Tuesday, April 30, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldحادثہ ہو یا زنابالجبر: مسلمانوں پر رہتی ہے نظر

حادثہ ہو یا زنابالجبر: مسلمانوں پر رہتی ہے نظر

ڈاکٹر زین شمسی
پھر بچے …… معصوم بچے انتظامی لاپروائی کے بھینٹ چڑھ گئے ۔ ابھی کل ہی جب بے قصور قید کئے گئے ڈاکٹر کفیل کی ضمانت ہوئی ، تب 8 ماہ قبل گورکھپور اسپتال میں حکومتی لاپروائی کے سبب متعدد بچوں کی موت کی یاد آئی ، ابھی یہ یاد دھومل بھی نہیں ہوئی کہ کشی نگر میں ایک اسکولی وین ٹرین سے ایسی ٹکرائی کہ وین کے پرخچے اڑ گئے۔ غلطی کس کی تھی اور یہ حادثہ کیوں ہوا ، اس پر غور و فکر کی فرصت کسی کو نہیں ، یوگی جی نے کہہ دیا کہ وین کا ڈرائیور کان میں ایئر فون لگائے ہوئے تھا، اس لیے اسے ٹرین کی آواز سنائی نہیں دی اس لیے قصور بغیر انسانی پھاٹک کے کراسنگ کا نہیں بلکہ اس ڈرائیور کا ہے جس نے کان میں ایئر فون لگایا ہوا تھا۔ ریلوے کی اس ناکامی اور نااہلی پر بات نہیں ہونی چاہیے کہ آخر اس نے بغیر انسانی پھاٹک کی کراسنگ کو اب تک محفوظ کیوں نہیں بنایا۔ بلٹ ٹرین کا منصوبہ رکھنے والے دیش میں اگر ریلوے پھاٹک تک نہیں بن پایا ہے تو اور اس پر کیا بات کہی جا سکتی ہے۔ گائے کے لیے ایمبولنس کا انتظام ہو سکتا ہے ، لیکن انسانوں کی جان کا تحفظ سرکار کے بس میں نہیں۔
ایک بدتمیز تو یہ بھی لکھتا ہوا پایا گیا کہ ڈرائیور مسلمان تھا ، اس نے دانستہ طور پر یہ حادثہ انجام دیا، یہ سمجھے بغیر کہ 13بچوں میں زیادہ تر بچے مسلم گھروں کے ہی ہیں ، اس نے اپنے نفرت کا اظہار کر دیا۔ اسے کسی نے یہ جواب تو اب تک نہیں دیا کہ جموں میں یاتریوں کو بچانے والا ڈرائیور بھی سلیم تھا کہ اگر وہ بس کو تیزی کے ساتھ نہ بھگاتا تو نہ جانے کتنے یاتریوں کا قتل ہو جاتا۔ مسلمان ڈرائیور کا ایک معاملہ تو آپ سب لوگ جانتے ہی ہیں کہ پرائم منسٹر کے دلدادہ سنگھ کے وچارک نے یہ محاذ کھول ہی دیا ہے کہ اگر گاڑی کا ڈرائیور مسلمان ہو تو اس کی بکنگ کینسل کر دو۔
موت پر سیاست کی ایسی شروعات ہوئی ہے کہ جس کے زد میں بچے کی موت کا درد بھی پستا جا رہا ہے۔
ادھر آصفہ معاملہ پر گھر چکی سرکار کو ایک ایسے واقعہ کی تلاش تھی کہ جس کے سہارے وہ مندر میں ریپ کے معاملہ کو خوبصورت موڑ دے سکے سو وہ اسے غازی پور صاحب آباد میں نظر آگیا۔ جہاں یہ مشتہر کیا جا رہا ہے کہ مدرسوں میں بھی ریپ ہوتے ہیں۔ ہندو تنظیموں نے جس طرح جلسے جلوس نکال کر اس بات پر زور دیا کہ نابالغ زانی کے ساتھ ساتھ مدرسے کے مولوی کو بھی گرفتار کیا جائے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں ریپسٹ نہیں چاہیے مولوی چاہیے ۔تاکہ آصفہ معاملہ کو بالکل ختم کیا جا سکے۔
پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ معاملہ ریپ کا ہے ہی نہیں ، یہ معاملہ دوستی کا ہے۔ اس دوستی میں لڑکی ہندو ہے اور لڑکا مسلمان، سی سی ٹی وی نے جو دکھایا ہے اس میں لڑکی آرام سے لڑکے کے ساتھ جا رہی ہے ، ظاہر ہے اغوا کرنے کا معاملہ یہیں سے ختم ہو جاتا ہے کہ کوئی لڑکی اغوا کار کے ساتھ آرام سے چلے ، دوسرے اسی لڑکی کوآٹو پر ایک دوسرے ہندو لڑکے کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا گیا جو اس مسلمان لڑکے کا دوست ہے تو ظاہر ہے کہ یہ معاملہ اس ریپ کی طرح نہیں ہے جو اناؤ اور کٹھوعہ میں ہوا ۔ ہاں لڑکی کی مدرسے سے بر آمدگی کچھ شکوک ضرور پیدا کرتی ہے ،جس میں ایک شک یہ ہو سکتا ہے کہ لڑکا لڑکی سے شادی کرنا چاہ رہا ہو اور اس کا مذہب تبدیل کرانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ جہاں تک مولوی کاسوال ہے تو پولیس نے اسے گنہگار تسلیم نہیں کیا، لیکن اس کی جم کر پٹائی ضرور کی ہے ، تو اس معاملہ کو کٹھوعہ اور اناؤ سے کسی بھی طرح نہیں جوڑا سکتا ، چونکہ ایک کٹھوعہ ٹائپ کے ریپ کی تلاش ہندو تنظیموں کو ہے ، اس لیے غازی پور والے معاملہ کو طول دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular