہے ۔ ندیوں میں جو پانی ہے اسے ہم زیادہ تر سینچائی اور دوسرے کاموں میں لاچکے ہیں ۔ بہت زیادہ ٹیوب ویل بناکر زیر زمین سطح کو خطرہ والی حدتک اکثر پہنچا چکے ہیں۔
کم غلہ اور اناج ہماری فکر ہے ۔ یہی تمام عالم کی پریشانی کا باعث بھی ہے ۔ روز ازل سے لے کر 1830 تک دنیا کی کل آبادی 100 کروڑ تھی جو بڑھ کر 1930 تک 200کروڑ ہوگئی ۔ لیکن یہی آبادی 2000 میں 600 کروڑ ہوچکی تھی ۔ اب یہ 700 کروڑسے زیادہ ہے اور 2050 تک یہ 10 ارب تک ہوسکتی ہے اور ہم لوگ دنیا کے شاید سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے باشندے ہوں گے ۔ یہ ایک مشکل وقت ہوگا ۔ اس کے خاص اسباب یہ ہوسکتے ہیں :
1۔ آبادی بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے اناج کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے ۔
2۔ اناج کی پیداوار بھی بڑھ رہی ہے لیکن آبادی کی مناسبت سے نہیں بلکہ کم ۔
3۔ کھیتی کا رقبہ گھٹ رہا ہے کیوں کہ شہر بڑھ رہے ہیں اور بڑے بھی ہورہے ہیں ۔ وہاں کی زمینوںکو اسکول ، اسپتال ، سڑک ، مکان وغیرہ کے لیے لیا جارہا ہے ۔
4۔ جو پانی پہلے صرف کھیتی کے لیے لیا جارہا تھا اس کی حصے داری گھر یلوں کاموں ، صنعتوں ،آمدو رفت، سینی ٹینشن ، تعمیری کام ، بجلی بنانے وغیرہ میں روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔
5 ۔کاشت کاربھی آمدنی والی فصلیں اُگانا چاہتا ہے نہ کہ وہ جن سے غلے کی مقدار بڑھے اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ کاشت کاروں کی معلومات اور جان کاری میں اضافہ ہورہا ہے۔
6۔ اناج کو محفوظ رکھنا بھی ایک کٹھن کام ہے ۔
7۔ کولڈ اسٹوریج بھی کم ہیں اور دوسرے اس کا خرچ زیادہ ہے تیسرے اس میں بجلی کا محتاج ہونا پڑتا ہے جو کہ مشکل کام ہے ۔
8۔ ملک کے ساہوکار کم دام پر اناج خرید لیتے ہیں اور اس کو ملک سے باہر اور یہاں بھی اپنی مرضی سے فروخت کرتے ہیں ۔ اس کی کالا بازاری بھی غلے کی کمی کا باعث ہے ۔
9۔ کاشت کار بھی پانی کی موجودگی کے حساب سے فصل نہیں بوتے ۔ جیسے کم پانی والی جگہوںپر ارہر اور زیادہ پانی والی جگہوں پر گنا بونا چاہیے ۔
10۔ پانی کا بجٹ بھی نہیں بنایا جاتا ۔ پانی جمع کرنے اور تالاب کو قائم رکھنے کے لیے مناسب اقدام کی کمی کا ہونا ۔
11۔ مناسب وقت پر مناسب مقدار میں مناسب قیمت پر اور مناسب قسم کا پانی ملنا جس کی وجہ سے اکثر پانی کی بربادی ہوتی ہے ۔
12۔ اکثر مقدمہ بازی کی وجہ سے کھیت خالی رہتے ہیں اور اکثر پانی کی پرچی موقعے پر کھیتی کرنے والے کے نام کی کٹتی ہے تو لوگ بھی دوسرے کوکاشت کے لیے کھیت دینے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں کھیت ہی نہ چلا جائے ۔
13۔ کم پانی کی کھپت والے طریقے مہنگے ہونے کی وجہ سے اکثر کا شتکار ان کا استعمال نہیں کر پاتے جیسے پائپ لائن (Pipe Line) یاڈرپ(Drip) سینچائی۔
خوش قسمتی سے ہمارے پاس کافی پانی ہے اور دنیا میں سینچائی کرنے والے ملکوں میں ہمارا اونچا مقام ہے مگر بندو بست اور انتظام کو اور بھی درست کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہم پانی کی موجودہ مقدار سے زیادہ دانہ حاصل کرسکیں ۔ پانی بچانا ، بارش کے پانی کو سنبھالنا ، تالابوں کو قائم رکھنا اور ان کا بھرنا ، پانی کی بربادی کو روکنا ، پانی کی مقدار کے حساب سے ہی فصلوں کا انتخاب ، کاشتکاروں کو تعلیم ہی نہیں ورک شاپ بھی کرانا ۔ کھیتی کے مقدموں کا جلد فیصلہ ، تالابوں میں بھی کھیت ، مجھلی پالن کو فروغ ، یہ سب کیا جائے تو حالات بہتر ہوں گے ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آبادی کو کنٹرول (Control) میں رکھا جائے ۔
یوں تو دنیا کی کل زمین 2 فیصد ہمارے پاس ہے اور پانی کی مقدار4 فیصد ہے ۔ اس کے علاوہ ملک میں بہت سی ندیاں ہیں اور تین طرف سے پانی ہی پانی ہے اور چوتھی طرف ہمالیہ ہے جو برف کوپگھلا پگھلا کر پورے سال پانی دیتا رہتا ہے ۔ اس طرح پانی کی کمی نہیں ہونی چاہیے مگر ہماری آبادی ہر حساب کو غلط کردیتی ہے ۔
مناسب بندو بست اور درست انتظام ہی اس مشکل کا حل ہے ۔ایک اور راز کی بات یہ ہے کہ اس بڑھی ہوئی آبادی کو اگر کھیتی میں نہ لگارکھاگیا تو لوگ بگڑ کر راہ سے بے راہ بھی ہوسکتے ہیں اور تب ملک سنبھالنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوسکتاہے۔
٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular